عن انس بن مالك رضي الله عنه قال: کان اصحاب رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم على عهده ينتظرون العشاء، حتى تخفق رؤوسهم، ثم يصلون ولا يتوضاون. اخرجه ابو داود، وصححه الدارقطني، واصله في مسلم.عن أنس بن مالك رضي الله عنه قال: کان أصحاب رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم على عهده ينتظرون العشاء، حتى تخفق رؤوسهم، ثم يصلون ولا يتوضأون. أخرجه أبو داود، وصححه الدارقطني، وأصله في مسلم.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عہدرسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نماز عشاء کا اتنا انتظار کرتے کہ غلبہ نیند کی وجہ سے ان کے سر جھک جاتے۔ مگر وہ ازسر نو وضو کئے بغیر نماز پڑھ لیتے۔ ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔ دارقطنی نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور اس کی اصل مسلم میں ہے۔
हज़रत अनस रज़ि अल्लाहु अन्ह कहते हैं कि आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के समय में सहाबा कराम रज़ी अल्लाह अन्हुम इशा की नमाज़ का इतना इंतिज़ार करते कि नींद की वजह से उन के सर झुक जाते। मगर वह दुबारा वुज़ू किये बिना नमाज़ पढ़ लेते। अबू दाऊद ने रिवायत किया है। दारक़ुतनी ने इसे सहीह ठहराया है और इस की असल मुस्लिम में है।
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الطهارة، باب في الوضوء من النوم، حديث:200، والدارقطني:1 / 131، ومسلم، الصلاة، باب الدليل علي أن نوم الجالس لا ينقض الوضوء، حديث:376.»
Narrated Anas (rad): The Companions of Allah’s Messenger (ﷺ) in his lifetime used to wait for the ‘Isha (night) prayer, so much so that their heads were lowered down (by dozing). They would then pray without performing ablution. [Reported by Abu Da’ud and Ad-Daraqutni graded it Sahih (sound). Its origin is in Muslim]. Its origin is in Muslim.
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 62
لغوی تشریح: «بَابُ نَوَاقِضِ الْوُضُوءِ» «نَوَاقِضِ» ناقص کی جمع ہے۔ اس سے مراد وہ چیزیں ہیں جن سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ «تَخْفِقَ» نیند کے غلبے کی وجہ سے جھک جاتے۔ «رُؤُوسُهُمْ» «رؤس»، «راس» کی جمع ہے جس کے معنی سر کے ہیں۔
فوائد و مسائل: ➊ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جب تک انسان گہری نیند نہ سوئے اس وقت تک اس کا وضو نہیں ٹوٹتا۔ ➋ اس سے پہلے سیدنا صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کی روایت گزشتہ باب میں گزر چکی ہے جو مطلق نیند سے وضو کے ٹوٹنے پر دلالت کرتی ہے۔ ➌ اس روایت کی روشنی میں اس روایت کو گہری نیند پر محمول کیا جائے گا یا یہ کہا جائے گا کہ اس حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نیند سے مراد مخصوص نیند (اونگھ) لی ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس نیند سے واقف تھے جس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور اس نیند سے بھی باخبر تھے جس سے وضو نہیں ٹوٹتا، اس لیے وضاحت اور بیان کی ضرورت نہیں سمجھی۔ بہرصورت یہ بات معلوم ہوئی کہ ٹیک یا تکیہ لگا کر سو جانے کی وجہ سے جبکہ انسان کا شعور اور احساس زائل ہو جائے تو ایسی نیند ناقض وضو ہو گی۔ اور عموماً شعور زائل ہو جاتا ہے بصورت دیگر اونگھ سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ ➍ ٹیک لگانے یا تکیے کا سہارا لینے کی حالت میں جسمانی جوڑ ڈھیلے ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں پیٹ سے ہوا کے خروج کا غالب امکان ہوتا ہے، اسی بنیاد پر احتیاط کے پیش نظر وضو نئے سرے سے کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ بالصواب»
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 62
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 78
´نیند سے وضو کا بیان۔` انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی الله عنہم (بیٹھے بیٹھے) سو جاتے، پھر اٹھ کر نماز پڑھتے اور وضو نہیں کرتے تھے۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 78]
اردو حاشہ: 1؎: ان تینوں میں راجح پہلا مذہب ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 78