وعن عثمان بن عفان رضي الله عنه ان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: «لا ينكح المحرم ولا ينكح ولا يخطب» . رواه مسلم.وعن عثمان بن عفان رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: «لا ينكح المحرم ولا ينكح ولا يخطب» . رواه مسلم.
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”احرام والا نکاح نہ کرے اور نہ نکاح کرائے اور نہ منگنی کرے۔“(مسلم)
हज़रत उस्मान बिन अफ़्फ़ान रज़िअल्लाहुअन्ह से रिवायत है कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “एहराम वाला निकाह न करे और न निकाह कराए और न सगाई करे ।” (मुस्लिम)
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، النكاح، باب تحريم نكاح المحرم، حديث:1409.»
'Uthman bin ’Affan (RAA) narrated that the Messenger of Allah (ﷺ) said:
“A Muhrim (one in the state of Ihram) must not contract marriage, nor help others contract marriage, nor get engaged to marry." Related by Muslim.
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 598
598 لغوی تشریح: «لَا يَنْكِحُ الْمُحْرِمُ» یعنی خود نکاح نہ کرے۔ «وَلَا يُنْكِحُ» یہ «اِنكاح» سے ماخوذ ہے۔ نہ کسی دوسرے کا نکاح کرے۔ «وَلَاَ يَخْطُبُ» یہ «خِطْبَةَ»(”خا“ مکسور) سے مشتق ہے، یعنی نہ منگنی کرے۔ نکاح کے لیے کسی عورت کا مطالبہ نہ کرے۔
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ احرام کی حالت میں خود نکاح کرنا، کسی کا نکاح کرنا، کسی کو اپنے لیے یا کسی اور کے لیے شادی کا پیغام دینا ناجائز ہے۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے جو یہ مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے حالت احرام میں نکاح کیا تھا تو یہ محض وہم ہے۔ اور اس وہم کی بنیاد غالباً یہ ہے کہ یہ کام احرام سے فارغ ہوتے ہی ہو گیا تھا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ویسے بھی اس وقت چھوٹے بچے تھے، اس لیے انہوں سمجھا کہ یہ نکاح حالت احرام میں ہو گیا تھا، نیز حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا خود بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے مقام سرف میں نکاح کیا تھا اور ہم دونوں حلال تھے دیکھیے: [صحيح مسلم، النكاح، حديث: 1411] حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے زادالمعاد میں اس پر سیر حاصل بحث کی ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 598
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2845
´حالت احرام میں نکاح کرنے اور کرانے کی ممانعت کا بیان۔` عثمان بن عفان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”محرم نہ اپنا نکاح کرے، نہ شادی کا پیغام بھیجے اور نہ ہی کسی دوسرے کا نکاح کرائے۔“[سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2845]
اردو حاشہ: یہ روایت صحیح مسلم میں بھی ہے۔ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 1409) لہٰذا قطعاً صحیح ہے، نیز صریح قولی روایت ہے جو اپنے مفہوم میں بالکل واضح ہے۔ اس کی کوئی تاویل بھی نہیں کی جا سکتی، لہٰذا جمہور اہل حدیث وفقہاء نے اسی کو اختیار فرمایا ہے، نیز ہم رسول اللہﷺ کے فرمان پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کو ظاہر کے مطابق صحیح بھی مان لیا جائے، تب بھی وہ فعلی روایت ہے اور فعل میں کئی احتمالات ہو سکتے ہیں۔ فعل نبیﷺ کا خاصہ بھی ہو سکتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ غلط فہمی کا امکان بھی فعل میں زیادہ ہے بجائے قولی روایت کے۔ نیز ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کی تاویل بھی ہو سکتی ہے جیسا کہ حدیث: 2840 کے فائدے میں وضاحت ہے۔ احناف نے اس مقام میں جمہور اہل علم کے خلاف حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت سے استدلال کرتے ہوئے محرم کے لیے نکاح کو جائز قرار دیا ہے اور یہ تاویل کی ہے کہ نہی والی حدیث میں نکاح سے مراد جماع ہے مگر بعد والے الفاظ کے معنیٰ کیا ہوں گے: ”نہ نکاح کا پیغام بھیجے، نہ کسی دوسرے کا نکاح کرے۔“ کیا یہاں نکاح کے معنیٰ جماع ہو سکتے ہیں اور کیسے؟ بینوا توجروا، تاویل تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کی چاہیے تاکہ سب احادیث پر عمل ہو سکے۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں، حدیث: 2840)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2845
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2847
´حالت احرام میں نکاح کرنے اور کرانے کی ممانعت کا بیان۔` نبیہ بن وہب کہتے ہیں کہ عمر بن عبیداللہ بن معمر نے ابان بن عثمان کے پاس کسی کو یہ سوال کرنے کے لیے بھیجا کہ کیا محرم نکاح کر سکتا ہے؟ تو ابان نے کہا کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”محرم نہ نکاح کرے، اور نہ نکاح کا پیغام بھیجے۔“[سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2847]
اردو حاشہ: معلوم ہوا جس طرح احرام کی حالت میں نکاح حرام ہے اسی طرح نکاح کا پیغام یا تجویز یا منگنی کرنا بھی حرام ہے کیونکہ یہ نکاح کے مقدمات ہیں۔ بعض حضرات نے نکاح کے پیغام بھیجنے یا منگنی کرنے کی نہی کو تنزیہ پر محمول کیا ہے۔ (یعنی جائز تو ہے مگر مناسب نہیں) لیکن یہ تاویل بلا دلیل بلکہ بلا وجہ ہے۔ جمہور اہل علم کے نزدیک نکاح کا پیغام یا منگنی بھی نکاح ہی کی طرح حرام ہیں اور یہی صحیح ہے۔ حدیث نبوی پر کھلے دل اور خوشی سے عمل کرنا چاہیے۔ بلا وجہ تاویل مومن کی شان کے خلاف ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2847
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3278
´محرم کے نکاح کی ممانعت کا بیان۔` عثمان بن عفان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”محرم نہ اپنا نکاح کرے، نہ کسی کا کرائے، اور نہ ہی کہیں نکاح کا پیغام دے۔“[سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3278]
اردو حاشہ: سابقہ باب میں فعلی روایت اس کے خلاف ہے مگر تعارض کے وقت قول ہی کو ترجیح دی جاتی ہے کیونکہ فعل میں کئی احتمالات ممکن ہیں۔ ہوسکتا ہے وہ آپ کا خاصہ ہو، نیز اس فعلی روایت کے مخالف فعلی روایت بھی موجود ہے۔ جو کہ خود صاحب واقعہ حضرت میمونہؓ سے ہے کہ آپ نے مجھ سے حالت حل میں نکاح کیا تھا، لہٰذا ہر لحاظ سے قولی روایت کو ترجیح دی جائے گی۔ (یا بقول شیخ البانی رحمہ اللہ ان روایات کو شاذ قراردیا جائے جن میں حالت احرام میں نکاح کرنے کا بیان ہے۔) مگر تعجب ہے احناف پر کہ انہوں نے یہ اصول چھوڑ کر اس مختلف فیہ فعلی روایت کو ترجیح دی ہے جبکہ اس کی تاویل بھی ممکن ہے، یعنی محرم کے معنیٰ ہیں ”حرم میں“ یا ”حرمت والے مہینے میں“ وغیرہ، تاکہ تعارض نہ رہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے روایت 2840، 2845)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3278
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1966
´حالت احرام میں نکاح کا حکم۔` عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”محرم نہ تو اپنا نکاح کرے، اور نہ دوسرے کا نکاح کرائے، اور نہ ہی شادی کا پیغام دے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1966]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) احرام کی حالت میں نکاح کرنا جائز نہیں۔
(2) احرام والا آدمی خود شادی کرسکتا ہے، نہ کسی کے نکاح میں وکیل بن سکتا ہے۔ اپنی کسی بیٹی بہن وغیرہ کا سرپرست بن کر اس کا نکاح بھی نہیں کرسکتا- (3) احرام کی حالت میں کسی سے نکاح کی بات چیت بھی نہیں چلانی چاہیے۔ اگر کوئی غلطی کرے اور پیغام بھیج دے تو اسے جواب نہ دیا جائے۔
(4) احرام حج کا ہو یاعمرہ کا ایک ہی حکم ہے- (5) احرام والی عورت کا نکاح بھی نہ کیا جائے، اور نہ اس کے لیے پیغام بھیجا جائے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1966
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:33
33- سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے ابان اپنے والد کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”احرام والا شخص نکاح نہیں کرسکتا اور نکاح کا پیغام بھی نہیں بھیج سکتا۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:33]
فائدہ: اس حدیث میں حالت احرام میں منگنی اور نکاح کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ یہ حکم مطلقاً ہے کہ کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے، کیونکہ حالت احرام ایک مخصوص عبادت کے ساتھ خاص ہے اور اس حالت میں بیوی بھی حرام ہو جاتی ہے، یعنی اس سے جماع کرنا حرام ہو جاتا ہے۔ جب صورت حال یہاں تک ہے تو اس حالت میں نئی شادی کرنا کیونکر درست ہوسکتا ہے، اور ان امور سے انسان دیگر کاموں میں مشغول ہو جا تا ہے۔ جس مقصد کے لیے سفر کیا تھا، اس میں کمی واقع ہو جاتی ہے، اس لیے حالت احرام میں شادی یا منگنی کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ تنبيه ...... بعض احادیث میں آتا ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: «أن النبى تزوج ميمونة وهو محرم»”بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حالت احرام میں تھے“۔ (صحیح البخاری: 4258) اس حدیث کے متعلق عرض ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو وہم لاحق ہوا ہے۔ انھوں نے حالت احرام میں نکاح کو نقل کر دیا ہے، حالانکہ صاحب واقعہ اپنے واقعہ کو دوسروں سے زیادہ جانتا ہوتا ہے۔ ام المومنین سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا خود بیان فرماتی ہیں کہ «تزوجني رسول الله ونحن حلالان بسرف» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے مقام سرف میں نکاح کیا تھا اور ہم دونوں حلال تھے۔ (صحیـح مـسـلـم: 1411) یہ بھی یادر ہے کہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح سات ہجری میں عمرۃ القناۃ کے موقع پر ہوا تھا۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 33
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3450
نبیہ بن وھب سے روایت ہے کہ عمر بن عبیداللہ بن معمر نے اپنے بیٹے طلحہ کی شادی شیبہ بن جبیر کی بیٹی سے حج کے دنوں میں کرنے کا ارادہ کیا، اور ابان بن عثمان اس وقت امیر حج تھے، اس لیے ابان کی طرف پیغام بھیجا، میں نے طلحہ بن عمر کی شادی کرنے کا ارادہ کیا ہے، تو میں چاہتا ہوں، آپ بھی اس میں حاضر ہوں، تو ابان نے اسے جواب دیا، میرے خیال میں تم عراقی، نادان اور کم فہم ہو، میں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ کہتے سنا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:3450]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت ابان بن عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عمر بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عراقی کا نام دیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے منکرین سنت یا سنت سے ناواقف لوگوں کی کثرت عراق میں تھی، اس علاقہ کے لوگ سنت سے جاہل تھے، جس طرح جنگلی اور بدوی لوگ سنت سے ناواقف ہوتے ہیں، اس لیے عراق کی سر زمین تمام بدعتیوں کے لیے زرخیز رہی ہے، اور اس سرزمین سے مختلف قسم کے فتنہ پرور لوگوں نے سر اٹھایا ہے، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ، امام لیث رحمۃ اللہ علیہ، امام اسحاق رحمۃ اللہ علیہ، امام اوزاعی وغیرہم رحمہم اللہ کا قول اس حدیث کے مطابق ہے، اگر امام بخاری اس حدیث کو نہیں لائے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ حدیث ان کے نزدیک ضعیف ہے۔