● صحيح البخاري | 2865 | عبد الله بن عمر | إذا أدخل رجله في الغرز واستوت به ناقته قائمة أهل من عند مسجد ذي الحليفة |
● صحيح البخاري | 1552 | عبد الله بن عمر | أهل النبي حين استوت به راحلته قائمة |
● صحيح البخاري | 1541 | عبد الله بن عمر | ما أهل رسول الله إلا من عند المسجد يعني مسجد ذي الحليفة |
● صحيح البخاري | 1514 | عبد الله بن عمر | يركب راحلته بذي الحليفة ثم يهل حتى تستوي به قائمة |
● صحيح مسلم | 2816 | عبد الله بن عمر | ما أهل رسول الله إلا من عند المسجد |
● صحيح مسلم | 2820 | عبد الله بن عمر | إذا وضع رجله في الغرز وانبعثت به راحلته قائمة أهل من ذي الحليفة |
● صحيح مسلم | 2822 | عبد الله بن عمر | ركب راحلته بذي الحليفة ثم يهل حين تستوي به قائمة |
● صحيح مسلم | 2821 | عبد الله بن عمر | أهل حين استوت به ناقته قائمة |
● صحيح مسلم | 2817 | عبد الله بن عمر | البيداء التي تكذبون فيها على رسول الله ما أهل رسول الله إلا من عند الشجرة حين قام به بعيره |
● جامع الترمذي | 818 | عبد الله بن عمر | ما أهل رسول الله إلا من عند المسجد |
● سنن أبي داود | 1771 | عبد الله بن عمر | أهل رسول الله إلا من عند المسجد يعني مسجد ذي الحليفة |
● سنن النسائى الصغرى | 2748 | عبد الله بن عمر | يركع بذي الحليفة ركعتين ثم إذا استوت به الناقة قائمة |
● سنن النسائى الصغرى | 2759 | عبد الله بن عمر | يركب راحلته بذي الحليفة ثم يهل حين تستوي به قائمة |
● سنن النسائى الصغرى | 2760 | عبد الله بن عمر | أهل حين استوت به راحلته |
● سنن النسائى الصغرى | 2761 | عبد الله بن عمر | يهل إذا استوت به ناقته وانبعثت |
● سنن النسائى الصغرى | 2758 | عبد الله بن عمر | ما أهل رسول الله إلا من مسجد ذي الحليفة |
● سنن ابن ماجه | 2916 | عبد الله بن عمر | إذا أدخل رجله في الغرز واستوت به راحلته أهل من عند مسجد ذي الحليفة |
● موطا امام مالك رواية ابن القاسم | 319 | عبد الله بن عمر | عند المسجد، يعني مسجد ذي الحليفة |
● بلوغ المرام | 593 | عبد الله بن عمر | ما اهل رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم إلا من عند المسجد |
● مسندالحميدي | 674 | عبد الله بن عمر | - - ما أهل رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا من عند المسجد مسجد ذي الحليفة |
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 593
593 لغوی تشریح:
«بَابُ الْاِحْرَامِ احرام» حج یا عمرے میں داخل ہونے کا نام ہے۔ اسے احرام، اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں داخل ہو جانے والے پر بہت سی چیزیں حرام ہو جاتی ہیں جو اس سے پہلے حلال تھیں۔
«إلَّا مِنْ عِنْدِ الْمَسَجِدِ» مگر صرف مسجد کے پاس سے۔ مسجد سے مسجد ذوالحلیفہ مراد ہے۔ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی آپ کو لے کر سیدھی کھڑی ہوئی تھی اس وقت آپ نے تلبیہ کہا۔ یہ بات حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ان حضرات کی غلط فہمی کا ازالہ کرنے کے لیے کہی ہے جو کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیداء کے مقام سے احرام باندھا تھا۔ احادیث میں منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت لبیک پکارا تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعات پڑھ لی تھیں، یعنی آپ مسجد کے اندر ہی تھے کہ آپ نے لبیک کہا۔ اور یہ بھی منقول ہے کہ جب ”بیداء“ کی چوٹی پر چڑھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لبیک کہا۔ یہ احادیث بظاہر آپس میں متعارض ہیں مگر ان میں یوں تطبیق دی گئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام تو مسجد کے اندر ہی باندھا اور جنہوں نے وہاں آپ کے احرام کا مشاہدہ کیا انہوں نے اسی کا ذکر کیا، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد سے باہر تشریف لائے اور اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر بآواز بلند لبیک کہا تو باہر دیکھنے والوں نے سمجھا کہ آپ نے احرام ابھی ابھی باندھا ہے، پھر جب بیداء پر پہنچے اور لبیک کہا تو جن حضرات نے وہاں لبیک کہتے سنا تو انہوں نے سمجھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں سے احرام باندھا ہے۔ گویا ہر فریق نے اپنے اپنے مشاہدے کے مطابق خبر دی، اس لیے روایات میں کوئی تناقض نہیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 593
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 319
´مدینے والوں کو مقام ذوالحلیفہ سے تلبیہ کہنا چاہئے`
«. . . عن سالم بن عبد الله انه سمع اباه يقول: بيداؤكم هذه التى تكذبون على رسول الله صلى الله عليه وسلم فيها، ما اهل رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا من عند المسجد، يعني مسجد ذي الحليفة. . .»
”. . . سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے (اے لوگو!) یہ تمہارا بیداء (ایک خاص میدانی مقام) جسے تم غلطی سے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کرتے ہو (حالانکہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ذوالحلیفہ کی مسجد کے پاس سے ہی لبیک کہی تھی . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 319]
تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 1541، ومسلم 1186، من حديث مالك به]
تفقه:
① جو شخص حدیث کی مخالفت کرے تو مصلحت کے ساتھ اس کا سختی سے رد کرنا جائز ہے۔
② رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مقابلے میں ہر قول و فعل مردود ہے۔
③ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ ذوالحلیفہ کی مسجد میں نماز پڑھتے تھے پھر وہاں سے باہر نکل کر سوار ہو جاتے۔ پھر جب آپ کی سواری (مکے کی طرف) سیدھی ہو جاتی تو لبیک کہتے۔ [الموطا 333/1 ح749 وسنده صحيح]
نیز دیکھئے [صحيح بخاري 1514 اور صحيح مسلم 11187، ترقيم دارالسلام 2820-2822]
④ تلبیہ (لبیک الخ) اونچی آواز سے کہنا چاہئے۔ [ديكهئے سنن ابي داؤد: 1814، والموطا 1 / 334 ح 751 و سنده صحيح]
یہ حکم مردوں کے لئے ہے کیونکہ امام مالک نے اہلِ علم سے نقل کیا ہے کہ عورتیں اونچی آوزا سے لیبک نہیں کہیں گی۔ [الموطأ 1/334 ح752]
⑤ حق بات بیان کردینی چاہئے چاہے لوگ خوش ہوں یا ناراض ہوں۔ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ ظالم حکمران کے سامنے کلمۂ حق بیان کرنا افضل جہاد ہے۔ دیکھئے: [مسند أحمد 5/251 ح22158 وسنده حسن، 5/256 ح22207 وسنده حسن، وسنن ابن ماجه 4012]
⑥ صحابہ میں سے ہر ایک نے جو دیکھا سنا تو اسے اپنے علم کے مطابق روایت کردیا، یاد رہے کہ روایات کی تفاصیل میں تو اختلاف ہوسکتا ہے لیکن یہ اختلاف تناقض نہیں ہے بلکہ سب روایات کو اکٹھا کرکے ان کا مفہوم سمجھنا چاہئے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 189
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1771
´احرام کے وقت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ یہی وہ بیداء کا مقام ہے جس کے بارے میں تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غلط بیان کرتے ہو کہ آپ نے تو مسجد یعنی ذی الحلیفہ کی مسجد کے پاس ہی سے تلبیہ کہا تھا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1771]
1771. اردو حاشیہ:
➊ حضرت عبداللہ بن عمر کامقصد اس بات کی نفی کرنا ہے جوبعض نے بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے تلبیہ بیداء کےمقام پر پکارا تھا بلکہ آپ نے اس کا آغاز مسجد ذوالحلیفہ ہی سے کر دیا تھا۔
➋ رسول اللہ ﷺ کے دور میں ذوالحلیفہ کےمقام پر کوئی باقاعدہ مسجد نہ تھی۔ احادیث میں لغوی معنی مراد ہیں۔یعنی جس جگہ آپ نے نماز پڑھی یہاں اس وقت ایک درخت بھی تھا۔ باقاعدہ تعمیر بعد کےکسی دور میں ہوئی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1771
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2748
´تلبیہ کس طرح پکارا جائے؟`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلبیہ پکارتے سنا، آپ کہہ رہے تھے: «لبيك اللہم لبيك لبيك لا شريك لك لبيك إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك» ”حاضر ہوں تیری خدمت میں اے رب! حاضر ہوں، حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک و ساجھی دار نہیں، حاضر ہوں میں، تمام تعریفیں تجھی کو سزاوار ہیں اور تمام نعمتیں تیری ہی عطا کردہ ہیں، تیری ہی سلطنت ہے، تیرا کوئی ساجھی و شریک نہیں“ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے تھی کہ رسول اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2748]
اردو حاشہ:
(1) احرام میں دل کی نیت اصل ہے لیکن اس کے ساتھ زبان سے لبیک کی ادائیگی کا اہتمام بھی ہونا چاہیے۔ صرف دو ان سلی سادہ چادریں پہننے سے احرام شروع نہیں ہوتا جب تک دل کی نیت اور لبیک کی ادائیگی نہ ہو۔
(2) لبیک عام طور پر کسی کے بلانے کے جواب میں کہا جاتا ہے۔ غالباً یہ لبیک اس اعلان کے جواب میں ہے جو ابراہیم علیہ السلام نے حج کی فرضیت کے بارے میں بیت اللہ کی تکمیل کے بعد کیا تھا کیونکہ اس اعلان کا تعلق ہر انسان سے اس وقت ہوتا ہے جب وہ حج کرنے جاتا ہے۔ (یاد رہے کہ یہاں حج سے مراد حج اور عمرہ دونوں ہیں کیونکہ عمرے کو حج اصغر بھی کہا جاتا ہے۔)
(3) لبیک مختصر ہے ایک لمبے جملے سے، جس کے معنیٰ ہیں: اے اللہ! میں تیرے حضور بار بار اپنے آپ کو پیش کرتا ہوں۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیشی نماز وغیرہ میں بھی ہے لیکن حج کی پیشی ایک خصوصی رنگ رکھتی ہے، لہٰذا لبیک حج ہی کے ساتھ خاص ہے۔
(4) لبیک پکارنے کو ”اِھلال“ کہا جاتا ہے کیونکہ ”اِھلال“ کے معنیٰ ہیں، آواز بلند کرنا۔ چونکہ لبیک بلند آواز سے پکاری جاتی ہے لہٰذا اسے ”اِھلال“ کہتے ہیں، پھر چونکہ لبیک سے احرام شروع ہوتا ہے، اس لیے ”اھلال“ احرام کے معنیٰ میں بھی آتا ہے۔
(5) ”جب اونٹنی آپ کو لے کر کھڑی ہوتی“ احرام کا طریقہ یہ ہے کہ غسل کر کے ان سلی اور سادہ دو چادریں تہ بند اور قمیص کی جگہ لپیٹ لی جائیں، پھر فوراً لبیک شروع کر دیا جائے اور پھر وقتاً فوقتاً بلند آواز سے لبیک پکارتے رہیں۔ عمرے والا حرم تک اور حج والا 10 تاریخ کو رمی کی آخری کنکری کے ساتھ تلبیہ بند کرے گا۔ نبیﷺ نے نماز کے فوراً بعد ہی لبیک کہہ دیا تھا مگر وہ چند قریبی افراد نے سنا، پھر جب آپ سواری پر سوار ہوئے تو پھر لبیک پکارا جو پہلے سے زیادہ لوگوں نے سنا مگر سب نے نہیں، پھر آپ بیداء کے ٹیلے پر چڑھے تو پھر لبیک پکارا جو تقریباً سب نے سنا۔ جس نے جہاں سنا، بیان کر دیا، کوئی اختلاف نہیں۔
(6) تلبیہ آپ نے سب سے پہلے کون سی نماز کے بعد پکارا؟ ایک رائے کے مطابق نماز فجر کے بعد۔ موقف ہذا کی دلیل میں صحیح بخاری کی حدیث پیش کی جاتی ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاری، حدیث: 1551) لیکن اس حدیث میں اس کی کوئی صراحت نہیں۔ صحیح مسلم (حدیث: 1243) کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نماز ظہر تھی اور یہی درست ہے کیونکہ نبیﷺ عصر کے وقت ذوالحلیفہ پہنچے تھے، اور آپ نے عصر کی نماز قصر، یعنی دو رکعت ادا فرمائی تھی، پھر رات آپ نے ذوالحلیفہ ہی میں گزاری اور دوسرے روز نماز ظہر کے فوراً بعد تلبیے کا آغاز فرمایا، پھر جب آپ اونٹنی پر بیٹھ گئے تو تلبیہ پکارا اور اسی طرح بیداء (ٹیلے) پر تلبیہ پکارا۔
(7) بعض روایات میں ہے، نبیﷺ نے ذوالحلیفہ میں نماز پڑھی (صحیح البخاري، حدیث: 1532) یہ نماز احرام کی دو رکعتیں تھیں یا عصر کے دو فرض تھے؟ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ظاہری الفاظ سے دونوں باتیں محتمل ہیں، لیکن دوسری روایات میں صراحت ہے کہ آپ نے ذوالحلیفہ میں جو دو رکعتیں ادا فرمائی تھیں، وہ عصر کی نماز دوگانہ تھی۔ دیکھیے: (فتح الباري: 3/ 493، مطبوعة دارالسلام، زیر بحث حدیث: 1532) اس لیے اسے احرام باندھنے کے بعد دو رکعت پڑھنے کے حکم یا استحباب کے لیے نص قرار نہیں دیا جا سکتا، البتہ بعض دوسری روایات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نبیﷺ آتے جاتے ذوالحلیفہ میں دو رکعت پڑھا کرتے تھے۔ اس سے مطلقاً ذوالحلیفہ میں بطور تبرک کے دو رکعت پڑھنے کا جواز یا استحباب تو معلوم ہوتا ہے لیکن احرام کے وقت یا احرام باندھنے کے بعد دو رکعت پڑھنے کا اثبات نہیں ہوتا۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی لکھا ہے کہ احرام کی کوئی مخصوص نماز نہیں، البتہ وہ وقت فرض نماز کا ہو تو نماز کے بعد احرام باندھا جائے، رسول اللہﷺ کا اسوہ بھی یہی ہے۔ (مناسک الحج والعمرة، للألباني، ص: 15، 16 مکتبة المعارف، الریاض)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2748
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2758
´تلبیہ کب پکاریں؟`
سالم سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے والد عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا: تمہارا یہ بیداء وہی ہے جس کے تعلق سے تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلط بات منسوب کرتے ہو ۱؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بیداء سے نہیں) ذوالحلیفہ کی مسجد ہی سے تلبیہ پکارا ہے ۲؎۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2758]
اردو حاشہ:
(1) عام لوگوں میں مشہور تھا کہ رسول اللہﷺ نے بیداء کے میدان میں لبیک کہنا شروع فرمایا لیکن یہ درست نہیں۔ اصل یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے ذوالحلیفہ میں بہ حیثیت مسافر، ظہر کی دو رکعتیں پڑھیں اور سلام کے بعد وہیں لبیک پکارا مگر وہ صرف چند قریبی ساتھیوں نے سنا، پھر آپ سواری پر تشریف فرما ہوئے تو پھر لبیک پکارا۔ اسے پہلے سے زیادہ لوگوں نے سنا، پھر آپ بیداء میں پہنچے تو آپ نے پھر لبیک پکارا۔ وہ تقریباً سب لوگوں نے سنا۔ جس نے جس جگہ سنا، اسی کے بارے میں بیان کیا۔ اس میں کوئی جھوٹ نہیں۔ اپنے اپنے علم کی بات ہے، البتہ احرام کی ابتدا ذوالحلیفہ سے ہوئی اور وہیں آپ نے لبیک کہنا شروع کیا تھا۔
(2) ”جھوٹ بولتے ہو۔“ یعنی تمھیں غلط فہمی ہے کہ آپ نے لبیک کی ابتدا بیداء سے فرمائی۔ عربی میں غلط فہمی کو بھی جھوٹ کہہ لیتے ہیں کیونکہ دونوں خلاف واقعہ ہوتے ہیں۔
(3) ”ذوالحلیفہ کی مسجد“ اس وقت وہاں مسجد نہیں تھی۔ مسجد بعد میں بطور یادگار بنائی گئی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2758
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2759
´تلبیہ کب پکاریں؟`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ ذوالحلیفہ میں اپنی سواری پر سوار ہوتے دیکھا، پھر جب اونٹنی (آپ کو لے کر) پورے طور پر کھڑی ہو گئی تو آپ نے تلبیہ پکارا۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2759]
اردو حاشہ:
اصل بات پیچھے گزر چکی ہے کہ آپ نے لبیک کی ابتدا نماز کے فوراً بعد بیٹھے بیٹھے فرما لی تھی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2759
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2761
´تلبیہ کب پکاریں؟`
عبید بن جریج کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا کہ میں آپ کو دیکھا کہ جب اونٹنی آپ کو لے کر کھڑی ہوئی ہے تو آپ نے اس وقت تلبیہ پکارا، تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت تلبیہ پکارا تھا جب آپ کی اونٹنی آپ کو لے کر سیدھی کھڑی ہوئی تھی۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2761]
اردو حاشہ:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اپنے علم کے مطابق بیان فرما رہے ہیں ورنہ حجۃ الوداع وغیرہ کے موقع پر آپ نے نماز کے فوراً بعد لبیک کہنا شروع فرما دیا تھا۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے سنا نہیں ہوگا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2761
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 818
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے کس جگہ سے احرام باندھا؟`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں: بیداء جس کے بارے میں لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھتے ہیں (کہ وہاں سے احرام باندھا) ۱؎ اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد (ذی الحلیفہ) کے پاس درخت کے قریب تلبیہ پکارا ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 818]
اردو حاشہ:
1؎:
یہ بات ابن عمر نے ان لوگوں کی غلط فہمی کے ازالہ کے لیے کہی جو یہ کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیداء کے مقام سے احرام باندھا تھا۔
2؎:
ان روایات میں بظاہر تعارض ہے،
ان میں تطبیق اس طرح سے دی گئی ہے کہ آپ نے احرام تو مسجد کے اندر ہی باندھا تھا جنہوں نے وہاں آپ کے احرام کا مشاہدہ کیا انہوں نے اس کا ذکر کیا اور جب آپ مسجد سے باہر تشریف لائے اور اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور بلند آواز سے تلبیہ پکارا تو دیکھنے والوں نے سمجھا کہ آپ نے اسی وقت احرام باندھا ہے،
پھر جب آپ بیداء پر پہنچے اور آپ نے لبیک کہا تو جن حضرات نے وہاں لبیک کہتے سنا انہوں نے سمجھا کہ آپ نے یہاں احرام باندھا ہے،
گویا ہر شخص نے اپنے مشاہدہ کے مطابق خبر دی۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 818
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:674
674- سالم بن عبداللہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے: یہ ”بیداء“ وہ جگہ ہے، جس کے بارے میں تم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے غلط بات بیان کرتے ہو۔ اللہ کی قسم! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالحلیفہ میں موجود مسجد کے پاس سے تلبیہ پڑھنا شروع کیا۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:674]
فائدہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں ہی تلبیہ کہا تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر سوار ہو گئے اور سواری پر بیٹھ کر بھی تلبیہ کہا تو سننے والوں نے سواری کے وقت تلبیہ کا ذکر کیا پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم میدان بیداء کی چڑھائی پر پہنچے تو تلبیہ کہا اس کے بعد جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس حالت میں دیکھا اسے بیان کر دیا۔ [فتح الباري: 505/3]
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 674
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2817
سالم سے روایت ہے کہ جب ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے کہا جاتا احرام بیداء سے ہے تو وہ کہتے بیداء جس کے بارے میں تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھتے ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام نہیں باندھا مگر درخت کے پاس سے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر کھڑی ہوئی۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2817]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلبیہ یا احرام مقام بیداء سے شروع کیا تھا چونکہ خلاف واقعہ تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم تلبیہ اور احرام کا آغاز مسجد ذوالحلیفہ سے کر چکے تھے۔
اس لیے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے اس کو کذب سے تعبیر کیا لیکن ان لوگوں نے چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تلبیہ بیداء میں سنا تھا اس سے پہلے نہیں سنا تھا۔
اس لیے وہ بیداء کا نام لیتے تھے جیسا کہ ہم حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے اس کی تفصیل نقل کر چکے ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2817
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2865
2865. حضرت ابن عمر ؓسے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے جب اپنا پاؤں رکاب میں رکھا اور آپ کی اونٹنی آپ کو لے کر سیدھی کھڑی گئي تو آپ نے مسجد ذوالحلیفہ کے پاس لبیک کہا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2865]
حدیث حاشیہ:
غرز بھی رکاب ہی کو کہتے ہیں‘ فرق صرف اتنا ہے کہ رکاب اگر لوہے کا ہو یا لکڑی کا تو اسے رکاب کہتے ہیں لیکن اگر چمڑے کا ہو تو اسے غرز کہتے ہیں۔
بعضوں نےکہا رکاب گھوڑے میں ہوتی ہے اور غرز اونٹ میں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2865
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1541
1541. ہمیں علی بن عبد اللہ نے بیان کیا انہوں نے سفیان ثوری سے انہوں نے موسیٰ بن عقبہ سے انہوں نے سالم بن عبد اللہ سے سنا انہوں نے ابن عمرؓ سے سنا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1541]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو حضرت امام مالک اور سفیان کی سندوں سے بیان کیا ہے لیکن سفیان کی روایت کا متن ذکر نہیں کیا۔
ان کے الفاظ کو امام حمیدی نے بیان کیا ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا:
تم لوگ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں خلاف واقعہ بات کرتے ہو کہ آپ نے میدان بیداء سے تلبیہ شروع کیا تھا، اللہ کی قسم! آپ نے مسجد ذوالحلیفہ کے پاس سے تلبیہ کا آغاز کیا تھا۔
(2)
وقت تلبیہ میں اختلاف ہے۔
بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب اونٹنی پر سوار ہوئے تو تلبیہ کہا جبکہ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ جب آپ میدان بیداء کی بلندی پر پہنچے تو لبیک کہا۔
یہ اختلاف راویوں کے اپنے مشاہدے کی بنا پر ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ اس اختلاف کی حقیقت بایں الفاظ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک ہی حج کیا ہے۔
جب آپ حج کے لیے تشریف لے گئے تو آپ نے مسجد ذوالحلیفہ میں نماز ادا فرمائی اور اس کے بعد تلبیہ کہا۔
جن لوگوں نے اس وقت آپ کا تلبیہ سنا تو انہوں نے اسی وقت کے حوالے سے بیان کیا، پھر آپ سوار ہوئے تو آپ نے سواری پر بیٹھ کر تلبیہ کہا تو سننے والوں نے سواری کے وقت تلبیہ کہنے کو بیان کیا، پھر جب آپ میدان بیداء کی چڑھائی پر پہنچے تو لبیک پکارا تو جن لوگوں نے اس وقت دیکھا تو انہوں نے اپنے مشاہدے کے مطابق اسے بیان کر دیا۔
آپ نے اس کا آغاز تو مسجد سے کیا تھا اس کے بعد جس کسی نے آپ کو جس حالت میں دیکھا اسے بیان کر دیا۔
(سنن أبي داود، المناسك، حدیث: 1770، والحاکم: 451/1، و فتح الباري: 505/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1541
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1552
1552. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے اس وقت لبیک کہنا شروع کیا جب آپ کی سواری سیدھی کھڑی ہوگئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1552]
حدیث حاشیہ:
صحابہ کرام ؓ نے اس امر میں اختلاف کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر کس جگہ سے تلبیہ کہنے کا آغاز کیا۔
اس اختلاف کی وجہ حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کی ہے جسے ہم حدیث: 1541 کے تحت فوائد میں بیان کر آئے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1552
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2865
2865. حضرت ابن عمر ؓسے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے جب اپنا پاؤں رکاب میں رکھا اور آپ کی اونٹنی آپ کو لے کر سیدھی کھڑی گئي تو آپ نے مسجد ذوالحلیفہ کے پاس لبیک کہا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2865]
حدیث حاشیہ:
اس روایت سے معلوم ہوا کہ عنوان میں رکاب اور پائیدان دونوں ہم معنی ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ رکاب لوہے یا لکڑی کا ہوتا ہے جبکہ غرز چمڑے کا ہوتا ہے۔
کچھ حضرات نے اس طرح فرق کیا ہے کہ رکاب گھوڑے میں ہوتی ہے اور غرز اونٹ میں لگایا جاتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2865