وعن سالم بن عبد الله بن عمر عن ابيه رضي الله عنهم ان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم كان يعطي عمر بن الخطاب العطاء، فيقول اعطه افقر مني، فيقول: «خذه فتموله، او تصدق به، وما جاءك من هذا المال، وانت غير مشرف ولا سائل، فخذه وما لا فلا تتبعه نفسك» .رواه مسلم.وعن سالم بن عبد الله بن عمر عن أبيه رضي الله عنهم أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم كان يعطي عمر بن الخطاب العطاء، فيقول أعطه أفقر مني، فيقول: «خذه فتموله، أو تصدق به، وما جاءك من هذا المال، وأنت غير مشرف ولا سائل، فخذه وما لا فلا تتبعه نفسك» .رواه مسلم.
سیدنا سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو کوئی چیز عطا فرماتے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ عرض کرتے کہ جو لوگ مجھ سے زیادہ غریب ہیں انہیں عطا فرما دیجئیے۔ اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ”اسے لے لو اور اپنا مال بنا لو یا اسے صدقہ کر دو۔ جو مال بغیر خواہش اور مانگنے کے تمہارے پاس آئے اسے لے لیا کرو اور جو اس طرح نہ ملے اس کے پیچھے اپنے آپ کو نہ لگاؤ۔“(مسلم)
हज़रत सालिम बिन अब्दुल्लाह बिन उमर रज़ि अल्लाहु अन्हुमा अपने पिता से रिवायत करते हैं कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम जब हज़रत उमर रज़िअल्लाहु अन्ह को कोई चीज़ देते तो हज़रत उमर रज़िअल्लाहु अन्ह कहा करते कि जो लोग मुझ से अधिक ग़रीब हैं उन्हें दे दीजिये । इस के जवाब में आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम कहते “इसे लेलो और अपना माल बनालो या इसे सदक़ा कर दो । जो माल बिना इच्छा और बिना मांगे तुम्हारे पास आए उसे ले लिया करो और जो इस तरह न मिले उस के पीछे अपने आप को न लगाओ ।” (मुस्लिम)
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الزكاة، باب جواز الأخذ بغير سؤال ولا تطلع، حديث:1045.»
Salim bin ’Abdullah bin ’Umar narrated on the authority of his father (RAA) that the Messenger of Allah (ﷺ) used to give 'Umar bin Al-Khattab something (some money), but he would say to him, ‘Would you give it to a person, who is more needy than me'? The Messenger of Allah (ﷺ) would then say to him, 'Take it. If you are given something from this property, without your having asked for it or being eager to receive it, and if you are not given, do not go and ask for it.” Related by Muslim.
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 526
لغوی تشریح 526: اَلعَطَاءَ کام کرنے کا معاوضہ، اجرت یا عطیہ۔ أَفقَرَ أفعل التفضیل کا صیغہ ہے، یعنی جو زیادہ فقیر ہے۔ فَتَمَوَّلْہُ امر کا صیغہ ہے، یعنی اسے اپنا مال بنالے۔ مُشرِفٍ اس کی خواہش کرتے ہوے اس کی طرف نگاہیں اٹھا کر دیکھنا اور اس کا تعرض کرنا اور اس پر حریص و لالچی ہونا۔ فَلَا تُتبِعْہُ أتباع سے امر کا صیغہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو اس کی طلب میں معلق نہ کرو۔ سبل السلام میں اس حدیث کی شرح میں لکھا ہوا ہے کہ یہ حدیث اسپر دلالت کررہی ہے کہ عامل کو اپنی مزدوری واجرت حاصل کرلینی چاہیے، واپس نہیں کرنی چاہیے۔ اکثریت کی راے کے مطابق یہاں امر ندب کے لیے ہے، یعنی ایسا کرنا مندوب ہے، فرض وواجب نہیں۔ اور ایک راے یہ ہے کہ اسے قبول کرنا واجب ہے۔ اور ایک راے یہ کہ ہر وہ چیز جو انسان کو دی جائے اسے لے لینا چاہیے، لہٰذا اس کا قبول کرنا دو شرطوں سے مشروط ہے جو اس حدیث میں مذکور ہیں۔
فوائد و مسائل 526: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عامل کو اپنے کام اور کارکردگی کی اجرت و معاوضہ لے لینا چاہیے کیونکہ اس حدیث میں عطاء سے یہی مراد ہے۔ علاوہ ازیں صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو وصولیٔ زکاۃ کی اجرت کے بارے میں فرمائی تھی۔ [صحيح مسلم، الزكاة، باب جواز الأخذ بغير سؤال ولا تطلع، حديث: 1045] یہ امر استحباب ہے، وجوب کے لیے نہیں، اور اس سے ہر قسم کا عطیہ اور تحفہ بھی مراد ہو سکتا ہے۔ بنا بریں جب دل میں حرص نہ ہو اور خود زبان سے یا حال سے اس کا حصول کا تقاضا بھی نہ ہو تو پھر جو کچھ وصول ہو اسے اخذ کر لے بشرطیکہ حلال ہو حرام نہ ہو۔ 2۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مالی حرص وطمع کے ساتھ سوال کرنا بھی حرام ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 526