تخریج: «أخرجه النسائي في الكبرٰي، حديث:9928 «وعمل اليوم والليلة، حديث: 100 وهذا جزء من الكبرٰي»، وابن حبان في كتاب الصلاة، كما في الترغيب والترهيب للمنذري، حديث:2373 وسنده حسن.»
تشریح:
1. آیت الکرسی کی فضیلت کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اور بھی ارشادات کتب حدیث میں منقول ہیں۔
اس کی اتنی فضیلت کی وجہ غالباً یہ ہے کہ اس میں توحید الٰہی کو صاف طور پر نکھار کر بیان کیا گیا ہے۔
اللہ کی وحدانیت‘ اس کی قدرت اور اس کا علم ماکان و مایکون اور کائنات کی حفاظت وغیرہ کا ذکر ہے۔
یہ اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہیں۔
اور سورۂ اخلاص تو تہائی قرآن کے برابر ثواب رکھتی ہے‘ اس لیے کہ اصل میں بنیادی عقائد تین ہیں: توحید‘ رسالت اور آخرت۔
اس سورت میں توحید کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی ہے۔
اور اس میں اللہ کی وحدانیت اور اس کی صمدیت کا ذکر ہے‘ اس لیے یہ سورت بھی اللہ کو بہت ہی محبوب ہے‘ لہٰذا جو آدمی اہتمام کے ساتھ ان کو نماز فرض کے بعد پڑھے گا اسے مرتے ہی جنت میں داخلہ مل جائے گا۔
إن شاء اللّٰہ۔
2. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ موت ایک ایسی حقیقت ہے جس کا منکر دنیا میں آج تک نہیں پایا گیا‘ نیز اس سے جنت کا وجود بھی معلوم ہوا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جنت بھی مخلوق ہے‘ یعنی اللہ کی پیدا کی ہوئی۔
راویٔ حدیث: «حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ» ابوامامہ کنیت اور ایاس بن ثعلبہ بلوی نام ہے۔
انصار کے قبیلہ بنوحارثہ کے حلیف تھے۔
شرف صحابیت سے مشرف تھے۔
ان سے کئی احادیث مروی ہیں۔
والدہ کی تیمار داری میں مشغولیت کی وجہ سے غزوۂ بدر میں شرکت نہ کر سکے۔