وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قلت لبلال: كيف رايت النبي صلى الله عليه وآله وسلم يرد عليهم حين يسلمون عليه وهو يصلي؟ قال: يقول هكذا وبسط كفه. اخرجه ابو داود والترمذي وصححه.وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قلت لبلال: كيف رأيت النبي صلى الله عليه وآله وسلم يرد عليهم حين يسلمون عليه وهو يصلي؟ قال: يقول هكذا وبسط كفه. أخرجه أبو داود والترمذي وصححه.
سیدنا (عبداللہ) ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے بلال رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ نماز پڑھتے وقت جب لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو کیسے جواب دیتے؟ انہوں نے جواب دیا کہ اس طرح کرتے اور اپنا ہاتھ پھیلایا۔ اسے ابوداؤد اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
हज़रत (अब्दुल्लाह) इब्न उमर रज़ि अल्लाहु अन्हुमा रिवायत करते हैं कि मैं ने बिलाल रज़िअल्लाहुअन्ह से पूछा कि नमाज़ पढ़ते समय जब लोग नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम को सलाम करते तो आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम उन को कैसे जवाब देते ? उन्हों ने जवाब दिया कि इस तरह करते और अपना हाथ फैलाया । इसे अबू दाऊद और त्रिमीज़ी ने रिवायत किया है और त्रिमीज़ी ने इसे सहीह ठहराया है ।
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب رد السلام في الصلاة، حديث:927، والترمذي، الصلاة، حديث:368.»
Narrated Ibn 'Umar (RA):
I asked Bilal (RA), "How did you observe the Prophet (ﷺ) replying to their (the Companions) salutation while he was engaged in prayer?" He (Bilal) said: "He used to do this way," and he (Bilal) demonstrated by spreading his palm. [Reported by Abu Dawud and at-Tirmidhi. The latter graded it Sahih (authentic)].
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 177
� لغوی تشریح: «يَرُدُّ عَلَيْهِمْ» علیھم میں ھم ضمیر سے اہل قباء مراد ہیں۔ «يَقُولُ هٰكَذَا» عملاً کرتے یا اشارہ فرماتے۔ قول یہاں فعل کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ کلام عرب میں ایسا اکثر اوقات ہوتا ہے۔ «وَبَسَطَ كَفَّهُ» دراز کیا، پھیلایا۔
فوائد و مسائل: ➊ یہ حدیث اس پر دلیل ہے کہ نماز میں سلام کا جواب اشارے سے دینا مشروع ہے۔ بہت سے لوگوں کی یہی رائے ہے۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو نماز میں سلام کا جواب دینا ممنوع سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب نماز میں جواب دینا جائز تھا۔ بعد میں جب نماز کی حالت میں گفتگو اور کلام کرنا حرام کر دیا گیا تو اسی وقت سے سلام کا جواب بھی حرام ہو گیا۔ اور اس لیے کہ یہ اشارہ معنوی کلام ہے۔ مگر قابل غور بات یہ ہے کہ اگر یہ اس موقع کی بات ہوتی جبکہ نماز میں سلام کا جواب جائز تھا تو پھر اشارے سے سلام کے جواب کی کیا ضرورت تھی؟ ➋ گفتگو کی ممانعت اور اشارے سے سلام کا جواب تو اس بات کی دلیل ہے کہ جب نماز میں بات چیت کرنا حرام تھا اس وقت اشارے سے جواب جائز تھا۔ صحیح بات یہی ہے کہ بلا ریب و تردد نماز کی حالت میں اشارے سے سلام کا جواب دینا جائز ہے۔ ➌ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ باہر سے آنے والے نمازی کے لیے نماز میں مصروف نمازیوں کو سلام کرنا درست اور جائز ہے، البتہ جواب کلام سے نہیں بلکہ اشارے سے دیا جائے گا۔ ➍ اس اشارے کی نوعیت کیا ہونی چاہیے؟ اس بارے میں مسند أحمد میں سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ کی حدیث سے اور جامع الترمذی میں سیدنا ابن عمر کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہاتھ یا انگلی کے اشارے سے سلام کا جواب دیتے تھے۔ دیکھے [مسند أحمد 102، و جامع الترمذي، الصلاة، باب ماجاء فى الإشارة فى الصلاة، حديث: 368]
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 177
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 927
´نماز میں سلام کا جواب` «. . . الَ: فَقُلْتُ لِبِلَالٍ: كَيْفَ رَأَيْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرُدُّ عَلَيْهِمْ حِينَ كَانُوا يُسَلِّمُونَ عَلَيْهِ وَهُوَ يُصَلِّي؟ قَالَ:" يَقُولُ هَكَذَا: وَبَسَطَ كَفَّهُ . . .» ”. . . میں نے بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا: جب انصار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالت نماز میں سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس طرح جواب دیتے ہوئے دیکھا؟ بلال رضی اللہ عنہ کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح کر رہے تھے، اور بلال رضی اللہ عنہ نے اپنی ہتھیلی کو پھیلائے ہوئے تھے . . .“[سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة: 927]
فقہ الحدیث ↰ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ”حسن صحیح“ کہا ہے۔ امام ابن الجارود رحمہ اللہ (215) اور حافظ نووی رحمہ اللہ [خلاصة الاحكام: 508/1] نے ”صحیح“ قرار دیا ہے۔
«ان عطأ أن موسٰي بن عبدالله بن جميل الجمحي سلم على ابن عباس، و هو يصلي، فأ خذه بيده۔» ”عطأ بن ابی رباح رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کی موسٰی بن عبداللہ بن جمیل جمحی نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو سلام کہا:، آپ نماز میں تھے آپ کا ہاتھ پکڑ لیا (یہ آپ کی طرف سے سلام کا جواب تھا۔)“[الشمس الكبري للبيهقي 259/2، مصنف ابن ابي شيبة: 73/2، سنده صحيح]