تخریج: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب الدعاء حديث:1488، والترمذي، الدعوات، حديُ:3556، وابن ماجه، الدعاء، حديث:3865، والحاكم:1 /497 جعفر بن ميمون ضعّفه الجمهور، وللحديث شواهد ضعيفة.»
تشریح:
1.مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ سنن ابن ماجہ
(اردو) کی تحقیق میں اسے حسن قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ موقوف ہے‘ نیز شیخ البانی رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں:
«إِسْنَادُ الْمَوْقُوفِ أَصَحُّ» ”مذکورہ روایت سند کے لحاظ سے موقوفاً زیادہ درست ہے۔
“ لیکن پھر انھوں نے اس کے مرفوع شواہد کا تذکرہ بھی کیا ہے اور آخر میں لکھا ہے:
«فَالْحَدِیثُ صَحِیحٌ قَطْعًا» ”یہ حدیث قطعی طور پر صحیح ہے۔
“ بنابریں مذکورہ روایت دیگر شواہد کی بنا پر قابل عمل ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:
(المشکاۃ للألباني‘ التحقیق الثاني:۲ /۴۱۳‘ رقم: ۲۱۸۴‘ وسنن ابن ماجہ، (اردو) طبع دارالسلام بتحقیق زبیر علیزئي‘ رقم: ۳۸۶۵) 2.اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا جائز ہے اور یہ آداب دعا میں سے ہے۔
3.اللہ کی بارگاہ میں اٹھے ہوئے بندۂ محتاج کے ہاتھ خالی واپس نہیں کیے جاتے۔
4.دعائے استسقا کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھ عام معمول سے زیادہ ہی بلند فرماتے تھے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھانے کی جو نفی ہے‘ اس سے مراد استسقا کی طرح رفع الیدین میں مبالغہ کرنے کی نفی ہے۔