وعن جبير بن مطعم رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «لا يدخل الجنة قاطع» يعني قاطع رحم. متفق عليه.وعن جبير بن مطعم رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «لا يدخل الجنة قاطع» يعني قاطع رحم. متفق عليه.
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت میں قطع رحمی کرنے والا داخل نہیں ہو گا۔“(بخاری و مسلم)
हज़रत जुबैर बिन मोअतम रज़ि अल्लाहु अन्ह से रिवायत है कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! ’’ स्वर्ग में बेरहमी करने वाला प्रवेश नहीं करेगा।” (बुख़ारी व मुस्लिम)
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الأدب، باب إثم القاطع، حديث:5984، ومسلم، البر والصلة، باب صلة الرحم وتحريم قطيعتها، حديث:2556.»
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1253
تخریج: «أخرجه البخاري، الأدب، باب إثم القاطع، حديث:5984، ومسلم، البر والصلة، باب صلة الرحم وتحريم قطيعتها، حديث:2556.»
تشریح: 1. اس حدیث میں قطع رحمی کے انجام سے خبردار کیا گیا ہے کہ ایسا آدمی جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ 2.قطع رحمی کبیرہ گناہ ہے۔ اور جنت میں داخل نہ ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ اس جرم کا مرتکب فی الفور جنت میں نہیں جائے گا بلکہ اپنے اس گناہ کی سزا بھگتنے کے بعد جنت میں جائے گا۔ یا یہ مفہوم ہے کہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والا مستحق تو اسی سزا کا ہے الا یہ کہ اسے رحمت الٰہی ڈھانپ لے۔ واللّٰہ أعلم۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1253
الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1253
تخریج: [بخاري 5984، مسلم/البر والصلة 18] [تحفته الاشرف411/2] فوائد: ➊ قرآن مجید میں قطع رحمی اور فساد فی الارض کرنے والوں کے لئے لعنت کی وعید آئی ہے: «وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّـهُ بِهِ أَن يُوصَلَ»[13-الرعد:25] ”اور جن تعلقات کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے ان کو توڑتے ہیں۔“ اور فرمایا: «فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِن تَوَلَّيْتُمْ أَن تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ ٭ أُولَـئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّـهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَى أَبْصَارَهُمْ»[47-محمد:22] ”پس تم سے اس بات کی توقع ہے کہ اگر تم والی بن جاؤ تو زمین میں فساد کرو اور اپنے رشتے کاٹ دو۔ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی پس انہیں بہرہ کر دیا اور ان کی آنکھیں اندھی کر دیں۔“ ➋ صلہ رحم سے کون سی رشتہ داری مراد ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ رشتہ داری کے کئی مراتب ہیں۔ پہلا یہ کہ آپس میں ایسے رشتہ داری ہو جس سے باہمی نکاح حرام ہو جاتا ہے یعنی ان دونوں میں سے ایک مرد اور ایک عورت ہو تو ان کا نکاح نہ ہو سکتا ہو۔ مثلاً چچا، پھوپھی اور ان کا بھتیجا، ماموں، خالہ اور ان کا بھانجا یہ ایسی قرابت ہے کہ اگر ان دونوں رشتہ داروں کو عورت فرض کیا جائے تو انہیں ایک مرد کے نکاح میں جمع کرنا جائز نہیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ عورت اور اس کی پھوپھی کو اور عورت اور اس کی خالہ کو دو بہنوں کی طرح ایک نکاح میں جمع کرنا حرام ہے کیونکہ اس سے ان کے درمیان قطع رحم کا خطرہ ہے۔ جن رشتہ داروں کا باہمی نکاح ہو سکتا ہے مثلاً آدمی اور اس کے چچا، پھوپھی، ماموں اور خالہ کی اولاد ان کے درمیان وہ رحم (رشتہ) نہیں جو سب سے نازک ہے اور جو ایک نکاح میں جمع کرنے سے اور طلاق یا خلع کی صورت میں ٹوٹ جاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ وہ ایک دوسرے کے وارث بنتے ہوں صاف ظاہر ہے کہ جو قرابت وارث کو حاصل ہوتی ہے غیر وارث کو حاصل نہیں ہوتی ورنہ اللہ تعالیٰ اسے بھی وارث بنا دیتے۔ تیسرا یہ کہ ان دونوں کے علاوہ کسی وجہ سے بھی قرابت حاصل ہو۔ ان میں سے سب سے زیادہ حق ماں کا، پھر باپ کا اور پھر حسب مراتب دوسرے اقارب کا ہے کہ ان سے صلہ رحمی کی جائے اور اگرچہ صلہ رحمی تمام اقارب کا حق ہے مگر درجہ بدرجہ حق بڑھتا چلا جاتا ہے۔ ➌ صلہ رحمی کا کم از کم درجہ یہ ہے کہ آپس میں سلام و کلام کا سلسلہ قائم رہے اگر یہ بھی باقی نہ رہا تو صلہ رحمی کیسی؟ اس کے بعد اقارب کے احوال کی خبرگیری، مال جان سے ان کی مدد اور غلطیوں سے درگزر صلہ رحمی کی مختلف صورتیں ہیں۔ ➍ وہ صلہ رحمی جو اللہ تعالیٰ ہم سے چاہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے: «ليس الواصل بالمكافئ، ولكن الواصل الذى إذا قطعت رحمه وصلها»[صحيح بخاري 5991] صلہ رحمی کرنے والا شخص وہ نہیں جو برابر کا معاملہ کرتا ہے لیکن اصل صلہ رحمی کرنے والا شخص وہ ہے کہ جب اس کی رشتہ داری قطع کی جائے تو وہ اسے ملائے۔ ➎ رشتہ داروں سے سلوک کے تین مرتبے ہیں: صلہ رحم: رشتہ دار تعلقات منقطع کر دیں تو ان سے ملائے اور حسن سلوک کرے۔ مکافات: رشتہ دار اچھا سلوک کریں تو ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ قطع رحم: رشتہ داروں سے تعلق قطع کر لے خواہ ان کے برا سلوک کرنے کی وجہ سے کرے خواہ ان کی طرف سے اچھا سلوک ہونے کے باوجود تعلقات منقطع کرے بہرحال اگر ان کی طرف سے اچھا سلوک ہونے کے بعد برا سلوک کرتا ہے اور ناطہ توڑ لیتا ہے تو یہ قطع رحم کی بدترین صورت ہے دونوں جانب سے قطع تعلق ہو تو بدترین وہ ہے جو قطع تعلق میں ابتداء کرتا ہے۔ ➏ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا کہ میرے کچھ رشتہ دار ایسے ہیں کہ میں ان سے ملاتا ہوں وہ مجھ سے قطع کرتے ہیں میں ان سے احسان کرتا ہوں وہ مجھ سے بدسلوکی کرتے ہیں میں ان سے حلم اختیار کرتا ہوں وہ مجھ پر جہالت کرتے ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ان كنت كما قلت فكانما تسفهم المل ولا يزال معك من الله ظهير عليهم ما دمت على ذلك»[صحيح مسلم 6525] ”اگر ایسے ہی ہے جس طرح تم کہہ رہے ہو تو گویا کہ تم ان کے منہ میں گرم راکھ ڈال رہے ہو اور جب تک اس عمل پر قائم رہو گے ہمیشہ ان کے مقابلے میں اللہ کی طرف سے ایک مددگار تمہارے ساتھ رہے گا۔“[مسلم 6525] ➐ ”قاطع رحم جنت میں نہیں جائے گا“ کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام سننے کے بعد بھی کہ قطع رحم حرام ہے اسے حلال سمجھتا ہے وہ کبھی بھی جنت میں داخل نہیں ہو گا کیونکہ اللہ کی حرام کردہ چیز کو حلال سمجھنے والا مسلمان ہی نہیں رہتا۔ اور جو شخص اسے حلال نہیں سمجھتا بلکہ حرام ہی سمجھتا ہے مگر کسی وجہ سے اس گناہ کا مرتکب ہو جاتا ہے وہ ان خوش نصیبوں میں نہیں ہو گا جو ابتداء ہی میں جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ یہ مطلب اس لیے بیان کیا جاتا ہے کہ کبیرہ گناہوں کے مرتکب مومن ہمیشہ جہنم میں نہیں رہیں گے۔
شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 69
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5984
5984. حضرت جبیر بن مطعم ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا: ”رشتہ توڑنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5984]
حدیث حاشیہ: (1) صلہ رحمی واجب ہے اور قطع رحمی کرنے والے پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”تم سے اسی بات کی توقع ہے کہ اگر تم زمین میں صاحب اختیار بن جاؤ تو زمین میں فساد کرو گے اور اپنے رشتے کاٹ دو گے۔ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے، انھیں بہرا کر دیا اور ان کی آنکھیں اندھی کر دیں۔ “(سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 4902) قطع رحمی کرنا بہت سنگین گناہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ”کوئی گناہ اس لائق نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کی سزا دنیا میں جلدی دے دے اور اس کے ساتھ آخرت میں بھی اس کی سزا جمع رکھے سوائے ظلم و زیادتی اور قطع رحمی کے۔ “(2) جو شخص قطع رحمی کو حلال خیال کرتے ہوئے اس کا ارتکاب کرتا ہے وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے اور وہ کبھی جنت میں نہیں جائے گا اور جو اسے حرام سمجھتے ہوئے عمل میں لاتا ہے وہ ان خوش نصیبوں میں نہیں ہوگا جو ابتداہی میں جنت میں جائیں گے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5984