وعن ابي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «ثلاث لا يكلمهم الله يوم القيامة ولا ينظر إليهم ولا يزكيهم ولهم عذاب اليم: رجل على فضل ماء بالفلاة يمنعه من ابن السبيل ورجل بايع رجلا بسلعة بعد العصر فحلف بالله لاخذها بكذا وكذا فصدقه وهو على غير ذلك ورجل بايع إماما لا يبايعه إلا للدنيا فإن اعطاه منها وفى وإن لم يعطه منها لم يف» متفق عليه.وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «ثلاث لا يكلمهم الله يوم القيامة ولا ينظر إليهم ولا يزكيهم ولهم عذاب أليم: رجل على فضل ماء بالفلاة يمنعه من ابن السبيل ورجل بايع رجلا بسلعة بعد العصر فحلف بالله لأخذها بكذا وكذا فصدقه وهو على غير ذلك ورجل بايع إماما لا يبايعه إلا للدنيا فإن أعطاه منها وفى وإن لم يعطه منها لم يف» متفق عليه.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” تین آدمی ایسے ہیں کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ان سے کلام نہیں کرے گا اور نہ ان کی جانب نظر (رحمت) کرے گا اور نہ ان کو گناہوں سے پاک کرے گا بلکہ ان کیلئے دردناک عذاب ہو گا پہلا وہ آدمی جو ایک مسافر کو جنگل میں بچے ہوئے پانی سے روکتا ہے اور دوسرا وہ آدمی جو عصر کے بعد کسی چیز کا دوسرے سے سودا کرتا ہے اور اللہ کی قسم کھاتا ہے کہ اس نے اس چیز کو اتنے اتنے میں خریدا ہے حالانکہ حقیقت ایسے نہ تھی اور وہ خریدار اس کو سچ مان گیا اور تیسرا وہ شخص جس نے دنیاوی غرض کے لئے کسی بادشاہ کی بیعت کی اگر بادشاہ اس کو کچھ دیتا ہے تو وہ وفا کرتا ہے اور اگر وہ اس کو کچھ نہیں دیتا (یعنی دنیا کا مال) تو وہ وفا نہیں کرتا۔“(بخاری و مسلم)
हज़रत अबु हुरैरा रज़ि अल्लाहु अन्ह से रिवायत है कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! ’’ तीन आदमी ऐसे हैं कि क़यामत के दिन अल्लाह तआला उन से बात नहीं करेगा और न उन की ओर देखे गा और न उन को पापों से पवित्र करेगा बल्कि उन के लिये दर्दनाक अज़ाब होगा पहला वह व्यक्ति जो एक यात्री को जंगल में बचे हुए पानी से रोकता है और दूसरा वह व्यक्ति जो अस्र के समय के बाद किसी चीज़ का दूसरे से सौदा करता है और अल्लाह की क़सम खाता है कि उस ने इस चीज़ को इतने इतने में ख़रीदा है जबकि हक़ीक़त ऐसे न थी और वह ख़रीदार उस को सच मान गया और तीसरा वह व्यक्ति जिस ने दुनिया के लिए किसी बादशाह की बैअत की अगर बादशाह उस को कुछ देता है तो वह वफ़ा करता है और अगर वह उस को कुछ नहीं देता (यानी दुनिया का माल) तो वह वफ़ा नहीं करता।” (बुख़ारी और मुस्लिम)
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الأحكام، باب من بايع رجلاً لا يبايعه إلا للدنيا، حديث:7212، ومسلم، الإيمان، باب بيان غلظ تحريم إسبال الإزار والمن بالعطية...، حديث:108.»
Narrated Abu Hurairah (RA):
Allah's Messenger (ﷺ) said: "There are three to whom Allah will not speak to on the Day of Resurrection, not will He look at them, nor will He purify them, and they will have a painful punishment. (1) A man at a place with excess water in the desert and who withholds it from the travelers. (2) A man who sold a commodity to another person in the afternoon (or after the 'Asr prayer) and swore to him by Allah that he had bought it at such and such price and he (the buyer) believed him yet that was not the case. (3) And a man who pledged allegiance to an Imam only for the sake of the world (material gains). Hence, if the Imam bestowed on him something out of that (i.e. worldly riches) he stood by his pledge of allegiance, and if he did not give him, he did not fulfill the pledge of allegiance." [Agreed upon].
ثلاثة لا يكلمهم الله ولا ينظر إليهم ولا يزكيهم ولهم عذاب أليم رجل على فضل ماء بطريق يمنع منه ابن السبيل رجل بايع رجلا لا يبايعه إلا للدنيا فإن أعطاه ما يريد وفى له وإلا لم يف له رجل ساوم رجلا بسلعة بعد العصر فحلف بالله لقد أعطى بها كذا وكذا فأخذها
ثلاثة لا ينظر الله إليهم يوم القيامة ولا يزكيهم ولهم عذاب أليم رجل كان له فضل ماء بالطريق فمنعه من ابن السبيل رجل بايع إماما لا يبايعه إلا لدنيا فإن أعطاه منها رضي وإن لم يعطه منها سخط رجل أقام سلعته بعد العصر
ثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة ولا يزكيهم ولهم عذاب أليم رجل على فضل ماء بالطريق يمنع منه ابن السبيل رجل بايع إماما لا يبايعه إلا لدنياه إن أعطاه ما يريد وفى له وإلا لم يف له رجل يبايع رجلا بسلعة بعد العصر فحلف بالله لقد أعطي بها كذا وكذا فصدقه فأ
ثلاث لا يكلمهم الله يوم القيامة ولا ينظر إليهم ولا يزكيهم ولهم عذاب أليم رجل على فضل ماء بالفلاة يمنعه من ابن السبيل رجل بايع رجلا بسلعة بعد العصر فحلف له بالله لأخذها بكذا وكذا فصدقه وهو على غير ذلك رجل بايع إماما لا يبايعه إلا لدنيا فإن أعطاه منها و
ثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة رجل منع ابن السبيل فضل ماء عنده رجل حلف على سلعة بعد العصر يعني كاذبا رجل بايع إماما فإن أعطاه وفى له وإن لم يعطه لم يف له
ثلاثة لا يكلمهم الله ولا ينظر إليهم يوم القيامة ولا يزكيهم ولهم عذاب أليم رجل على فضل ماء بالطريق يمنع ابن السبيل منه رجل بايع إماما لدنيا إن أعطاه ما يريد وفى له وإن لم يعطه لم يف له رجل ساوم رجلا على سلعة بعد العصر فحلف له بالله لقد أعطي بها
ثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة ولا ينظر إليهم ولا يزكيهم ولهم عذاب أليم رجل على فضل ماء بالفلاة يمنعه ابن السبيل رجل بايع رجلا سلعة بعد العصر فحلف بالله لأخذها بكذا وكذا فصدقه وهو على غير ذلك رجل بايع إماما لا يبايعه إلا لدنيا فإن أعطاه منها
ثلاثة لا يكلمهم الله ولا ينظر إليهم يوم القيامة ولا يزكيهم ولهم عذاب أليم رجل على فضل ماء بالفلاة يمنعه من ابن السبيل رجل بايع رجلا بسلعة بعد العصر فحلف بالله لأخذها بكذا وكذا فصدقه وهو على غير ذلك رجل بايع إماما لا يبايعه إلا لدنيا فإن أعطاه منها وفى
ثلاث لا يكلمهم الله يوم القيامة ولا ينظر إليهم ولا يزكيهم ولهم عذاب أليم : رجل على فضل ماء بالفلاة يمنعه من ابن السبيل ورجل بايع رجلا بسلعة بعد العصر فحلف بالله لأخذها بكذا وكذا فصدقه وهو على غير ذلك ورجل بايع إماما لا يبايعه إلا للدنيا فإن أعطاه منها وفى وإن لم يعطه منها لم يف
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1216
تخریج: «أخرجه البخاري، الأحكام، باب من بايع رجلاً لا يبايعه إلا للدنيا، حديث:7212، ومسلم، الإيمان، باب بيان غلظ تحريم إسبال الإزار والمن بالعطية...، حديث:108.»
تشریح: 1. اس حدیث کی رو سے زائد از ضرورت پانی کو روک لینا اور ضرورت مندوں کو لینے نہ دینا‘ عصر کے بعد جھوٹی قسم کھا کر مال فروخت کرنا اور دنیوی غرض کے لیے حاکم وقت کی تائید کرنا‘ رب کائنات کی سخت ناراضی کے موجب اعمال ہیں اور رحمت الٰہی سے محرومی کا باعث ہیں۔ 2. اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ گناہ کی سزا جس طرح کسی افضل جگہ کی وجہ سے دوچند ہو جاتی ہے اسی طرح افضل وقت کے لحاظ سے بھی اس کی سزا میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1216
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2358
´اس شخص کا گناہ جس نے کسی مسافر کو پانی سے روک دیا` «. . . سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ثَلَاثَةٌ لَا يَنْظُرُ اللَّهُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ: رَجُلٌ كَانَ لَهُ فَضْلُ مَاءٍ بِالطَّرِيقِ فَمَنَعَهُ مِنَ ابْنِ السَّبِيلِ . . .» ”. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین طرح کے لوگ وہ ہوں گے جن کی طرف قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نظر بھی نہیں اٹھائے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا، بلکہ ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا۔ ایک وہ شخص جس کے پاس راستے میں ضرورت سے زیادہ پانی ہو اور اس نے کسی مسافر کو اس کے استعمال سے روک دیا . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الشُّرْبِ والْمُسَاقَاةِ: 2358]
� لغوی توضیح: «فَضْلُ مَاءٍ» زائد، بچا ہوا پانی۔ «سِلعْتَهُ» اپنا سامان، سودا، سامان تجارت۔
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 68
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4467
´خرید و فروخت میں دھوکہ میں ڈال دینے والی قسم کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین لوگ ہیں قیامت کے دن اللہ ان کی طرف نہیں دیکھے گا اور نہ انہیں گناہوں سے پاک کرے گا، ان کے لیے درد ناک عذاب ہے: ایک شخص وہ ہے جو راستے میں فاضل پانی کا مالک ہو اور مسافر کو دینے سے منع کرے، ایک وہ شخص جو دنیا کی خاطر کسی امام (خلیفہ) کے ہاتھ پر بیعت کرے، اگر وہ اس کا مطالبہ پورا کر دے تو عہد بیعت کو پورا کرے اور مطالبہ پورا نہ کرے تو عہد بیعت کو پورا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4467]
اردو حاشہ: (1) اس حدیث مبارکہ میں اس شخص کی بابت سخت ترین وعید ہے جو محض ذاتی مفاد کی خاطر حاکم وقت کی مخالفت کرتا ہے، اس کے ساتھ کی ہوئی بیعت توڑتا اور اس کے خلاف خروج وغیرہ کرتا ہے۔ اس جرم کے مرتکب کے لیے اس قدر شدید وعید کیوں ہے؟ یہ اس لیے ہے کہ امام وقت کی مخالفت کرنے کی وجہ سے مسلمانوں کا اتفاق پارا پارا ہو جائے گا اور امت میں شر، فساد اور ظلم پھیلے گا۔ یہ یاد رہے کہ وفائے عہد میں عزت و عفت، مال اور خون، سب چیزوں کی حفاظت شامل ہے۔ (2) ہر وہ عمل جس سے اللہ کا قرب حاصل کیا جاتا ہے اگر اس سے مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول نہ ہو بلکہ اس سے صرف دنیوی فائدے کا حصول مطلوب ہو، تو وہ انسان کے لیے وبال اور اس کی آخرت کی تباہی و بربادی کا سبب ہوتا ہے۔ أَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْهُ۔ (3)”تین شخص“ حدیث میں جن تین اشخاص کا ذکر ہے، حدیث نمبر: 4463 میں ان میں سے صرف ایک شخص کا ذکر ہے۔ اس طرح مجموعی طور پر پانچ شخص بن گئے۔ گویا تین کا لفظ حصر کے لیے نہیں بلکہ یاد داشت کے لیے ہے۔ ویسے بھی تین میں زائد کی نفی نہیں۔ احادیث میں کئی مقامات پر ایسے ہے۔ اسے اختلاف پر محمول نہیں کرنا چاہیے بلکہ جو آپ کے ذہن میں تھے یا جن کو آپ نے موقع محل کے مناسب سمجھا، ذکر فرما دیا۔ اس سے باقی کی نفی نہیں ہو گی۔ (4)”پانی سے روک دے“ پانی زندگی کی بقا کے لیے اشد ضروری چیز ہے۔ اس کے نہ ملنے سے موت بھی واقع ہو سکتی ہے، نیز یہ اللہ تعالیٰ نے مفت مہیا کیا ہے، لہٰذا زائد پانی روکنے کا کوئی جواز نہیں، البتہ اگر اپنی ضرورت سے زائد نہ ہو تو روکا جا سکتا ہے لیکن پینے سے نہیں روکا جا سکتا الا یہ کہ اپنے پینے کے لیے رکھا گیا ہو۔ (5)”عصر کے بعد“ ممکن ہے یہ قید اتفاقی ہو کیونکہ عصر کے بعد خرید و فروخت زیادہ ہوتی ہے اور ہو سکتا ہے، یہ قید قصداً ذکر کی گئی ہو کیونکہ عصر دن کا آخر وقت ہے جو انسان کو موت اور قیامت کی یاد دلاتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ توبہ و استغفار کا وقت ہے۔ ایسے وقت میں جھوٹی قسمیں کھانا انتہائی قبیح کام ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4467
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3474
´چارہ روکنے کے لیے پانی کو روکنا منع ہے۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین اشخاص ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات نہ کرے گا: ایک تو وہ شخص جس کے پاس ضرورت سے زیادہ پانی ہو اور وہ مسافر کو دینے سے انکار کر دے، دوسرا وہ شخص جو اپنا سامان بیچنے کے لیے عصر بعد جھوٹی قسم کھائے، تیسرا وہ شخص جو کسی امام (و سربراہ) سے (وفاداری کی) بیعت کرے پھر اگر امام اسے (دنیاوی مال و جاہ) سے نوازے تو اس کا وفادار رہے، اور اگر اسے کچھ نہ دے تو وہ بھی عہد کی پاسداری نہ کرے۔“[سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3474]
فوائد ومسائل: 1۔ بقیہ پانی کو مسافروں سے روک لینا انتہائی شقاوت اور بے مروتی ہے۔
2۔ عصر سے مغرب تک کا وقت قربت الٰہی کا محبوب وقت ہے۔ اس وقت میں جھوٹی قسم کی جوکہ کبیرہ گنا ہے۔ برائی اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
3۔ امام المسلمین سے حق وعدل کے امور میں ہرحال میں وفا کرنا واجب ہے۔ خواہ اس کی طرف سے کچھ ملےنہ ملے۔ موجودہ دور میں سیاسی غیر سیاسی اور بعض مذہبی لوگوں میں بھی وابستگیاں بدلنے کا رواج عام ہوگیا ہے، اب سیاسی وابستگی کی بنیاد نہ اس بات پر ہے کہ مقصد اور نظریہ ایک ہے نہ اس بات پر کہ پختہ عہد معاہدے ہوچکے ہیں۔ جن کو چھوڑنا برائی ہے۔ اب صرف مفادات کو پیش نظر رکھ کر لوگ خود کومنڈی میں پیش کردیتے ہیں۔
4۔ صحیحین کی روایت ہے کہ جھوٹی قسم سے مال تو بک جاتا ہے۔ مگر برکت اٹھ جاتی ہے۔ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2087 و صحیح مسلم، المساقاة، حدیث: 1606)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3474
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2207
´خرید و فروخت میں حلف اٹھانے اور قسمیں کھانے کی کراہت۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تین آدمیوں سے اس قدر ناراض ہو گا کہ نہ تو ان سے بات کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا، نہ ہی انہیں پاک کرے گا، اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا: ایک وہ شخص جس کے پاس چٹیل میدان میں ضرورت سے زیادہ پانی ہو اور وہ اسے مسافر کو نہ دے، دوسرے وہ شخص جو اپنا مال نماز عصر کے بعد بیچے اور اللہ کی قسم کھائے کہ اسے اس نے اتنے اتنے میں خریدا ہے، اور خریدار اسے سچا جانے حالانکہ وہ اس کے برعکس تھا، تیسرے وہ شخص جس نے کسی امام سے بیعت کی، اور اس ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2207]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) کلام نہ کرنے اور نظر نہ کرنے سے مراد رحمت سے کلام کرنا اور رحمت کی نظر کرنا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ ہر نیک و بد سے حساب تو ضرور لے گا، اس کی نظر سے کوئی چیز پوشیدہ بھی نہیں ہو سکتی۔ ارشاد نبویﷺ ہے: ”تم میں سے ہر شخص سے اس کا رب (براہ راست) ہم کلام ہوگا، اس کے اور رب کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا۔ ۔ ۔“(صحيح البخاري، التوحيد، باب كلام الرب تعاليٰ يوم القيامة مع الأنبياء وغيرهم، حديث: 7512، وصحيح مسلم، الزكاة، باب الحث علي الصدقة ولو بشق تمرة۔ ۔ ۔ ، حديث: 1016)
(2) پاک نہ کرنے سے مراد گناہ معاف نہ کرنا ہے۔
(3) پیاسے کو پانی بلانا بڑی نیکی ہے، خاص طور پر جہاں پانی آسانی سے نہ ملتا ہو، وہاں دوسرے کو پانی پلا دینا بہت بڑے ثواب کا باعث ہے۔
(4) صحرا میں پانی کا چشمہ اللہ کا فضل ہے، کسی کا اس پر قبضہ کرکے بیٹھ رہنا اور ضرورت مندوں کو پانی لینے سے روکنا انتہائی کم ظرفی ہے۔
(5) جھوٹی قسم کھانا گناہ ہے۔ عصر کے بعد جھوٹی قسم کھانا زیادہ بڑا گناہ ہے۔ اور پھر انتا بڑا گناہ چند پیسوں کے متوقع مفاد کے لیے کیا گیا ہے کیونکہ یہ بات یقینی نہیں کہ گاہک اس کی جھوٹی قسم سے متاثر ہو کر اس سے سودا خرید ہی لے گا۔ ایسی صورت میں جھوٹی قسم انتہائی بری حرکت ہے، اس لیے اس کی سزا بھی شدید ہے۔
(6) مسلمان خلیفہ کی بیعت اسلامی سلطنت کے تحفظ اور ترقی کے لیے کی جاتی ہے اور اس میں تمام مسلمانوں کا دینی اور دنیوی فائدہ ہے۔ ایسے عظیم عمل میں دنیا کو سامنے رکھنا اور دنیا کا مال نہ ملنے پر بیعت توڑ کر بغاوت کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس شخص کو آخرت کی کوئی پروا نہیں اور دنیا کےذاتی مفاد کے کے لیے وہ مسلمانوں کا اجتماعی مفاد خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ ایسی حرکت کی برائی محتاج وضاحت نہیں۔
(7) کفر و شرک سے کم تر کبیرہ گناہ بھی ایسے شدید ہو سکتے ہیں جن کی وجہ سے جہنم کا طویل اور شدید عذاب برداشت کرنا پڑے، تاہم دائمی عذاب صرف کافر اور شرک اکبر کے مرتکب مشرک ہی کے لیے ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2207
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2870
´بیعت پوری کرنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تین آدمیوں سے نہ بات کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا، نہ ہی انہیں پاک کرے گا، اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے: ایک وہ آدمی جس کے پاس چٹیل میدان میں فالتو پانی ہو اور مسافر کو پانی لینے سے منع کرے، دوسرا وہ شخص جس نے عصر کے بعد کسی کے ہاتھ سامان بیچا اور اللہ کی قسم کھا کر کہا کہ اس نے یہ چیز اتنے اتنے میں لی ہے، پھر خریدار نے اس کی بات کا یقین کر لیا، حالانکہ اس نے غلط بیانی سے کام لیا تھا، تیسرا وہ آدمی جس نے کسی امام کے ہاتھ پر بیعت کی، اور مقصد محض دنیاوی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2870]
اردو حاشہ: فوائد ومسائل: یہ حدیث پہلے گزرچکی ہے۔ فوائد کے لیے ملاحظہ فرمائے (حدیث: 2207)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2870
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1595
´بیعت توڑنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین آدمیوں سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بات نہیں کرے گا نہ ہی ان کو گناہوں سے پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے: ایک وہ آدمی جس نے کسی امام سے بیعت کی پھر اگر امام نے اسے (اس کی مرضی کے مطابق) دیا تو اس نے بیعت پوری کی اور اگر نہیں دیا تو بیعت پوری نہیں کی“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1595]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: باقی دو آدمی جن کا اس حدیث میں ذکر نہیں ہے وہ یہ ہیں: ایک وہ آدمی جس کے پاس لمبے چوڑے صحراء میں اس کی ضرورتوں سے زائد پانی ہو اور مسافر کو پانی لینے سے منع کرے، دوسرا وہ شخص جس نے عصر کے بعد کسی کے ہاتھ سامان بیچا اور اللہ کی قسم کھا کر کہا کہ اس نے یہ چیز اتنے اتنے میں لی ہے، پھر خریدار نے اس کی بات کا یقین کر لیا حالانکہ اس نے غلط بیانی سے کام لیا تھا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1595
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 297
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تین قسم کے آدمی ہیں، قیامت کے دن اللہ ان سے گفتگو نہیں کرے گا۔ نہ ان لوگوں کی طرف دیکھے گا اور نہ ان کو پاک صاف کرے گا، ان کے لیے درد انگیز دکھ ہے۔ ایک آدمی جنگل میں اس کے پاس ضرورت سے زائد پانی ہے لیکن وہ مسافر کو اس سے روکتا ہے، دوسرا وہ جو کسی آدمی کو عصر کے بعد سامان بیچتا ہے اور اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہے میں نے یہ سامان اتنی رقم میں خریدا ہے حالانکہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:297]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: : (1) فََضْلٌ: ضرورت و حاجت سے زائد چیز۔ (2) فَلَاةٌ: بیابان، جنگل۔ (3) إِمَامٌ: حکمران، امیر۔ فوائد ومسائل: پانی ایک عام ضرورت کی چیز ہے جس پر انسان کی زندگی کا انحصار ہے، کسی ضرورت مند اور محتاج کو اس سے بلا اپنی ضرورت وحاجت کے محروم کرنا اس کو موت کے منہ میں دھکیلنا ہے، اس لیے یہ شدید جرم ہے۔ جو لوگ، غذاؤں اور ادویہ میں ملاوٹ کرکے لوگوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں، انہیں اس پر غور کرنا چاہیے۔ جھوٹ بولنا ایک سنگین جرم ہے اور عصر کا وقت ایک خیر وبرکت والا ہے، ایسے وقت جھوٹ بول کر سامان بیچنا تین جرائم کا مجموعہ ہے۔ (1) جھوٹ۔ (2) گاہک کےساتھ دھوکا۔ (3) اور وقت کی حرمت وتقدس کی پامالی پھر جھوٹ بھی اللہ کی قسم کھا کر، گویا اللہ کی عظمت ومقام کا احساس ہی نہیں۔ آج اس جرم کو جرم ہی نہیں سمجھا جاتا اور اپنے نفس کو فریب دینے کےلیے اس کے لیے مختلف حیلے اور بہانے نکالے جاتے ہیں۔ امام وامیر اپنے مقام ومنصب کی بنا پر اطاعت کا حقدار ہے، لیکن اطاعت کو اپنے مفاد پر موقوف کرنا اس کو بلیک میل کرنا ہے اور اس کو اس بات کی ترغیب دینا ہے کہ تم بھی اپنے مفاد کے لیے خوب کھیل اور گل کھلاؤ اور آج اس حرکت کا چال چلن عام ہے، اس لیے کوئی بھی حکومت صحیح طریقے پر نہیں چلتی اورنا کامی سے دوچارہوتی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 297
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2358
2358. ہمارے معاشرے میں فریقین کے جھگڑے کا فیصلہ پنچائیت میں اکثر وبیشتر اس طرح کیا جانا ہے کہ کوئی تیسرا فرد مدعا علیہ کی طرف سے قسم دیتاہے۔ یہ طریقہ اس حدیث کے مخالف ہونے کی وجہ سے سراسر غلط ہے۔ قسم مدعا علیہ ہی دے گا اور مدعی کو اس کی قسم کااعتبار کرنا چاہیے۔ اگر وہ جھوٹی قسم اٹھاتا ہے تو اللہ کے ہاں سزا پائے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2358]
حدیث حاشیہ: حدیث میں جن تین ملعون آدمیوں کا ذکر کیا گیا ہے ان کی جس قدر بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اول فالتو پانے سے روکنے والا، خاص طور پر پیاسے مسافر کو محروم رکھنے والا۔ وہ انسانیت کا مجرم ہے، اخلاق کا باغی ہے، ہمدردی کا دشمن ہے، اس کا دل پتھر سے بھی زیادہ سخت ہے۔ ایک پیاسے مسافر کو دیکھ کر دل نرم ہونا چاہئے۔ اس کی جان خطرے میں ہے۔ اس کی بقا کے لیے اسے پانی پلانی چاہئے نہ کہ اسے پیاسا لوٹا دیا جائے۔ دوسرا وہ انسان جو اسلامی تنظیم میں محض اپنے ذاتی مفاد کے لیے گھس بیٹھا ہے اور وہ خلاف مفاد ذرا سی بات بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہی وہ بدترین انسان ہے جو ملی اتحاد کا دشمن قرار دیا جاسکتا ہے اور ایسے غدار کی جس قدر بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اس زمانہ میں اسلامی مدارس و دیگر تنظیموں میں بکثرت ایسے ہی لوگ برسراقتدار ہیں۔ جو محض ذاتی مفاد کے لیے ان سے چمٹے ہوئے ہیں۔ اگر کسی وقت ان کے وقار پر ذرا بھی چوٹ پڑی تو وہ اسی مدرسہ کے، اسی تنظیم کے انتہائی دشمن بن کر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنانے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ اگرچہ حدیث میں حاکم اسلام سے بیعت کرنے کا ذکر ہے مگر ہر اسلامی تنظیم کو اسی پر سمجھا جاسکتا ہے۔ تاریخ اسلام میں کتنے ہی ایسے غدار ملتے ہیں جنہوں نے اپنے ذاتی نقصان کا خیال کرکے اسلامی حکومت کو سازشوں کی آماجگاہ بنا کر آخر میں اس کی تہہ و بالا کر ا دیا۔ تیسرا وہ تاجر ہے جو مال نکالنے کے لیے جھوٹ فریب کا ہر ہتھیار استعمال کرتا ہے، اور جھوٹ بول بول کر خوب بڑھا چڑھا کر اپنا مال نکالتا ہے۔ الغرض بغور یکھا جاے تو یہ تینوں مجرم اتنہائی مذمت کے قابل ہیں اور حدیث ہذا میں جو کچھ ان کے متعلق بتلایا گیا ہے وہ اپنی جگہ پر بالکل صدق اور صواب ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2358
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2672
2672. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تین آدمی ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نہ تو ہم کلام ہوگا اور نہ انھیں نظر رحمت ہی سے دیکھے گا، نیز انھیں گناہ سے پاکیزہ قرار نہیں دے گا بلکہ ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا: ایک وہ شخص جس کے پاس راستے میں فالتو پانی ہو اوروہ مسافروں کو نہ دے، دوسرا وہ شخص جو کسی دوسرے سے صرف دنیا کی خاطر بیعت کرے، اگر اس کامطلب پورا ہوتو وفا کرتا ہے اگر مطلب پورا نہ ہوتو وفا نہیں کرتا، تیسرا وہ آدمی جو کسی کے ساتھ عصر کے بعد اپنے سامان وغیرہ کا سودا کرتا ہے اور اللہ کی قسم اٹھا کر کہتا ہے کہ اسے اس مال کے اتنے اتنے ملتے تھے وہ اس کی قسم پر اعتبار کرکے سامان خرید لیتا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2672]
حدیث حاشیہ: تینوں گناہ جو یہاں مذکورہ ہوئے اخلاقی اعتبار سے بھی بہت ہی برے ہیں کہ ان کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے۔ حضرت امام بخاری ؒ مذکورہ تیسرے شخص کی وجہ سے یہاں اس حدیث کو لائے۔ تجارت میں جھوٹ بول کر مال فروخت کرنا ہر وقت ہی گناہ ہے، مگر عصر کے بعد ایسی قسم کھانا اور بھی بدتر گناہ ہے کہ دن کے اس آخری حصہ میں بھی وہ جھوٹ بولنے سے باز نہ رہ سکا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2672
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7212
7212. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین آدمی ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات نہیں کرے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا بلکہ ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا۔ ایک وہ شخص جس کے پاس راستے میں زیادہ پانی ہو، اس سے مسافروں کو منع کرتا ہے۔ دوسرا وہ جو امام سے صرف دنیا کے لیے بیعت کرتا ہے، اگر وہ جو امام سے صرف دنیا کے لیے بیعت کرتا ہے، اگر وہ اسے کچھ دے تو وفاداری کرتا ہے اگر نہ دے تو بیعت توڑ دیتا ہے۔ تیسرا وہ شخص جو عصر کے بعد سامان فروخت کرتا ہے اور اللہ کی قسم اٹھا کر کہتا ہے کہ اسے اس سامان کی اتنی اتنی رقم مل رہی تھی خریدار اسے سچا سمجھ کر اس سے مال خرید لیتا ہے حالانکہ اسے اس کی اتنی رقم نہیں مل رہی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7212]
حدیث حاشیہ: معاذ اللہ یہ کیسی سخت دلی اور قساوت قلبی ہے۔ بزرگوں نے تو یہ کیا ہے کہ مرت وقت بھی خود پانی نہ پیا اور دوسرے مسلمان بھائی کے پاس بھیج دیا چنانچہ جنگ یرموک میں جس میں بہت سے صحابہ شریک تھے ایک صاحب بیان کرتے ہیں میں اپنے چچا زاد بھائی کے پاس جو زخمی ہو کر پڑا تھا پانی لے کر گیا اتنے میں اس کے پاس ایک اور مسلمان زخمی پڑا تھا اس نے پانی مانگا میرے بھائی نے اشارہ سے کہا پہلے اس کو پلاؤ۔ جب میں اس کے پلانے کو گیا تو ایک اور زخمی نے پانی مانگا اس نے اشارہ سے کہا اس کے پاس لے جاؤ مگر جب تک پانی لے کر اس پاس پہنچا وہ جان بحق تسلیم ہوا۔ لوٹ کر آیا تو وہ شخص بھی مر چکا تھا جس کے پلانے کے لیے میرے بھائی نے کہا تھا آگے جو بڑھا تو کیا دیکھتا ہوں میرا بھائی بھی شہید ہو چکا ہے (رضی اللہ عنہم) مسلم کی روایت میں تین آدمی اور ہیں ایک بوڑھا حرام کار دوسرے جھوٹا بادشاہ تیسرے مغرور فقیر۔ ایک روایت میں ٹخنوں سے نیچے ازار لٹکانے والا‘ دوسرا خیرات کر کے احسان جتلانے والا‘ تیسرا جھوٹی قسم کھا کر مال بیچنے والا مذکور ہے۔ ایک روایت میں قسم کھا کر کسی کا مال چھین لینے والا مذکور ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7212
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2358
2358. ہمارے معاشرے میں فریقین کے جھگڑے کا فیصلہ پنچائیت میں اکثر وبیشتر اس طرح کیا جانا ہے کہ کوئی تیسرا فرد مدعا علیہ کی طرف سے قسم دیتاہے۔ یہ طریقہ اس حدیث کے مخالف ہونے کی وجہ سے سراسر غلط ہے۔ قسم مدعا علیہ ہی دے گا اور مدعی کو اس کی قسم کااعتبار کرنا چاہیے۔ اگر وہ جھوٹی قسم اٹھاتا ہے تو اللہ کے ہاں سزا پائے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2358]
حدیث حاشیہ: (1) حدیث میں عصر کے بعد قسم اٹھانے کا ذکر ہے کیونکہ اس وقت عموماً لوگ تجارت میں زیادہ مصروف ہوتے ہیں، بصورت دیگر یہ حکم عام ہے۔ ہر وقت جھوٹی قسم اٹھانے پر مذکورہ وعید ہے۔ (2) فالتو پانی سے پیاسے مسافروں کو محروم کرنے والا انسانیت کا دشمن اور اخلاق کا باغی ہے۔ ایسے انسان کا دل پتھر سے بھی زیادہ سخت ہوتا ہے۔ ایک پیاسے مسافر کو دیکھ کر دل نرم ہونا چاہیے کیونکہ اس کی جان خطرے میں ہے، اسے پانی پلانا چاہیے نہ کہ اسے محروم کر کے موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا کر دیا جائے کیونکہ چلتے راستہ میں کسی اور ذریعے سے پانی ملنا ممکن نہیں ہوتا۔ واضح رہے کہ اگر کسی کے پاس بقدر ضرورت پانی ہے تو وہ مسافر کی نسبت اس کا زیادہ حق دار ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2358
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2672
2672. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تین آدمی ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نہ تو ہم کلام ہوگا اور نہ انھیں نظر رحمت ہی سے دیکھے گا، نیز انھیں گناہ سے پاکیزہ قرار نہیں دے گا بلکہ ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا: ایک وہ شخص جس کے پاس راستے میں فالتو پانی ہو اوروہ مسافروں کو نہ دے، دوسرا وہ شخص جو کسی دوسرے سے صرف دنیا کی خاطر بیعت کرے، اگر اس کامطلب پورا ہوتو وفا کرتا ہے اگر مطلب پورا نہ ہوتو وفا نہیں کرتا، تیسرا وہ آدمی جو کسی کے ساتھ عصر کے بعد اپنے سامان وغیرہ کا سودا کرتا ہے اور اللہ کی قسم اٹھا کر کہتا ہے کہ اسے اس مال کے اتنے اتنے ملتے تھے وہ اس کی قسم پر اعتبار کرکے سامان خرید لیتا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2672]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث میں بیان کردہ تینوں گناہ اخلاقی اعتبار سے بہت ہی گھٹیا اور گھناؤنے ہیں۔ ان کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے۔ امام بخاری ؒ تیسرے شخص کی وجہ سے اس جگہ یہ حدیث لائے ہیں۔ (2) خریدوفروخت میں جھوٹ بولنا اور جھوٹی قسم اٹھا کر سودا فروخت کرنا ہر وقت گناہ ہے مگر عصر کے بعد ایسی قسم اٹھانا بدتر گناہ ہے کیونکہ اس وقت رات دن کے فرشتے حاضر ہوتے ہیں، نیز اس وقت لوگوں کے اعمال بھی آسمان کی طرف اٹھائے جاتے ہیں، ایسے وقت میں جھوٹ بولنا یا جھوٹی قسم اٹھانا سخت گناہ ہے کہ دن کے اس آخری اور بابرکت حصے میں وہ جھوٹ بولنے سے باز نہ رہ سکا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2672
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7212
7212. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین آدمی ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات نہیں کرے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا بلکہ ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا۔ ایک وہ شخص جس کے پاس راستے میں زیادہ پانی ہو، اس سے مسافروں کو منع کرتا ہے۔ دوسرا وہ جو امام سے صرف دنیا کے لیے بیعت کرتا ہے، اگر وہ جو امام سے صرف دنیا کے لیے بیعت کرتا ہے، اگر وہ اسے کچھ دے تو وفاداری کرتا ہے اگر نہ دے تو بیعت توڑ دیتا ہے۔ تیسرا وہ شخص جو عصر کے بعد سامان فروخت کرتا ہے اور اللہ کی قسم اٹھا کر کہتا ہے کہ اسے اس سامان کی اتنی اتنی رقم مل رہی تھی خریدار اسے سچا سمجھ کر اس سے مال خرید لیتا ہے حالانکہ اسے اس کی اتنی رقم نہیں مل رہی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7212]
حدیث حاشیہ: 1۔ امام وقت سے اسلام کی سر بلندی کے لیے بیعت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے دین کی خاطر کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرےگا۔ لیکن جو انسان امام سے دنیا حاصل کرنے کے لیے بیعت کرتا ہے وہ گویا امام سے خیانت کرتا ہے اور جو امام سے خیانت کرتا ہے وہ رعایا سے خیانت کا مرتکب ہوتا ہے کیونکہ اس سے فتنہ و فسادپیدا ہوتا اس بنا پر وہ دین کو اپنی دنیا کے لیے استعمال کرتا ہے۔ (فتح الباري: 251/13) 2۔ ایک روایت کے مطابق تین آدمی مزید ہیں جو اس وعید کے حقدار ہیں۔ ایک بوڑھا زانی جھوٹا بادشاہ اور تیسرا مغرور فقیر۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 296۔ (107) ایک دوسری روایت میں ہے کہ ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے والا خیرات کر کے احسان جتلانے والا اور جھوٹی قسم کھا کر اپنا مال فروخت کرنے والا بھی اس سزا کا حق دار ہے۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 293(106) بعض روایات میں عصر کے بعد جھوٹی قسم اٹھا کر کسی کا مال ہتھیانے والے کو بھی یہی سزا ملے گی۔ (صحیح البخاري، العیدین، حدیث: 2369)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7212