تخریج: «أخرجه النسائي، قطع السارق، باب تعليق يد السارق في عنقه، حديث:4987.* السند منقطع كما قال البيهقي: 8 /277 وغيره.»
تشریح:
اس حدیث کے حکم میں اختلاف ہے، چنانچہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اگر چور کے پاس چوری شدہ مال بعینہٖ موجود ہو تو اس سے لے لیا جائے گا ورنہ اس پر حد نافذ کرنے کے بعد اسے چھوڑ دیا جائے گا اور اس پر کسی قسم کا تاوان اور جرمانہ نہیں ڈالا جائے گا۔
سبل السلام میں ہے کہ امام شافعی‘ امام احمد رحمہما اللہ اور دوسرے اہل علم کے نزدیک اس پر تاوان ڈالا جائے گا۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے بھی ایک قول یہی منقول ہے۔
ان حضرات کی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
”ہاتھ ضامن ہے اس چیز کا جسے اس نے لیا یہاں تک کہ اسے ادا کر دے۔
“ (سنن أبي داود‘ البیوع‘ باب في تضمین العاریۃ‘ حدیث:۳۵۶۱‘ وجامع الترمذي‘ البیوع‘ باب ماجاء في أن العاریۃ مؤداۃ‘ حدیث:۱۲۶۶) جبکہ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ضعف کی بنا پر قابل استدلال نہیں۔
اللہ تعالیٰ کا بھی ارشاد ہے:
”آپس میں باطل طریقے سے اپنے اموال نہ کھاؤ۔
“ (البقرۃ ۲:۱۸۸) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
”کسی مسلم شخص کا مال حلال نہیں الّا یہ کہ وہ اپنی دلی خوشی سے کھانے کی اجازت دے۔
“ (إرواء الغلیل‘ ۵ /۲۷۹‘ حدیث:۱۴۵۹) نیز اس لیے بھی کہ اس میں دو حق جمع ہوگئے۔
ایک اللہ کا حق اور دوسرا آدمی کا حق۔
ہر ایک حق اپنی ادائیگی کا تقاضا کرتا ہے ‘ نیز جب اس بات پر اجماع ہے کہ اگر مال اپنی اصلی حالت میں موجود ہو تو وہ چور سے لے لیا جائے گا تو پھر دیگر اموال واجبہ پر قیاس کرتے ہوئے یہ کہا جائے گا کہ اگر مال اپنی اصلی حالت میں چور سے نہ مل سکے تو اس پر تاوان عائد ہوگا اور وہ اس کی ادائیگی کا ذمہ دار ٹھہرے گا۔
اس قول اور رائے کی مضبوطی اور پختگی مخفی نہیں ہے۔
(سبل السلام۔
ملخصًا)