سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کی طرف نکلے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح دی، تو ہم نے سونا اور چاندی نہیں لوٹا (یعنی چاندی اور سونا ہاتھ نہیں آیا) بلکہ ہم نے اسباب، اناج اور کپڑے کا مال غنیمت حاصل کیا۔ پھر ہم وادی کی طرف چلے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک غلام تھا (جس کا نام مدغم تھا) جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جذام میں سے ایک شخص جس کا نام رفاعہ بن زید تھا، نے ہبہ کیا تھا اور وہ بنی ضبیب میں سے تھا۔ جب ہم وادی میں اترے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام کھڑا ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کجاوہ کھول رہا تھا کہ اتنے میں ایک (غیبی) تیر اس کو لگا جس میں اس کی موت تھی۔ ہم لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! مبارک ہو وہ شہید ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہرگز نہیں قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے کہ وہ چادر اس پر آگ کی طرح سلگ رہی ہے جو اس نے مال غنیمت میں سے خیبر کے دن لے لی تھی اور اس وقت تک غنیمت کی تقسیم نہیں ہوئی تھی۔ یہ سن کر لوگ ڈر گئے اور ایک شخص ایک تسمہ یا دو تسمے لے کر آیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! میں نے خیبر کے دن ان کو پایا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تسمہ یا تسمے آگ کے ہیں (یعنی اگر تو ان کو واپس نہ کرتا تو یہ تسمہ انگارہ ہو کر قیامت کے دن تجھ پر لپٹتا یا تجھے ان تسموں کی وجہ سے عذاب ہوتا)