(امیرالمؤمنین) علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدر کے دن مال غنیمت میں ایک اونٹنی ملی اور ایک اونٹنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اور دے دی تو میں نے ایک دن ایک انصاری کے دروازہ پر ان دونوں اونٹنیوں کو بٹھایا اور میں یہ چاہتا تھا کہ ان پر اذخر (گھاس) لادوں تاکہ اسے بیچوں اور اس وقت میرے ساتھ بنی قینقاع کا ایک سنار بھی تھا، اور اس سے سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کے ولیمہ میں مدد لوں اور (سیدنا) حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ اس وقت اسی مکان کے اندر شراب پی رہے تھے۔ ان کے ساتھ ایک گانے والی تھی وہ یہ گا رہی تھی ”اٹھو حمزہ! فربہ تازہ جواں اونٹنیاں۔“ پس وہ تلوار لے کر ان دونوں اونٹنیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور انھوں نے ان کے کوہان کاٹ (چیر) دیے اور ان کے پیٹ چاک کر دیئے پھر ان کے کلیجے نکال لیے۔ (سیدنا) علی رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ میں نے یہ ایک ایسا منظر دیکھا جس نے مجھے دہشت زدہ کر دیا پھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (اس وقت سیدنا) زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی تھے تو میں نے یہ خبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے آئے چنانچہ سیدنا زید رضی اللہ عنہ اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ چلے پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے اور ان پر بہت غصہ کیا تو انھوں نے (اسی نشہ کی حالت میں) اپنی آنکھ اٹھائی اور کہنے لگے کہ تم لوگ تو میرے باپ دادا کے غلام ہو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پچھلے پیروں واپس ہوئے اور وہاں سے تشریف لے آئے اور یہ واقعہ شراب (اور موسیقی) کے حرام ہونے سے پہلے کا ہے۔