سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ اصحاب کسی سفر میں گئے یہاں تک کہ عرب کے قبیلوں میں سے کسی قبیلہ میں جا کر اترے اور ان سے دعوت (مہمان نوازی) طلب کی مگر انھوں نے ان کی مہمانی کرنے سے انکار کر دیا پھر اس قبیلہ کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا تو لوگوں ہر قسم کی تدبیر کی مگر کچھ فائدہ نہ ہوا پھر کسی نے کہا کہ تم ان لوگوں (یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم) کے پاس جاؤ شاید ان میں سے کسی کے پاس کوئی چیز ہو۔ چنانچہ وہ لوگ ان کے پاس آئے اور کہا کہ اے لوگو! ہمارے سردار کو سانپ نے ڈس لیا ہے ہم نے ہر قسم کی تدبیر کی مگر کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ کیا تم میں سے کسی کے پاس کوئی چیز ہے؟ تو صحابہ (رضی اللہ عنہم) میں سے کسی نے (خود ابوسعید رضی اللہ عنہ نے) کہا ہاں اللہ کی قسم میں جھاڑ پھونک کرتا ہوں مگر اللہ کی قسم ہم لوگوں نے تم سے دعوت طلب کی اور تم لوگوں نے ہماری مہمان نوازی نہ کی لہٰذا میں تمہارے لیے جھاڑ پھونک نہ کروں گا یہاں تک کہ تم ہمارے لیے اجرت مقرر کرو۔ چنانچہ ان لوگوں نے کچھ بکریوں پر ان کو رضامند کر لیا پھر ان میں سے ایک شخص (ابوسعید رضی اللہ عنہ) گئے اور ((الحمدللّٰہ ربّ العالمین)) پڑھ کر پھونک دیا تو فوراً ہی وہ شخص تندرست ہو گیا، گویا اس کے بندھن کھول دیے گئے اور وہ اٹھ کر چلنے لگا (ایسا معلوم ہوا کہ) اسے کوئی بیماری نہ تھی۔ (ابوسعید رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے ان کی وہ اجرت جس پر ان کو راضی کیا تھا دے دی پھر بعض لوگوں نے کہا کہ (اس کو) بانٹ لو مگر جنہوں نے جھاڑ پھونک کی تھی انھوں نے کہا کہ ایسا نہ کرو یہاں تک کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ جائیں اور اس واقعہ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کریں پھر دیکھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ چنانچہ جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم کو کیسے معلوم ہوا کہ سورۃ الفاتحہ سے دم کیا جاتا ہے؟“ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے اچھا کیا (اب جو کچھ ملا ہے اس کو) بانٹ لو اور اپنے ساتھ میرا حصہ بھی لگاؤ۔“ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے۔