-" إذا سمعت النداء، فاجب داعي الله عز وجل".-" إذا سمعت النداء، فأجب داعي الله عز وجل".
سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک نابینا آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں اذان تو سنتا ہوں لیکن میرے پاس کوئی ایسا قائد نہیں (جو مجھے مسجد میں لے آئے)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تو اذان سنے تو اللہ تعالیٰ کے داعی (کی پکار پر) لبیک کہہ (اور مسجد میں پہنچ)۔“
हज़रत कअब बिन उजरह रज़ि अल्लाहु अन्ह से रिवायत है कि एक नेत्रहीन आदमी नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के पास आया और कहा ! ऐ अल्लाह के रसूल ! मैं अज़ान तो सुनता हूँ लेकिन मेरे पास कोई ऐसा देखभाल करने वाला नहीं (जो मुझे मस्जिद में ले आए) ? आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “जब तू अज़ान सुने तो अल्लाह तआला के बुलाने वाले (की पुकार पर) लब्बैक कह (और मस्जिद में पहुंच)।”
سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی: 1354
قال الشيخ الألباني: - " إذا سمعت النداء، فأجب داعي الله عز وجل ". _____________________ أخرجه الدارقطني (197) وأبو نعيم في " أخبار أصبهان " (2 / 122) عن محمد ابن سليمان عن أبي داود حدثني أبي عن عبد الكريم الجزري عن زياد بن أبي مريم عن عبد الله بن معقل عن كعب بن عجرة: " أن أعمى أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله إني أسمع النداء، ولعلي لا أجد قائدا؟ قال ": فذكره. قلت: وهذا إسناد رجاله ثقات غير سليمان بن أبي داود وهو الحراني وهو ضعيف. لكنه لم يتفرد به، فقد رواه البيهقي في " السنن " (3 / 57 - 58) من طريق بشر ابن حاتم الرقي حدثنا عبيد الله بن عمرو عن زيد بن أبي أنيسة عن أبي إسحاق عن عبد الله بن معقل به. قلت: ورجاله ثقات غير بشر بن حاتم الرقي أورده ابن أبي حاتم (1 / 1 / 355) بروايته عن عبيد الله هذا، ولم يزد! وقال البيهقي عقبه: " خالفه أبو عبد الرحيم، فرواه عن زيد بن أبي أنيسة عن عدي بن ثابت عن عبد الله بن معقل ". قلت: وصله الطبراني في " الأوسط " (1 / 22 / 2) من طريق الشاذكوني حدثنا محمد بن سلمة الحراني حدثنا أبو عبد الرحيم خالد بن يزيد عن زيد بن أبي أنيسة به. وقال الطبراني: " لم يروه عن عدي إلا زيد ". قلت: وهو ثقة لكن في الطريق إليه الشاذكوني واسمه سليمان بن داود وهو حافظ متهم بالوضع، لكن الظاهر من قول الطبراني المذكور أنه لم ينفرد ويؤيده أن الحافظ الهيثمي لما أورده في " المجمع " (2 / 42 - 43) قال: " رواه الطبراني في " الأوسط " و " الكبير " وفيه يزيد بن سنان __________جزء : 3 /صفحہ : 339__________ ضعفه أحمد وجماعة، وقال أبو حاتم محله الصدق، وقال البخاري: مقارب الحديث ". ووجه التأييد أنه ليس في إسناد الطبراني في " الأوسط " يزيد بن سنان فهو في إسناد معجمه الكبير، فينتج أن إسناده غير إسناد " الأوسط ". وأنه لم يتفرد به الشاذكوني. والله أعلم. والحديث صحيح على كل حال، فإن له شواهد عديدة من حديث أبي هريرة عند مسلم وأبي عوانة وغيرهما، وابن أم مكتوم الأعمى وهو صاحب القصة من طرق عنه عند أبي داود وغيره، وهو مخرج في " صحيح أبي داود " (561) . ¤
سلسلہ احادیث صحیحہ کی حدیث نمبر 534 کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد محفوظ اعوان حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سلسله احاديث صحيحه 534
� فوائد و مسائل: جہاں نماز باجماعت عظیم کارثواب ہے، وہاں اس کا اہتمام کرنا ہر مسلمان پر ضروری ہے، جیسا ارشاد باری تعالیٰ ہے: «وَإِذَا كُنتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلَاةَ فَلْتَقُمْ طَائِفَةٌ مِّنْهُم مَّعَكَ وَلْيَأْخُذُوا أَسْلِحَتَهُمْ فَإِذَا سَجَدُوا فَلْيَكُونُوا مِن وَرَائِكُمْ وَلْتَأْتِ طَائِفَةٌ أُخْرَىٰ لَمْ يُصَلُّوا فَلْيُصَلُّوا مَعَكَ وَلْيَأْخُذُوا حِذْرَهُمْ وَأَسْلِحَتَهُمْ»[النساء:102] ”(اے محمد!) جب آپ ان میں ہوں اور ان کے لیے نماز کھڑی کرو تو چاہئیے کہ ان (مجاہدین صحابہ) کی ایک جماعت آپ کے ساتھ اپنے ہتھیار لیے کھڑی ہو۔“
قارئین کرام! غور فرمائیں کہ حالت جنگ میں بھی نماز باجماعت کا حکم دیا جا رہا ہے، امن کی حالت میں جماعت کی اہمیت کا خود اندازہ لگا لیں۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «والذي نفسي بيده لقد هممت ان آمر بحطب فيحطب ثم آمر بالصلاة......»[بخاري، مسلم] ... ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں نے یہ ارادہ کیا کہ لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دوں، پھر کسی کو کہوں کہ وہ نماز پڑھائے، اور میں خود ان لوگوں کی طرف جاؤں جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے اور ان کے گھروں کو جلا ڈالوں۔“
جو پیغمبروں کے حق میں ان کے نفسوں سے بڑھ کر خیر خواہ ہے، جس پر مومنوں کی تکلیف اور مشقت بڑی گراں گزرتی ہے، جو اپنے امتیوں کی دنیوی خیریت اور اخروی عافیت کا سب سے زیادہ حریص ہے، وہی پیغمبرِ اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے پیروکاروں کے گھروں کو جلا ڈالنے کا ارادہ کرتا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ صرف جماعت کے ساتھ حاضری نہ دینے کی وجہ سے۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «من سمع النداء فلم يات فلا صلاة له إلا من عذر»[ابوداود، ابن ماجه] ”جو آدمی اذان سننے کے باوجود نماز باجماعت کے ساتھ ادا نہ کرے تو اس کی کوئی نماز نہیں، الا یہ کہ کوئی عذر ہو۔“
قارئین کرام! شاید آپ بھی اس حقیقت کے قائل ہوں کہ جو روحانی تسکین نماز باجماعت سے حاصل ہوتی ہے، اکیلے نماز پڑھنے والا آدمی اس سے کوسوں دور ہے، جماعت کے بہانے مسلمان کا زیادہ وقت اللہ تعالیٰ کے ذکر میں گزر جاتا ہے، فجر کی نماز کی مثال آپ کے سامنے ہے کہ آپ باوضو ہو کر گھر میں یا مسجد میں سنتیں ادا کر کے جماعت کے انتظار میں ذکر میں مصروف ہو کر بیٹھ جاتے ہیں، پھر جماعت میں تقریبا چالیس، پچاس یا اس سے بھی زیادہ آیات کی تلاوت کی جاتی ہے، سلام پھیرنے کے بعد ذکر و اذکار کرنے کا موقع ملتا ہے، اس طرح تقریبا گھنٹہ، پون گھنٹہ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں گزرتا ہے اور دن کی حسین انداز میں ابتدا ہو جاتی ہے اور دل میں مخصوص قسم کا سکون محسوس ہوتا ہے۔ اس کے برعکس منفرد آدمی کیسے نماز پڑھتا ہے، اس کا کتنا وقت صرف ہوتا ہے، اس کو کتنی تسکین نصیب ہوتی ہے؟ آپ خود بہتر اندازہ لگا سکتے ہیں۔
اگر کوئی آدمی روحانی طور پر اکیلے اور باجماعت نماز ادا کرنے میں کوئی فرق محسوس نہیں کرتا، یا جماعت رہ جانے کی وجہ سے اسے کسی قسم کی ندامت اور افسوس نہیں ہوتا، تو اسے اس حقیقت کا قائل ہونا پڑے گا کہ ایسا شخص ایمان کی شیریں اور اسلام کی مٹھاس سے محروم ہے۔ کہاں ستائیس نمازوں کا ثواب اور کہاں ایک نماز کا اجر، کہاں آدھ پون گھنٹہ کی عبادت اور کہاں تین چار منٹوں کی عبادت۔
قارئین کرام! ہم تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ فلاں باورچی یا ہوٹل کا کھانا مزیدار ہوتا ہے، فلاں دوکان کے جوتے معیاری ہوتے ہیں، فلاں درزی کی سلائی کیا ہوا سوٹ خوبصورت ہوتا ہے، فلاں سبزی فروش اور دوکاندار کا سودا معیاری اور کم قیمت والا ہوتا ہے اور پھر جیب اجازت دے تو ہم ان ہی دوکانوں اور دوکانداروں کا رخ کرتے ہیں۔ لیکن ہم یہ کیوں نہیں کہہ سکتے ہیں نماز با جماعت میں زیادہ سکون نصیب ہوتا ہے، مسجد میں نماز کی ادائیگی کا لطف ہی انوکھا ہے؟ (اللہ تعالیٰ ہمارے حالات پر رحم فرمائیں۔ آمین) «سمع النداء»
سلسله احاديث صحيحه شرح از محمد محفوظ احمد، حدیث/صفحہ نمبر: 534