سلسله احاديث صحيحه کل احادیث 4035 :ترقیم البانی
سلسله احاديث صحيحه کل احادیث 4103 :حدیث نمبر

سلسله احاديث صحيحه
सिलसिला अहादीस सहीहा
آداب اور اجازت طلب کرنا
अख़लाक़ और अनुमति मांगना
1817. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخصوص علامتیں، رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کا اپنے صحابہ کی معاونت کرنا، تلاش حق کے لیے سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا سفر نامہ
“ रसूल अल्लाह ﷺ की विशेष निशानियां ، रसूल अल्लाह ﷺ का अपने साथियों की सहायता करना ، सच की खोज के लिए हज़रत सलमान फ़ारसी की यात्रा की कहानी ”
حدیث نمبر: 2718
Save to word مکررات اعراب Hindi
-" اعينوا اخاكم. يعني سلمان في مكاتبته".-" أعينوا أخاكم. يعني سلمان في مكاتبته".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے مجھے اپنا واقعہ اپنی زبانی یوں بیان کیا، وہ کہتے ہیں: میں اصبہان کا ایک فارسی باشندہ تھا، میرا تعلق ان کی ایک جیی نامی بستی سے تھا، میرے باپ اپنی بستی کے بہت بڑے کسان تھے اور میں اپنے باپ کے ہاں اللہ کی مخلوق میں سے سب سے زیادہ محبوب تھا۔ میرے ساتھ ان کی محبت قائم رہی حتیٰ کہ انہوں نے مجھے گھر میں آگ کے پاس ہمیشہ رہنے والے کی حیثیت سے پابند کر دیا، جیسے لڑکی کو پابند کر دیا جاتا ہے۔ میں نے مجوسیت میں بڑی جدوجہد سے کام لیا، حتیٰ کہ میں آگ کا ایسا خادم و مصاحب بنا کہ ہر وقت اس کو جلاتا رہتا تھا اور ایک لمحہ کے لیے بھی اسے بجھنے نہ دیتا تھا۔ میرے باپ کی ایک بڑی عظیم جائیداد تھی، انہوں نے ایک دن ایک عمارت (‏‏‏‏کے سلسلہ میں) مصروف ہونے کی وجہ سے مجھے کہا: بیٹا! میں تو آج اس عمارت میں مشغول ہو گیا ہوں اور اپنی جائیداد (‏‏‏‏تک نہیں پہنچ پاؤں گا)، اس لیے تم چلے جاؤ اور ذرا دیکھ کر آؤ۔ انہوں نے اس کے بارے میں مزید چند (‏‏‏‏ احکام بھی) صادر کئے تھے۔ پس میں اس جاگیر کے لیے نکل پڑا، میرا گزر عیسائیوں کے ایک گرجا گھر کے پاس سے ہوا، میں نے ان کی آوازیں سنیں وہ نماز ادا کر رہے تھے۔ مجھے یہ علم نہ ہو سکا کہ عوام الناس کا کیا معاملہ ہے کہ میرے باپ نے مجھے اپنے گھر میں پابند کر رکھا ہے۔ (‏‏‏‏بہرحال) جب میں ان کے پاس سے گزرا اور ان کی آوازیں سنیں تو میں ان کے پاس چلا گیا اور ان کی نقل و حرکت دیکھنے لگ گیا۔ جب میں نے ان کو دیکھا تو مجھے ان کی نماز پسند آئی اور میں ان کے دین کی طرف راغب ہوا اور میں نے کہا: بخدا! یہ دین اس (‏‏‏‏مجوسیت) سے بہتر ہے جس پر ہم کاربند ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا: اس دین کی بنیاد کہاں ہے؟ انہوں نے کہا: شام میں۔ پھر میں اپنے باپ کی طرف واپس آ گیا، (‏‏‏‏چونکہ مجھے تاخیر ہو گئی تھی اس لیے) انہوں نے مجھے بلانے کے لیے کچھ لوگوں کو بھی میرے پیچھے بھیج دیا تھا۔ میں اس مصروفیت کی وجہ سے ان کے مکمل کام کی (‏‏‏‏طرف کوئی توجہ نہ دھر سکا)۔ جب میں ان کے پاس آیا تو انہوں نے پوچھا: بیٹا! آپ کہاں تھے؟ کیا میں نے ایک ذمہ داری آپ کے سپرد نہیں کی تھی؟ میں نے کہا: ابا جان! میں کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا، وہ گرجا گھر میں نماز پڑھ رہے تھے، مجھے ان کی کاروائی بڑی پسند آئی۔ اللہ کی قسم! میں ان کے پاس ہی رہا، حتیٰ کہ سورج غروب ہو گیا۔ میرے باپ نے کہا: بیٹا! اس دین میں کوئی خیر نہیں ہے، تمہارا اور تمہارے آبا کا دین اس سے بہتر ہے۔ میں نے کہا: بخدا! ہرگز نہیں، وہ دین ہمارے دین سے بہتر ہے۔ (‏‏‏‏میرے ان جذبات کی وجہ سے) میرے باپ کو میرے بارے میں خطرہ لاحق ہوا اور انہوں نے میرے پاؤں میں بیڑیاں ڈال کر مجھے گھر میں پابند کر دیا۔ میں نے عیسائیوں کی طرف پیغام بھیجا کہ جب شام سے تاجروں کا عیسائی قافلہ آئے تو مجھے خبر دینا۔ (‏‏‏‏کچھ ایام کے بعد) جب شام سے عیسائیوں کا تجارتی قافلہ پہنچا تو انہوں نے مجھے اس (‏‏‏‏کی آمد) کی اطلاع دی۔ میں نے ان سے کہا: جب (‏‏‏‏اس قافلے کے) لوگ اپنی ضروریات پوری کر کے اپنے ملک کی طرف واپس لوٹنا چاہیں تو مجھے بتلا دینا۔ سو جب انھوں نے واپس جانا چاہا تو انہوں نے مجھے اطلاع دے دی۔ میں نے اپنے پاؤں سے بیڑیاں اتار پهینکیں اور ان کے ساتھ نکل پڑا اور شام پہنچ گیا۔ جب میں شام پہنچا تو پوچھا: وہ کون سے شخصیت ہے جو اس دین والوں میں افضل ہے؟ انہوں نے کہا: فلاں گرجا گھر میں ایک پادری ہے۔ میں اس کے پاس گیا اور میں نے کہا: میں اس دین (‏‏‏‏نصرانیت) کی طرف راغب ہوا ہوں، اب میں چاہتا ہوں کہ آپ کے پاس رہوں اور گرجا گھر میں آپ کی خدمت کروں اور آپ سے تعلیم حاصل کروں اور آپ کے ساتھ نماز پڑھوں۔ اس نے کہا: (‏‏‏‏ٹھیک ہے) آ جاؤ۔ پس میں اس میں داخل ہو گیا۔ لیکن وه بڑا برا آدمی تھا۔ وه لوگوں کو صدقہ کرنے کا حكم دیتا تها اور ان کو ترغیب دلاتا تها۔ جب وه کئی اشیاء لے کر آتے تھے، تو وه اپنے لیے جمع کر لیتا تھا اور مساکین کو کچھ بھی نہیں دیتا تھا، حتیٰ کہ اس کے پاس سونے اور چاندی کے سات مٹکے جمع ہو گئے۔ میں اس کے کرتوتوں کی بناء پر اس سے نفرت کرتا تھا۔ بالآخر وہ مر گیا، اسے دفن کرنے کے لیے عیسائی لوگ پہنچ گئے۔ میں نے ان سے کہا: یہ تو برا آدمی تھا، یہ تم لوگوں کو تو صدقہ کرنے کا حکم دیتا اور اس کی ترغیب دلاتا تھا، لیکن جب تم لوگ اس کے پاس صدقہ جمع کرواتے تھے تو یہ اسے اپنے لیے ذخیرہ کر لیتا تھا اور مساکین کو بلکل نہیں دیتا تھا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا: تجھے کیسے علم ہوا؟ میں نے کہا: میں تمہیں اس کے خزانے کی خبر دے سکتا ہوں۔ انہوں نے کہا: تو پھر ہمیں بتاؤ۔ پس میں نے ان کو (‏‏‏‏اس خزانے کا) مقام دکھایا انہوں نے وہاں سے سونے اور چاندی کے بھرے ہوئے سات مٹکے نکالے۔ جب ا‏‏‏‏نہوں نے صدقے (‏‏‏‏کا یہ حشر) دیکھا تو کہنے لگے: بخدا! ہم اس کو کبھی بھی دفن نہیں کریں گے۔ سو انہوں نے اس کو سولی پر لٹکایا اور پھر پتھروں سے اس کو سنگسار کیا۔ بعد ازاں وہ اس کی جگہ ایک اور آدمی لے آئے۔ سلمان کہتے ہیں: جو لوگ پانچ نمازیں ادا کرتے تھے، میں نے اس کو ان میں افضل پایا۔ میں نے اسے دنیا سے سب سے زیادہ بے رغبت، آخرت کے معاملے میں سب سے زیادہ رغبت والا اور دن ہو یا رات (‏‏‏‏عبادت کے معاملات کو) تندہی سے ادا کرنے والا پایا۔ میں نے اس سے ایسی محبت کی کہ اس سے پہلے اس قسم کی محبت کسی سے نہیں کی تھی۔ میں اسی کے ساتھ کچھ زمانہ تک مقیم رہا۔ بالآخر اس کی وفات کا وقت قریب آ پہنچا۔ میں نے اسے کہا: اے فلان! میں تیرے ساتھ رہا اور میں نے تجھ سے ایسی محبت کی کہ اس سے قبل اس قسم کی محبت کسی سے نہیں کی تھی۔ اب تیرے پاس اللہ تعالیٰ کا حکم (‏‏‏‏ موت) آپہنچا ہے، تو خود بھی محسوس کر رہا ہے۔ اب تو مجھے کسی بندہ (‏‏‏‏ خدا) کے پاس جانے کی نصیحت کرے گا؟ اور مجھے کیا حکم دے گا؟ اس نے کہا: میرے بیٹے! اللہ کی قسم! میں جس دین پر پابند تھا، میرے علم کے مطابق کوئی بھی اس دین کا پیروکار نہیں ہے۔ لوگ ہلاک ہو گئے ہیں اور تبدیل ہو گئے ہیں اور جس شریعت کو اپنا رکھا تھا اس کے اکثر امور کو ترک کر دیا ہے۔ ہاں ایک آدمی موصل میں ہے۔ وہ بھی اسی دین پر کاربند ہے، پس تو اس کے پاس چلے جانا۔ جب وہ فوت ہو گیا اور اسے دفن کر دیا گیا تو میں موصل والے آدمی کے پاس پہنچ گیا۔ میں نے اسے کہا: اے فلاں! فلاں آدمی نے موت کے وقت مجھے وصیت کی تھی کہ میں تجھ سے آ ملوں۔ اس نے مجھے بتلایا تھا کہ تم بھی اس کے دین پر کاربند ہو۔ اس نے مجھے کہا: (‏‏‏‏ٹھیک ہے) تم میرے پاس ٹھہر سکتے ہو۔ پس میں نے اس کے پاس اقامت اختیار کی، میں نے اسے بہترین آدمی پایا جو اپنے ساتھی کے دین پر برقرار تھا۔ (‏‏‏‏کچھ عرصے کے بعد اس پر بھی) فوت ہونے کے آثار (‏‏‏‏دکھائی دینے لگے)۔ جب اس پر وفات کی گھڑی آ پہنچی تو میں نے کہا: اے فلاں! فلاں نے تو مجھے تیرے بارے میں وصیت کی تھی اور مجھے حکم دیا تھا کہ تیری صحبت میں رہوں۔ اب اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ تجھ پر نازل ہونے والا ہے وہ تو دیکھ رہا ہے۔ لہٰذا مجھے کیا وصیت کرے گا اور کیا حکم دے گا کہ میں کس کے پاس جاؤں؟ اس نے کہا: بیٹا! اللہ کی قسم! میرے علم کے مطابق تو ہمارے دین پر قائم صرف ایک آدمی ہے، جو نصیبین میں ہے۔ (‏‏‏‏میری وفات کے بعد) اس کے پاس چلے جانا۔ پس جب وه فوت ہوا اور اسے دفن کر دیا گیا تو میں نصیبین والے صاحب کے پاس پہنچ گیا۔ میں اس کے پاس آیا اور اسے اپنے بارے میں اور اپنے (‏‏‏‏رہنما) کے حکم کے بارے میں مطلع کیا۔ اس نے کہا: میر ے پاس ٹھہرئیے۔ سو میں اس کے پاس ٹھہر گیا۔ میں نے اس کو اس کے سابقہ دونوں صاحبوں کے دین پر پایا۔ وہ بہترین آدمی تھا جس کے پاس میں نے اقامت اختیار کی۔ لیکن اللہ کی قسم! وہ جلد ہی مرنے کے لیے تیار ہو گیا۔ جب اس کی موت کا وقت آیا تو میں نے اسے کہا: اے فلاں! فلاں (‏‏‏‏اللہ کے بندے) نے مجھے فلاں کی (‏‏‏‏صحبت میں رہنے کی) نصیحت کی تھی، پھر اس نے تیرے پاس آنے کی نصیحت کی۔ اب تو مجھے کس کے پاس جانے کی وصیت کرے گا یا کیا حکم دے گا؟ اس نے کہا: میرے بیٹے! ہم تو ایسے آدمی کے بارے میں کوئی معلومات نہیں رکھتے، جو ہمارے دین پر قائم ہو، کہ تو اس کے پاس جا سکے۔ البتہ ایک آدمی عموریہ میں ہے۔ وہ دین کے معاملے میں ہماری طرح کا ہے۔ اگر تو چاہتا ہے تو اس کے پاس چلے جانا، کیونکہ وہ ہمارے دین پر برقرار ہے۔ پس جب وہ بھی مر گیا اور اسے دفن کر دیا گیا، تو میں عموریہ والے (‏‏‏‏بندہ خدا) پاس پہنچ گیا اور اسے اپنا سارا ماجرا سنایا۔ اس نے کہا: تم میرے پاس ٹھہرو۔ میں نے اس کی صحبت اختیا کر لی اور اسے اس کے اصحاب کی سیرت اور دین پر پایا۔ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے اس کے پاس رہ کر کمائی بھی کی، حتیٰ کہ میں کچھ گائیوں اور بکریوں کا مالک بن گیا۔ لیکن اس پر بھی اللہ تعالیٰ کا حکم نازل ہونے لگا (‏‏‏‏ کی علامات دکھائی دینے لگیں)۔ جب اس کی موت کا وقت قریب آپہنچا تو میں نے اسے کہا: اے فلاں! میں فلاں (‏‏‏‏بندہ خدا) کے پاس تھا، فلاں نے مجھے فلاں کے بارے میں، فلاں نے فلاں کے بارے میں اور اس نے تیرے پاس آنے کی وصیت کی تھی۔ اب تو مجھے کس (‏‏‏‏کی صحبت میں رہنے) کی وصیت کرے گا؟ اور مجھے کیا حکم دے گا؟ اس نے کہا: میرے بیٹا! میں تو کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جو ہمارے دین پر کاربند ہو اور جس کے بارے میں میں تجھے حکم دے سکوں۔ لیکن اب ایک نبی کی آمد کا وقت قریب آ چکا ہے، اسے دین ابراہیمی کے ساتھ مبعوث کیا جائے گا، وہ عربوں کی سرزمین سے ظاہر ہو گا اور ایسے (‏‏‏‏شہر) کی طرف ہجرت کرے گا جو دو حروں (‏‏‏‏یعنی کالے پتھر والی زمینوں) کے درمیان میں ہو گا اور ان کے درمیان کھجوروں کے درخت ہوں گے۔ اس کی اور علامات بھی ہوں گی، جو مخفی نہیں ہوں گی۔ وہ ہدیہ (‏‏‏‏یعنی بطور تحفہ دی گئی چیز) کھائے گا، صدقہ نہیں کھائے گا اور اس کے کندھوں کے درمیان مہر ختم نبوت ہو گی۔ اگر تجھے استطاعت ہے تو (‏‏‏‏عرب کے) ان علاقوں تک پہنچ جا۔ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر وہ فوت ہو گیا اور اسے دفن کر دیا گیا۔ جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور تھا، میں عموریہ میں سکونت پذیر رہا۔ پھر میرے پاس سے بنوکلب قبیلے کا ایک تجارتی قافلہ گزرا۔ میں نے ان سے کہا: اگر تم مجھے سرزمین عرب کی طرف لے جاؤ تو میں تم کو اپنی گائیں اور بکریاں دے دوں گا؟ انہوں نے کہا: ٹھیک ہے۔ پس میں نے اپنی گائیں اور بکریاں ان کو دے دیں اور انہوں نے مجھے اپنے ساتھ ملا لیا۔ جب وہ مجھے وادئ قری تک لے کر پہنچے تو انہوں نے مجھ پر ظلم کیا اور بطور غلام ایک یہودی کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ پس میں اس کے پاس ٹھہر گیا۔ جب میں نے کھجوروں کے درخت دیکھے تو مجھے امید ہونے لگی کہ یہ وہی شہر ہے جو میرے ساتھی نے بیان کیا تھا، لیکن یقین نہیں آ رہا تھا۔ ایک دن اس یہودی کا چچا زاد بھائی، جس کا تعلق بنو قریظہ سے تھا، مدینہ سے اس کے پاس آیا اور مجھے خرید کر اپنے پاس مدینہ میں لے گیا۔ اللہ کی قسم! جب میں نے مدینہ کو دیکھا تو اپنے ساتھی کی بیان کردہ علامات کی روشنی میں اس کو پہچان گیا (‏‏‏‏کہ یہی خاتم النبیین کا مسکن ہو گا)۔ میں وہاں فروکش ہو گیا۔ ا‏‏‏‏دھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو مکہ مکرمہ میں مبعوث کر دیا، جتنے دن انہوں نے وہاں ٹہرنا تھا، وہ ٹہرے۔ لیکن میں نے ان (‏‏‏‏کی آمد) کا کوئی تذکرہ نہیں سنا، دوسری بات یہ بھی ہے کہ میں غلامی والے شغل میں مصروف رہتا تھا بلآخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے آئے۔ اللہ کی قسم! (‏‏‏‏ایک دن) میں اپنے آقا کے پھل دار کھجور کے درخت کی چوٹی پر کوئی کام کر رہا تھا، میرا مالک بیٹھا ہوا تھا اس کا چچا زاد بھائی اچانک اس کے پاس آیا اور کہنے لگا: اللہ تعالیٰ بنو قیلہ کو ہلاک کرے، وہ قباء میں مکہ سے آنے والے ایک آدمی کے پاس جمع ہیں اور ان کا خیال ہے کہ وہ نبی ہو۔ جب میں نے اس کی یہ بات سنی تو مجھ پر اس قدر کپکپی طاری ہو گئی کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ اپنے مالک پر گر جاؤں گا۔ میں کھجور کے درخت سے اترا اور اس کے چچا زاد بھائی سے کہنے لگا: تم کیا کہہ رہے ہو؟ تم کیا کہہ رہے ہو؟ اس بات سے میرے آقا کو غصہ آیا اور اس نے مجھے زور سے مکا مارا اور کہا: تیرا اس بات سے کیا تعلق ہے۔ جا، اپنا کام کر۔ میں نے کہا: کوئی تعلق نہیں، بس ذرا بات کی چھان بین کرنا چاہتا تھا۔ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میرے پاس میرا جمع کیا ہوا کچھ مال تھا۔ جب شام ہوئی تو میں نے وہ مال لیا اور قباء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر داخل ہوا اور کہا: مجھے یہ بات موصول ہوئی ہے کہ آپ کوئی صالح آدمی ہیں اور آپ کے اصحاب غریب اور حاجتمند لوگ ہیں۔ یہ میرے پاس کچھ صدقے کا مال ہے، میں نے آپ لوگوں کو ہی اس کا زیادہ مستحق سمجھا ہے۔ پھر میں نے وہ مال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کیا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا: تم لوگ کھا لو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنا ہاتھ روک لیا اور نہ کھایا۔ میں نے دل میں کہا کہ (‏‏‏‏اس بندہ خدا کے نبی ہونے کی) ایک نشانی تو (‏‏‏‏پوری ہو گئی ہے)۔ پھر میں چلا گیا اور مزید کچھ مال جمع کیا۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں منتقل ہو چکے تھے۔ پھر (‏‏‏‏وہ مال لے کر) میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: میرا آپ کے بارے میں خیال ہے کہ آپ صدقے کا مال نہیں کھاتے، اس لیے یہ ہدیہ (‏‏‏‏یعنی تحفہ) ہے، میں اس کے ذریعے آپ کی عزت کرنا چاہتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ چیز خود بھی کھائی اور اپنے صحابہ کو بھی کھانے کا حکم دیا، سو انہوں نے بھی کھائی۔ (‏‏‏‏یہ منظر دیکھ کر) میں نے دل میں کہا: دو علامتیں (‏‏‏‏پوری ہو گئیں ہیں)۔ (‏‏‏‏ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں) میں (‏‏‏‏تیسر ی دفعہ) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو وہ ‏‏‏‏بقیع الغرقد‏‏‏‏ میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی صحابی کے جنازے کی خاطر وہاں آئے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر دو چادریں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب میں تشریف فرما تھے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہا، پھر آپ کی پیٹھ پر نظر ڈالنے کے لیے گھوما، تاکہ (‏‏‏‏دیکھ سکوں کہ) آیا وہ (‏‏‏‏ختم نبوت والی) مہر بھی ہے، جس کی پیشن گوئی میرے ساتھی نے کی تھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‏‏‏‏ نے مجھے گھومتے ہوئے دیکھا تو آپ پہچان گئے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی وصف کی جستجو میں ہوں، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر اپنی پیٹھ سے ہٹا دی، میں نے مہر نبوت دیکھی اور اسے پہچان گیا۔ پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ٹوٹ پڑا اور آپ کے بوسے لینے اور رونے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: پیچھے ہٹو۔ پس میں پیچھے ہٹ گیا۔ اے ابن عباس! پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا سارا ماجرا اسی طرح سنایا، جسے تجھے سنایا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات اچھی لگی کہ یہ واقعہ آپ کے صحابہ بھی سنیں۔ پھر سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ غلامی کی وجہ سے مشغول رہے اور غزوہ بدر اور غزوہ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک نہ ہو سکے۔ (‏‏‏‏ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:) ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: سلمان! (‏‏‏‏اپنے مالک سے) مکاتبت کر لو۔ پس میں نے اپنے آقا سے اس بات پر مکاتبت کر لی کہ میں اس کے لیے تین سو کھجور کے چھوٹے درخت زمین سے اکھاڑ کر اس کی جگہ پر لگاؤں گا اور (‏‏‏‏مزید اسے) چالیس اوقیے دوں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے بھائی (‏‏‏‏ ‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏سلمان) کی مدد کرو۔ لوگوں نے مدد کرتے ہوئے مجھے کھجوروں کے درخت دیے۔ کسی نے تیس کسی نے بیس کسی پندرہ کسی نے اپنی استطاعت کے بقدر مجھے کھجوروں کے چھوٹے درخت دیے، حتیٰ کہ میر ے پاس تین سو کھجور کے در خت جمع ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ‏‏‏‏ سلمان! جاؤ اور گڑ ھے کھودو۔ جب فارغ ہو جاؤ تو میر ے پاس آ جانا، (‏‏‏‏ یہ پو دے) میں خود لگاؤں گا۔ ‏‏‏‏ (‏‏‏‏ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:) میں نے گڑھے کھودے، میرے ساتھیوں نے میری معاونت کی۔ جب میں فارغ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کو اطلاع دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ساتھ نکلے ہم (‏‏‏‏کھجوروں کے وہ) پودے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کرتے تھے اور آپ اپنے ہاتھ سے ان کو لگا دیتے تھے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں سلمان کی جان ہے! ان میں سے کھجور کا ایک پودا بھی نہ مرا۔ اب میں کھجور کے چھوٹے درخت تو لگا چکا تھا اور (‏‏‏‏چالیس اوقیوں والا) مال باقی تھا۔ کسی غزوے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مرغی کے انڈے کے بقدر سونا لایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: مکاتبت کرنے والا (‏‏‏‏سلمان) فارسی کیا کر رہا ہے؟ مجھے بلایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سلمان! یہ لو اور اس کے ساتھ اپنی ذمہ داری ادا کرو۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھ پر جتنا (‏‏‏‏قرضہ) ہے، اس سے کیا اثر ہو گا؟ (‏‏‏‏یعنی قرضہ بہت زیادہ ہے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تو لو، عنقریب اللہ تعالیٰ تمہارا (‏‏‏‏قرضہ) بھی ادا کر دے گا۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں سلمان کی جان ہے! میں نے وہ لے لیا اور اس میں سے ان آقاؤں کو چالیس اوقیے تول کر دے دیئے، ان كا پورا حق ادا کر دیا اور آزاد ہو گیا۔ پهر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ خندق میں حاضر ہوا اور اس كے بعد کوئی غزوه مجھ سے نہ ره سکا۔
हज़रत अब्दुल्लाह बिन अब्बास रज़ि अल्लाहु अन्ह से रिवायत है, वह कहते हैं कि हज़रत सलमान फ़ारसी रज़ि अल्लाहु अन्ह ने मुझे अपना क़िस्सा अपनी ज़बानी ऐसे सुनाया, वह कहते हैं कि मैं अस्बहान का एक फ़ारसी नागरिक था, मेरा संबंध उन की एक हबी नाम की बस्ती से था, मेरे पिता अपनी बस्ती के बहुत बड़े किसान थे और मैं अपने पिता के हाँ अल्लाह के जीवों में से सब से अधिक प्रिय था। मेरे साथ उन की मुहब्बत बनी रही यहां तक कि उन्हों ने मुझे घर में आग की सदा देखभाल करने की ज़िम्मेदारी दे दी, जैसे लड़की को पाबंद कर दिया जाता है। मैं ने मजूसियत (आग परस्ती) में कड़ी मेहनत की, यहां तक कि मैं आग का ऐसा सेवक बना कि हर समय उस को जलाता रहता था और एक पल के लिये भी उसे बुझने न देता था। मेरे पिता की एक बड़ी जायदाद थी, एक दिन वह एक इमारत के मआमले में व्यस्त था और उसने मुझ से कहा कि बेटा मैं आज इस इमारत में व्यस्त हूं और अपनी जायदाद (तक नहीं पहुंच पाउँगा), इस लिये तुम चले जाओ और ज़रा देख कर आओ। उन्हों ने उस के बारे में और कुछ आदेश भी दिए थे। बस मैं उस जायदाद के लिये निकल पड़ा, मेरा गुज़र ईसाईयों के एक गिरजा घर के पास से हुआ, मैं ने उन की आवाज़ें सुनीं वह नमाज़ पढ़ कर रहे थे। मुझे यह पता न हो सका कि आम लोगों का क्या मआमला है कि मेरे पिता ने मुझे अपने घर में पाबंद कर रखा है। जब मैं उन के पास से गुज़रा और उन की आवाज़ें सुनीं तो मैं उन के पास चला गया और उन की गतिविधियां देखने लग गया। जब मैं ने उन को देखा तो मुझे उन की नमाज़ पसंद आई और मैं उन के धर्म की ओर आकर्षित हुआ और मैं ने कहा कि अल्लाह की क़सम यह धर्म इस (आग परस्ती) से अच्छा है जिस के हम मानने वाला हैं। मैं ने उन से पूछा कि इस धर्म का आधार कहाँ है ? उन्हों ने कहा कि शाम में। फिर मैं अपने पिता के पास वापस आ गया, (चूंकि मुझे देर हो गई थी इस लिये) उन्हों ने मुझे बुलाने के लिये कुछ लोगों को भी मेरे पीछे भेज दिया था। मैं ने इस गतिविधि के कारण उन के काम पर ध्यान नहीं दिया। जब मैं उन के पास आया तो उन्हों ने पूछा कि बेटा आप कहाँ थे ? क्या मैं ने एक ज़िम्मेदारी आप के हवाले नहीं की थी ? मैं ने कहा कि पिता जी मैं कुछ लोगों के पास से गुज़रा, वह गिरजा घर में नमाज़ पढ़ रहे थे, मुझे उन की कार्यवाही बड़ी पसंद आई। अल्लाह की क़सम, मैं उन के पास ही रहा, यहां तक कि सूर्य डूब गया। मेरे पिता ने कहा कि बेटा इस धर्म में कोई भलाई नहीं है, तुम्हारा और तुम्हारे पूर्वजों का धर्म इस से अच्छा है। मैं ने कहा कि अल्लाह की क़सम हरगिज़ नहीं, वह धर्म हमारे धर्म से अच्छा है। (मेरी इन भावनाओं के कारण) मेरे पिता को मेरे बारे में ख़तरा पैदा हो गया और उन्हों ने मेरे पांव में बेड़ियाँ डाल कर मुझे घर में बंद कर दिया। मैं ने ईसाईयों की ओर संदेश भेजा कि जब शाम से ईसाई व्यापारियों का कारवां आए तो मुझे ख़बर देना। (कुछ दिनों के बाद) जब शाम से ईसाईयों का व्यापारिक कारवां पहुंचा तो उन्हों ने मुझे उस की सूचना दी। मैं ने उन से कहा कि जब (इस कारवां के) लोग अपनी ज़रूरतें पूरी करके अपने देश वापस जाने लगें तो मुझे बता देना। तो जब उन्हों ने वापस जाना चाहा तो मुझे सूचना देदी। मैं ने अपने पांव से बेड़ियाँ उतार फेकीं और उन के साथ निकल पड़ा और शाम पहुंच गया। जब मैं शाम पहुंचा तो पूछा कि वह कौन सा इन्सान है जो इस धर्म के मानने वालों में सबसे अच्छा है ? उन्हों ने कहा कि फ़लां गिरजा घर में एक पादरी है। मैं उस के पास गया और मैं ने कहा कि मैं इस धर्म (ईसाइयत) की ओर आकर्षित हुआ हूँ, अब मैं चाहता हूँ कि आप के पास रहूं और गिरजा घर में आप की सेवा करूँ और आप से शिक्षा प्राप्त करूँ और आप के साथ नमाज़ पढ़ूँ। उस ने कहा कि आ जाओ बस मैं अंदर चला गया। लेकिन वह बड़ा बुरा आदमी था। वह लोगों को सदक़ह करने का हुक्म देता था और उन को आकर्षित करता था। जब वह कई चीज़ें लेकर आते थे, तो वह अपने लिये जमा कर लेता था और ग़रीबों को कुछ भी नहीं देता था, यहां तक कि उस के पास सोने और चांदी के सात मटके जमा हो गए। मैं उस के करतूतों की बिना पर उस से नफ़रत करता था। एक दिन वह मर गया, उसे दफ़न करने के लिये ईसाई लोग पहुंच गए। मैं ने उन से कहा कि यह तो बुरा आदमी था, यह तुम लोगों को तो सदक़ह करने का हुक्म देता और उस की ओर बुलाता था, लेकिन जब तुम लोग इस के पास सदक़ह जमा करवाते थे तो यह उसे अपने पास रख लेता था और ग़रीबों को बिलकुल नहीं देता था। उन्हों ने मुझ से पूछा कि तुझे कैसे पता चला ? मैं ने कहा कि मैं तुम्हें इस के ख़ज़ाने दिखा सकता हूँ। उन्हों ने कहा तो फिर हमें दिखाओ बस मैं ने उन को (ख़ज़ाने की) जगह दिखा दी उन्हों ने वहां से सोने और चांदी के भरे हुए सात मटके निकाले। जब उन्हों ने सदक़ह (का यह हाल) देखा तो कहने लगे, अल्लाह की क़सम हम इस को कभी भी दफ़न नहीं करेंगे। तो उन्हों ने उस को सूली पर लटकाया और फिर पत्थरों से उस को संगसार किया। इस के बाद वे उस की जगह एक और आदमी ले आए। सलमान कहते हैं कि जो लोग पांच नमाज़ें पढ़ते थे, मैं ने उस को उन में अच्छा पाया। मैं ने उसे दुनिया से सब से अधिक बेपरवाह, आख़िरत के मआमले में सब से अधिक ध्यान करने वाला और दिन हो या रात (इबादत के मामलों को) जल्दी पूरा करने वाला पाया। मैं ने उस से ऐसी मुहब्बत की कि उस से पहले इस तरह की मुहब्बत किसी से नहीं की थी। मैं उसी के साथ कुछ समय तक ठहरा रहा। फिर उस की मौत का समय क़रीब आ पहुंचा। मैं ने उस से कहा कि मैं तेरे साथ रहा और मैं ने तुझ से ऐसी मुहब्बत की कि इस से पहले इस तरह की मुहब्बत किसी से नहीं की थी। अब तेरे पास अल्लाह तआला का हुक्म (मौत) आ पहुंचा है, तू ख़ुद भी महसूस कर रहा है। अब तू मुझे किस के पास जाने की नसीहत करेगा ? और मुझे क्या हुक्म देगा ? उस ने कहा कि मेरे बेटे अल्लाह की क़सम मैं जिस धर्म का मानने वाला था, मेरी जानकारी के अनुसार कोई भी उस धर्म की पैरवी करने वाला नहीं है। लोग हलाक हो गए हैं और बदल गए हैं और जिस शरिअत को अपना रखा था उस के बहुत से मआमलों को छोड़ दिया है। हाँ एक आदमी मूसल में है वह भी इसी धर्म का मानने वाला है, बस तू उस के पास चले जाना जब वह मर गया और उसे दफ़न कर दिया गया तो मैं मूसल वाले आदमी के पास पहुंच गया। मैं ने उस से कहा कि फ़लां आदमी ने मौत के समय मुझे वसीयत की थी कि मैं तुझ से मिलूं। उस ने मुझे बतलाया था कि तुम भी उस के धर्म के मानने वाले हो। उस ने मुझ से कहा (ठीक है) तुम मेरे पास रुक सकते हो। बस मैं उस के साथ रहने लगा, मैं ने उसे सबसे अछा आदमी पाया जो अपने साथी के धर्म का पाबंद था। फिर उस की मौत का समय भी आ पहुंचा जब उस पर मौत की घड़ी आ पहुंची तो मैं ने कहा कि फ़लां ने तो मुझे तेरे बारे में वसीयत की थी और मुझे हुक्म दिया था कि तेरे साथ में रहूं। अब अल्लाह तआला की ओर से जो कुछ होने वाला है वह तू देख रहा है। इस लिए मुझे क्या वसीयत करेगा और क्या हुक्म देगा कि मैं किस के पास जाऊँ ? उस ने कहा कि बेटा, अल्लाह की क़सम मेरी जानकारी के अनुसार तो हमारे धर्म का पाबंद केवल एक आदमी है, जो नसीबीन में है। (मेरी मौत के बाद) उस के पास चले जाना। बस जब वह मर गया और उसे दफ़न कर दिया गया तो मैं नसीबीन वाले आदमी के पास पहुंच गया। मैं उस के पास आया और उसे अपने बारे में और पिछले आदमी के हुक्म के बारे में बताया। उस ने कहा कि मेरे पास रुक जाइये। तो मैं उस के पास ठहर गया। मैं ने उस को पिछले दोनों आदमियों के धर्म का पाबंद पाया। वह सबसे अछा आदमी था जिस के साथ में रहने लगा। लेकिन अल्लाह की क़सम उस की मौत का समय जल्दी आ गया। जब उस की मौत का समय आया तो मैं ने उस से कहा कि फ़लां (आदमी) ने मुझे फ़लां के (साथ रहने की) नसीहत की थी, फिर उस ने तेरे पास आने की नसीहत की अब तू मुझे किस के पास जाने की वसीयत करेगा या क्या हुक्म देगा ? उस ने कहा ऐ मेरे बेटे मुझे तो ऐसे आदमी के बारे में कोई जानकारी नहीं है, जो हमारे धर्म का पाबंद हो कि तू उस के पास जा सके। लेकिन एक आदमी अमुरियह में है। वह धर्म के मआमले में हमारी तरह का है। यदि तू चाहता है तो उस के पास चले जाना, क्योंकि वह हमारे धर्म का पाबंद है। बस जब वह भी मर गया और उसे दफ़न कर दिया गया, तो मैं अमुरियह वाले (आदमी) के पास पहुंच गया और उसे अपना सारा माजरा सुनाया। उस ने कहा कि तुम मेरे पास रुक जाओ तो मैं उस के साथ रहने लगा ओर उस को उस के साथियों के धर्म का पाबंद पाया। हज़रत सलमान रज़ि अल्लाहु अन्ह कहते हैं कि मैं ने उस के पास रह कर कमाई भी की, यहां तक कि मैं कुछ गायों और बकरियों का मालिक बन गया लेकिन उस पर भी अल्लाह तआला का हुक्म आ पहुंचा। जब उस की मौत का समय क़रीब आ पहुंचा तो मैं ने उस से कहा मैं फ़लां (आदमी) के पास था, फ़लां ने मुझे फ़लां के बारे में, फ़लां ने फ़लां के बारे में और उस ने तेरे पास आने की वसीयत की थी। अब तू मुझे किस (के साथ रहने) की वसीयत करेगा ? और मुझे क्या हुक्म देगा ? उस ने कहा ऐ मेरे बेटे मैं तो किसी ऐसे व्यक्ति को नहीं जानता जो हमारे धर्म का पाबंद हो और जिस के बारे में मैं तुझे हुक्म दे सकूं। लेकिन अब एक नबी के आने का समय क़रीब आ चूका है, उसे दीन इब्राहीमी के साथ भेजा जाए गा, वह अरबों की ज़मीन पर आए गा और ऐसे (शहर) की ओर हिजरत करेगा जो दो हिरों (यानि काले पत्थर वाली ज़मीनों) के बीच में होगा और उन के बीच खजूरों के पेड़ होंगे। उस की और निशानियां भी होंगी, जो छुपी नहीं होंगी। वह भेंट (यानि उपहार के रूप में दी गई चीज़) खाए गा, सदक़ह नहीं खाए गा और उस के कंधों के बीच ख़त्म नबवत की महर होगी। यदि तुझ में क्षमता है तो (अरब के) उन क्षेत्रों तक पहुंच जा। हज़रत सलमान रज़ि अल्लाहु अन्ह कहते हैं फिर वह मर गया और उसे दफ़न कर दिया गया। जब तक अल्लाह तआला को स्वीकार था, मैं अमुरियह में रहता रहा। फिर मेरे पास से बनि कल्ब क़बीले का एक व्यापारिक कारवां गुज़रा। मैं ने उन से कहा, यदि तुम मुझे अरब की ज़मीन की ओर ले जाओ तो मैं तुम को अपनी गायें और बकरियां दे दूँगा ? उन्हों ने कहा कि ठीक है, बस मैं ने अपनी गायें और बकरियां उन को देदीं और उन्हों ने मुझे अपने साथ मिला लिया। जब वह मुझे घाटी क़ुरा तक लेकर पहुंचे तो उन्हों ने मुझ पर ज़ुल्म किया और ग़ुलाम के तोर पर एक यहूदी के हाथ बेच दिया। बस मैं उस के पास ठहर गया। जब मैं ने खजूरों के पेड़ देखे तो मुझे आशा होने लगी कि यह वही शहर है जो मेरे साथी ने बताया था, लेकिन विश्वास नहीं हो रहा था। एक दिन उस यहूदी का चचेरा भाई, जिस का संबंध बनि क़ुरैज़ह से था, मदीने से उस के पास आया और मुझे ख़रीद कर अपने पास मदीने ले गया। अल्लाह की क़सम जब मैं ने मदीने को देखा तो अपने साथी की बताई हुई निशनियों की रौशनी में उस को पहचान गया। मैं वहां रहने लगा। इधर अल्लाह तआला ने अपने रसूल को मक्का मुकर्रमा में भेज दिया, जितने दिन उन्हों ने वहां ठहरना था, वह ठहरे लेकिन मैं ने उन के आने के बारे में कुछ न सुना, दूसरी बात यह भी है कि मैं ग़ुलामी वाले कामों में लगा रहता था आख़िरकार नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम हिजरत कर के मदीने आए। अल्लाह की क़सम (एक दिन) मैं अपने आक़ा के फलदार खजूर के पेड़ की चोटी पर कोई काम कर रहा था, मेरा मालिक बेठा हुआ था उस का चचेरा भाई अचानक उस के पास आया और कहने लगा कि अल्लाह तआला बनि क़ेलह को हलाक करे, वह क़बा में मक्का से आने वाले एक आदमी के पास जमा हैं और उन का विचार है कि वह नबी है। जब मैं ने उस की यह बात सुनी तो मुझ पर इस हद तक कपकपी तारी हो गई कि मुझे यह गुमान होने लगा कि अपने मालिक पर गिर जाऊँ गा। मैं खजूर के पेड़ से उतरा और उस के चचेरे भाई से कहने लगा कि तुम क्या कह रहे हो ? तुम क्या कह रहे हो ? इस बात से मेरे आक़ा को ग़ुस्सा आया और उस ने मुझे ज़ोर से मुक्का मारा और कहा कि तेरा इस बात से क्या संबंध है। जा, अपना काम कर। मैं ने कहा कि कोई संबंध नहीं, बस ज़रा बात की छान बीन करना चाहता था। हज़रत सलमान रज़ि अल्लाहु अन्ह कहते हैं कि मेरे पास मेरा जमा किया हुआ कुछ माल था। जब शाम हुई तो मैं ने वह माल लिया और क़बा में रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के पास पहुंच गया। मैं आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के पास पहुंचा और कहा कि मुझे यह बात पता चली है कि आप कोई नेक आदमी हैं और आप के अस्हाब ग़रीब और ज़रूरतमंद लोग हैं। यह मेरे पास कुछ सदक़ह का माल है, मैं ने आप लोगों को ही इस का अधिक हक़दार समझा है। फिर मैं ने वह माल आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के आगे किया लेकिन आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने अपने सहाबा से फ़रमाया ! “तुम लोग खा लो।” आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने ख़ुद अपना हाथ रोक लिया और न खाया। मैं ने दिल में कहा कि (इस ख़ुदा के बंदे के नबी होने की) एक निशानी तो (पूरी हो गई है)। फिर मैं चला गया और अधिक कुछ माल जमा किया। अब रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम मदीने में ही रहने लगे थे। फिर (वह माल लेकर) मैं आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के पास आया और कहा कि में समझता हूँ कि आप सदक़ह का माल नहीं खाते, इस लिये यह भेंट (यानि उपहार) है, मैं इस के माध्यम से आप की इज़्ज़त करना चाहता हूँ। रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने वह चीज़ ख़ुद भी खाई और अपने सहाबा को भी खाने का हुक्म दिया, तो उन्हों ने भी खाई। (यह देख कर) मैं ने दिल में कहा कि दो निशानियाँ (पूरी हो गईं हैं)। (‏‏‏‏हज़रत सलमान रज़ि अल्लाहु अन्ह कहते हैं) मैं (तीसरी दफ़ा) जब रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के पास आया तो वह “बक़ीअ अल-ग़रक़द” में थे। आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम किसी सहाबी के जनाज़े के लिये वहां आए हुए थे, आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम पर दो चादरें थीं। आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम अपने अस्हाब के साथ थे। मैं ने आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम को सलाम किया, फिर आप की पीठ पर नज़र डालने के लिये घूमा, ताकि (देख सकूं कि) क्या वह (ख़त्म नबवत वाली) महर भी है, जिस की भविष्यवाणी मेरे साथी ने की थी। जब रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ‏‏‏‏ ने मुझे घूमते हुए देखा तो आप पहचान गए कि मैं आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के किसी मआमले की खोज में हूँ, बस आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने अपनी चादर अपनी पीठ से हटा दी, मैं ने मुहर नबवत देखी और उसे पहचान गया। फिर मैं आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम पर टूट पड़ा और आप के चुम्बन लेने और रोने लगा। रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने मुझ से फ़रमाया ! “पीछे हटो” बस में पीछे हट गया। ऐ इब्न अब्बास फिर मैं ने आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम को अपना सारा माजरा इसी तरह सुनाया, जैसे तुझे सुनाया है और रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम को यह बात अच्छी लगी कि यह घटना आप के सहाबा भी सुनें। फिर हज़रत सलमान रज़ि अल्लाहु अन्ह ग़ुलामी के कामों में लगे रहे और ग़ज़वह बदर और ग़ज़वह ओहद में रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के साथ शरीक न हो सके। (‏‏‏‏ हज़रत सलमान रज़ि अल्लाहु अन्ह कहते हैं) एक दिन रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने मुझ से फ़रमाया ! “सलमान (अपने मालिक से) मुकतिबत करलो।” बस मैं ने अपने आक़ा से इस बात पर मुकतिबत करली कि मैं उस के लिये तीन सौ खजूर के छोटे पेड़ ज़मीन से उखाड़ कर उस की जगह पर लगाऊँ गा और चालीस ओक़िये भी दूँगा। रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “अपने भाई (‏‏‏‏सलमान) की सहायता करो। लोगों ने सहायता करते हुए मुझे खजूरों के पेड़ दिए। किसी ने तीस किसी ने बीस किसी ने पन्द्रह किसी ने अपनी क्षमता के बराबर मुझे खजूरों के छोटे पेड़ दिए, यहां तक कि मेरे पास तीन सौ खजूर के पेड़ जमा हो गए। रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने मुझ से फ़रमाया ! “‏‏‏‏ सलमान, जाओ और खुदाई करो और जब कर चुको तो मेरे पास आजाना (इन पौधों को) मैं ख़ुद लगाऊँ गा।‏‏‏‏ (हज़रत सलमान रज़ि अल्लाहु अन्ह कहते हैं कि) मैं ने गड्ढे खोदे, मेरे साथियों ने मेरा सहयोग किया। जब काम पूरा हो गया तो मैं आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के पास आया और आप को बताया। रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम मेरे साथ निकले हम (खजूरों के) पौधे आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के क़रीब करते थे और आप अपने हाथ से उन को लगा देते थे। उस ज़ात की क़सम जिस के हाथ में सलमान की जान है उन में से खजूर का एक पौधा भी न मरा। अब मैं खजूर के छोटे पेड़ तो लगा चूका था और (चालीस ओक़ियों वाला) मआमला बाक़ी था। किसी लड़ाई से रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के पास मुर्ग़ी के अंडे के बराबर सोना लाया गया। आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने पूछा ! “मुकतिबत करने वाला (सलमान) फ़ारसी क्या कर रहा है ?” मुझे बुलाया गया, आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “सलमान, यह लो और अपनी ज़िम्मेदारी पूरी करो।” मैं ने कहा कि ऐ अल्लाह के रसूल मुझ पर जितना (क़र्ज़ा) है, इस से कैसे पूरा होगा ? (यानि क़र्ज़ बहुत अधिक है)। आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “यह तोलो, जल्द ही अल्लाह तआला तुम्हारा (क़र्ज़ा) भी पूरा कर देगा।” इस ज़ात की क़सम जिस के हाथ में सलमान की जान है, मैं ने वह ले लिया और उस में से उन आक़ाओं को चालीस ओक़िये तोल कर दे दिए, उन का पूरा हक़ दे दिया और मुक्त हो गया। फिर मैं रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के साथ ग़ज़्वह ख़ंदक़ में गया और इस के बाद कोई ग़ज़वा मुझ से न रह सका।
سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی: 894

قال الشيخ الألباني:
- " أعينوا أخاكم. يعني سلمان في مكاتبته ".
‏‏‏‏_____________________
‏‏‏‏
‏‏‏‏هو جملة من حديث سلمان الفارسي رضي الله عنه يرويه عبد الله بن عباس قال:
‏‏‏‏حدثني سلمان الفارسي حديثه من فيه قال:
‏‏‏‏" كنت رجلا فارسيا من أهل أصبهان من
‏‏‏‏أهل قرية يقال لها (جي) وكان أبي دهقان قريته، وكنت أحب خلق الله إليه،
‏‏‏‏فلم يزل به حبه إياي حتى حبسني في بيته، أي ملازم النار كما تحبس الجارية
‏‏‏‏وأجهدت في المجوسية حتى كنت قطن النار التي يوقدها لا يتركها تخبو ساعة، قال
‏‏‏‏: وكانت لأبي ضيعة عظيمة، قال: فشغل في بنيان له يوما، فقال لي: يا بني
‏‏‏‏إني قد شغلت في بنيان هذا اليوم عن ضيعتي، فاذهب فاطلعها وأمرني فيها ببعض ما
‏‏‏‏يريد، فخرجت أريد ضيعته، فمررت بكنيسة من كنائس النصارى، فسمعت أصواتهم فيها
‏‏‏‏وهم يصلون وكنت لا أدري ما أمر الناس لحبس أبي إياي في بيته، فلما مررت بهم
‏‏‏‏وسمعت أصواتهم دخلت عليهم أنظر ما يصنعون. قال: فلما رأيتهم أعجبتني صلاتهم
‏‏‏‏ورغبت في أمرهم، وقلت: هذا والله خير من الدين الذي نحن عليه، فو الله ما
‏‏‏‏تركتهم حتى غربت الشمس وتركت ضيعة أبي ولم آتها، فقلت لهم: أين أصل هذا
‏‏‏‏الدين؟ قالوا: بالشام، قال: ثم رجعت إلى أبي، وقد بعث في طلبي وشغلته عن
‏‏‏‏عمله كله، قال: فلما جئته قال: أي بني أين كنت؟ ألم أكن عهدت إليك ما عهدت
‏‏‏‏؟ قال: قلت: يا أبت مررت بناس يصلون في كنيسة لهم فأعجبني ما رأيت من دينهم،
‏‏‏‏فو الله ما زلت عندهم حتى غربت الشمس، قال: أي بني ليس في ذلك الدين خير،
‏‏‏‏دينك ودين آبائك وأجدادك خير منه، قال: قلت: كلا والله إنه خير من ديننا
‏‏‏‏، قال: فخافني، فجعل في رجلي قيدا، ثم حبسني بيته. قال: وبعثت إلى
‏‏‏‏النصارى فقلت لهم: إذا قدم عليكم ركب من الشام تجار من النصارى فأخبروني بهم،
‏‏‏‏قال فقدم عليهم ركب من الشام تجار من النصارى، قال: فأخبروني بهم، فقلت لهم
‏‏‏‏: إذا قضوا حوائجهم وأرادوا الرجعة إلى بلادهم فآذنوني بهم، فلما أرادوا
‏‏‏‏الرجعة إلى بلادهم أخبروني بهم، فألقيت الحديد من رجلي، ثم خرجت معهم حتى
‏‏‏‏قدمت الشام، فلما قدمتها قلت: من أفضل أهل هذا الدين؟ قالوا: الأسقف في
‏‏‏‏الكنيسة. قال: فجئته، فقلت: إني قد رغبت في هذا الدين وأحببت أن أكون معك
‏‏‏‏أخدمك في كنيستك وأتعلم منك وأصلي معك، قال: فادخل، فدخلت معه، قال:
‏‏‏‏__________جزء : 2 /صفحہ : 556__________
‏‏‏‏
‏‏‏‏فكان رجل سوء، يأمرهم بالصدقة ويرغبهم فيها، فإذا جمعوا إليه منها أشياء
‏‏‏‏اكتنزه لنفسه ولم يعطه المساكين حتى جمع سبع قلال من ذهب وورق، قال:
‏‏‏‏وأبغضته بغضا شديدا لما رأيته يصنع، ثم مات، فاجتمعت إليه النصارى ليدفنوه،
‏‏‏‏فقلت لهم: إن هذا كان رجل سوء يأمركم بالصدقة ويرغبكم فيها، فإذا جئتموه بها
‏‏‏‏اكتنزها لنفسه ولم يعط المساكين منها شيئا، قالوا: وما علمك بذلك؟ قال:
‏‏‏‏قلت: أنا أدلكم على كنزه، قالوا: فدلنا عليه، قال: فأريتهم موضعه، قال:
‏‏‏‏فاستخرجوا منه سبع قلال مملوءة ذهبا وورقا، فلما رأوها قالوا: والله لا
‏‏‏‏ندفنه أبدا، فصلبوه، ثم رجموه بالحجارة. ثم جاؤا برجل آخر فجعلوه بمكانه قال
‏‏‏‏يقول سلمان: فما رأيت رجلا لا يصلي الخمس أرى أنه أفضل منه، أزهد في الدنيا
‏‏‏‏ولا أرغب في الآخرة ولا أدأب ليلا ونهارا منه، قال: فأحببته حبا لم أحبه
‏‏‏‏من قبله وأقمت معه زمانا ثم حضرته الوفاة، فقلت له: يا فلان إني كنت معك،
‏‏‏‏وأحببتك حبا لم أحبه من قبلك، وقد حضرك ما ترى من أمر الله، فإلى من توصي بي
‏‏‏‏وما تأمرني؟ قال: أي بني! والله ما أعلم أحدا اليوم على ما كنت عليه، لقد
‏‏‏‏هلك الناس وبدلوا وتركوا أكثر ما كانوا عليه إلا رجلا بالموصل وهو فلان،
‏‏‏‏فهو على ما كنت عليه فالحق به. قال: فلما مات وغيب لحقت بصاحب الموصل، فقلت
‏‏‏‏له: يا فلان إن فلانا أوصاني عند موته أن ألحق بك وأخبرني أنك على أمره. قال
‏‏‏‏: فقال لي: أقم عندي، فأقمت عنده فوجدته خير رجل على أمر صاحبه، فلم يلبث أن
‏‏‏‏مات فلما حضرته الوفاة قلت له: يا فلان إن فلانا أوصى بي إليك وأمرني باللحوق
‏‏‏‏بك، وقد حضرك من الله عز وجل ما ترى، فإلى من توصي بي وما تأمرني؟ قال:
‏‏‏‏أي بني والله ما أعلم رجلا على مثل ما كنا عليه إلا رجلا بنصيبين وهو فلان،
‏‏‏‏فالحق به. فلما مات وغيب، لحقت بصاحب نصيبين فجئته، فأخبرته بخبرى، وما
‏‏‏‏أمرني به صاحبي، قال: فأقم عندي، فأقمت عنده، فوجدته على أمر صاحبيه،
‏‏‏‏فأقمت مع خير رجل، فو الله ما لبث أن نزل به الموت، فلما حضر، قلت له: يا
‏‏‏‏فلان! إن فلانا كان أوصى بي إلى فلان، ثم أوصى بي فلان إليك، فإلى من توصي
‏‏‏‏بي وما تأمرني؟ قال: أي بني! والله ما نعلم أحدا بقي على أمرنا آمرك أن
‏‏‏‏تأتيه إلا رجلا بعمورية، فإنه بمثل ما نحن عليه، فإن أحببت فأته، قال: فإنه
‏‏‏‏على أمرنا. قال: فلما مات وغيب لحقت بصاحب عمورية وأخبرته خبري، فقال:
‏‏‏‏أقم عندي، فأقمت مع رجل على هدي أصحابه وأمرهم. قال: واكتسبت حتى كان لي
‏‏‏‏بقرات وغنيمة، قال: ثم نزل به أمر الله، فلما حضر، قلت له: يا فلان إني
‏‏‏‏كنت مع فلان، فأوصى بي فلان إلى فلان، وأوصى بي فلان إلى فلان، ثم أوصى بي
‏‏‏‏فلان إليك، فإلى من توصي وما تأمرني؟
‏‏‏‏__________جزء : 2 /صفحہ : 557__________
‏‏‏‏
‏‏‏‏قال: أي بني ما أعلم أصبح على ما كنا
‏‏‏‏عليه أحد من الناس آمرك أن تأتيه ولكنه قد أظلك زمان نبي هو مبعوث بدين
‏‏‏‏إبراهيم، يخرج بأرض العرب، مهاجرا إلى أرض بين حرتين، بينهما نخل به علامات
‏‏‏‏لا تخفى، يأكل الهدية ولا يأكل الصدقة، بين كتفيه خاتم النبوة، فإن استطعت
‏‏‏‏أن تلحق بتلك البلاد فافعل. قال: ثم مات وغيب، فمكثت بعمورية ما شاء الله
‏‏‏‏أن أمكث، ثم مر بي نفر من كلب تجار، فقلت لهم: تحملوني إلى أرض العرب
‏‏‏‏وأعطيكم بقراتي هذه وغنيمتي هذه؟ قالوا: نعم، فأعطيتموها وحملوني حتى إذا
‏‏‏‏قدموا بي وادي القرى ظلموني، فباعوني من رجل من اليهود عبدا فكنت عنده ورأيت
‏‏‏‏النخل، ورجوت أن تكون البلد الذي وصف لي صاحبي ولم يحق لي في نفسي، فبينما
‏‏‏‏أنا عنده قدم عليه ابن عم له من المدينة من بني قريظة، فابتاعني منه واحتملني
‏‏‏‏إلى المدينة، فو الله ما هو إلا أن رأيتها فعرفتها بصفة صاحبي، فأقمت بها.
‏‏‏‏وبعث الله رسوله، فأقام بمكة ما أقام لا أسمع له بذكر، مع ما أنا فيه من شغل
‏‏‏‏الرق، ثم هاجر إلى المدينة، فو الله إني لفي رأس عذق لسيدي أعمل فيه بعض
‏‏‏‏العمل، وسيدي جالس إذ أقبل ابن عم له حتى وقف عليه فقال: فلان! قاتل الله
‏‏‏‏بني قيلة، والله إنهم الآن لمجتمعون بقباء على رجل قدم عليهم من مكة اليوم،
‏‏‏‏يزعمون أنه نبي، قال: فلما سمعتها أخذتني العرواء حتى ظننت أني سأسقط على
‏‏‏‏سيدي، قال: ونزلت عن
‏‏‏‏__________جزء : 2 /صفحہ : 558__________
‏‏‏‏
‏‏‏‏النخلة فجعلت أقول لابن عمه ذلك: ماذا تقول ماذا تقول
‏‏‏‏؟ قال: فغضب سيدي فلكمني لكمة شديدة، ثم قال: مالك ولهذا؟ ! أقبل على عملك
‏‏‏‏. قال: قلت: لا شيء إنما أردت أن أستثبت عما قال. وقد كان عندي شيء قد
‏‏‏‏جمعته، فلما أمسيت أخذته، ثم ذهبت به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو
‏‏‏‏بقباء، فدخلت عليه فقلت له: إنه قد بلغني أنك رجل صالح، ومعك أصحاب لك
‏‏‏‏غرباء ذوو حاجة وهذا شيء كان عندي للصدقة، فرأيتكم أحق به من غيركم، قال:
‏‏‏‏فقربته إليه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لأصحابه: كلوا، وأمسك يده
‏‏‏‏فلم يأكل، قال: فقلت في نفسي: هذه واحدة، ثم انصرفت عنه، فجمعت شيئا،
‏‏‏‏وتحول رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى المدينة، ثم جئت به فقلت: إني رأيتك
‏‏‏‏لا تأكل الصدقة وهذه هدية أكرمتك بها، قال: فأكل رسول الله صلى الله عليه
‏‏‏‏وسلم منها وأمر أصحابه فأكلوا معه، قال: فقلت في نفسي: هاتان اثنتان، ثم
‏‏‏‏جئت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو ببقيع الغرقد قال: وقد تبع جنازة من
‏‏‏‏أصحابه عليه شملتان له وهو جالس في أصحابه، فسلمت عليه، ثم استدرت أنظر إلى
‏‏‏‏ظهره هل أرى الخاتم الذي وصف لي صاحبي، فلما رآني رسول الله صلى الله عليه
‏‏‏‏وسلم استدرته عرف أني أستثبت في شيء وصف لي، قال: فألقى رداءه عن ظهره،
‏‏‏‏فنظرت إلى الخاتم، فعرفته، فانكببت عليه أقبله وأبكي، فقال لي رسول الله
‏‏‏‏صلى الله عليه وسلم : تحول، فتحولت، فقصصت عليه حديثي - كما حدثتك يا ابن
‏‏‏‏عباس - قال: فأعجب رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يسمع ذلك أصحابه.
‏‏‏‏ثم شغل سلمان الرق حتى فاته مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بدر وأحد، قال:
‏‏‏‏ثم قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم : كاتب يا سلمان! فكاتبت صاحبي على
‏‏‏‏ثلاثمائة نخلة أحييها له بالفقير، بأربعين أوقية، فقال رسول الله صلى الله
‏‏‏‏عليه وسلم: " أعينوا أخاكم " فأعانوني بالنخل، الرجل بثلاثين ودية والرجل
‏‏‏‏بعشرين
‏‏‏‏__________جزء : 2 /صفحہ : 559__________
‏‏‏‏
‏‏‏‏والرجل بخمس عشرة والرجل بعشر. يعني الرجل بقدر ما عنده - حتى اجتمعت
‏‏‏‏لي ثلاثمائة ودية، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم : اذهب يا سلمان ففقر
‏‏‏‏لها، فإذا فرغت فأتني أكون أنا أضعها بيدي، ففقرت لها وأعانني أصحابي حتى
‏‏‏‏إذا فرغت منها جئته، فأخبرته، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم معي إليها،
‏‏‏‏فجعلنا نقرب له الودي، ويضعه رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده، فوالذي نفس
‏‏‏‏سلمان بيده ما ماتت منها ودية واحدة، فأديت النخل وبقي على المال، فأتى رسول
‏‏‏‏الله صلى الله عليه وسلم بمثل بيضة الدجاجة من ذهب من بعض المغازي، فقال: ما
‏‏‏‏فعل الفارسي المكاتب؟ . قال: فدعيت له، فقال: خذ هذه فأد بها ما عليك يا
‏‏‏‏سلمان! فقلت: وأين تقع هذه يا رسول الله مما علي؟ قال: خذها، فإن الله
‏‏‏‏عزوجل سيؤدي بها عنك، قال: فأخذتها فوزنت لهم منها - والذي نفس سلمان بيده -
‏‏‏‏أربعين أوقية، فأوفيتهم حقهم وعتقت، فشهدت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم
‏‏‏‏الخندق ثم لم يفتني معه مشهد ".
‏‏‏‏أخرجه أحمد (5 / 441 - 444) وابن سعد في " الطبقات " (4 / 53 - 57 من طريق
‏‏‏‏ابن إسحاق حدثني عاصم بن عمر بن قتادة الأنصاري عن محمود بن لبيد عن عبد الله
‏‏‏‏بن عباس.
‏‏‏‏قلت: وهذا إسناد حسن وأورده الهيثمي في " المجمع " (9 / 332 - 336) فقال:
‏‏‏‏رواه أحمد كله والطبراني في الكبير بنحوه و


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.