(مرفوع) حدثنا سعيد بن ابي مريم، قال: حدثنا ابو غسان، قال: حدثني ابو حازم، عن سهل، قال:" كنا نصلي مع النبي صلى الله عليه وسلم الجمعة ثم تكون القائلة".(مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ، عَنْ سَهْلٍ، قَالَ:" كُنَّا نُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجُمُعَةَ ثُمَّ تَكُونُ الْقَائِلَةُ".
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوغسان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوحازم نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے بیان کیا، انہوں نے بتلایا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمعہ پڑھتے، پھر دوپہر کی نیند لیا کرتے تھے۔
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 941
حدیث حاشیہ: حضرت امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وَظَاهِرُ ذَلِكَ أَنَّهُمْ كَانُوا يُصَلُّونَ الْجُمُعَةَ بَاكِرَ النَّهَارِ.قَالَ الْحَافِظُ: لَكِنَّ طَرِيقَ الْجَمْعِ أَوْلَى مِنْ دَعْوَى التَّعَارُضِ، وَقَدْ تَقَرَّرَ أَنَّ التَّبْكِيرَ يُطْلَقُ عَلَى فِعْلِ الشَّيْءِ فِي أَوَّلِ وَقْتِهِ أَوْ تَقْدِيمِهِ عَلَى غَيْرِهِ وَهُوَ الْمُرَادُ هُنَا. وَالْمَعْنَى: أَنَّهُمْ كَانُوا يَبْدَءُونَ بِالصَّلَاةِ قَبْلَ الْقَيْلُولَةِ، بِخِلَافِ مَا جَرَتْ بِهِ عَادَتُهُمْ فِي صَلَاةِ الظُّهْرِ فِي الْحَرِّ، فَإِنَّهُمْ كَانُوا يَقِيلُونَ ثُمَّ يُصَلُّونَ لِمَشْرُوعِيَّةِ الْإِبْرَادِ اهـ. وَالْمُرَادُ بِالْقَائِلَةِ الْمَذْكُورَةِ فِي الْحَدِيثِ: نَوْمَ نِصْفِ النَّهَارِ قَوْلُهُ۔ (نیل الأوطار) یعنی ظاہر یہ کہ وہ صحابی کرام جمعہ کی نماز چڑھتے ہوئے دن میں ادا کرلیتے تھے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تعارض پیدا کرنے سے بہتر ہے کہ ہردو قسم کی احادیث میں تطبیق دی جائے اور یہ مقرر ہو چکا ہے کہ تبکیر کا لفظ کسی کام کو اس کے اول وقت میں کرنے یا غیر پر اسے مقدم کرنے پو بولا جاتا ہے اور یہاں یہی مراد ہے کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جمعہ کی نماز روزانہ کی عادت قیلولہ کے اول وقت میں پڑھ لیا کرتے تھے حالانکہ گرمیوں میں ان کی عادت تھی کہ وہ ٹھنڈا کرنے کے خیال سے پہلے قیلولہ کرتے بعد میں ظہر کی نماز پڑھتے مگر جمعہ کی نماز بعض دفعہ خلاف عادت قیلولہ سے پہلے ہی پڑھ لیا کرتے تھے، قیلولہ دوپہر کے سونے پر بولا جاتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جمعہ کو بعد زوال اول وقت پڑھنا ان روایات کا مطلب اور منشا ہے۔ اس طرح جمعہ اول وقت اورآخر وقت ہر دو میں پڑھا جا سکتا ہے بعض حضرات قبل زوال بھی جمعہ کے قائل ہیں۔ مگر ترجیح بعد زوال ہی کو ہے اور یہی امام بخاری ؒ کا مسلک معلوم ہوتا ہے۔ ایک طویل تفصیل کے بعد حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث ؒ فرماتے ہیں: وقد ظهر بما ذكرنا أنه ليس في صلاة الجمعة قبل الزوال حديث صحيح صريح. فالقول الراجح هو ما قال به الجمهور. قال شيخنا في شرح الترمذي: والظاهر المعول عليه هو ما ذهب إليه الجمهور من أنه لا تجوز الجمعة إلا بعد زوال الشمس. وأما ما ذهب إليه بعضهم من أنها تجوز قبل الزوال فليس فيه حديث صريح انتھیٰ۔ (مرعاة ج: 2 ص: 203) خلاصہ یہ ہے کہ جمعہ زوال سے پہلے درست نہیں اسی قول کو ترجیح حاصل ہے۔ زوال سے پہلے جمعہ کے صحیح ہونے میں کوئی حدیث صحیح صریح وارد نہیں ہوئی پس جمہور ہی کا مسلک صحیح ہے۔ (واللہ أعلم با لصواب)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 941
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:941
حدیث حاشیہ: (1) ان احادیث کی اپنے عنوان سے مطابقت ظاہر ہے کیونکہ ان سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نماز جمعہ کے بعد قیلولہ کیا کرتے تھے اور اول وقت نماز جمعہ کے لیے گھروں سے روانہ ہو جاتے تھے، لفظ تبکیر کے یہی معنی ہیں کہ کسی کام کے لیے جلدی کرنا۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دوپہر کے وقت سونا پسندیدہ امر ہے، خود اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن پاک میں اس کا ذکر فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَةِ ﴾”اور ظہر کے وقت جب تم (آرام کرنے کے لیے) اپنے کپڑے اتارتے ہو۔ “(النور58: 24) اس آیت میں قیلولہ کرنے کا بیان ہے۔ (عمدة القاري: 131/5)(2) براعت الاختتام! قیلولے کا حکم تو حدیث انس میں آ چکا تھا لیکن امام بخاری ؒ نے حدیث سہل ؓ بیان کی ہے اور اس کے آخر میں (ثم تكون القائلة) کے الفاظ سے براعت الاختتام کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ کتاب کے اختتام پر ایسا لفظ بیان کرتے ہیں جس سے آخرت اور موت کی یاد دہانی ہو، چنانچہ مشہور ہے کہ نیند، موت کی بہن ہے، اس طرح امام بخاری ؒ نے موت کے لیے تیار رہنے کی تنبیہ فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا و آخرت میں سرخ رو کرے اور ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے۔ آمین
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 941
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1099
´جمعہ کے وقت کا بیان۔` سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم جمعہ کے بعد ہی قیلولہ کرتے، اور دوپہر کا کھانا کھایا کرتے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1099]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) قیلولے کا وقت دوپہر ہے۔ لیکن جمعے کے دن صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین اس وقت آرام نہیں کرتے تھے۔ تاکہ جمعے کے لئے اول وقت حاضر ہوسکیں۔
(2) کھانا بھی نماز کے بعد تک موخر کرنے کی یہی وجہ ہے ممکن ہے کہ اس وجہ سے بھی کھانا بعد میں کھاتے ہوں۔ کہ اگر پہلے کھانا کھا لیا توخطبے کے دوران میں نیند کا غلبہ ہوجائے گا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1099