اور ابوسعید بن ابی مریم نے کہا کہ ہمیں نافع بن یزید نے خبر دی انہوں نے کہا کہ مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے بیان کیا کہ ابن شہاب زہری نے انہیں لکھ بھیجا کہ مجھ سے ہند بنت حارث فراسیہ نے بیان کیا اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک بیوی ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے (ہند ان کی صحبت میں رہتی تھیں) انہوں نے فرمایا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرتے تو عورتیں لوٹ کر جانے لگتیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اٹھنے سے پہلے اپنے گھروں میں داخل ہو چکی ہوتیں۔
Ibn Shihab wrote that he had heard it from Hind bint Al-Harith Al-Firasiya from Um Salama, the wife of the Prophet (Hind was from the companions of Um Salama) who said, "When the Prophet finished the prayer with Taslim, the women would depart and enter their houses before Allah's Apostle departed."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 12, Number 809
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 850
حدیث حاشیہ: ان سندوں کے بیان کرنے سے حضرت امام بخاری ؒ کی غرض یہ ہے کہ ہند کی نسبت کا اختلاف ثابت کریں کسی نے ان کو فراسیہ کہا کسی نے قرشیہ اور رد کیا اس شخص پر جس نے قرشیہ کو تصحیف قرار دیاکیونکہ لیث کی روایت میں اس کے قرشیہ ہونے کی تصریح ہے مگر لیث کی روایت موصول نہیں ہے اس لیے کہ ہند فراسیہ یا قرشیہ نے آنحضرت ﷺ سے نہیں سنا مقصد باب وحدیث ظاہر ہے کہ جہاں فرض نماز پڑھی گئی ہو وہاں نفل بھی پڑھی جا سکتی ہے مگر دیگر روایات کی بنا پر ذرا جگہ بدل لی جائے یا کچھ کلام کر لیا جائے تاکہ فرض اور نفل نمازوں میں اختلاط کا وہم نہ ہوسکے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 850
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:850
حدیث حاشیہ: (1) حدیث بیان کرنے کے بعد امام بخاری ؒ نے سندوں کا اختلاف بیان کیا ہے تاکہ ہند کی نسبت کا اختلاف بیان کیا جائے۔ کسی راوی نے اسے فراسیہ اور کسی نے اسے قرشیہ قرار دیا ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس شخص کی تردید کی ہے جو قرشیہ کو تصحیف قرار دیتا ہے کیونکہ لیث کی روایت میں اس کے قرشیہ ہونے کی تصریح ہے لیکن یہ روایت موصول نہیں۔ بہرحال ہند فراسیہ یا قرشیہ نے براہ راست رسول اللہ ﷺ سے کچھ نہیں سنا۔ (2) امام بخاری ؒ کا ان احادیث کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جہاں فرض پڑھے گئے ہوں وہاں نفل وغیرہ بھی پڑھے جا سکتے ہیں، تاہم بہتر ہے کہ دیگر صحیح روایات کے پیش نظر ذرا جگہ تبدیل کر لی جائے یا کچھ گفتگو کر لی جائے تاکہ فرض اور نفل نماز میں اختلاط کا وہم نہ ہو۔ واللہ أعلم۔ (3) اس حدیث سے درج ذیل مسائل معلوم ہوتے ہیں: ٭ امام کو چاہیے کہ وہ مقتدی حضرات کا پورا پورا خیال رکھے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ خواتین کا خیال رکھتے تھے۔ ٭ ہر اس سبب سے اجتناب کرنا چاہیے جو انسان کو کسی ممنوع کام تک پہنچا دینے والا ہو۔ ٭ ایسے مقامات سے احتراز کرنا چاہیے جہاں انسان پر تہمت یا کوئی الزام لگنے کا خطرہ ہو۔ ٭ راستے میں مردوں کا عورتوں سے اختلاط شریعت کی نظر میں انتہائی مکروہ فعل ہے۔ ٭ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں عورتیں بھی نماز باجماعت ادا کرتی تھیں۔ (فتح الباري: 434/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 850