● صحيح البخاري | 762 | حارث بن ربعي | يقرأ في الركعتين من الظهر والعصر بفاتحة الكتاب وسورة سورة ويسمعنا الآية أحيانا |
● صحيح البخاري | 779 | حارث بن ربعي | يطول في الركعة الأولى من صلاة الظهر ويقصر في الثانية ويفعل ذلك في صلاة الصبح |
● صحيح البخاري | 759 | حارث بن ربعي | يقرأ في الركعتين الأوليين من صلاة الظهر بفاتحة الكتاب وسورتين يطول في الأولى ويقصر في الثانية ويسمع الآية أحيانا وكان يقرأ في العصر بفاتحة الكتاب وسورتين وكان يطول في الأولى وكان يطول في الركعة الأولى من صلاة الصبح ويقصر في الثانية |
● صحيح البخاري | 778 | حارث بن ربعي | يقرأ بأم الكتاب وسورة معها في الركعتين الأوليين من صلاة الظهر وصلاة العصر ويسمعنا الآية أحيانا يطيل في الركعة الأولى |
● صحيح البخاري | 776 | حارث بن ربعي | يقرأ في الظهر في الأوليين بأم الكتاب وسورتين وفي الركعتين الأخريين بأم الكتاب ويسمعنا الآية يطول في الركعة الأولى ما لا يطول في الركعة الثانية وهكذا في العصر وهكذا في الصبح |
● صحيح مسلم | 1013 | حارث بن ربعي | يقرأ في الركعتين الأوليين من الظهر والعصر بفاتحة الكتاب وسورة ويسمعنا الآية أحيانا ويقرأ في الركعتين الأخريين بفاتحة الكتاب |
● صحيح مسلم | 1012 | حارث بن ربعي | يقرأ في الظهر والعصر في الركعتين الأوليين بفاتحة الكتاب وسورتين ويسمعنا الآية أحيانا يطول الركعة الأولى من الظهر ويقصر الثانية وكذلك في الصبح |
● سنن أبي داود | 798 | حارث بن ربعي | يصلي بنا فيقرأ في الظهر والعصر في الركعتين الأوليين بفاتحة الكتاب وسورتين ويسمعنا الآية أحيانا يطول الركعة الأولى من الظهر ويقصر الثانية وكذلك في الصبح |
● سنن النسائى الصغرى | 978 | حارث بن ربعي | يقرأ في الظهر والعصر في الركعتين الأوليين بأم القرآن وسورتين وفي الأخريين بأم القرآن وكان يسمعنا الآية أحيانا يطيل أول ركعة من صلاة الظهر |
● سنن النسائى الصغرى | 975 | حارث بن ربعي | يصلي بنا الظهر فيقرأ في الركعتين الأوليين يسمعنا الآية كذلك يطيل الركعة في صلاة الظهر والركعة الأولى يعني في صلاة الصبح |
● سنن النسائى الصغرى | 979 | حارث بن ربعي | يقرأ في الظهر والعصر في الركعتين الأوليين بفاتحة الكتاب وسورتين ويسمعنا الآية أحيانا يطيل الركعة الأولى في الظهر ويقصر في الثانية وكذلك في الصبح |
● سنن النسائى الصغرى | 977 | حارث بن ربعي | يقرأ بنا في الركعتين الأوليين من صلاة الظهر ويسمعنا الآية أحيانا يطول في الأولى ويقصر في الثانية وكان يفعل ذلك في صلاة الصبح يطول في الأولى ويقصر في الثانية وكان يقرأ بنا في الركعتين الأوليين من صلاة العصر يطول الأولى ويقصر الثانية |
● سنن النسائى الصغرى | 976 | حارث بن ربعي | يقرأ بأم القرآن وسورتين في الركعتين الأوليين من صلاة الظهر وصلاة العصر ويسمعنا الآية أحيانا يطيل في الركعة الأولى |
● سنن ابن ماجه | 819 | حارث بن ربعي | يصلي بنا فيطيل في الركعة الأولى من الظهر ويقصر في الثانية وكذلك في الصبح |
● سنن ابن ماجه | 829 | حارث بن ربعي | يقرأ بنا في الركعتين الأوليين من صلاة الظهر ويسمعنا الآية أحيانا |
● بلوغ المرام | 224 | حارث بن ربعي | يصلي بنا فيقرا في الظهر والعصر في الركعتين الاوليين بفاتحة الكتاب وسورتين ويسمعنا الآية احيانا ويطول الركعة الاولى ويقرا في الاخريين بفاتحة الكتاب |
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 762
حدیث حاشیہ:
مقصود یہ ہے کہ ظہراورعصر کی نمازوں میں بھی امام اور مقتدی ہر دو کے لیے قرات سورۃ فاتحہ اورا س کے بعد پہلی دو رکعات میں کچھ اور قرآن پاک پڑھنا ضروری ہے۔
سورۃ فاتحہ کا پڑھنا تو اتناضروری ہے کہ اس کے پڑھے بغیر نماز ہی نہ ہوگی اورکچھ آیات کا پڑھنا بس مسنون طریقہ ہے۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ سری نمازوں میں مقتدیوں کو معلوم کرانے کے لیے امام اگرکبھی کسی آیت کو آواز سے پڑھ دے تواس سے سجدئہ سہو لازم نہیں آتا۔
نسائی کی روایت میں ہے کہ ہم صحابہ آپ سے سورۃ لقمان اور سورۃ والذاریات کی آیت کبھی کبھار سن لیاکرتے تھے۔
بعض روایتوں میں سورۃ سبح اسم اورسورۃ ﴿هل أتاك حدیث الغاشیة﴾ کا ذکر آیا ہے۔
بہرحال اس طرح کبھی کبھار کوئی آیت آواز سے پڑھ دی جائے توکوئی حرج نہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 762
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:762
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ احادیث پہلے گزر چکی ہیں۔
امام بخاری ؒ کا مقصود نماز عصر میں قراءت کو ثابت کرنا ہے، چنانچہ ان احادیث میں اس کی صراحت ہے۔
اس کے علاوہ حضرت جابر بن سمرہ ؓ روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز ظہر میں ﴿وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ﴾ پڑھتے تھے، ایک دوسری روایت میں ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى﴾ پڑھنے کا ذکر ہے اور عصر میں بھی اس کی مانند کوئی سورت پڑھتے تھے اور فجر میں لمبی سورتیں پڑھتے تھے۔
(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 1030،1029(460،459)
حضرت جابر بن سمرہ ؓ سے مروی ایک دوسری روایت میں رسول اللہ ﷺ کا نماز ظہر اور عصر میں ﴿وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوجِ ﴿١﴾ اور ﴿وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ ﴿١﴾ پڑھنے کا ذکر ہے۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 805) (2)
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ ان احادیث سے سری نمازوں میں بعض اوقات بآواز بلند پڑھنے کا جواز ملتا ہے اور ایسا کرنے پر سجدۂ سہو لازم نہیں ہوتا جیسا کہ احناف نے کہا ہے، خواہ رسول اللہ ﷺ بعض اوقات بیان جواز کے لیے دانستہ ایسا کرتے ہوں یا قرآن مجید میں تدبر کرتے ہوئے غیر شعوری طور پر بعض آیات کو بآواز بلند پڑھتے ہوں۔
(فتح الباري: 317/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 762
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 224
´ ظہر اور عصر کی نمازوں میں سری قرأت`
«. . . وعن ابي قتادة رضي الله عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يصلي بنا فيقرا في الظهر والعصر في الركعتين الاوليين بفاتحة الكتاب وسورتين ويسمعنا الآية احيانا ويطول الركعة الاولى ويقرا في الاخريين بفاتحة الكتاب . . .»
”. . . سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھاتے تھے تو ظہر اور عصر کی پہلی رکعتوں میں سورۃ «فاتحه» اور دو سورتیں پڑھتے تھے اور کبھی ہمیں کوئی آیت سنا بھی دیتے تھے۔ پہلی رکعت بھی لمبی کرتے تھے اور آخری دونوں رکعتوں میں صرف «فاتحة الكتاب» پڑھتے تھے . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 224]
لغوی تشریح:
«بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ» یعنی سورہ فاتحہ ہر رکعت میں پڑھتے تھے۔
«وَ سُورَتَيْنِ» ہر ایک رکعت میں ایک سورت پڑھتے۔
«يُسْمِعُنَا» إسماع سے ماخوذ ہے، یعنی ہمیں سناتے تھے۔
«أَحْيَانًا» حین کی جمع ہے، بسا اوقات، بعض اوقات۔
«يُطَوِّلُ» تطویل سے ماخوذ ہے۔ طول دینا، لمبا کرنا۔
فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ظہر اور عصر کی نمازوں میں قرأت بالاتفاق سری (خاموشی سے) ہے۔
➋ جب قرأت جہری نہیں تو پھر بعض اوقات کوئی آیت سنانے کی کیا حکمت اور وجہ ہے؟ اس میں حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ نمازیوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ آپ اس وقت قرآن مجید ہی کا کوئی حصہ تلاوت فرما رہے ہیں دوسرا کوئی ذکر یا دعا نہیں پڑھ رہے۔ دوسری یہ کہ اس کا بھی نمازیوں کو علم ہو جائے کہ اس نماز میں فلاں سورت پڑھی جارہی ہے۔ ایک مسئلہ یہ بھی اس حدیث سے مترشح ہوتا ہے کہ پہلی رکعت میں قرأت نسبتاً لمبی اور دوسری میں چھوٹی ہونی چاہیے۔ ائمہ ثلاثہ: امام احمد، امام شافعی اور امام مالک رحمہ اللہ علیہم کے ساتھ ساتھ امام محمد رحمہ اللہ کی بھی یہی رائے ہے، البتہ امام ابوحنیفہ اور ابویوسف رحمہما اللہ علیہم کے نزدیک دونوں رکعتوں میں قرأت مساوی ہونی چاہیے۔
➌ ظہر، عصر اور فجر میں تو پہلی رکعت کا لمبا ہونا نص سے ثابت ہے، باقی دو کو انھی پر قیاس کر لیا ہے۔ ایسا آپ کیوں کرتے تھے؟ اس کی حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ لوگ پہلی رکعت میں شامل ہو جائیں۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ پچھلی دو رکعتوں میں صرف سورہ فاتحہ کے سوا اور کچھ نہ پڑھے، لیکن بعض احادیث سے پچھلی رکعتوں میں قرأت کرنا بھی ثابت ہے، اس لیے آخری دو رکعتوں میں فاتحہ سے زائد قرأت نہ بھی کی جائے تب بھی درست ہے اور قرأت کر لی جائے تو بھی یہ ناجائز نہیں۔ [صحيح مسلم، الصلاة، باب القراءة فى الظهر والعصر، حديث: 452]
➍ ایک مسئلہ یہ بھی اخذ ہوتا ہے کہ سری نمازوں میں کسی آیت کو بلند آواز سے پڑھنے سے سجدہ سہو لازم نہیں آتا۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ایسا فعل آپ سے ایک مرتبہ ہی عمل میں نہیں آیا بلکہ متعدد بار ایسا ہوا ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 224
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 224
´نماز کی صفت کا بیان`
«. . . وعن أبي قتادة رضي الله عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يصلي بنا فيقرأ في الظهر والعصر في الركعتين الأوليين بفاتحة الكتاب وسورتين ويسمعنا الآية أحيانا ويطول الركعة الأولى ويقرأ في الأخريين بفاتحة الكتاب . متفق عليه. . . .»
”. . . سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھاتے تھے تو ظہر اور عصر کی پہلی رکعتوں میں سورۃ «فاتحه» اور دو سورتیں پڑھتے تھے اور کبھی ہمیں کوئی آیت سنا بھی دیتے تھے۔ پہلی رکعت بھی لمبی کرتے تھے اور آخری دونوں رکعتوں میں صرف «فاتحة الكتاب» پڑھتے تھے۔ (بخاری و مسلم) . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/باب صفة الصلاة: 224]
لغوی تشریح:
«نَحْزُرُ» باب «نَصَرَ يَنْصُرُ»، تخمینہ لگاتے، قیاس کرتے، اندازہ لگاتے تھے۔
«قَدْر الٓمّٓ تَنْزِيْلُ السجدة» یعنی دونوں رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے بعد ہر رکعت میں اس سورت کی مقدار کے برابر قرأت فرماتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ظہر کی پہلی اور دوسری رکعت میں قرأت برابر ہوتی تھی۔ یہ بات پچھلی حدیث بخاري: 776، مسلم: 451 کے خلاف ہے۔ اسے اوقات کے مختلف ہونے پر محمول کیا جائے گا کہ کبھی برابر پڑھتے اور کبھی پہلی رکعت بڑی اور دوسری چھوٹی ہوتی تھی، یا پھر یہ کہا جائے گا کہ پہلی رکعت میں چونکہ دعائے استفتاح اور تعوذ زائد پڑھے جاتے ہیں، اس لیے وہ لمبی بن جاتی ہے، قرأت دونوں رکعتوں میں ایک ہی جتنی ہے۔ اس طرح دونوں احادیث میں مطابقت پیدا ہو جائے گی اور اختلاف باقی نہیں رہے گا۔
«وَفِي الأُخْرَيَيْنِ قَدْرِ النِّصْفِ» یعنی نصف مقدار۔
«مِنْ ذٰلِكَ» یعنی پہلی دو رکعتوں کی طوالت سے نصف۔
فائدہ:
اس حدیث سے ظہر و عصر کی نمازوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدار قرأت کا اندازہ ہوتا ہے، نیز یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ پچھلی دو رکعتوں میں بھی سورہ فاتحہ کے بعد کوئی دوسری آیت پڑھنا مسنون ہے۔ اس کی تائید اس طرح ہوتی ہے کہ عصر کی پہلی دو رکعتیں اور ظہر کی آخری دو برابر ہوتی تھیں۔ اور یہ پکی بات ہے کہ عصر کی پہلی دو رکعتوں میں فاتحہ کے علاوہ بھی قرأت ہوتی تھی، لہٰذا ظہر میں بھی اسی طرح ہوتا تھا۔ اور کبھی نہ پڑھنا بھی ثابت ہے، لہٰذا نمازی اگر آخری دونوں رکعتوں میں فاتحہ کے ساتھ دوسری آیت بھی پڑھ لے تو اس کی اجازت ہے اور نہ پڑھے تب بھی گنجائش ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 225
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 975
´ظہر کی پہلی رکعت میں لمبا قیام کرنے کا بیان۔`
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ آپ ہمیں ظہر پڑھاتے تھے تو آپ پہلی دونوں رکعتوں میں قرآت کرتے، اور یونہی کبھی ایک آدھ آیت ہمیں سنا دیتے، اور ظہر اور فجر کی پہلی رکعت بہ نسبت دوسری رکعت کے لمبی کرتے تھے ۱؎۔ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 975]
975 ۔ اردو حاشیہ: ظہر کے وقت لوگ کاروبار میں مشغول ہوتے ہیں اور فجر کے وقت لوگ نیند سے بیدار ہوتے ہیں۔ جاگنے میں دیر ہو سکتی ہے۔ جاگنے کے بعد کے لوازمات، مثلا: قضائے حاجت، غسل یا مسواک میں وقت لگتا ہے، اس لیے پہلی رکعت کو لمبا کیا جائے تاکہ زیادہ لوگ جماعت کے ساتھ شامل ہو سکیں، اسی لیے ان نمازوں میں اذان اور اقامت کا درمیانی فاصلہ بھی زیادہ رکھا جاتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 975
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 976
´ظہر میں امام کا ایک آدھ آیت بلند آواز سے پڑھ کر سنا دینے کا بیان۔`
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر و عصر میں پہلی دونوں رکعتوں میں سورۃ فاتحہ اور دو سورتیں پڑھتے تھے، اور کبھی کبھار ہمیں ایک آدھ آیت سنا دیتے، اور پہلی رکعت میں دوسری رکعت کے بہ نسبت قرآت لمبی کرتے تھے۔ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 976]
976 ۔ اردو حاشیہ: نماز ظہر اور نماز فجر کے علاوہ دوسری نمازوں میں پہلی رکعت لمبی کرنی چاہیے تاکہ لوگ حوائج ضروریہ اور وضو وغیرہ سے فارغ ہو کر مل سکیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 976
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 978
´نماز ظہر کی پہلی دونوں رکعتوں کی قرأت کا بیان۔`
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر کی پہلی دونوں رکعتوں میں سورۃ فاتحہ اور ایک ایک سورت پڑھتے تھے، اور آخری دونوں رکعتوں میں صرف سورۃ فاتحہ پڑھتے، اور کبھی کبھار ہمیں ایک آدھ آیت سنا دیتے تھے، اور ظہر کی پہلی رکعت لمبی کرتے تھے۔ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 978]
978 ۔ اردو حاشیہ: فرض نمازوں کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے ساتھ مزید سورت ملائی جاتی ہے مگر آخری دو رکعتوں میں صرف سورہ فاتحہ کافی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سورہ فاتحہ ہر کعت میں پڑھنا ضروری ہے اور یہی جمہور کا مذہب ہے۔ لیکن احناف کے نزدیک آخری دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ پڑھنا ضروری نہیں بلکہ نمازی کو اختیار ہے، چاہے قرأت کر لے یا تسبیح و تحمید کرے یا خاموش کھڑا رہے۔ لیکن جمہور کا مذہب راجح اور سنت صحیحہ کے مطابق ہے۔ مزید دیکھیے: (شرح صحیح مسلم للنوی: 232/4، تحت حدیث: 451) بعض روایات میں آخری دو رکعتوں میں بھی سورت پڑھنے کا ذکر ملتا ہے۔ یہ جائز ہے، ضروری نہیں۔ واللہ اعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 978
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث819
´فجر میں پڑھی جانے والی سورتوں کا بیان۔`
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھاتے تو ظہر کی پہلی رکعت لمبی کرتے، اور دوسری رکعت چھوٹی کرتے، اور اسی طرح فجر کی نماز میں بھی کرتے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 819]
اردو حاشہ:
فائده:
اس میں حکمت یہ ہے کہ پہلی رکعت میں طبیعت میں نشاط اور آمادگی ہوتی ہے۔
اس لئے قرآن زیادہ پڑھا اور سنا جاسکتا ہے۔
جبکہ دوسری رکعت میں جسم تھکاوٹ محسوس کرتا ہے۔
اور طبیعت کی آمادگی اس درجے کی نہیں رہتی ا س لئے قراءت نسبتاً مختصر کردینی چاہے۔
اس میں یہ فائدہ بھی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جماعت مل جائے اور پہلی رکعت فوت نہ ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 819
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث829
´ظہر و عصر میں کبھی کوئی آیت آواز سے پڑھ دینے کا بیان۔`
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی پہلی دونوں رکعتوں میں (سری) قراءت فرماتے تھے، اور کبھی کبھی ہمیں کوئی آیت سنا دیا کرتے تھے ا؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 829]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
۔
سری نماز میں کوئی آیت یا لفظ آوازسے پڑھنے سے نماز میں نقص نہیں آتا۔
(2)
ممکن ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس انداز سے قراءت کا اظہار اس لئے کرتے ہوں کہ صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کو معلوم ہوجائے کہ سری نماز میں فاتحہ کے بعد کسی بھی مقام سے قراءت کی جا سکتی ہے۔
واللہ اعلم۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 829
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:759
759. حضرت ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نماز ظہر کی پہلی دو رکعات میں سورہ فاتحہ اور دو سورتیں پڑھتے تھے۔ پہلی رکعت کو لمبا کرتے اور دوسری رکعت کو چھوٹا کرتے تھے، نیز کبھی کبھی کوئی آیت سنا بھی دیتے تھے۔ نماز عصر میں بھی سورہ فاتحہ اور دیگر دو سورتیں تلاوت فرماتے اور پہلی رکعت کو دوسری رکعت سے کچھ لمبا کرتے۔ اسی طرح صبح کی نماز میں بھی پہلی رکعت کو طویل اور دوسری کو مختصر کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:759]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ظہر کی پہلی دو رکعات میں سے ہر رکعت میں تیس آیات کے برابر قراءت کرتے اور دوسری دورکعات میں پندرہ آیات کے برابر تلاوت فرماتے، نیز عصر کی پہلی دو رکعات میں سے ہر رکعت میں پندرہ آیات کے برابر قراءت کرتے اور دوسری دورکعات میں اس سے نصف کے بقدر قراءت کرتے تھے۔
(مسندأحمد: 3/2)
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ پہلی رکعت کو اس قدر لمبا اس لیے کرتے تھے کہ نمازی پہلی رکعت میں شریک ہوسکیں۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 800) (2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ظہر اور عصر کی آخری دو رکعات میں سورۂ فاتحہ کے بعد قراءت کرنا بھی مسنون ہے اور کبھی آپ آخری دورکعات میں صرف فاتحہ ہی پڑھتے تھے۔
جیسا کہ حدیث الباب میں وضاحت ہے۔
بعض اوقات رسول اللہ ﷺ کی قراءت طویل ہوجاتی تھی، چنانچہ حدیث میں ہے کہ ایک دفعہ نماز ظہر کے لیے اقامت ہوئی تو ایک شخص اپنے گھر سے بقیع کی طرف قضائے حاجت کےلیے گیا، وہاں سے فارغ ہوکر اپنے گھر آیا، وضو کیا، پھر مسجد میں آیا تو معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ ابھی تک پہلی رکعت میں ہیں۔
(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 1020 (454)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 759
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:776
776. حضرت ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ اور دو سورتیں مزید پڑھتے تھے اور آخری دو رکعتوں میں صرف سورہ فاتحہ پڑھتے تھے۔ اور کبھی کبھی کوئی آیت ہمیں سنا بھی دیتے تھے۔ اور آپ پہلی رکعت کو دوسری رکعت سے لمبا کرتے تھے، اسی طرح عصر اور صبح کی نماز میں بھی یہی معمول تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:776]
حدیث حاشیہ:
مغرب کی تیسری رکعت کا وہی حکم ہے جو ظہر اور عصر کی آخری دورکعتوں کا ہے۔
ممکن ہے اس میں سورۂ فاتحہ کے علاوہ مزید قراءت کرنے کا جواز ہو، جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے متعلق احادیث میں ہے کہ انھوں نے مغرب کی تیسری رکعت میں ﴿رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ ﴿٨﴾ ) (آل عمران8: 3)
پڑھی تھی۔
(فتح الباري: 337/2)
بعض فقہاء کے نزدیک ظہر اور عصر کی آخری دورکعتوں میں سورۂ فاتحہ کے ساتھ مزید سورت بھی پڑھنی چاہیے، جبکہ کچھ حضرات کا خیال ہے کہ سورۂ فاتحہ پڑھنا بھی ضروری نہیں۔
امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ آخری دورکعات میں کم ازکم سورۂ فاتحہ ضرور پڑھنی چاہیے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 776
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:778
778. حضرت ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ اور اس کے ساتھ کوئی دوسری سورت بھی پڑھتے تھے اور کبھی کبھار ہمیں کوئی آیت سنا دیا کرتے تھے، نیز آپ پہلی رکعت کو لمبا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:778]
حدیث حاشیہ:
سری نماز میں اگر کوئی آیت بآواز بلند پڑھ دی جائے تو اس سے نماز مکروہ نہیں ہوگی، اسی طرح اگر ایک آیت کے بجائے دو آیات سنادی جائیں تو بھی نماز صحیح ہے۔
یہ موقف ان لوگوں کے خلاف ہے جو سہو یا غیر سہو کی وجہ سے کوئی آیت بآواز بلند پڑھنے پر سجدۂ سہو ضروری قرار دیتے ہیں۔
اس حدیث سے ان حضرات کی کھلی الفاظ میں تردید ہوتی ہے۔
(فتح الباري: 338/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 778
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:779
779. حضرت ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نماز ظہر کی پہلی رکعت کو لمبا کرتے تھے اور دوسری رکعت کو مختصر فرماتے تھے اور صبح کی نماز میں بھی آپ کا یہی معمول تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:779]
حدیث حاشیہ:
حدیث کے ظاہری الفاظ کا تقاضا ہے کہ ہرنماز کی پہلی رکعت کو کچھ لمبا کیا جائے تاکہ لوگوں کو شمولیت کا موقع مل سکے، امام ابو حنیفہ کا کہنا ہے کہ صرف فجر کی نماز میں پہلی رکعت کو لمبا کیا جائے، دوسری نمازوں میں ایسا نہ کیا جائے۔
امام بیہقی ؒ نے تطبیق کی صورت بیان کی ہے کہ اگر کسی کا انتظار ہوتو پہلی رکعت کو لمبا کیا جاسکتا ہے۔
بصورت دیگر پہلی دونوں رکعات برابر ہونی چاہییں، چنانچہ حضرت عطاء ؒ فرماتے ہیں کہ میں ہر نماز کی پہلی رکعت کے متعلق یہ پسند کرتا ہوں کہ امام اسے طویل کرے تاکہ لوگوں کی شمولیت زیادہ ہو۔
اور جب میں اکیلا نماز پڑھوں تو پہلی دونوں رکعات کے برابر ہونے کو پسند کرتا ہوں۔
بعض حضرات کا خیال ہے کہ صبح کی نماز میں تو پہلی رکعت طویل ہونی چاہیے اور دیگر نمازوں میں اگر لوگوں کے شامل ہونے کی امید ہوتو پہلی کو طویل کیا جاسکتا ہے، بصورت دیگر ایسا نہیں کرنا چاہیے۔
نماز صبح میں پہلی رکعت طویل کرنے کی یہ وجہ ہے کہ نیند اور آرام سے بیدار ہونا کچھ مشکل ہوتا ہے، اس لیے ایسے لوگوں کی رعایت کرتے ہوئے پہلی رکعت کو طویل کیا جائے۔
واللہ أعلم (فتح الباري: 239/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 779