(مرفوع) حدثنا مسدد، عن هشيم، عن ابي بشر، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس رضي الله عنهما ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها سورة الإسراء آية 110، قال:" انزلت ورسول الله صلى الله عليه وسلم متوار بمكة، فكان إذا رفع صوته، سمع المشركون فسبوا القرآن ومن انزله ومن جاء به، فقال الله تعالى: ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها سورة الإسراء آية 110 لا تجهر بصلاتك حتى يسمع المشركون ولا تخافت بها عن اصحابك فلا تسمعهم وابتغ بين ذلك سبيلا سورة الإسراء آية 110 اسمعهم ولا تجهر حتى ياخذوا عنك القرآن".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، عَنْ هُشَيْمٍ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ وَلا تُخَافِتْ بِهَا سورة الإسراء آية 110، قَالَ:" أُنْزِلَتْ وَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم متوار بمكة، فكان إذا رفع صوته، سَمِعَ الْمُشْرِكُونَ فَسَبُّوا الْقُرْآنَ وَمَنْ أَنْزَلَهُ وَمَنْ جَاءَ بِهِ، فَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى: وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ وَلا تُخَافِتْ بِهَا سورة الإسراء آية 110 لَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ حَتَّى يَسْمَعَ الْمُشْرِكُونَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا عَنْ أَصْحَابِكَ فَلَا تُسْمِعُهُمْ وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلا سورة الإسراء آية 110 أَسْمِعْهُمْ وَلَا تَجْهَرْ حَتَّى يَأْخُذُوا عَنْكَ الْقُرْآنَ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے ہشیم بن بشیر نے، ان سے ابی بشر نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے (سورۃ بنی اسرائیل کی) آیت «ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها» کے بارے میں کہ یہ اس وقت نازل ہوئی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں چھپ کر عبادت کیا کرتے تھے۔ جب آپ نماز میں آواز بلند کرتے تو مشرکین سنتے اور قرآن مجید اور اس کے نازل کرنے والے اللہ کو اور اس کے لانے والے جبرائیل علیہ السلام کو گالی دیتے (اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی) اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا «ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها» کہ ”اپنی نماز میں نہ آواز بلند کرو اور نہ بالکل آہستہ یعنی آواز اتنی بلند بھی نہ کر کہ مشرکین سن لیں اور اتنی آہستہ بھی نہ کر کہ آپ کے ساتھی بھی نہ سن سکیں بلکہ ان کے درمیان کا راستہ اختیار کر۔“ مطلب یہ ہے کہ اتنی آواز سے پڑھ کہ تیرے اصحاب سن لیں اور قرآن سیکھ لیں، اس سے زیادہ چلا کر نہ پڑھ۔
Narrated Ibn `Abbas: (regarding the Verse):-- 'Neither say your prayer aloud, nor say it in a low tone.' (17.110) This Verse was revealed while Allah's Apostle was hiding himself in Mecca, and when he raised his voice while reciting the Qur'an, the pagans would hear him and abuse the Qur'an and its Revealer and to the one who brought it. So Allah said:-- 'Neither say your prayer aloud, nor say it in a low tone.' (17.110) That is, 'Do not say your prayer so loudly that the pagans can hear you, nor say it in such a low tone that your companions do not hear you.' But seek a middle course between those (extremes), i.e., let your companions hear, but do not relate the Qur'an loudly, so that they may learn it from you.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 93, Number 582
إذا صلى بأصحابه رفع صوته بالقرآن فإذا سمعه المشركون سبوا القرآن ومن أنزله ومن جاء به قال الله لنبيه ولا تجهر بصلاتك أي بقراءتك فيسمع المشركون فيسبوا القرآن ولا تخافت بها عن أصحابك فلا تسمعهم وابتغ بين ذلك سبيلا
إذا صلى بأصحابه رفع صوته بالقرآن وكان المشركون إذا سمعوا صوته سبوا القرآن ومن أنزله ومن جاء به فقال الله لنبيه ولا تجهر بصلاتك أي بقراءتك فيسمع المشركون فيسبوا القرآن ولا تخافت بها عن أصحابك فلا يسمعوا وابتغ بين ذلك سبيلا
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7490
حدیث حاشیہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس اُمید سے قرآن مجید باآواز بلند پڑھتے تھے تاکہ مشرکین اسے سنیں اور اس پر غور وفکر کریں لیکن انھوں نے رَدّ عمل کے طور پر اسے برابھلا کہنا شروع کر دیا، اس لیے زیادہ اونچا پڑھنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روک دیا گیا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس تفسیر سے ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام مخلوق نہیں کیونکہ اس کی صفت "انزال" بیان ہوئی ہے، اس لیے یہ کلام اللہ تعالیٰ کی صفت ہے، اس کی مخلوق نہیں کیونکہ مخلوق کو پڑھا نہیں جاتا اور نہ بلند وپست آواز سے پڑھا جا سکتا ہے۔ بہرحال قرآن کریم مخلوق نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب ہے جیسا کہ قرآن وحدیث کے متعدد دلائل سے ثابت ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7490
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1012
´آیت کریمہ: ”اے محمد! نہ اپنی نماز بہت بلند آواز سے پڑھیں اور نہ بہت پست آواز سے“ کی تفسیر۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم آیت کریمہ: «ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها» کے سلسلے میں کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں چھپے رہتے تھے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کو نماز پڑھاتے تو اپنی آواز بلند کرتے، (ابن منیع کی روایت میں ہے: قرآن زور سے پڑھتے) جب مشرکین آپ کی آواز سنتے تو قرآن کو اور جس نے اسے نازل کیا ہے اسے، اور جو لے کر آیا ہے اسے سب کو برا بھلا کہتے، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اے محمد! اپنی نماز یعنی اپنی قرأت کو بلند نہ کریں کہ مشرکین سنیں تو قرآن کو برا بھلا کہیں، اور نہ اسے اتنی پست آواز میں پڑھیں کہ آپ کے ساتھی سن ہی نہ سکیں، بلکہ ان دونوں کے بیچ کا راستہ اختیار کریں۔ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 1012]
1012۔ اردو حاشیہ: ➊ مشرکین سے قطع نظر نماز کے اندر امام درمیانی آواز اختیار کرے۔ اسی طرح نفل نماز پڑھنے والا اتنی آواز رکھے جس سے دوسرو ں کی نماز یا آرام میں خلل بھی نہ پڑے اور اس کی آواز بھی سنائی دے۔ ویسے بھی منہ میں پڑھنے سے وہ تاثر پیدا نہیں ہوتا جو آواز کے ساتھ پڑھنے سے ہوتا ہے۔ واللہ أعلم۔ ➋ ابتدائے اسلام میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو دعوت دیتے تو مشرکین آپ کو تکلیفیں دیتے تھے۔ آپ اور آپ کے صحابہ چھپ کر نماز پڑھتے اور مسلسل دعوت کا کام کرتے رہے، اسی طرح ہر داعی کو بچاؤ کے اسباب اختیار کرنے چاہئیں اور مخالفین کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں کو برداشت کرے۔ آخر کار کامیابی دین اسلام ہی کی ہے، نیز اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دعوت دینے والا ہر اس کام اور بات سے دور رہے جس سے لوگوں کواللہ، اس کے رسول اور دین اسلام پر طعن و تشنیع کرنے کا موقع ملے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1012
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3145
´سورۃ بنی اسرائیل سے بعض آیات کی تفسیر۔` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما آیت کریمہ: «ولا تجهر بصلاتك»”اپنی صلاۃ بلند آواز سے نہ پڑھو“(بنی اسرائیل: ۱۱۰)، کے بارے میں کہتے ہیں: یہ مکہ میں نازل ہوئی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بلند آواز کے ساتھ قرآن پڑھتے تھے تو مشرکین اسے اور جس نے قرآن نازل کیا ہے اور جو قرآن لے کر آیا ہے سب کو گالیاں دیتے تھے، تو اللہ نے «ولا تجهر بصلاتك» نازل کر کے نماز میں قرآن بلند آواز سے پڑھنے سے منع فرما دیا تاکہ وہ قرآن، اللہ تعالیٰ اور جبرائیل علیہ السلام کو گالیاں نہ دیں اور آگے «ولا تخافت بها» نازل فرمایا، یعنی اتنے دھیرے بھی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3145]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اپنی نماز بلندآوازسے نہ پڑھو (بنی اسرائیل: 110)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3145
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3146
´سورۃ بنی اسرائیل سے بعض آیات کی تفسیر۔` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما آیت کریمہ: «ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها وابتغ بين ذلك سبيلا»”صلاۃ میں آواز بہت بلند نہ کیجئے اور نہ ہی بہت پست بلکہ دونوں کے درمیان کا راستہ اختیار کیجئے“(الاسراء: ۱۱۰)، کے بارے میں کہتے ہیں: یہ آیت مکہ میں اس وقت نازل ہوئی جب آپ مکہ میں چھپے چھپے رہتے تھے، جب آپ اپنے صحابہ کے ساتھ نماز پڑھتے تھے تو قرآن بلند آواز سے پڑھتے تھے، مشرکین جب سن لیتے تو قرآن، قرآن نازل کرنے والے اور قرآن لانے والے سب کو گالیاں دیتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: «ولا تجهر بصلاتك» ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3146]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: نماز میں آواز بہت بلند نہ کیجئے اورنہ ہی بہت پست بلکہ دونوں کے درمیان کا راستہ اختیار کیجئے (الإسراء: 110)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3146
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7525
7525. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے درج زیل ارشاد باری تعالیٰ کے متعلق فرمایا: ”اور آپ اپنی نماز نہ زیادہ بلند آواز سے پڑھیں اور نہ بالکل پست آواز سے۔“ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب رسول اللہﷺ مکہ میں کافروں سے چھپے رہتے تھے۔ آپ ﷺ صحابہ کرام کو نماز پڑھاتے تو بلند آواز سے قرآن اور قرآن لانے والے (سیدنا جبریل ؑ) سب کو برا بھلا کہتے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ نماز میں بآواز بلند قرآن نہ پڑھیں کہ مشرکین قرآن کو برا بھلا کہیں اور نہ اس قدر آہستہ پڑھیں کہ آپ کے صحابہ بھی نہ سن سکیں بلکہ ان کے درمیان راستہ اختیار کریں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7525]
حدیث حاشیہ: کفارمکہ کا یہی حال تھا جو یہاں بیان ہوا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کےعلم وفضل کے لیے خود رسول کریم ﷺ نے دعا فرمائی تھی ان کو اس امت کا رہبان کہا گیا ہے بعمر 71 سال سنہ 68ھ میں فوت ہوئے۔ طائف میں دفن ہوئے۔ رضي اللہ عنه و أرضاہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7525
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7547
7547. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ مکہ مکرمہ میں چھپ کر تبلیغ کرتے تو قرآن کریم بآواز بلند پڑھتے تھے۔ اس جب مشرکین سنتے تو قرآن اور اس کے لانے والے کو برا بھلا کہتے۔ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا: ”اپنی نماز میں نہ آواز بلند کرواور نہ بالکل پست ہی رکھو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7547]
حدیث حاشیہ: 1۔ یہ حدیث پہلے کئی مرتبہ گزر چکی ہے۔ اس میں صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باآواز بلند قرآن کریم کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ 2۔ اس سے معلوم ہوا کہ آواز کی نسبت قاری کی طرف ہوگی جیسا کہ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بلند آواز کی نسبت کی گئی ہے کیونکہ یہ آپ کا فعل ہے۔ قاری قرآن پڑھتے وقت اپنی آواز کو اونچا یاپست کرسکتا ہے کیونکہ یہ اس کے اختیار میں ہے، البتہ یہ فعل اللہ تعالیٰ کا پیدا کیا ہوا ہے۔ لیکن وہ قرآن جسے بلند یا پست آواز سے پڑھا جاتا ہے یہ اللہ رب العزت کا کلام اور اس کی صفت ہے۔ واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7547