صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوطی سے تھامے رہنا
The Book of Holding Fast To The Qur’An and The Sunna
2. بَابُ الاِقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
2. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کرنا۔
(2) Chapter. Following the Sunna (legal ways) of the Prophet (p.b.u.h.).
حدیث نمبر: 7281
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبادة، اخبرنا يزيد، حدثنا سليم بن حيان واثنى عليه، حدثنا سعيد بن ميناء، حدثنا او سمعت جابر بن عبد الله، يقول:" جاءت ملائكة إلى النبي صلى الله عليه وسلم وهو نائم، فقال بعضهم: إنه نائم، وقال بعضهم: إن العين نائمة والقلب يقظان، فقالوا: إن لصاحبكم هذا مثلا، فاضربوا له مثلا، فقال بعضهم: إنه نائم، وقال بعضهم: إن العين نائمة والقلب يقظان، فقالوا: مثله كمثل رجل بنى دارا وجعل فيها مادبة وبعث داعيا، فمن اجاب الداعي دخل الدار واكل من المادبة، ومن لم يجب الداعي لم يدخل الدار ولم ياكل من المادبة، فقالوا: اولوها له يفقهها، فقال بعضهم: إنه نائم، وقال بعضهم: إن العين نائمة والقلب يقظان، فقالوا: فالدار الجنة، والداعي محمد صلى الله عليه وسلم، فمن اطاع محمدا صلى الله عليه وسلم، فقد اطاع الله، ومن عصى محمدا صلى الله عليه وسلم فقد عصى الله، ومحمد صلى الله عليه وسلم فرق بين الناس"، تابعه قتيبة، عن ليث، عن خالد، عن سعيد بن ابي هلال، عن جابر خرج علينا النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَادَةَ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ، حَدَّثَنَا سَلِيمُ بْنُ حَيَّانَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مِينَاءَ، حَدَّثَنَا أَوْ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ:" جَاءَتْ مَلَائِكَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ نَائِمٌ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّهُ نَائِمٌ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَةٌ وَالْقَلْبَ يَقْظَانُ، فَقَالُوا: إِنَّ لِصَاحِبِكُمْ هَذَا مَثَلًا، فَاضْرِبُوا لَهُ مَثَلًا، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّهُ نَائِمٌ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَةٌ وَالْقَلْبَ يَقْظَانُ، فَقَالُوا: مَثَلُهُ كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى دَارًا وَجَعَلَ فِيهَا مَأْدُبَةً وَبَعَثَ دَاعِيًا، فَمَنْ أَجَابَ الدَّاعِيَ دَخَلَ الدَّارَ وَأَكَلَ مِنَ الْمَأْدُبَةِ، وَمَنْ لَمْ يُجِبْ الدَّاعِيَ لَمْ يَدْخُلِ الدَّارَ وَلَمْ يَأْكُلْ مِنَ الْمَأْدُبَةِ، فَقَالُوا: أَوِّلُوهَا لَهُ يَفْقَهْهَا، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّهُ نَائِمٌ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَةٌ وَالْقَلْبَ يَقْظَانُ، فَقَالُوا: فَالدَّارُ الْجَنَّةُ، وَالدَّاعِي مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَنْ أَطَاعَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ، وَمَنْ عَصَى مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدْ عَصَى اللَّهَ، وَمُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرْقٌ بَيْنَ النَّاسِ"، تَابَعَهُ قُتَيْبَةُ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ جَابِرٍ خَرَجَ عَلَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے محمد بن عبادہ نے بیان کیا، کہا ہم کو یزید بن ہارون نے خبر دی، کہا ہم سے سلیم بن حیان نے بیان کیا اور یزید بن ہارون نے ان کی تعریف کی، کہا ہم سے سعید بن میناء نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ فرشتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے (جبرائیل و میکائیل) اور آپ سوئے ہوئے تھے۔ ایک نے کہا کہ یہ سوئے ہوئے ہیں، دوسرے نے کہا کہ ان کی آنکھیں سو رہی ہیں لیکن ان کا دل بیدار ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمہارے ان صاحب (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) کی ایک مثال ہے پس ان کی مثال بیان کرو۔ تو ان میں سے ایک نے کہا کہ یہ سو رہے ہیں، دوسرے نے کہا کہ آنکھ سو رہی ہے اور دل بیدار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی مثال اس شخص جیسی ہے جس نے ایک گھر بنایا اور وہاں کھانے کی دعوت کی اور بلانے والے کو بھیجا، پس جس نے بلانے والے کی دعوت قبول کر لی وہ گھر میں داخل ہو گیا اور دستر خوان سے کھایا اور جس نے بلانے والے کی دعوت قبول نہیں کی وہ گھر میں داخل نہیں ہوا اور دستر خوان سے کھانا نہیں کھایا، پھر انہوں نے کہا کہ اس کی ان کے لیے تفسیر کر دو تاکہ یہ سمجھ جائیں۔ بعض نے کہا کہ یہ تو سوئے ہوئے ہیں لیکن بعض نے کہا کہ آنکھیں گو سو رہی ہیں لیکن دل بیدار ہے۔ پھر انہوں نے کہا کہ گھر تو جنت ہے اور بلانے والے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، پس جو ان کی اطاعت کرے گا وہ اللہ کی اطاعت کرے گا اور جو ان کی نافرمانی کرے گا وہ اللہ کی نافرمانی کرے گا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اچھے اور برے لوگوں کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔ محمد بن عبادہ کے ساتھ اس حدیث کو قتیبہ بن سعید نے بھی لیث سے روایت کیا، انہوں نے خالد بن یزید مصری سے، انہوں نے سعید بن ابی ہلال سے، انہوں نے جابر سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس باہر تشریف لائے۔ (پھر یہی حدیث نقل کی اسے ترمذی نے وصل کیا)۔


Hum se Muhammed bin ’Abadah ne bayan kiya, kaha hum ko Yazeed bin Haroon ne khabar di, kaha hum se Saleem bin Hayyan ne bayan kiya aur Yazeed bin Haroon ne un ki ta’reef ki, kaha hum se Sa’eed bin Meenaa ne bayan kiya, unhon ne kaha ke main ne Jabir bin Abdullah Radhiallahu Anhuma se suna, unhon ne bayan kiya ke farishte Nabi-e-Kareem Sallallahu Alaihi Wasallam ke paas aaye (Jibrael-o-Mikaail) aur Aap soye huwe the. Ek ne kaha ke yeh soye huwe hain, doosre ne kaha ke in ki aankhein so rahi hain lekin in ka dil bedaar hai. Unhon ne kaha ke tumhaare in saheb (Nabi-e-Kareem Sallallahu Alaihi Wasallam) ki ek misaal hai pas in ki misaal bayan karo. To un mein se ek ne kaha ke yeh so rahe hain, doosre ne kaha ke aankh so rahi hai aur dil bedaar hai. Unhon ne kaha ke in ki misaal us shakhs jaisi hai jis ne ek ghar banaaya aur wahan khaane ki da’wat ki aur bulaane waale ko bheja, pas jis ne bulaane waale ki da’wat qabool kar li woh ghar mein daakhil ho gaya aur dastarkhwaan se khaaya aur jis ne bulaane waale ki da’wat qabool nahi ki woh ghar mein daakhil nahi huwa aur dastarkhwaan se khaana nahi khaaya, phir unhon ne kaha ke is ki in ke liye tafseer kar do taake yeh samajh jaayen. Ba’z ne kaha ke yeh to soye huwe hain lekin ba’z ne kaha ke aankhein go so rahi hain lekin dil bedaar hai. Phir unhon ne kaha ke ghar to jannat hai aur bulaane waale Muhammed Sallallahu Alaihi Wasallam hain, pas jo un ki ita’at karega woh Allah ki ita’at karega aur jo un ki na-farmaani karega woh Allah ki na-farmaani karega aur Muhammed Sallallahu Alaihi Wasallam achche aur bure logon ke darmiyaan farq karne waale hain. Muhammed bin ’Abadah ke saath is Hadees ko Qutaibah bin Sa’eed ne bhi Laith se riwayat kiya, unhon ne Khalid bin Yazeed Misri se, unhon ne Sa’eed bin Abi Hilal se, unhon ne Jabir se ke Nabi-e-Kareem Sallallahu Alaihi Wasallam hamare paas bahar tashreef laaye. (Phir yahi Hadees naql ki ise Tirmizi ne wasl kiya)

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Jabir bin `Abdullah: Some angels came to the Prophet while he was sleeping. Some of them said, "He is sleeping." Others said, "His eyes are sleeping but his heart is awake." Then they said, "There is an example for this companion of yours." One of them said, "Then set forth an example for him." Some of them said, "He is sleeping." The others said, "His eyes are sleeping but his heart is awake." Then they said, "His example is that of a man who has built a house and then offered therein a banquet and sent an inviter (messenger) to invite the people. So whoever accepted the invitation of the inviter, entered the house and ate of the banquet, and whoever did not accept the invitation of the inviter, did not enter the house, nor did he eat of the banquet." Then the angels said, "Interpret this example to him so that he may understand it." Some of them said, "He is sleeping.'' The others said, "His eyes are sleeping but his heart is awake." And then they said, "The houses stands for Paradise and the call maker is Muhammad; and whoever obeys Muhammad, obeys Allah; and whoever disobeys Muhammad, disobeys Allah. Muhammad separated the people (i.e., through his message, the good is distinguished from the bad, and the believers from the disbelievers).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 385


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري7281جابر بن عبد اللهجاءت ملائكة إلى النبي وهو نائم فقال بعضهم إنه نائم وقال بعضهم إن العين نائمة والقلب يقظان فقالوا إن لصاحبكم هذا مثلا فاضربوا له مثلا فقال بعضهم إنه نائم وقال بعضهم إن العين نائمة والقلب يقظان فقالوا مثله كمثل رجل بنى دارا وجعل فيها مأدب
   مشكوة المصابيح144جابر بن عبد اللهجاءت ملائكة إلى النبي صلى الله عليه وسلم وهو نائم فقال بعضهم إنه نائم وقال بعضهم إن العين نائمة والقلب يقظان

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 7281 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7281  
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ قرآن وحدیث ہی دین کے اصل الاصول ہیں اور سنت نبوی ہی بہر حال مقدم ہے۔
امام استاد بزرگ سب کو ترک کیا جاسکتا ہے مگر قرآن وحدیث کو مقدم رکھنا ہوگا‘ یہی نجات کا راستہ ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7281   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7281  
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ قرآن وحدیث ہی دین کے اصل الاصول ہیں۔
امام، استاد اور بزرگ کی بات کوچھوڑا جا سکتا ہے مگر قرآن وحدیث کو کسی صورت میں نہیں چھوڑا جاسکتا، نیز اس حدیث کا آخری حصہ بڑا معنی خیز ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اچھے کو بُرے سے الگ کرنے والے ہیں، یعنی مومن اور کافر، نیک اوربد، سعادت مند اور بدبخت کے درمیان خط امتیاز کھینچنے والے ہیں۔
اس موضوع پر ہم کچھ تفصیل سے لکھنا چاہتے تھے لیکن اختصار کے پیش نظر صرف ایک مثال سے اس فرق کی وضاحت پیش خدمت ہے۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا جورکوع اورسجود کی صحیح ادائیگی کے بغیر نماز پڑھتا تھا، پوچھنے پر پتہ چلا کے وہ چالیس سال سے اس طرح نماز پڑھا رہا ہے تو آپ نے فرمایا:
اگر تیری اسی حالت پر موت آگئی تو وہ فطرت اسلام کے خلاف ہوگی۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 791)
کیونکہ اس کی نماز سنت کے خلاف تھی، اس لیے کہ اس کی موت کو بی فطرت اسلام کے خلاف قرار دیا گیا ہے۔
اس کے برعکس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو شخص سنت کے مطابق وضوکرے، پھرسنت کے مطابق صرف دورکعت ادا کرے تو اس کے سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔
(صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 160)
سنت پر عمل کرنے کی برکت سے صرف دورکعت ادا کرنا سابقہ گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔
سنت اور غیر سنت پر عمل کرنے میں یہی فرق ہے جو مذکورہ بالاحدیث کے آخر میں بیان کیا گیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7281   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 144  
´رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مثال `
«. . . ‏‏‏‏عَن جَابر بن عبد الله يَقُول جَاءَتْ مَلَائِكَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ نَائِم فَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّهُ نَائِمٌ وَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَة وَالْقلب يقظان فَقَالُوا إِنَّ لِصَاحِبِكُمْ هَذَا مَثَلًا فَاضْرِبُوا لَهُ مثلا فَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّهُ نَائِمٌ وَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَةٌ وَالْقَلْبَ يَقْظَانُ فَقَالُوا مَثَلُهُ كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى دَارًا وَجَعَلَ فِيهَا مَأْدُبَةً وَبَعَثَ - [52] - دَاعِيًا فَمَنْ أَجَابَ الدَّاعِيَ دَخَلَ الدَّارَ وَأَكَلَ مِنَ الْمَأْدُبَةِ وَمَنْ لَمْ يُجِبِ الدَّاعِيَ لَمْ يَدْخُلِ الدَّارَ وَلَمْ يَأْكُلْ مِنَ الْمَأْدُبَةِ فَقَالُوا أَوِّلُوهَا لَهُ يفقهها فَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّهُ نَائِمٌ وَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَة وَالْقلب يقظان فَقَالُوا فالدار الْجنَّة والداعي مُحَمَّد صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَمن أطَاع مُحَمَّدًا صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فقد أطَاع الله وَمن عصى مُحَمَّدًا صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فقد عصى الله وَمُحَمّد صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فرق بَين النَّاس. رَوَاهُ البُخَارِيّ . . .»
. . . سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فرشتوں کی ایک جماعت حاضر ہوئی جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو رہے تھے ان فرشتوں نے آپس میں کہا کہ ان تمہارے صاحب (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کی ایک مثال ہے اس مثال کو بیان کرو۔ ان میں سے بعض فرشتوں نے کہا: آپ سو رہے ہیں مثال بیان کرنے سے کیا فائدہ جب کہ سن نہیں سکتے، ان میں سے بعض فرشتوں نے اس کا یہ جواب دیا کہ آنکھ سوتی ہے دل جاگتا ہے (جو کچھ تم بیان کرو گے وہ سمجھ لیں گے)۔ پھر وہ بیان کرنے لگے ان کی ایسی مثال ہے جیسے کسی شخص نے مکان تیار کیا اور لوگوں کو کھانا کھلانے کے لیے دسترخوان چنا یعنی دعوت کا انتظام کیا۔ اور لوگوں کو دعوت دینے کے لیے ایک شخص کو بھیجا (یہ بلانے والا سب کو دعوت دے رہا ہے) تو جس نے اس بلانے والے کی دعوت منظور کر لی اور اس کے ساتھ ساتھ چلا آیا تو اس کے ساتھ اس مکان میں داخل ہو گا اور چنے ہوئے دسترخوان سے کھانا بھی کھائے گا۔ اور جس نے اس دعوت دینے والے کی بات نہ مانی اور نہ دعوت کو قبول کیا تو وہ نہ مکان ہی میں داخل ہو سکتا ہے اور نہ دعوت کا کھانا ہی کھا سکتا ہے۔ ان فرشتوں نے کہا: بہت بہترین مثال ہے لیکن اس مثال کی توضیح وتشریخ کر دو تاکہ آپ سمجھ لیں۔ اس پر بعض نے کہا: آپ سو رہے ہیں۔ (کیا سمجھیں گے) دوسرے نے جواب دیا آنکھ سوتی ہے دل جاگتا ہے (جو کہو گے آپ صاف صاف سمجھ جائیں گے) تو پھر وہ کہنے لگے وہ مکان تو جنت ہے (اور اس کا بنانے والا اللہ تعالیٰ ہے اس نے لوگوں کو دعوت دینے کے لیے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھیجا ہے کہ آپ بلانے والے ہیں۔ جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت منظور کر لی اور آپ کی اطاعت کر لی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور مکان جنت میں داخل ہو گا۔ اور وہاں کی نعمتوں کو کھائے گا) اور جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی، نہ وہ جنت میں داخل ہو گا اور نہ وہاں کی نعمتوں کو کھا سکتا ہے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں فرق کرنے اور تیز کرنے والے ہیں۔ اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 144]
تخریج الحدیث:
[صحیح بخاری 7281]

فقہ الحدیث
➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر عمل کرنا اصل میں قرآن مجید پر عمل کرنا ہی ہے۔
➋ انبیاء اور رسولوں کے خواب سچے ہوتے ہیں، لیکن یاد رہے کہ نبیوں اور رسولوں کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے۔
➌ نیند کی حالت میں آپ کے دل کے بیدار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سونے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو نہیں ٹوٹتا تھا اور نہ آپ عام آدمی کی طرح غفلت کی نیند سوتے تھے۔
↰ یاد رہے کہ آپ کے علاوہ ہر انسان کا وضو سونے سے ٹوٹ جاتا ہے جیسا کہ دوسری احادیث سے ثابت ہے۔ مثلاً دیکھئے: الترمذی [96 وسنده حسن وقال: هٰذا حديث حسن صحيح]
➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت فرض ہے۔
➎ لوگوں میں فرق اور جدائی کی وجہ صرف اور صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا آخری رسول مانتے ہیں، قرآن و حدیث کو دین اسلام تسلیم کرتے ہیں، وہ ایک امت ہیں اور ان کے مقابلے میں سارے کفار (اور شدید مبتدعین) ایک ملت ہیں۔ حق و باطل کا یہ معرکہ اور اسلام و کفر کا مقابلہ قیامت تک جاری رہے گا۔
➏ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فرشتوں کا آنا اور ان کی یہ گفتگو اس بات کی دلیل ہے کہ حدیث بھی وحی ہے۔
➐ اس مثال کی تشریح بیان کریں تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) سمجھ جائیں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم عالم الغیب نہیں تھے۔
➑ اگر کسی شخص میں اچھی خصلت ہو تو اس کی تعریف کی جا سکتی ہے، لیکن خوشامد اور چاپلوسی جائز نہیں ہے۔
➒ یہ فرشتے کون تھے؟ ان کے نام معلوم نہیں ہیں۔ دیکھئے: فتح الباری [255/13]
↰ لیکن سنن الترمذی [2860] کی ایک منقطع روایت میں آیا ہے کہ یہ جبرائیل اور میکائیل علیہما السلام تھے۔ امام ترمذی یہ روایت بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
یہ حدیث مرسل ہے۔ سعید بن ابی ہلال نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے ملاقات نہیں کی۔‏‏‏‏ [مطبوعه دارالسلام 642]
◄ معلوم ہوا کہ روایت مذکورہ کے ضعیف ہونے کی وجہ سے اس مسئلے میں سکوت بہتر ہے۔

تنبیہ:
جبرائیل اور میکائیل علیہما السلام کے نام قرآن مجید سے ثابت ہیں۔ [دیکھئے سورۃ البقرۃ: 98]
◄ اسرافیل علیہ السلام کا نام صحیح مسلم [770، دارالسلام: 1811] میں مذکور ہے، لیکن موت کے فرشتے (ملک الموت) کا نام عزرائیل کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
↰ وہب بن منبہ تابعی سے ایک موقوف (مقطوع) روایت میں یہ نام آیا ہے، لیکن اس کی سند میں محمد بن ابراہیم بن العلاء منکر الحدیث ہے۔ دیکھئے: [العظمة لابي الشيخ الاصبهاني 3؍848 ح394، 3؍900 ح439]
لہٰذا یہ روایت سخت ضعیف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
↰ اشعث نامی کسی تبع تابعی سے ثابت ہے کہ انہوں نے فرمایا:
ملک الموت علیہ السلام کا نام عزرائیل ہے۔ [كتاب العظمة لابي الشيخ ج3 ص909 ح443 وسنده صحيح]
↰ اشعث تک سند صحیح ہے اور اشعث کے بارے میں شیخ رضاء اللہ بن محمد ادریس مبارکپوری لکھتے ہیں:
وہ اشعث بن اسلم العجلی البصری الربعی ہیں۔ [ايضا مترجما]
↰ اشعث بن اسلم رحمہ اللہ کے بارے میں امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے فرمایا:
«ثقة» [تاريخ يحييٰ بن معين، رواية الدوري: 3403، الجرح والتعديل لابن ابي حاتم 2؍269 وسنده صحيح]
↰ حافظ ابن حبان نے انہیں کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے۔ [6؍63]
◄ معلوم ہوا کہ عزرائیل کا لفظ تبع تابعین کے دور سے ثابت ہے۔ «والله اعلم»
➓ اگر کسی عذر کی وجہ سے کسی شخص سے بلا واسطہ (ڈائرکٹ) بات کرنا ممکن یا مناسب نہ ہو تو خوش اخلاقی اور اچھے طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسرے ذریعے سے اس شخص تک اپنی بات پہنچانا جائز ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 144   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.