(مرفوع) حدثنا ابو عاصم، عن يزيد بن ابي عبيد، عن سلمة، قال:" بايعنا النبي صلى الله عليه وسلم تحت الشجرة، فقال لي: يا سلمة، الا تبايع؟، قلت: يا رسول الله، قد بايعت في الاول، قال: وفي الثاني".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ، قَالَ:" بَايَعْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ، فَقَالَ لِي: يَا سَلَمَةُ، أَلَا تُبَايِعُ؟، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ بَايَعْتُ فِي الْأَوَّلِ، قَالَ: وَفِي الثَّانِي".
ہم سے ابوالعاصم نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن ابی عبید نے، ان سے سلمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخت کے نیچے بیعت کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ”سلمہ! کیا تم بیعت نہیں کرو گے؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے پہلی ہی مرتبہ میں بیعت کر لی ہے، فرمایا کہ اور دوسری مرتبہ میں بھی کر لو۔“
Narrated Salama: We gave the oath of allegiance to the Prophet under the tree. He said to me, "O Salama! Will you not give the oath of allegiance?" I replied, "O Allah's Apostle! I have already given the oath of allegiance for the first time." He said, (Give it again) for the second time.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 89, Number 315
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7208
حدیث حاشیہ: دوبارہ بیعت کا مطلب تجدید عہد ہے جو جس قدر مظبوط کیا جاسکے بہتر ہے۔ اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہ سے بار بار بیعت لی ہے۔ سلمہ بن اکواع بڑے بہادر اور لڑنے والے مرد تھے تیر اندازی اور دوڑ میں بے نظیر تھے۔ ان کی فضیلت ظاہر کرنے کے لیے ان سے دو مرتبہ بیعت لی گئی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7208
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7208
حدیث حاشیہ: دوبارہ بیعت کرنے کا مطلب تجدید عہد ہے جسے جس قدر مضبوط کیا جائے بہتر ہے۔ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑے بہادر تیرانداز اور دوڑ میں بے نظیر تھے ان کے مرتبے اور فضیلت کو ظاہر کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دو مرتبہ بیعت لی اور اس میں اشارہ تھا کہ وہ آئندہ جنگوں میں دو آدمیوں کے قائم مقام ہوں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ایک مرتبہ پیدل اور سوار کا حصہ دیا تھا۔ (فتح الباري: 26/13)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7208
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4164
´موت پر بیعت کا بیان۔` یزید بن ابی عبید کہتے ہیں کہ میں نے سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ سے کہا: حدیبیہ کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ لوگوں نے کس چیز پر بیعت کی؟ انہوں نے کہا: موت پر ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيعة/حدیث: 4164]
اردو حاشہ: موت پر بیعت کا مفہوم سابقہ رویت میں بیان ہوچکا ہے اور دونوں روایات میں تطبیق بھی کہ بعض صحابہ نے بیعت کے موقع پر موت کے لفظ بولے تھے اور بعض نے نہیں۔ یہ واقعہ بیعت رضوان کا ہے جو صلح حدیبیہ کے موقع پر لی گئی۔ حدیبیہ مکہ مکرمہ سے کچھ فاصلے پر ایک جگہ کا نام ہے جسے آج کل شمسیہ کہا جاتا ہے۔ آپ نے صلح کی بات چیت کے لیے حضرت عثمانؓ کو مکہ مکرمہ بھیجا تھا مگر مشہور ہو گیا کہ انھیں شہید کردیا گیا ہے۔ اس وقت یہ بیعت لی گئی تھی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4164
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1592
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی بیعت کا بیان۔` یزید بن ابی عبیداللہ کہتے ہیں کہ میں نے سلمہ بن الاکوع رضی الله عنہ سے پوچھا: حدیبیہ کے دن آپ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کس بات پر بیعت کی تھی؟ انہوں نے کہا: موت پر ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1592]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس میں اور اس سے پہلے والی حدیث میں کوئی تضاد نہیں ہے، کیونکہ اس حدیث کا بھی مفہوم یہ ہے کہ ہم نے میدان سے نہ بھاگنے کی بیعت کی تھی، بھلے ہم اپنی جان سے ہاتھ ہی کیوں نہ دھو بیٹھیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1592
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4678
امام صاحب اپنے تین اساتذہ کی سندوں سے حدیث بیان کرتے ہیں، یہ الفاظ عبداللہ دارمی کے ہیں کہ ایاس بن سلمہ، اپنے باپ حضرت سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے بیان کرتے ہیں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں خیبر پہنچے اور ہماری تعداد چودہ سو (1400) تھی اور جب حدیبیہ کا چشمہ پچاس بکریوں کو بھی سیراب نہیں آ سکتا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کنویں کی منڈیر پر بیٹھ گئے اور آپﷺ نے دعا فرمائی، یا اس میں اپنا لب مبارک ڈالا، تو وہ جوش مار اٹھا، (پانی بلند ہو... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:4678]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) عَلَيْهَا خَمْسُونَ شَاةً لَا تُرْوِيهَا: حدیبیہ کا پانی اتنا کم تھا، کہ اس سے پچاس بکریاں بھی سیراب نہیں ہوتی تھیں۔ (2) جَبَا الرَّكِيَّةِ: جبا اس مٹی کو کہتے ہیں، جو کنواں کھود کر باہر نکالتے ہیں اور کنویں کے اردگرد پھیلا دیتے ہیں، جاشت: کنویں کا پانی جوش مارنے لگا اور بلند ہو گیا، یہ حدیبیہ میں آپ کے پہلے معجزے کا اظہار تھا، کہ آپ نے اس کے کنویں میں اپنا لعاب دین ڈالا اور اس کا پانی چودہ سو (1400) افراد اور ان کے سواریوں کے لیے کافی ہو گیا، حالانکہ وہ پچاس بکریوں کو بھی سیراب نہیں کر سکتا تھا۔ (3) بَايَعْتُهُ الثَّالِثَةَ: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کی جراءت و شجاعت پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے، ان سے تین دفعہ بیعت لی، جس کا ظہور تین قریبی غزوات، حدیبیہ، ذوقرد اور فتح خیبر میں ہوا۔ عزلا: غیر مسلح، بلا ہتھیار۔ حجفة اودرقة: دونوں کا معنی ڈھال ہے۔ (4) أَبْغِنِي: اگر یہ بغايه سے تو معنی ہو گا، میرے لیے تلاش کیجئے اور اگر ابغاء سے ہو تو معنی ہو گا، طلب و جستجو میں میری مدد کیجئے۔ (5) رَاسَلُونَا: ہمارے ساتھ مراسلت کی، پیغاموں کا تبادلہ کیا، كنت تبيعا: میں پیچھے پیچھے چلتا تھا، یعنی ان کا خدمت گزار تھا۔ أَحُسُّهُ میں گھوڑے کی پشت پر کھرکھرا کرتا تھا۔ (6) كَسَحْتُ شَوْكَهَا: (آرام کے لیے) درخت کے نیچے سے کانٹوں کو میں نے صاف کیا۔ (7) فَاخْتَرَطْتُ سَيْفِي: (جنگ کے خطرہ کے پیش نظر) میں نے اپنی تلوار نیام سے نکال لی۔ (8) جَعَلْتُهُ ضِغْثًا فِي يَدِي: میں نے (چاروں مشرکوں کے اسلحہ کو) تنکوں یا لکڑیوں کے گٹھا کی طرح ہاتھ میں لے لیا۔ (9) عَبَلَاتِ: یہ قریش کا ایک خاندان ہے، جو اپنی ماں عبله کی طرف منسوب ہے اور ان کو اميه صغري بھی کہا جاتا تھا، فرس مجفف: گھوڑا جس کو اسلحہ کی زد سے بچانے کے لیے اس پر جھل یا آتھر ڈالتے ہیں، لیکن لهم بدأالفجور ثناه: نقض عہد کا آغاز اور اعادہ انہیں کی طرف سے ہوں، کہ وہ ابن زنیم کو شہید کر کے، مسلمانوں پر پتھر اور تیر پھینک کر نقض عہد کا آغاز کر چکے ہیں۔ (10) فَأَصُكُّ صکا: کا اصل معنی تھپڑ مارنا ہوتا ہے، لیکن یہاں تیر پھینکنا مراد ہے۔ (11) آرَام: ارم کی جمع ہے، علامتی پتھر، جو نشانی اور علامت کے طور پر رکھا یا گاڑا جاتا ہے۔ (12) قرن: الگ تھلگ پہاڑی، كراس قرن پہاڑی کی چوٹی، مُتَضَايِق: تنگ جگہ، مَا هَذَا الَّذِي أَرَى؟ مراد ہے، من هذا، تحقیر کے لیے ما کہا، یہ کون ہے جسے میں دیکھ رہا ہوں۔ (13) الْبَرْحَ: مشقت و شدت، امكنوني من الكلام: میرے اس قدر قریب ہو گئے، کہ میرے لیے ان کو اپنی بات سنانا ممکن ہو گیا، لَا يَقْتَطِعُوكَ: تمہیں تیرے ساتھیوں سے الگ تھلگ نہ کر لیں، تم اکیلے ان کے قابو میں نہ آ جاؤ، (14) خَلَّيْتُهُمْ عَنْهُ: میں نے انہیں اس سے ہٹا دیا، دور کر دیا۔ (15) نُغْضِ: پٹھہ، اكوعه بكرة: کیا وہ اکوع ہی صبح سے ہمارے تعاقب میں ہے۔ (16) أَرْدَوْا فَرَسَيْنِ: خوف اور ڈر کے مارے دو گھوڑے چھوڑ گئے۔ (17) سَطِيحَةٍ: مشکیزہ۔ (18) مَذْقَةٌ: تھوڑا سا۔ (19) يُقْرَوْنَ: ان کی مہمان نوازی کا اہتمام ہو رہا ہے، یہ آپ کی پیشن گوئی تھی، کہ ان کی مہمان نوازی کا اہتمام غطفان کر رہے ہیں۔ (20) لَا يُسْبَقُ شَدًّا: دوڑ میں کوئی اس سے سبقت نہیں لے جا سکتا تھا۔ (21) رَبَطْتُ عَلَيْهِ: میں نے اپنے آپ کو روکے رکھا، آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کی، طَفَرْتُ: میں کود گیا۔ (22) أَسْتَبْقِي نَفَسِ: میں شروع میں بھاگ کر اپنا سانس اکھیڑنا نہیں چاہتا، آہستہ آہستہ رفتار تیز کرنا چاہتا تھا، تاکہ سانس نہ پھولے۔ (23) شَاكِي السِّلَاحِ: مسلح، ہتھیار بند۔ (24) تَلَهَّبُ: شعلہ بھڑکنا۔ (25) بطل: بہادر، دلیر۔ (26) مُجَرَّبُ: تجربہ کار۔ (27) مُغَامِرُ: شدائد میں کود جانے والا۔ (28) يَسْفُلُ لَهُ: نیچے سے نشانہ لینے لگا۔ (29) أَكْحَلَ: رگ حیات، بازو کی رگ۔ (30) حَيْدَرَ: شیر، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی والدہ فاطمہ بنت اسد نے بیٹے کا نام حیدر رکھا تھا، کیونکہ ان کے نانا کا نام اسد تھا، ابو طالب نے نام علی رکھا اور مرحب نے خواب دیکھا تھا، کہ مجھے ایک شیر قتل کر رہا ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسے یاد دلایا، وہ شیر میں ہی ہوں۔ اس طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس معجزہ کا ظہور ہوا کہ آپ کے لعاب دہن سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دکھتی آنکھیں فوراً ٹھیک ہو گئیں اور آپ کی یہ پیشن گوئی بھی پوری ہوئی کہ میں جھنڈا اس کو دوں گا جس کے ہاتھوں، اللہ تعالیٰ خیبر فتح کروائے گا اور صحیح حدیث کی رو سے مرحب کو حضرت علی نے قتل کیا ہے، حضرت محمد بن مسلمہ نے قتل نہیں کیا، جیسا کہ ابن اسحاق کا دعویٰ ہے، محدثین اور سیرت نگاروں کی اکثریت کے بقول، مرحب کو حضرت علی ہی نے جہنم رسید کیا، اس لیے واقدی کا یہ قول درست نہیں ہے کہ آپ نے مرحب کی سلب حضرت محمد بن مسلمہ کو دی۔ (31) السَّنْدَرَهْ: کھلا پیمانہ، کہ میں ان کو خوب موت کے گھاٹ اتاروں گا، یا سندر کا معنی عجلت ہے، کہ میں فوراً دشمن کو قتل کر دیتا ہوں۔ فوائد ومسائل: ذوقرد، مدینہ سے بارہ (12) میل یا ایک دن کی مسافت پر، ایک چشمہ ہے، جہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دودھیاری اونٹنیاں چرتی تھیں، صلح حدیبیہ سے واپسی پر آپ نے اپنے غلام رباح کی نگرانی میں اور سواریاں وہاں بھیجیں، وہاں حضرت ابو ذر کے بیٹے اور ان کی بیوی موجود تھے، اور حضرت رباح رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ بھی حضرت طلحہ بن عبید اللہ کے گھوڑے پر تھے، ابھی وہ راستہ میں ہی تھے، کہ انہیں حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے غلام نے یہ اطلاع دی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دودھیاری اونٹنیوں پر حملہ ہو گیا ہے، تو حضرت سلمہ بن اکوع نے گھوڑا حضرت رباح کے حوالہ کیا اور خود، ان حملہ آوروں کے تعاقب میں دوڑ پڑے، واقعہ کی تفصیل حدیث میں موجود ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4678
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2960
2960. حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے بیعت کی اور اس کے بعد میں ایک درخت کے سائے کے نیچے چلا گیا: پھر جب ہجوم ہوا تو آپ نے فرمایا: ”اے ابن اکوع ؓ! کیا تم بیعت نہیں کرو گے؟“ میں نے کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میں تو بیعت کر چکا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”تو پھر سہی۔“ لہٰذا میں نے آپ سے دوبارہ بیعت کی۔ (راوی حدیث کہتا ہے)میں نے ان سے کہا: ابو مسلم! تم نے اس دن کس بات پر بیعت کی تھی؟ انھوں نے فرمایا موت پر۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2960]
حدیث حاشیہ: یہاں بھی حدیبیہ میں بیعت الرضوان مراد ہے۔ جو ایک درخت کے نیچے لی گئی تھی۔ سورہ فتح میں اللہ تعالیٰ نے ان جملہ مجاہدین کے لئے اپنی رضا کا اعلان فرمایا ہے۔ رضي اللہ عنهم و رضوا عنه۔ آیت شریفہ ﴿لَّقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ﴾(الفتح: 18) میں اسی کا بیان ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2960
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2960
2960. حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے بیعت کی اور اس کے بعد میں ایک درخت کے سائے کے نیچے چلا گیا: پھر جب ہجوم ہوا تو آپ نے فرمایا: ”اے ابن اکوع ؓ! کیا تم بیعت نہیں کرو گے؟“ میں نے کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میں تو بیعت کر چکا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”تو پھر سہی۔“ لہٰذا میں نے آپ سے دوبارہ بیعت کی۔ (راوی حدیث کہتا ہے)میں نے ان سے کہا: ابو مسلم! تم نے اس دن کس بات پر بیعت کی تھی؟ انھوں نے فرمایا موت پر۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2960]
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت سلمہ بن اکوع ؓ بڑے جری،بہادر اور جفاکش تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے دوسری مرتبہ بیعت لی تاکہ اللہ کی راہ میں خوشی خوشی اپنی جان کا نذرانہ پیش کریں۔ حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں: حضرت سلمہ بن اکوع ؓ شہسوار اور پیادہ دونوں طرح کہ لڑائی میں ماہر تھے تو دونوں صفات کے اعتبار سے دو دفعہ بیعت لی گئی۔ گویا تعددصفت،تعدد بیعت کا سبب بنا۔ (فتح الباري: 246/13) 2۔ موت پربیعت کرنے کامقصد یہ ہے کہ کفار کے ساتھ جنگ میں ڈٹ کر ان کا مقابلہ کریں اگرچہ لڑتے لڑتے موت آجائے۔ محض مرنا مقصود نہیں۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2960
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4169
4169. حضرت یزید بن ابو عبید سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے سلمہ بن اکوع ؓ سے پوچھا کہ تم نے حدیبیہ میں رسول اللہ ﷺ کی کس شرط پر بیعت کی تھی؟ انہوں نے فرمایا: موت پر۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4169]
حدیث حاشیہ: 1۔ پہلی حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ زوالِ آفتاب سے پہلے نماز جمعہ جائز ہے کیونکہ اس حدیث میں اس سائے کی نفی ہے جس کے نیچے بیٹھا جائے اور آرام کیا جائے، مطلق سائے کی نفی نہیں۔ 2۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ حضرت سلمہ بن اکوع ؓ بھی اصحاب شجرہ سے ہیں۔ حضرت سلمہ ؓ خود فرماتے ہیں کہ میں نے حدیبیہ کے موقع پررسول اللہ ﷺ کی بیعت کی، پھرمیں درخت کے سائے میں بیٹھ گیا، جب بھیڑ ختم ہوگئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ابن اکوع!کیا تم بیعت نہیں کروگے؟“ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ! میں نےآپ کی بیعت کرلی ہے توآپ نے فرمایا: ”دوبارہ کرو۔ ،، چنانچہ میں نے دوسری مرتبہ آپ سے بیعت کی۔ (صحیح البخاري، الجھاد والسیر، حدیث 2960) 3۔ آپ نے دو مرتبہ بیعت کیوں کی؟ اس کی تفصیل کتاب الجہاد میں مذکورہ حدیث کے تحت دیکھی جاسکتی ہے۔ 4۔ موت پر بیعت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ میدان جنگ سے نہیں بھاگیں گے اگرچہ وہاں شہید ہوجائیں، یعنی موت کو عدم فرار لازم ہے۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4169
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7206
7206. سیدنا یزید بن ابو عبیدہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے سیدنا سلمہ بن اکوع ؓ سے پوچھا: تم نے حدیبیہ کے دن نبی ﷺ سے کس بات پر بیعت کی تھی؟ انہوں نے فرمایا: موت پر بیعت کی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7206]
حدیث حاشیہ: یزید بن ابو عبیدہ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ انھوں نے حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا کہ تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کس بات پر کی تھی؟ اس سوال کا پس منظر یہ تھا کہ انھوں نے حدیبیہ کے دن دو دفعہ بیعت کی تھی جس کی وجہ سے یزید بن ابو عبیدہ کو تجسس پیدا ہوا تو انھوں نے یہ سوال کیا۔ انھوں نے فرمایا: ہماری بیعت یہ تھی کہ ہم جنگ سے نہیں بھاگیں گے۔ اگرچہ میدان میں موت آجائے۔ (صحیح البخاري، الجهاد والسیر، حدیث: 2960)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7206