(مرفوع) حدثنا إسماعيل بن ابي اويس، حدثني إسماعيل بن إبراهيم، عن عمه موسى بن عقبة، قال ابن شهاب: حدثني عروة بن الزبير، انمروان بن الحكم، والمسور بن مخرمة، اخبراه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال حين اذن لهم المسلمون في عتق سبي هوازن:" إني لا ادري من اذن منكم ممن لم ياذن، فارجعوا حتى يرفع إلينا عرفاؤكم امركم، فرجع الناس، فكلمهم عرفاؤهم، فرجعوا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاخبروه ان الناس قد طيبوا واذنوا".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَمِّهِ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّمَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ، وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ، أَخْبَرَاهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ حِينَ أَذِنَ لَهُمُ الْمُسْلِمُونَ فِي عِتْقِ سَبْيِ هَوَازِنَ:" إِنِّي لَا أَدْرِي مَنْ أَذِنَ مِنْكُمْ مِمَّنْ لَمْ يَأْذَنْ، فَارْجِعُوا حَتَّى يَرْفَعَ إِلَيْنَا عُرَفَاؤُكُمْ أَمْرَكُمْ، فَرَجَعَ النَّاسُ، فَكَلَّمَهُمْ عُرَفَاؤُهُمْ، فَرَجَعُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرُوهُ أَنَّ النَّاسَ قَدْ طَيَّبُوا وَأَذِنُوا".
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے ان کے چچا موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا اور انہیں مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہم نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے، جب مسلمانوں نے قبیلہ ہوازن کے قیدیوں کو اجازت دی تو فرمایا کہ مجھے نہیں معلوم کہ تم میں سے کس نے اجازت دی ہے اور کس نے نہیں دی ہے۔ پس واپس جاؤ اور تمہارا معاملہ ہمارے پاس تمہارے نقیب یا چودھری اور تمہارے سردار لائیں۔ چنانچہ لوگ واپس چلے گئے اور ان کے ذمہ داروں نے ان سے بات کی اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آ کر اطلاع دی کہ لوگوں نے دلی خوشی سے اجازت دے دی ہے۔
Narrated `Urwa bin Az-Zubair: Marwan bin Al-Hakam and Al-Miswar bin Makhrama told him that when the Muslims were permitted to set free the captives of Hawazin, Allah's Apostle said, "I do not know who amongst you has agreed (to it) and who has not. Go back so that your 'Urafa' may submit your decision to us." So the people returned and their 'Urafa' talked to them and then came back to Allah's Apostle and told him that the people had given their consent happily and permitted (their captives to be freed).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 89, Number 288
لا ندري من أذن منكم في ذلك ممن لم يأذن فارجعوا حتى يرفعوا إلينا عرفاؤكم أمركم فرجع الناس فكلمهم عرفاؤهم ثم رجعوا إلى رسول الله فأخبروه أنهم قد طيبوا وأذنوا
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7177
حدیث حاشیہ: مخصوص لوگوں کے منتظم اور چودھری کو عریف کہتے ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ عریف،جہنم میں جائیں گے اور امراء کے لیے بھی ہلاکت ہے۔ (مسند احمد: 352/2) اس سے مراد وہ منتظم ہیں جو حد سے گزرنے والے اور ظلم وستم ڈھانے والے ہوں۔ مطلق طور پرعرفاء قابل مذمت نہیں ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس نظام کی اجازت دی ہے۔ کوئی آدمی اکیلا امور مملکت نہیں چلا سکتا،اسے نچلی سطح پرعرفاء (ناظم وغیرہ) کی ضرورت ہے جو لوگوں کی ضروریات اوران کے مسائل حاکم اعلیٰ تک پہنچائیں اورحکومت کے قوانین وہدایات عام لوگوں تک پہنچائیں، چنانچہ ابن بطال نے لکھا ہے کہ مذکورہ حدیث میں عرفاء اور منتظم حضرات کی مشروعیت کا بیان ہے کیونکہ امام وقت تمام معاملات براہ راست نہیں چلا سکتا۔ اس نظام کی اسے ضرورت ہے تاکہ لوگوں کے معاملات کو احسن انداز میں بروقت نمٹایا جاسکے اور انھیں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ (فتح الباري: 210/13)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7177
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2308
2308. حضرت مروان بن حکم ؓ اور حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے بتایا کہ جب وفد ہوازن مسلمان ہو کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور انھوں نے مطالبہ کیا کہ ان کے قیدی اور اموال انھیں واپس کردیے جائیں تو رسول اللہ ﷺ نے کھڑے ہو کر ان سے فرمایا: ”سچ بات کہنا مجھے پسند ہے۔ تم دو باتوں میں سے ایک کا انتخاب کرلو۔ قیدی واپس لے لو یا اپنے مال کو اختیار کرلو۔ میں نے ان کے بارے میں خاصا توقف کیا تھا۔“ واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب طائف سے لوٹےتو دس راتوں سے زیادہ ان کا انتظار کیا۔ جب انھیں یقین ہو گیا کہ رسول اللہ ﷺ ان کو صرف ایک چیز واپس کریں گےتو انھوں نے کہا: ہم اپنے قیدی واپس لینے کو اختیار کرتے ہیں۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ مسلمانوں سے خطاب کرنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ آپ نے پہلے اللہ تعالیٰ کے شایان شان تعریف بیان کی، پھر فرمایا: أمابعد!تمھارےبھائی تائب ہو کر تمھارےپاس آئے ہیں اور میری۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:2308]
حدیث حاشیہ: غزوہ حنین فتح مکہ کے بعد8ھ میں واقع ہوا۔ قرآن مجید میں اس کا ان لفظوں میں ذکر ہے۔ ﴿لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ فِي مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ وَيَوْمَ حُنَيْنٍ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْئًا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُدْبِرِينَ (25) ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَنْزَلَ جُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا وَعَذَّبَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَذَلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ﴾(التوبة: 25-26) یعنی حنین کے دن بھی ہم نے تمہاری مدد کی، جب تمہاری کثرت نے تم کو گھمنڈ میں ڈال دیا تھا۔ تمہارا گھمنڈ تمہارے کچھ کام نہ آیا۔ اور زمین کشادہ ہونے کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی۔ اور تم منہ پھیر کر بھاگنے لگے۔ مگر اللہ نے اپنے رسول ﷺ کے دل پر اپنی طرف سے تسکین نازل کی اور ایمان والوں پر بھی، اور ایسا لشکر نازل کیا جسے تم نہیں دیکھ رہے تھے اور کافروں کو اللہ نے عذاب کیا اور کافروں کا یہی بدلہ مناسب ہے۔ ہوا یہ تھا کہ فتح مکہ کے بعد مسلمانوں کو یہ خیال ہوگیا تھا کہ عرب میں ہر طرف اسلامی پرچم لہرا رہا ہے اب کون ہے، جو ہمارے مقابلے پر آسکے، ان کا یہ غرور اللہ کو ناپسند آیا۔ ادھر حنین کے بہادر لوگ جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے اسلام کے مقابلہ پر آگئے۔ اور میدان جنگ میں انہوں نے بے تحاشا تیر برسانے شروع کئے تو مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے اور وہ بڑی تعداد میں راہ فرار اختیار کرنے لگے۔ حتی کہ رسول کریم ﷺ کی زبان مبارک سے یہ ارشاد ہوا أنا النبيُ لا کَذب أنا ابنُ عبدِالمطلبِ۔ میں اللہ کا سچا نبی ہوں جس میں مطلق جھوٹ نہیں ہے۔ اور میں عبدالمطلب جیسے نامور بہادر قریش کا بیٹا ہوا۔ پس میدان چھوڑنا میرا کام نہیں ہے۔ ادھر بھاگنے والے صحابہ کو جو آواز دی گئی تو وہ ہوش میں آئے۔ اور اس طرح جوش و خروش کے ساتھ رسول کریم ﷺ کے جھنڈے تلے جمع ہونے کو واپس لوٹے کہ میدان جنگ کا نقشہ پلٹ گیا اور مسلمان بڑی شان کے ساتھ کامیاب ہوئے اور ساتھ میں کافی تعداد میں لونڈی، غلام اور مال حاصل کرکے لائے۔ بعد میں لڑنے والوں میں سے قبیلہ ہوازن نے اسلام قبول کر لیا اور یہ لوگ رسول کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں اپنے اموال اور لونڈی غلام حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوئے۔ اور طائف میں آنحضرت ﷺ کی خدمت اقدس میں شرف باریابی حاصل کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ہر دو مطالبات میں سے ایک پر غور کیا جاسکتا ہے یا تو اپنے آدمی واپس لے لویا اپنے اموال حاصل کرلو۔ آپ نے ان کو جواب کے لیے مہلت دی۔ اور آپ دس روز تک جعرانہ میں ان کا انتظار کرتے رہے یہی جعرانہ نامی مقام ہے جہاں سے آپ اسی اثناءمیں احرام باندھ کر عمرہ کے لیے مکہ تشریف لائے تھے۔ جعرانہ حد حرم سے باہر ہے۔ اس دفعہ کے حج 1389ھ میں اس حدیث پر پہنچا تو خیال ہوا کہ ایک دفعہ جعرانہ جاکر دیکھنا چاہئے۔ چنانچہ جانا ہوا۔ اور وہاں سے عمرہ کا احرام باندھ کر مکہ شریف واپسی ہوئی اور عمرہ کرکے احرام کھول دیا۔ یہاں اس مقام پر اب عظیم الشان مسجد بنی ہوئی ہے اور پانی وغیرہ کا معقول انتظام ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے مطالبہ کے سلسلہ میں اپنے حصہ کے قیدی واپس کر دئیے۔ اور دوسرے جملہ مسلمانوں سے بھی واپس کرا دئیے۔ اسلام کی یہی شان ہے کہ وہ ہر حال میں انسان پروری کو مقدم رکھتا ہے۔ آپ نے یہ معاملہ قوم کے وکلاءکے ذریعہ طے کرایا۔ اسی سے مجتہد مطلق حضرت امام بخاری ؒ کا مقصد باب ثابت ہوا اور یہ بھی کہ اجتماعی قومی معاملات کو حل کرنے کے لیے قوم کے نمائندگان کا ہونا ضروری ہے۔ آج کل کی اصطلاح میں ان کو چودھری پنچ ممبر کہا جاتاہے۔ قدیم زمانے سے دنیا کی ہر قوم میں ایسے اجتماعی نظام چلے آرہے ہیں کہ ان کے چودھری پنچ جو بھی فیصلہ کردیں وہی قومی فیصلہ مانا جاتا ہے۔ اسلام ایسی اجتماعی تنظیموں کا حامی ہے بشرطیکہ معاملات حق و انصاف کے ساتھ حل کئے جائیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2308
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2308
2308. حضرت مروان بن حکم ؓ اور حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے بتایا کہ جب وفد ہوازن مسلمان ہو کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور انھوں نے مطالبہ کیا کہ ان کے قیدی اور اموال انھیں واپس کردیے جائیں تو رسول اللہ ﷺ نے کھڑے ہو کر ان سے فرمایا: ”سچ بات کہنا مجھے پسند ہے۔ تم دو باتوں میں سے ایک کا انتخاب کرلو۔ قیدی واپس لے لو یا اپنے مال کو اختیار کرلو۔ میں نے ان کے بارے میں خاصا توقف کیا تھا۔“ واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب طائف سے لوٹےتو دس راتوں سے زیادہ ان کا انتظار کیا۔ جب انھیں یقین ہو گیا کہ رسول اللہ ﷺ ان کو صرف ایک چیز واپس کریں گےتو انھوں نے کہا: ہم اپنے قیدی واپس لینے کو اختیار کرتے ہیں۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ مسلمانوں سے خطاب کرنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ آپ نے پہلے اللہ تعالیٰ کے شایان شان تعریف بیان کی، پھر فرمایا: أمابعد!تمھارےبھائی تائب ہو کر تمھارےپاس آئے ہیں اور میری۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:2308]
حدیث حاشیہ: (1) قبیلۂ ہوازن کا جو وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا وہ ان کا وکیل بھی تھا اور قیدیوں کو واپس کرانے میں سفارشی بھی تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی سفارش قبول کرتے ہوئے قیدیوں میں سے اپنا حصہ انھیں واپس کردیا اور باقی قیدیوں کے متعلق لوگوں سے بات کی۔ تمام مسلمانوں نے خوش دلی سے قیدی واپس کردیے۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ نے ابن منیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ بظاہر یہ ہبہ ان لوگوں کے لیے تھا جو اپنی قوم کی طرف سے وکیل اور سفارشی بن کرآئے تھے مگر در حقیقت یہ ہبہ سب کے لیے تھا جو حاضر تھے ان کے لیے بھی اور جو غائب تھے ان کے لیے بھی۔ (3) اس سے معلوم ہوا کہ الفاظ مقاصد پر وارد ہوتے ہیں، ظاہر صورتوں پر نہیں، اس بنا پر اگر کوئی غیر کے لیے ہبہ کی سفارش کرے اور سفارشی سے کہا جائے کہ یہ چیز تیرے لیے ہبہ کردی گئی ہے تو سفارشی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ ظاہر الفاظ کا اعتبار کرتے ہوئے اپنے لیے ہبہ رکھ لے بلکہ وہ اس کے لیے ہوگا جس کے لیے اس نے سفارش کی تھی۔ (فتح الباري: 610/4) (4) اس ھدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب کوئی اجتماعی معاملہ درپیش ہوتو انفرادی طور پر بات چیت کرنے کے بجائے اجتماعی طور پر قوم کے نمائندے طلب کرنا اور ان سے گفتگو کرنا مناسب ہے۔ کوئی قومی مسئلہ ہوتو قومی نمائندوں کے ذریعے سے اسے حل کیا جائے۔ وہ نمائندے قومی وکیل ہوں گے اور کوئی قومی امانت بھی ان کے ذریعے سے قوم کے حوالے کی جائے گی۔ بہر حال اجتماعیت کے بہت فوائد ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے متعدد مواقع پر بہت اہمیت دی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2308