الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1283
1283- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدأ میں نماز ادا کرتے تھے، پھر وہ (اپنے محلے) واپس تشریف لے جاتے تھے اور اپنی قوم کو یہ نماز پڑھایا کرتے تھے۔ راوی بیان کرتے ہیں: ایک رات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز تاخیر سے ادا کی، تو سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں عشاء کی نماز ادا کی پھر وہ واپس چلے گئے اور انہوں نے اپنی قوم کو نماز پڑھانا شروع کی، تو سورۃ بقرہ کی تلاوت شروع کردی ان کے پیچھے نمازادا کرنے والوں میں سے ایک صاحب پیچھے ہٹے انہوں نے تنہا نماز ادا کی اور چ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1283]
فائدہ:
اس بحث سے ثابت ہوا کہ امام کو لوگوں کے احوال دیکھ کر نماز پڑھانی چاہیے، اس قدر لمبی نماز میں نہ پڑھائی جائیں کہ لوگ فتنے میں مبتلا ہو جائیں۔
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے متعلق جس صحابی نے شکایت لگائی تھی اس کی مختلف وجوہات میں سے ایک بڑی اہم وجہ الاوسط الابن المنذر (2002) میں ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عشاء دیر سے پڑھائی، جس کی وجہ سے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کافی تاخیر سے اپنی قوم کے پاس پہنچے، پھر جب نماز پڑھانے لگے تو سورۃ البقرہ کی تلاوت شروع کر دی، یعنی ایک تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں خاصی تاخیر کر دی، جس کی وجہ سے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی قوم کافی دیر تک ان کا انتظار کرتی رہی، چاہیے تو یہ تھا کہ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ لوگوں کومختصر سی نماز پڑھا کر فارغ کر دیتے لیکن چونکہ انھیں قرآن کریم سے بہت زیادہ محبت تھی، اس لیے انہوں نے نیک نیتی سے سورۃ البقرہ پڑھنی شروع کر دی لیکن قوم میں سے ایک بندے نے نماز توڑ کر الگ پڑھ لی، اور پھر صبح شکایت کر دی۔
نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مستقل امام کے پیچھے مفترض کی نماز ہو جاتی ہے۔ رعایا امام یا استاد کی شکایت حاکم وقت سے کر سکتی ہے، حاکم وقت فیصلہ کرنے میں دیر نہ کرے، بلکہ جلدی سے جلدی فیصلہ کر دے، تا کہ مزید نقصان نہ ہو۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1283