(مرفوع) حدثنا عبدان، اخبرنا عبد الله، اخبرنا معمر، عن الزهري، اخبرني محمود بن الربيع، قال: سمعت عتبان بن مالك، يقول: غدا علي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رجل: اين مالك بن الدخشن، فقال رجل:" منا ذلك منافق لا يحب الله ورسوله، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: الا تقولوه يقول: لا إله إلا الله، يبتغي بذلك وجه الله، قال: بلى، قال: فإنه لا يوافى عبد يوم القيامة به إلا حرم الله عليه النار".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي مَحْمُودُ بْنُ الرَّبِيعِ، قَالَ: سَمِعْتُ عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: غَدَا عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَجُلٌ: أَيْنَ مَالِكُ بْنُ الدُّخْشُنِ، فَقَالَ رَجُلٌ:" مِنَّا ذَلِكَ مُنَافِقٌ لَا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَلَا تَقُولُوهُ يَقُولُ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ، قَالَ: بَلَى، قَالَ: فَإِنَّهُ لَا يُوَافَى عَبْدٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِهِ إِلَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ النَّارَ".
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں محمود بن الربیع نے خبر دی، کہا کہ میں نے عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ صبح کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تشریف لائے پھر ایک صاحب نے پوچھا کہ مالک بن الدخشن کہاں ہیں؟ ہمارے قبیلہ کے ایک شخص نے جواب دیا کہ وہ منافق ہے، اللہ اور اس کے رسول سے اسے محبت نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ کیا تم ایسا نہیں سمجھتے کہ وہ کلمہ لا الہٰ الا اللہ کا اقرار کرتا ہے اور اس کا مقصد اس سے اللہ کی رضا ہے۔ اس صحابی نے کہا کہ ہاں یہ تو ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر جو بندہ بھی قیامت کے دن اس کلمہ کو لے کر آئے گا، اللہ تعالیٰ اس پر جہنم کو حرام کر دے گا۔
Narrated `Itban bin Malik: Once Allah's Apostle came to me in the morning, and a man among us said, "Where is Malik bin Ad- Dukhshun?" Another man from us replied, "He is a hypocrite who does not love Allah and His Apostle." The Prophet said, "Don't you think that he says: None has the right to be worshipped but Allah, only for Allah's sake?" They replied, "Yes" The Prophet said, "Nobody will meet Allah with that saying on the Day of Resurrection, but Allah will save him from the Fire."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 84, Number 71
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6938
حدیث حاشیہ: باب کی مناسبت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں پر مواخذہ نہیں کیا جنہوں نے مالک کو منافق کہا تھا اس لیے کہ وہ تاویل کرنے والے تھے یعنی مالک کے حالات کو دیکھ کر اسے منافق سمجھتے تھے تو ان کا گمان غلط ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6938
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6938
حدیث حاشیہ: حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس آنے والے مہمانوں نے حضرت مالک بن دخشن رضی اللہ عنہ کو منافق کہا اور اس کے متعلق تبصرہ کیا کہ اسے اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہیں ہے۔ یہ بہت بڑی بات تھی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کا مؤاخذہ نہیں فرمایا بلکہ انھیں معذور خیال فرمایا کیونکہ ان کے پاس معقول وجہ تھی کہ ان کا اٹھنا بیٹھنا منافقین کے ساتھ تھا، نیز وہ اس مبارک مجلس میں حاضر بھی نہیں ہوئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اصلاح فرمائی کہ اسلام کے احکام تو ظاہری حالات پر لاگو ہوتے ہیں، باطن کا حال اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے باطن کی بھی خبر دی کہ وہ کلمہ پڑھنے سے اللہ تعالیٰ کی رضا کا طالب ہے۔ (فتح الباري: 381/12)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6938
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 425
425. حضرت محمود بن ربیع انصاری سے روایت ہے کہ حضرت عتبان بن مالک ؓ رسول اللہ ﷺ کے ان انصاری صحابہ میں سے ہیں جو شریک بدر تھے۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میری بینائی جاتی رہی ہے اور میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں، لیکن بارش کی وجہ سے جب وہ نالہ بہنے لگتا ہے جو میرے اور ان کے درمیان ہے تو میں نماز پڑھانے کے لیے مسجد میں نہیں آ سکتا، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے ہاں تشریف لائیں اور میرے گھر میں کسی جگہ نماز پڑھیں تاکہ میں اس جگہ کو جائے نماز قرار دے لوں۔ راوی کہتا ہے کہ ان سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”میں إن شاءاللہ جلد ہی ایسا کروں گا۔“ حضرت عتبان ؓ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ دوسرے روز دن چڑھے میرے گھر تشریف لائے اور رسول اللہ ﷺ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو میرے اجازت دینے پر آپ گھر میں داخل ہوئے اور بیٹھنے سے پہلے فرمایا: "تم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:425]
حدیث حاشیہ: علامہ حافظ ابن حجرؒ نے اس حدیث سے بہت سے مسائل کو ثابت فرمایاہے، مثلا: (1) اندھے کی امامت کا جائز ہونا۔ جیسا کہ حضرت عتبان ؓ نابینا ہونے کے باوجود اپنی قوم کو نماز پڑھاتے تھے۔ (2) اپنی بیماری کا بیان کرنا شکایت میں داخل نہیں۔ (3) یہ بھی ثابت ہوا کہ مدینہ میں مسجد نبوی کے علاوہ دیگر مساجد میں بھی نماز باجماعت ادا کی جاتی تھی۔ (4) عتبان جیسے معذوروں کے لیے اندھیرے اوربارش میں جماعت کا معاف ہونا۔ (5) بوقت ضرورت نماز گھر میں پڑھنے کے لیے ایک جگہ مقرر کرلینا۔ (6) صفوں کا برابر کرنا۔ (7) ملاقات کے لیے آنے والے بڑے آدمی کی امامت کا جائز ہونا بشرطیکہ صاحب خانہ اسے اجازت دے۔ (8) آنحضرت ﷺ نے جہاں نماز پڑھی اس جگہ کا متبرک ہونا۔ (9) اگرکسی صالح نیک انسان کو گھرمیں برکت کے لیے بلایا جائے تواس کا جائز ہونا۔ (10) بڑے لوگوں کا چھوٹے بھائیوں کی دعوت قبول کرنا۔ (11) وعدہ پورا کرنا اور اس کے لیے إن شاءاللہ کہنا اگر میزبان پر بھروسا ہے توبغیر بلائے ہوئے بھی اپنے ساتھ دوسرے احباب کو دعوت کے لیے لے جانا۔ (12) گھر میں داخل ہونے سے پہلے صاحب خانہ سے اجازت حاصل کرنا۔ (13) اہل محلہ کا عالم یاامام کے پاس برکت حاصل کرنے کے لیے جمع ہونا۔ (14) جس سے دین میں نقصان کا ڈر ہواس کا حال امام کے سامنے بیان کردینا۔ (15) ایمان میں صرف زبانی اقرار کافی نہیں جب تک کہ دل میں یقین اور ظاہر میں عمل صالح نہ ہو۔ (16) توحید پر مرنے والے کا ہمیشہ دوزخ میں نہ رہنا۔ (17) برسات میں گھر میں نماز پڑھ لینا۔ (18) نوافل جماعت سے ادا کرنا۔ قسطلانی ؒ نے کہا کہ عتبان بن مالک انصاری سالمی مدنی ؓ تھے جونابینا ہوگئے تھے۔ آنحضرت ﷺ ہفتہ کے دن آپ کے گھر تشریف لائے اور حضرت ابوبکر اور عمررضی اللہ عنہم بھی ساتھ تھے۔ حلیم خزیرہ کا ترجمہ ہے، جوگوشت کے ٹکڑوں کو پانی میں پکاکر بنایا جاتا تھا اوراس میں آٹا بھی ملایا کرتے تھے۔ مالک بن دخیشن جس پر نفاق کا شبہ ظاہر کیا گیاتھا، بعض لوگوں نے اسے مالک بن دخشم صحیح کہاہے۔ یہ بلااختلاف بدرکی لڑائی میں شریک تھے اورسہیل بن عمرو کافرکو انھوں نے ہی پکڑا تھا۔ ابن اسحاق نے مغازی میں بیان کیا ہے کہ مسجد ضرار کو جلانے والوں میں آنحضرت ﷺ نے ان کو بھی بھیجا تھا توظاہر ہوا کہ یہ منافق نہ تھے مگر کچھ لوگوں کو بعض حالات کی بناپر ان کے بارے میں ایسا ہی شبہ ہوا، جیسا کہ حاطب بن بلتعہ ؓ کے بارے میں شبہ پیدا ہوگیا تھا، جب کہ انھوں نے اپنی بیوی اوربچوں کی محبت میں آنحضرت ﷺ کے ارادہ لشکر کشی کی جاسوسی مکہ والوں سے کرنے کی کوشش کی تھی جو ان کی غلطی تھی، مگرآنحضرت ﷺ نے ان کا عذر قبول فرماکر اس غلطی کو معاف کردیاتھا۔ ایسا ہی مالک بن دخشم کے بارے میں آپ نے لوگوں کو منافق کہنے سے منع فرمایا، اس لیے بھی کہ وہ مجاہدین بدرسے ہیں جن کی ساری غلطیوں کو اللہ نے معاف کردیاہے۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو بیس سے بھی زیادہ مقامات پر روایت کیا ہے اور اس سے بہت سے مسائل نکالے ہیں، جیسا کہ اوپر گزر چکاہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 425
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5401
5401. سیدنا محمود بن ربیع ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا عتبان بن مالک ؓ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ یہ صاحب نبی ﷺ کے انصاری صحابہ میں سے ہیں انہوں نے غزوہ بدر میں بھی شرکت کی تھی انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میری نظر کمزور ہو چکی ہے اور میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں موسم برسات میں یہ نالا بہہ پڑتا ہے جو میری لیے ان کی مسجد میں جانا اور انہیں نماز پڑھانا ممکن نہیں رہتا۔ اللہ کے رسول! میری انہتائی خواہش ہے کہ آپ میرے گھر تشریف لے چلیں اور وہاں نماز پڑھیں تو میں اس جگہ کو اپنے لیے ”جائے نماز“ قرار دے لوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں إن شاء اللہ جلد ہی ایسا کروں گا حضرت عتبان ؓ نے کہا کہ ایک دن چاشت کے وقت جب سورج کچھ بلند ہوا تو رسول اللہ ﷺ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کے ہمراہ تشریف لائے۔ نبی ﷺ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو میں نے اجازت دے دی۔ جب آپ گھر میں داخل ہوئے تو بیٹھے بغیر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:5401]
حدیث حاشیہ: یہ حدیث پہلے بھی گزر چکی ہے۔ دوزخ حرام ہونے کا یہ مطلب ہے کہ وہ طبقہ مومن پر حرام ہے جس میں کافر اور منافق رہیں گے یا دوزخ میں ہمیشہ کے لیے رہنا مسلمان پر حرام ہے۔ اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ کسی کلمہ گو مسلمان کو کسی معقول شرعی وجہ کے بغیر کافر قرار دینا جائز نہیں ہے۔ اس صورت میں وہ کفر خود کہنے والے کی طرف لوٹ جاتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5401
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:425
425. حضرت محمود بن ربیع انصاری سے روایت ہے کہ حضرت عتبان بن مالک ؓ رسول اللہ ﷺ کے ان انصاری صحابہ میں سے ہیں جو شریک بدر تھے۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میری بینائی جاتی رہی ہے اور میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں، لیکن بارش کی وجہ سے جب وہ نالہ بہنے لگتا ہے جو میرے اور ان کے درمیان ہے تو میں نماز پڑھانے کے لیے مسجد میں نہیں آ سکتا، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے ہاں تشریف لائیں اور میرے گھر میں کسی جگہ نماز پڑھیں تاکہ میں اس جگہ کو جائے نماز قرار دے لوں۔ راوی کہتا ہے کہ ان سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”میں إن شاءاللہ جلد ہی ایسا کروں گا۔“ حضرت عتبان ؓ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ دوسرے روز دن چڑھے میرے گھر تشریف لائے اور رسول اللہ ﷺ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو میرے اجازت دینے پر آپ گھر میں داخل ہوئے اور بیٹھنے سے پہلے فرمایا: "تم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:425]
حدیث حاشیہ: 1۔ یہاں مسجد میں مراد یہ ہے کہ گھر میں نماز پڑھنے کے لیے کوئی جگہ مخصوص کر لی جائے۔ اس پر عام مساجد کے احکام نافذ نہیں ہوں گے، کیونکہ عام مساجد کسی کی ملک نہیں ہوتیں۔ ان کی خریدوفروخت نہیں کی جا سکتی، ان میں وراثت جاری نہیں ہوتی۔ بحالت جنابت و حیض ان میں آمدورفت جائز نہیں، جبکہ گھر کی مسجد صاحب خانہ ملکیت ہوتی ہے۔ اس کی خریدو فرخت جائز ہے۔ اس کا میراث میں تقسیم کیا جا نا بھی جائز ہے۔ جنابت اور حیض کی حالت میں وہاں آمدو رفت رکھنا بھی جائز ہے۔ اگر گھر کی مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھی جائے تو صرف جماعت کا ثواب حاصل ہو گا۔ مسجد کی جماعت کا ثواب نہیں ملے گا۔ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ معذور کے لیے اس طرح کی گھریلو مساجد میں فرائض کی ادائیگی درست ہے۔ اگر نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے گھر میں کوئی جگہ مقرر کر لی جائے جہاں معذوری کی صورت میں نماز باجماعت کا اہتمام ہوتو جماعت کا ثواب مل جائے گا اور اس پر مسجد شرعی سے غیر حاضر ہونے کا الزام عائد نہیں ہو گا۔ واضح رہے کہ گھروں میں نماز باجماعت کا ثبوت ظالم حکمرانوں کے زمانے میں اور دوسرے اعذار کے وقت ہوا ہے۔ 2۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس حدیث سے بہت سے مسائل کا استنباط فرمایا ہے، مثلاً: نابینے کی امامت کا جائز ہونا، کیونکہ حضرت عتبان ؓ نابینا ہونے کے باوجود اپنی قوم کو نماز پڑھاتے تھے۔ اپنی بیماری کو بیان کرنا اللہ تعالیٰ کے شکوہ و شکایت میں داخل نہیں۔ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے علاوہ دیگر مساجد میں بھی نماز با جماعت کا اہتمام تھا۔ معذوروں کے لیے بارش اور سخت تاریکی میں جماعت کی پابندی ضروری نہیں۔ ضرورت کے وقت گھر میں نماز پڑھنے کے لیے کوئی بھی جگہ مقرر کی جاسکتی ہے۔ ملاقات کے لیے آنے والے بڑے آدمی کی امامت کا جائز ہونا بشرطیکہ صاحب خانہ اسے اجازت دے۔ کسی نیک آدمی کو گھر میں خیروبرکت کے لیے دعوت دی جائے تو ایساکرنا جائز ہے۔ بڑے لوگوں کو چاہیے کہ وہ چھوٹے لوگوں کی دعوت قبول کریں اور اس میں حاضر ہوں۔ وعدہ پورا کرنا چاہیے اور اس کے لیے"إن شاء اللہ" کہنا چاہیے۔ اگرمیزبان پر اعتماد ہو تو دعوتی حضرات کے علاوہ دوسرے کو ساتھ لے جانے میں کوئی حرج نہیں۔ گھر میں داخل ہونے سے پہلے اہل خانہ سے اجازت لینا شریعت کا اہم تقاضا ہے۔ اہل محلہ کا کسی عالم یا امام کے پاس حصول برکت کے لیے جمع ہونا بھی جائز ہے۔ امام کے سامنے اس شخص کا تذکرہ کرنا جس سے دن اسلام کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ ایمان میں صرف زبانی اقرار کافی نہیں جب تک دل میں یقین اور ظاہر میں عمل صالح نہ ہو۔ توحید پر مرنے والا ہمیشہ دوزخ میں نہیں رہے گا۔ موسم برسات میں (جبکہ آمد و رفت میں مشقت ہو) نماز گھروں میں پڈھنا جائز ہے۔ نوافل با جماعت ادا ہو سکتے ہیں، بشرطیکہ تداعی (ایک دوسرے کو اس کے لیے دعوت دینا) نہ ہو۔ واضح رہے کہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو د س زیادہ مقامات پر بیان کیا ہے اور اس سے بہت سے مسائل کا استنباط کیا ہے۔ جیسا کہ تفصیل بالا سے واضح ہے۔ (فتح الباري: 677/1) 3۔ چونکہ حضرت محمود بن ربیع ؓ ایک کم سن صحابی ہیں، نیز اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ نجات کے لیے صرف ایمان ہی کافی ہے، اعمال کی ضرورت نہیں، اس لیے ابن شہاب نے اطمینان قلب کے لیے حضرت حصین بن محمد انصاری سے پوچھنے کی ضرورت محسوس کی، چنانچہ جب ان سے پوچھا تو انھوں نے اس کی تصدیق کی۔ جیسے امام بخاری ؒ نے آخر میں بیان کیا ہے۔ 4۔ ممکن ہے کہ امام بخاری نے اس عنوان سے حدیث عائشہ ؓ کی طرف اشارہ فرمایا ہو جس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گھروں میں مساجد بنانے اور انھیں صاف ستھرا اور معطر رکھنے کا حکم دیا ہے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 455) نیز حضرت سمرہ بن جندب ؓ نے اپنے بیٹوں کو خط لکھا تھا کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں گھروں میں مساجد بنانے، ان کی اصلاح کرنے اور انھیں پاکیزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 456)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 425
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5401
5401. سیدنا محمود بن ربیع ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا عتبان بن مالک ؓ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ یہ صاحب نبی ﷺ کے انصاری صحابہ میں سے ہیں انہوں نے غزوہ بدر میں بھی شرکت کی تھی انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میری نظر کمزور ہو چکی ہے اور میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں موسم برسات میں یہ نالا بہہ پڑتا ہے جو میری لیے ان کی مسجد میں جانا اور انہیں نماز پڑھانا ممکن نہیں رہتا۔ اللہ کے رسول! میری انہتائی خواہش ہے کہ آپ میرے گھر تشریف لے چلیں اور وہاں نماز پڑھیں تو میں اس جگہ کو اپنے لیے ”جائے نماز“ قرار دے لوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں إن شاء اللہ جلد ہی ایسا کروں گا حضرت عتبان ؓ نے کہا کہ ایک دن چاشت کے وقت جب سورج کچھ بلند ہوا تو رسول اللہ ﷺ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کے ہمراہ تشریف لائے۔ نبی ﷺ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو میں نے اجازت دے دی۔ جب آپ گھر میں داخل ہوئے تو بیٹھے بغیر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:5401]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث میں ہے کہ حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر مہمانوں کو خزیرہ پیش کیا جو خصوصی طور پر تیار کیا گیا تھا۔ یہ ایک بہترین، زود ہضم اور لذیذ پکوان ہے۔ گوشت کا باریک قیمہ کر کے دیگ میں ڈال دیا جاتا ہے، پھر اس میں پانی ڈال کر نیچے آگ جلاتے ہیں، جب قیمہ پک جاتا ہے تو اس پر جو کا آٹا ڈالتے ہیں، اس طرح وہ لذت میں بے مثال ہوتا ہے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ اس طرح کے پکوان مہمانوں کو پیش کیے جا سکتے ہیں، اس میں کسی قسم کی فضول خرچی یا اسراف نہیں ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5401