(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، قال: اخبرنا مالك، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة ام المؤمنين، انها قالت: صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم في بيته وهو شاك، فصلى جالسا وصلى وراءه قوم قياما فاشار إليهم ان اجلسوا، فلما انصرف، قال:" إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا ركع فاركعوا، وإذا رفع فارفعوا، وإذا صلى جالسا فصلوا جلوسا".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، أَنَّهَا قَالَتْ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِهِ وَهُوَ شَاكٍ، فَصَلَّى جَالِسًا وَصَلَّى وَرَاءَهُ قَوْمٌ قِيَامًا فَأَشَارَ إِلَيْهِمْ أَنِ اجْلِسُوا، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ:" إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا، وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا کہا کہ ہم سے امام مالک رحمہ اللہ نے ہشام بن عروہ سے بیان کیا۔ انہوں نے اپنے باپ عروہ سے انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ آپ نے بتلایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ بیماری کی حالت میں میرے ہی گھر میں نماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہو کر پڑھ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد فرمایا کہ امام اس لیے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ اس لیے جب وہ رکوع میں جائے تو تم بھی رکوع میں جاؤ اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ اور جب وہ «سمع الله لمن حمده» کہے تو تم «ربنا ولك الحمد» کہو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔
Narrated Aisha: the mother of the believers: Allah's Apostle during his illness prayed at his house while sitting whereas some people prayed behind him standing. The Prophet beckoned them to sit down. On completion of the prayer, he said, 'The Imam is to be followed: bow when he bows, raise up your heads (stand erect) when he raises his head and when he says, 'Sami`a l-lahu liman hamidah' (Allah heard those who sent praises to Him) say then 'Rabbana wa laka l-hamd' (O our Lord! All the praises are for You), and if he prays sitting then pray sitting."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 11, Number 656
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 688
حدیث حاشیہ: قسطلانی ؒ نے کہا کہ اس حدیث سے حضرت امام ابوحنفیہ ؒ نے دلیل لی کہ امام فقط سمع اللہ لمن حمدہ کہے اور مقتدی ربنا لك الحمد یا ربنا و لك الحمد یا اللهم ربنا لك الحمد کہے اور امام شافعی ؒ اور ہمارے امام احمد بن حنبل ؒ کا یہ قول ہے کہ امام دونوں لفظ کہے اور اسی طرح مقتدی بھی دونوں لفظ کہے۔ (مولانا وحید الزماں)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 688
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:688
حدیث حاشیہ: یہ مرض وفات سے پہلے کا واقعہ ہے جب رسول اللہ ﷺ گھوڑے سے گر کر زخمی ہوگئے تھے۔ اس روایت میں حضرت عائشہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی بیماری کی نوعیت کو مبہم رکھا ہے جبکہ حضرت انس اور حضرت جابر ؓ کی روایات میں اس کی صراحت ہے کہ گھوڑے سے گرنے کی وجہ سے آپ کا دایاں پہلو متاثر ہوا تھا، اس کے علاوہ آپ کے پاؤں کو بھی موچ آگئی تھی، اس بنا پر رسول الله ﷺ نے بالا خانے میں قیام فرمایا اور تیماداری کرنے والے صحابہ کو نماز پڑھائی۔ ابو داود میں ہے کہ اس وقت دو مرتبہ آپ کے جانثار صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم آپ کی تیماداری کے لیے حاضر خدمت ہوئے اور دونوں مرتبہ آپ نے انھیں بیٹھ کر نماز پڑھائی۔ پہلی دفعہ نفلی نماز پڑھائی تھی، چنانچہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہے تھے جبکہ آپ بیٹھے ہوئے تھے لیکن آپ نے انھیں بیٹھنے کا حکم نہیں دیا اور دوسری مرتبہ جو نماز پڑھائی وہ فرض نماز تھی اور آپ نے دوران نماز میں کھڑے ہوئے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو بیٹھنے کا اشارہ فرمایا۔ (فتح الباري: 233/2) امام ابن حبان کی صراحت کے مطابق گھوڑے سے گرنے کا واقعہ ہجرت کے پانچویں سال پیش آیا۔ (فتح الباري: 231/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 688
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1237
´امام اس لیے مقرر ہوا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے، تو آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کچھ لوگ آپ کی عیادت کے لیے اندر آئے، آپ نے بیٹھ کر نماز پڑھائی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا کہ بیٹھ جاؤ، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ”امام اس لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، لہٰذا جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، اور جب رکوع سے سر اٹھائے تو تم بھی اپنا سر اٹھاؤ، اور جب بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1237]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) حالت بیماری میں گھر میں نماز پڑھنا جائز ہے۔
(2) مریض کی بیمار پرسی کرنی چاہیے۔
(3) رکوع وسجود وغیرہ میں امام سے آگے بڑھنا جائز نہیں (سنن ابن ماجة، حدیث: 960 تا 963)
(4) امام بیٹھ کرنماز پڑھائے تو مقتدی بھی بیٹھ کر نماز پڑھیں۔ اگرچہ کوئی عذر نہ ہو۔ اکثر علماء اس حکم کو منسوخ قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ کہ آخری ایام میں بیماری کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھائی اور صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہوکر نمازادا کی۔ اور یہی بات صحیح ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1237
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5658
5658. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کی بیماری کے دوران میں کچھ صحابہ کرام ؓ آپ کی عیادت کو آئے تو آپ نے ان کو بیٹھ کر نماز پڑھائی۔ لوگ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے تو آپ ﷺ نے انہیں اشارہ کیا کہ بیٹھ جاؤ۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ”امام کی ہر صورت میں اقتدا کی جائے۔ جب وہ رکوع کرے تو تم رکوع کرو۔ جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ اور اگر امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔“ ابو عبداللہ (امام بخاری ؓ) نے کہا کہ امام حمیدی کے قول کے مطابق یہ حدیث منسوخ ہے کیونکہ نبی ﷺ نے آخری نماز بیٹھ کر پڑھی جبکہ لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑگ رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5658]
حدیث حاشیہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مزاج پرسی کے لیے بہت صحابہ حاضر ہو گئے اسی دوران نماز کا وقت ہو گیا، اس لیے آپ نے بحالت مرض ہی ان کو باجماعت نماز پڑھائی اور امام کی اقتدا کے تحت بیٹھ کر نماز پڑھنے کا حکم فرمایا مگر بعد یہ حکم منسوخ ہو گیا جیسا کہ خود امام بخاری نے وضاحت فرما دی ہے باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5658
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1236
1236. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے گھر میں بیٹھ کر نماز ادا فرمائی جبکہ آپ بیمار تھے۔ آپ کی اقتدا میں لوگوں نے کھڑے ہو کر نماز شروع کی تو آپ نے اشارہ کیا کہ بیٹھ جاؤ۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ”امام اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، لہذا جب وہ رکوع کرے تو تم رکوع کرو اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1236]
حدیث حاشیہ: یعنی حضرت ﷺ نے بحالت بیماری بیٹھ کر نماز پڑھی اور مقتدیوں کی طرف نماز میں ارشاد فرمایا کہ بیٹھ جاؤ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو مقتدی بھی بیٹھ کر نماز پڑھیں لیکن وفات کی بیماری میں آپ نے بیٹھ کر نماز پڑھائی اور صحابہ نے آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھی، اس سے معلوم ہوا کہ پہلا امر منسوخ ہے (کرماني)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1236
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1236
1236. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے گھر میں بیٹھ کر نماز ادا فرمائی جبکہ آپ بیمار تھے۔ آپ کی اقتدا میں لوگوں نے کھڑے ہو کر نماز شروع کی تو آپ نے اشارہ کیا کہ بیٹھ جاؤ۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ”امام اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، لہذا جب وہ رکوع کرے تو تم رکوع کرو اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1236]
حدیث حاشیہ: ان احادیث سے بھی امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ دوران نماز میں ہاتھ یا سر سے اشارہ کرنے سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی، چنانچہ حضرت اسماء ؓ سے مروی حدیث میں حضرت عائشہ ؓ نے دوران نماز میں دو مرتبہ اپنے سر سے اشارہ فرمایا۔ اسی طرح آخری حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے دوران نماز لوگوں کو اشارہ کیا کہ بیٹھ کر نماز پڑھو۔ واضح رہے کہ مرضِ وفات کے وقت نماز پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کو ایسے حالات میں بیٹھ کر نماز پڑھنے کا حکم منسوخ ہو چکا ہے، کیونکہ اس وقت آپ نے بیٹھ کر نماز پڑھائی جبکہ مقتدی حضرات نے کھڑے ہو کر نماز ادا کی تھی۔ اس کی وضاحت ہم پہلے کر آئے ہیں۔ اس حدیث میں ان لوگوں کی تردید ہے جو دوران نماز میں اشارے کے ساتھ سلام کا جواب دینے کو منع کہتے ہیں، کیونکہ اگر لوگوں کو اشارے سے بیٹھنے کا حکم دیا جا سکتا ہے تو اشارے سے سلام کا جواب بھی دیا جا سکتا ہے۔ ان دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ (فتح الباري: 140/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1236
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5658
5658. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کی بیماری کے دوران میں کچھ صحابہ کرام ؓ آپ کی عیادت کو آئے تو آپ نے ان کو بیٹھ کر نماز پڑھائی۔ لوگ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے تو آپ ﷺ نے انہیں اشارہ کیا کہ بیٹھ جاؤ۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ”امام کی ہر صورت میں اقتدا کی جائے۔ جب وہ رکوع کرے تو تم رکوع کرو۔ جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ اور اگر امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔“ ابو عبداللہ (امام بخاری ؓ) نے کہا کہ امام حمیدی کے قول کے مطابق یہ حدیث منسوخ ہے کیونکہ نبی ﷺ نے آخری نماز بیٹھ کر پڑھی جبکہ لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑگ رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5658]
حدیث حاشیہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ گھوڑے سے گرے تو پاؤں پر چوٹ آ گئی، جس سے چلنا پھرنا دشوار ہو گیا۔ آپ نے بالا خانے میں قیام فرمایا۔ اس دوران میں کچھ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم مزاج پرسی کے لیے گئے۔ وہاں نماز کا وقت ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیماری کی حالت میں انہیں نماز پڑھائی، اور امام کی اقتدا کے پیش نظر آپ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی بیٹھ کر نماز ادا کرنے کا حکم دیا مگر بعد میں یہ حکم منسوخ ہو گیا جیسا کہ خود امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کی وضاحت کر دی ہے۔ اس مسئلے کی مزید تفصیل حدیث: 688 میں دیکھی جا سکتی ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5658