(مرفوع) حدثني محمد بن بشار، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن فراس، عن الشعبي، عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" الكبائر: الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، او قال: اليمين الغموس" شك شعبة، وقال معاذ، حدثنا شعبة، قال:" الكبائر: الإشراك بالله، واليمين الغموس، وعقوق الوالدين، او قال: وقتل النفس".(مرفوع) حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ فِرَاسٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْكَبَائِرُ: الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ، أَوْ قَالَ: الْيَمِينُ الْغَمُوسُ" شَكَّ شُعْبَةُ، وَقَالَ مُعَاذٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ:" الْكَبَائِرُ: الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَالْيَمِينُ الْغَمُوسُ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ، أَوْ قَالَ: وَقَتْلُ النَّفْسِ".
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا، ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے فراس نے، ان سے شعبی نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کبیرہ گناہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا یا فرمایا کہ ناحق دوسرے کا مال لینے کے لیے جھوٹی قسم کھانا ہیں۔“ شک شعبہ کو تھا اور معاذ نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کبیرہ گناہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، کسی کا مال ناحق لینے کے لیے جھوٹی قسم کھانا اور والدین کی نافرمانی کرنا یا کہا کہ کسی کی جان لینا۔
Narrated `Abdullah bin `Amr: The Prophet said, "Al-Ka`ba'ir (the biggest sins) are: To join others (as partners) in worship with Allah, to be undutiful to one's parents," or said, "to take a false oath." (The sub-narrator, Shu`ba is not sure) Mu`adh said: Shu`ba said, "Al-Ka`ba'ir (the biggest sins) are: (1) Joining others as partners in worship with Allah, (2) to take a false oath (3) and to be undutiful to one's parents," or said, "to murder (someone unlawfully).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 83, Number 9
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4016
´کبائر (کبیرہ گناہوں) کا بیان۔` عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کبائر (بڑے گناہ) یہ ہیں: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، (ناحق) خون کرنا اور جھوٹی قسم کھانا۔“[سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4016]
اردو حاشہ: ”جھوٹی قسم کھانا“ عربی میں اس کے لیے لفظ ”الیمین الغموس“ استعمال کیا گیا ہے، یعنی گناہ میں ڈبو دینے والی قسم یا آگ میں داخل کرنے والی قسم۔ جس قسم کھانے کا یہ انجام ہو ظاہر ہے کہ وہ قسم جھوٹی ہی ہو سکتی ہے اور یہ وہ قسم ہوتی ہے جس سے کسی کا مال ناحق حاصل کیا جائے، یا کسی کو ناحق نقصان پہنچایا جائے یا اس کے ذریعے سے کسی کو ناجائز فائدہ پہنچایا جائے وغیرہ۔ و اللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4016
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4872
´قصاص سے متعلق مجتبیٰ (سنن صغریٰ) کی بعض وہ احادیث جو ”سنن کبریٰ“ میں نہیں ہیں آیت کریمہ: ”جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے“(النساء: ۹۳) کی تفسیر۔` عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو قتل کرنا اور جھوٹی قسم کھانا۔“[سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4872]
اردو حاشہ: ”جھوٹی قسم“ عربی میں یَمِین غَمُوس کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، یعنی ایسی قسم جو قسم کھانے والے کو گناہ میں ڈبو دے۔ ظاہر ہے وہ جھوٹی ہی ہوگی جس کے ساتھ کسی کا مال ناحق حاصل کیا گیا ہو۔ قیامت کے دن ایسی قسم آگ ہی میں ڈبوئے گی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4872
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6675
6675. حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: بڑے گناہ یہ ہیں: ”اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بنانا، والدین کی نافرمانی کرنا، ناحق قتل کرنا اور جھوٹی قسم اٹھانا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6675]
حدیث حاشیہ: كبائر، كبيرة کی جمع ہے۔ مذکورہ حدیث میں چار کبیرہ گناہوں کا ذکر کیا گیا ہے، حالانکہ بعض روایات میں سات اور بعض میں دس بیان ہوئے ہیں۔ یہ تضاد نہیں کیونکہ ایک عدد کا ذکر دوسرے عدد کے منافی نہیں ہوتا۔ (2) واضح رہے کہ اس قسم میں کفارہ نہیں ہوتا، صرف اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کیا جائے۔ اگر کسی کا حق مارا ہے تو وہ واپس کیا جائے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم یمین غموس کو ایسا گناہ شمار کرتے تھے جو کفارے سے بھی نہیں دھل سکتا۔ یمین غموس یہ ہے کہ آدمی کسی دوسرے کا مال ہڑپ کرنے کے لیے جھوٹی قسم کھائے۔ اس امر میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے بھی ان کی مخالفت نہیں کی۔ (فتح الباري: 679/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6675
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6920
6920. حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے انہوں نےکہا: ایک دیہاتی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! بڑے بڑے گناہ کون سے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”اللہ کا شریک بنانا“ اس نے پوچھا: اس کے بعد کون سا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”والدین کی نافرمانی کرنا۔“ اس نے دریافت کیا، پھر کون سے ہے؟ آپ نے فرمایا: ”جھوٹی قسم اٹھانا“ میں نے پوچھا: یمین غموس کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”جان بوجھ کر اس کے ذریعے سے کسی کا مال ہتھیا لے، حالانکہ وہ اس (قسم) میں جھوٹا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6920]
حدیث حاشیہ: (1) اللہ تعالیٰ نے بتوں کی عبادت کو گندگی سے تشبیہ دی ہے، فرمایا: ”بتوں کی گندگی سے بچو۔ “(الحج22: 31) یعنی آستانوں کی آلائش اور بتوں کی پرستش سے اس طرح بچو جیسے انسان گندگی کے ڈھیر سے بچتا ہے، اور اس گندگی کے قریب جانے سے بھی گھن آتی ہے۔ ایک مقام پر شرک کی سنگینی کو ان الفاظ میں بیان فرمایا: ”اور جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بنایا تو وہ ایسے ہے جیسے آسمان سے گرے، پھر اسے پرندے اچک لیں جائیں یا ہوا، اسے کسی دور دراز مقام پر لے جا کر پھینک دے۔ “(الحج22: 31)(2) اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے، اب اگر وہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے آگے جھکے تو گویا ایک بلند تر مخلوق کمتر مخلوق کے سامنے جھک گئی اور جس نے شرک کیا گویا وہ توحید کی بلندیوں سے نیچے گر گیا، اب اس کی کوئی مضبوط بنیاد نہیں رہی، اب وہ اپنی خواہشات نفس کے پیچھے یا اپنے جیسے مشرکین کے پیچھے لڑھکتا ہے گا جو اسے کبھی کسی در پرجانے کا مشورہ دیں گے، کبھی دوسرے کے آستانے پر جانے کا کہیں گے حتی کہ یہ شکاری پرندے اسے مکمل طور پر گمراہ اور بے ایمان کر کے ہی چھوڑیں گے۔ أعاذنا الله منه
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6920