ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں امام مالک نے خبر دی، انہیں اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اے اللہ! ان کے «كيل» پیمانے میں ان کے صاع اور ان کے مد میں برکت عطا فرما۔“
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6714
حدیث حاشیہ: (1) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی: اللہ کے رسول! ہمارا صاع دوسرے صاعوں اور ہمارا مد دیگر مدوں میں سب سے چھوٹا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں دعا فرمائی: ”اے اللہ! ہمارے صاع میں برکت کر دے اور ہمارے قلیل و کثیر میں برکت ڈال دے، یعنی دوگنی برکت عطا فرما۔ “(السنن الکبریٰ للبیھقی: 171/4) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے شارح بخاری ابن منیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ مذکورہ دعا اس مد کے لیے خاص ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں وہاں رائج تھا کیونکہ اس کے بعد اہل مدینہ کے اوزان میں بہت تبدیلی آئی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا نتیجہ اس طرح ظاہر ہوا کہ مختلف کفاروں کی ادائیگی میں اکثر فقہاء نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مد اور صاع کو معیاری قرار دیا ہے۔ (فتح الباري: 729/11)(2) اس روایت میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ کہنا کہ ہمارا صاع تمام صاعوں سے چھوٹا ہے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی انکار نہیں کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ واقعی اہل مدینہ کا صاع تمام رائج الوقت صاعوں سے چھوٹا تھا اور اب تک جو صاع کی مقدار میں اختلاف سامنے آیا ہے وہ حجازیوں اور عراقیوں کا اختلاف ہے۔ اہل حجاز کا دعویٰ ہے کہ صاع 51/3 رطل کا ہے جبکہ اہل عراق کا کہنا ہے کہ صاع آٹھ رطل کا ہے۔ درج بالا روایت سے ثابت ہوا کہ صاع نبوی آٹھ رطل کا نہیں بلکہ 51/3 رطل کا تھا کیونکہ یہی صاع چھوٹا ہے۔ واللہ أعلم۔ تتمہ: گزشتہ بحث میں تین پیمانوں کا اکثر ذکر ہوا ہے: رطل، مد اور صاع۔ ہم ان کے متعلق اپنی گزارشات پیش کرنا چاہتے ہیں: ٭ رطل: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے برتن سے وضو کرتے تھے جس میں دو رطل پانی کی گنجائش ہوتی تھی اور ایک صاع پانی سے غسل کر لیتے تھے۔ (سنن أبي داود، الوضوء، حدیث: 95) رطل کے متعلق علامہ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ بغدادی رطل کی مقدار کے متعلق مختلف اقوال ہیں، ان میں واضح اور مناسب قول یہ ہے کہ رطل 1284/7درہم کا ہوتا ہے۔ (شرح صحیح مسلم: 315/1) ہماری تحقیق کے مطابق برصغیر میں رائج قدیمی اوزان کے مطابق ایک رطل کا وزن چھ چھٹانک، تین تولے اور نو ماشے ہے اور اعشاری اوزان کے مطابق 393.660 گرام ہے۔ تفصیل حسب ذیل ہے۔ پہلے درہم کے حساب سے رطل کے وزن کا اندازہ کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں علماء کا اتفاق ہے کہ زکاۃ میں چاندی کا نصاب 521/2 تولہ ہے جو حدیث میں دو سو درہم کی تعیین ہے۔ جب 521/2 کو 200 پر تقسیم کیا جائے گا تو جواب 21/80 تولے آتا ہے جو ایک درہم کا وزن ہے۔ جب 21/80 کو 124/7 سے ضرب دیں تو جواب میں ایک رطل کا ہندی قدیمی وزن چھ چھٹانک تین تولے اور نو ماشے آئے گا، اعشارى نظام میں ایک تولہ 11.664 گرام کے برابر ہے، لہذا ایک رطل کا اعشاری وزن 393.660 گرام ہے۔ ٭ مد: حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک صاع سے پانچ مد پانی تک غسل کر لیا کرتے تھے اور ایک مد پانی سے وضو فرما لیتے تھے۔ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 201) مد کے وزن میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے، چنانچہ مذکورہ حدیث کی تشریح کرتے ہوئے علامہ عینی لکھتے ہیں کہ احناف کے نزدیک مد میں دو رطل اور امام شافعی رحمہ اللہ کے ہاں ایک مد 11/3 رطل کا ہے۔ (عمدة القاري: 94/3) اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل حجاز کا مد 11/3 رطل کا ہے جبکہ اہل عراق کے ہاں اس کا وزن دو رطل ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی حجاز، یعنی مکے اور مدینے میں گزاری۔ یہی علاقہ دین اسلام کا سرچشمہ اور وحی کا مرکز رہا، اس کے علاوہ زکاۃ، فطرانہ اور کفارات کی ادائیگی کے احکام یہیں سے صادر ہوئے، لہذا احکام میں وہی وزن معتبر ہو گا جو مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ میں رہنے والوں کے ہاں رائج تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ”ماپ اہل مدینہ کا اور وزن اہل مکہ کا معتبر ہے۔ “(سنن النسائي، الزکاة، حدیث: 2521) اس حدیث کی روشنی میں ہم کہتے ہیں کہ ایک حجازی مد کا وزن 11/3 رطل ہے کیونکہ اہل حجاز میں یہی رائج تھا، چنانچہ حضرت عبداللہ بن احمد کہتے ہیں کہ میرے والد امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مد کا وزن گندم کے ساتھ کیا تو ایک رطل اور تہائی رطل، یعنی 11/3 رطل تھا۔ (محلی ابن حزم 245/5) مد نبوی کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ بشر بن عمر کہتے ہیں کہ میں نے امام مالک سے کہا: مجھے آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مد دیجیے۔ انہوں نے ایک نوجوان کے ذریعے سے مد منگوایا۔ وہ نوجوان مد لے کر آیا اور مجھے دے دیا۔ میں نے وہ مد حضرت امام مالک رحمہ اللہ کو دکھایا اور پوچھا کیا یہی مد نبوی ہے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں، یہی مد نبوی ہے۔ خود میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دور تو نہیں پایا، البتہ ہم اسی مد سے مد نبوی کی تعیین کرتے ہیں۔ میں نے کہا: عشر، صدقات اور کفارات اسی مد کے حساب سے ادا کیے جائیں؟ انہوں نے فرمایا: ہاں، ہم اہل مدینہ اسی سے ادا کرتے ہیں۔ میں نے پھر کہا: اگر کوئی صدقۂ فطر اور قسم کا کفارہ اس بڑے مد سے ادا کرنا چاہتے تو کیا درست ہو گا؟ امام صاحب نے فرمایا: ہرگز نہیں، اسے چاہیے کہ وہ اسی مد سے ادا کرے۔ اس کے بعد جو نفلی طور پر ادا کرنا چاہتا ہے، ادا کر دے۔ (سنن الدارقطني: 151/2) سابقہ تصریحات سے معلوم ہوا کہ حجازی مد 11/3 رطل کے برابر تھا۔ ایک رطل کا وزن 6 چھٹانک 3 تولے اور 9 ماشے ہے، جب اس میں 1/3 رطل کا اضافہ کیا تو مد کا وزن مکمل نو چھٹانک ہوا۔ اس مد حجازی کا اعشارى وزن 524.880 گرام کے مساوی ہے۔ ہمارے اس موقف کی تائید اس مد سے بھی ہوتی ہے جو مولانا احمد اللہ مرحوم دہلوی مدینہ طیبہ سے لائے تھے جس کی باقاعدہ سند تھی، اس کی مقدار بھی نو چھٹانک تھی، نیز مولانا عبدالجبار مرحوم کے پاس بھی ایک صاحب مد لائے تھے اس کی مقدار بھی اتنی ہی تھی۔ ٭ صاع: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع صدقۂ فطر مقرر کیا تھا جو کھجور اور جو سے ادا کیا جاتا۔ یہ ہر مسلمان: آزاد ہو یا غلام، مرد ہو یا عورت پر فرض تھا۔ (صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: 1504) مسلمانوں میں اس صاع کی متعدد اقسام رائج تھیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ صاع حجازی: اسے صاع نبوی بھی کہتے ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی صاع کے مطابق صدقۂ فطر وغیرہ ادا کرتے تھے۔ یہی صاع مکے اور مدینے اور ان کے گردونواح میں رائج تھا۔ اس وقت تمام لوگ اسی حساب سے صدقۂ فطر اور کفارہ وغیرہ ادا کرتے تھے۔ اس کی مقدار 51/3 رطل تھی جس کی تفصیل آئندہ آئے گی۔ ٭ صاع عراقی: اسے صاع بغدادی بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ بلاد عراق، یعنی کوفہ اور بغداد وغیرہ میں رائج تھا۔ چونکہ اسے حجاج بن یوسف نے رواج دیا تھا، اس لیے اسے صاع حجاجی بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی مقدار 8 رطل تھی۔ یہ صاع حجازی سے ایک تہائی بڑا تھا۔ ٭ صاع عمر بن عبدالعزیز: حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دور میں صاع نبوی میں دوبارہ اضافہ کر کے اسے رائج کیا گیا۔ اس کے مد کی مقدار چار رطل اور صاع کی مقدار سولہ رطل تھی۔ اس کی تفصیل حدیث: 6712 کے فوائد میں بیان کی گئی ہے۔ ٭ صاع ہاشمی: پھر ایک وقت آیا کہ کچھ لوگوں نے صاع کی مذکورہ مقدار کو بھی قائم نہ رہنے دیا بلکہ اسے مزید دوگنا کر دیا گیا جو صاع ہاشمی کہلایا۔ اس میں مد کی مقدار آٹھ رطل اور صاع کی مقدار بتیس رطل ہو گئی۔ (ھدایة، باب صدقة الفطر) اگرچہ مختلف زمانوں میں صاع اور مد کی مقدار میں تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں، تاہم شرعی طور پر وہی مد اور صاع قابل عمل اور معتبر ہو گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں جاری و ساری تھا۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی کسی دوسرے مد یا صاع کو کوئی اہمیت نہ دی۔ تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نبوی صاع اور نبوی مد کے حساب سے شرعی احکام کی بجا آوری کرتے تھے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا عمل حدیث: 6713 میں بیان ہوا ہے، نیز امام ابو داود رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے سنا، وہ فرماتے تھے: ابن ابی ذئب کا صاع 51/3 رطل تھا۔ میں نے ان سے آٹھ رطل کے متعلق دریافت کیا تو فرمانے لگے کہ آٹھ رطل کا صاع محفوظ نہیں ہے، نیز امام موصوف فرمایا کرتے تھے کہ جس نے 51/3 رطل صدقہ دیا تو اس نے پورا صدقۂ فطر ادا کر دیا۔ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 238) امام ترمذی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صاع 51/3 رطل کا تھا جبکہ اہل کوفہ کے ہاں صاع کی مقدار آٹھ رطل تھی۔ (جامع الترمذي، الزکاة، حدیث: 627) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے جسے فرق کہا جاتا تھا۔ (صحیح البخاري، الغسل، حدیث: 250) اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: فرق تین صاع کا ہوتا ہے۔ اس کی دلیل ابن حبان کی وہ روایت ہے جس میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم چھ اقساط کی مقدار میں پانی استعمال کرتے تھے، پھر لکھتے ہیں کہ اہل لغت کا اتفاق ہے کہ قسط نصف صاع کا ہوتا ہے اور اس امر میں بھی اختلاف نہیں کہ فرق میں سولہ رطل ہوتے ہیں، لہذا ایک صاع 51/3 رطل کا درست ثابت ہوا۔ (فتح الباري: 442/1) ٭ صاع حجازی کا وزن: ہمارے ہاں صاع حجازی کے ہندی وزن کی تعیین میں اختلاف ہے۔ عام طور پر تین موقف مشہور ہیں: ٭ دو سیر چار چھٹانک۔ ٭ دو سیر دس چھٹانک، تین تولے اور چار ماشے۔ ٭ اڑھائی سیر۔ ہمارے نزدیک پہلا موقف زیادہ قرین قیاس، صحیح اور معتبر ہے، اسے ہم بیان کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ مد اور صاع کی تعیین میں درہم اور دینار اصل ہیں۔ ان دونوں کا وزن بھی عہد قدیم سے ائمۂ کرام اور محدثین عظام رحمہم اللہ نے بیان کر دیا ہے، لہذا درہم و دینار کے وزن سے مد اور صاع کا وزن طے کرتے ہیں۔ ٭ پہلا طریقہ بذریعۂ مثقال (دینار) : محدثین کی تصریح کے مطابق ایک رطل، نوے مثقال کا ہے اور حجازی صاع 51/3 رطل ہے، اس لیے نوے کو جب 51/3 رطل سے ضرب دیں تو 480 مثقال، حجازی صاع کا وزن آتا ہے۔ یہ بات بھی ثابت شدہ ہے کہ ایک مثقال تقریبا 41/2 ماشے کا ہے۔ جب 480 مثقال کو 41/2 ماشے سے ضرب دیں تو صاع حجازی کا وزن اکیس سو ساٹھ (2160) ماشے آتا ہے۔ چونکہ بارہ ماشے کا ایک تولہ ہے، اس لیے 2160/12=180 تولے ہوئے۔ پانچ تولے کی ایک چھٹانک ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے کل چھتیس (36) چھٹانک حجازی صاع کا وزن آتا ہے جو دو سیر چار چھٹانک کے برابر ہے۔ ٭ دوسرا طریقہ بذریعۂ درہم: سابقہ تحقیق کے مطابق ایک رطل 1284/7 درہم کا ہے، گویا صاع حجازی =4800/7 51/3×1284/7درہم کے برابر ہے۔ ایک درہم کا وزن تین ماشے اور 11/5 رتی ہے۔ آٹھ رتی کا ایک ماشہ ہوتا ہے=126/5 8×11/5 رتی کا ایک درہم ہوا، اس اعتبار سے 4800/7 درہم کے دو ہزار ایک سو ساٹھ (2160) ماشے ہوئے۔ جب ان ماشوں کو سیر اور چھٹانک میں ڈھالا گیا تو وہی دو سیر چار چھٹانک صاع حجازی کا وزن آتا ہے۔ ٭ تیسرا طریقہ بذریعۂ مد: ایک صاع چار مد کا ہوتا ہے اور مد حجازی 1/31 رطل کا ہے۔ رطل میں 4/7128 درہم ہوتے ہیں تو اس اعتبار سے ایک مد کے 11/3×1284/7=1571/7 درہم ہوئے۔ چونکہ ایک صاع حجازی میں چار مد ہوتے ہیں، اس لیے صاع حجازی کے=6855/7 4×1571/7 درہم ہوئے۔ حسب سابق ایک درہم کا وزن 126/5 رتی ہے، اس اعتبار سے 6855/7 درہم کے اکیس سو ساٹھ ماشے بنتے ہیں۔ جب اس کے تولے، چھٹانک اور سیر بنائے گئے تو وہی وزن دو سیر چار چھٹانک بنتا ہے جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ الغرض صاع حجازی کو ہندی اوزان میں منتقل کرنے کے تین طریقے جو پہلے بیان ہوئے ہیں ان کے مطابق اس کا وزن 180 تولے ہے، ان کا وزن 36 چھٹانک بنتا ہے اور پھر اس کا وزن دو سیر چار چھٹانک بنتا ہے۔ جب اس وزن کو اعشاری اوزان کے مطابق کریں تو دو کلو اور سو گرام (2100 گرام) بنتا ہے۔ ہم اس مقام پر یہ وضاحت کرنا ضروری خیال کرتے ہیں کہ مد اور صاع وزن کے نہیں بلکہ ماپ کے پیمانے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں وزن کے پیمانے بھی موجود تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۂ فطر اور قسم کا کفارہ دینے کے لیے وزن کے بجائے ماپ کو منتخب کیا ہے، اس لیے بہتر ہے کہ اس سنت کو زندہ کیا جائے۔ ویسے بھی مد اور صاع کا وزن مختلف اجناس کے اعتبار سے مختلف ہو سکتا ہے، لہذا وزن کے بجائے ماپ کو ترجیح دی جائے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6714
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 641
´مکہ اور مدینہ کو دوسرے تمام شہروں پر فضیلت حاصل ہے` «. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”اللهم بارك لهم فى مكيالهم وبارك لهم فى صاعهم وفي مدهم“ يعني اهل المدينة . . .» ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے میرے اللہ! ان یعنی مدینے والوں کے اوزان میں برکت ڈال اور ان کے صاع و مد (تولنے کے پیمانوں) میں برکت ڈال . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 641]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2130، و مسلم 1368، من حديث مالك به]
تفقه: ➊ صاع: غلہ ناپنے کا ایک پیمانہ جو اہل حجاز کے حساب سے 4 مُد (4 پونڈ) یعنی گیارہ سو بیس درہم کے وزن کے بقدر ہوتا ہے۔ اور اہل عراق کے حساب سے 8 رطل کے برابر یا دو سیر چودہ چھٹانک چار تولہ کے برابر۔ [القاموس الوحيد ص951] شریعت میں اہل عراق کے صاع کا کوئی اعتبار نہیں صرف اہل مکہ اور اہلِ مدینہ جو اہل حجاز ہیں کے صاع کا اعتبار ہے۔ ➋ مُد: اہل حجاز کے نزدیک یہ ایک رطل اور ثلث رطل ہے۔ [القاموس الوحيد ص1532] ➌ مکہ اور مدینہ کو دوسرے تمام شہروں پر فضیلت حاصل ہے۔ ➍ ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شام اور یمن کے لئے کئی دفعہ برکت کی دعا فرمائی۔ تیسری یا چوتھی دفعہ لوگوں نے کہا: «یا رسول اللہ! وفي عراقنا» اے اللہ کے رسول! اور ہمارے عراق (کے بارے) میں (برکت کی دعا فرمائیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس میں زلزلے اور فتنے ہوں گے اور یہاں شیطان کا سینگ نکلے گا۔“[المعجم الكبير للطبراني 12/384 ح13422] معلوم ہوا کہ (مدینے کے مشرق کی طرف) عراق کی سرزمین فتنوں اور گمراہ فرقوں کا مسکن ہے اور یہی وہ نجد ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشن گوئی فرمائی لہٰذا مکے و مدینے کے اوزان کے مقابلے میں عراقی اوزان پیش کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے: [ح: 293] ➎ ایسی روایت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عراق کے سارے لوگ غلط اور خراب ہیں بلکہ عراق میں بہت اچھے اور جلیل القدر لوگ بھی تھے اور ہیں۔ ان روایت میں عام حالات میں اکثریت کی مذمت مقصود ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 120
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3325
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! ان کے (اہل مدینہ کے) پیمانہ میں برکت فرما، ان کے صاع میں برکت فرما اور ان کے مد میں برکت فرما۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3325]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: صاع اور مد دونوں پیمانے ہیں اس دور میں غلہ وغیرہ کی خریدوفروخت ان ہی پیمانوں سے ہوتی تھی اور ان میں برکت کا مفہوم ومقصد یہ ہے کہ عام لوگوں کا ایک صاع یا ایک مد جتنے آدمیوں کے لیے یا جتنے دنوں کے لیے کفایت کرتا ہے اہل مدینہ کا صاع اور مد اس سے زیادہ آدمیوں اور دنوں کے لیے کافی ہو۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3325
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2130
2130. حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اے اللہ!اہل مدینہ کے ناپ تول میں برکت دے، نیز ان کے صاع اور مد میں بھی خیروبرکت عطا فرما۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:2130]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس وقت ناپ تول کےلیے دو پیمانے ہیں: ٭صاع حجازی۔ ٭ صاع کوفی۔ صاع حجازی میں5.33 رطل ہوتے ہیں جبکہ ایک رطل نوے مثقال کا ہوتا ہے۔ اس حساب کے مطابق ایک صاع حجازی کے 480 مثقال ہوئے۔ ایک مثقال 4.5 ماشے کا ہوتا ہے۔ اس طرح 480 مثقال کے دوہزار ایک سو ساٹھ(2160) ماشے بنتے ہیں۔ چونکہ ایک تولہ بارہ ماشے کا ہوتا ہے،لہٰذا بارہ پر تقسیم کرنے سے ایک صاع حجازی کا وزن ایک سو اسی (180) تولے بنتا ہے۔ (2) جدیدا عشارمی نظام کے مطابق تین تولے کے پینتیس گرام ہوتے ہیں۔ اسی حساب کے مطابق ایک سو اسی تولے وزن کے دو ہزار ایک سو (2100) گرام ہوئے،یعنی صاع حجازی کا وزن دوکلو سوگرام ہے۔ اس کے متعلق ہم مکمل تحقیق كتاب كفارات الايمان باب: 5 میں بیان کریں گے جہاں امام بخاری رحمہ اللہ نے صاع حجازی کی افضیلت ثابت کرنے کے لیے تین احادیث بیان کی ہیں۔ والله المستعان.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2130
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7331
7331. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی: اے اللہ! اہل مدینہ کے پیمانے میں برکت عطا فرما۔ ”اے اللہ! ان کے صاع اور مد میں بھی برکت عنایت کر۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7331]
حدیث حاشیہ: 1۔ حدیث مبارکہ کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد لوگوں نے مُد کی مقدار میں اضافہ کر دیا تھا لیکن احکام شرعیہ فطرانہ وغیرہ کی ادائیگی کے لیے صاع اور مُد کا اعتبار کرتے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل مدینہ کے ہاں رائج تھا۔ اس کے متعلق ہم ذرا تفصیل بیان کرتے ہیں: ایک صاع میں چار مَد ہوتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مَد کی مقدار ایک صحیح ایک بٹا تین رطل تھی، اس اعتبار سے صاع نبوی کی مقدار 5صحیح 1بٹا تین رطل بنتی ہے۔ بنوامیہ کے دور میں ہشام نے ایک دوسرا مد رائج کیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مد سے دو تہائی بڑا تھا لیکن حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مد ہی سے فطرانہ ادا کرتے تھے۔ (صحیح البخاري، کفارات الأیمان، حدیث: 6713) اس کامطلب یہ ہے کہ انھوں نے حضرت ہشام کے ایجاد کردہ مدکو درخور اعتناء نہ سمجھا بلکہ پہلے مد ہی کو استعمال کرتے تھے اور ہشام کا مد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مد سے دو تہائی بڑا تھا، اس کے بعد مزید اضافہ ہوا جیسا کہ مذکورہ حدیث میں حضرت سائب بن یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیان سے واضح ہوتا ہے۔ 2۔ اس کامطلب یہ ہے کہ جب حضرت سائب نے یہ حدیث بیان کی، اس وقت مد میں بہت زیادہ اضافہ کر دیا گیا تھا، یعنی اس وقت مد کی مقدار چار رطل تھی، جس میں بقول حضرت سائب ایک تہائی بڑھانے سے 5صحیح 1بٹا تین رطل بن جاتاہے جو صاع نبوی کی مقدار کے برابر ہے، یعنی اس میں تین گنا اضافہ کر دیا گیا تھا اورمد اور صاع کے ارتقائی مراحل پر نظر ڈالنے سے مندرجہ ذیل نتائج حاصل ہوتے ہیں: الف۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں صاع کی مقدار 5 صحیح ایک بٹا تین رطل تھی۔ ب۔ بنوامیہ کے دور میں مد کی مقدار 2رطل اور صاع کی مقدار8 رطل ہوگئی۔ ج۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں مد کی مقدار چاررطل اور صاع کی مقدار سولہ رطل تھی۔ 3۔ عام طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاع کو صاع حجازی اور بنوامیہ کے صاع کو صاع بغدادی یا عراقی کہا جاتا ہے اور صاع عراقی، صاع حجازی سے ایک تہائی بڑا ہے۔ 4۔ صاع نبوی میں برکت کا تقاضا یہ ہے کہ شرعی واجبات کی ادائیگی میں اہل مدینہ کا صاع پیش نظر رکھنا چاہیے کیونکہ ابتدائی طور پر قانون سازی میں اسی صاع نبوی کا اعتبار کیا گیاتھا۔ اس کی تفصیل ہم کتاب کفارات الایمان حدیث 6713 کے تحت بیان کر آئے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7331