وقال ابن عباس: قال ابو بكر: فوالله يا رسول الله، لتحدثني بالذي اخطات في الرؤيا، قال: لا تقسم.وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَوَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَتُحَدِّثَنِّي بِالَّذِي أَخْطَأْتُ فِي الرُّؤْيَا، قَالَ: لَا تُقْسِمْ.
اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم، یا رسول اللہ! مجھ سے بیان فرمائیے میں نے تعبیر دینے میں کیا غلطی کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قسم مت کھا۔
ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے، انہوں نے اشعث بن ابی الشعثاء سے، انہوں نے معاویہ بن سوید بن مقرن سے، انہوں نے براء بن عازب سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر محمد بن جعفر نے، کہا ہم سے شعبہ نے، انہوں نے اشعث سے، انہوں نے معاویہ بن سوید بن مقرن سے، انہوں نے براء رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھانے والے کو سچا کرنے کا حکم فرمایا۔
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6654
حدیث حاشیہ: یعنی جو بات وہ چاہے اس کو پورا کرے تاکہ اس کی قسم سچی ہو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6654
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6654
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث میں بھی حلف کے بجائے لفظ قسم استعمال ہوا ہے، اس سے بھی قسم منعقد ہو جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم اٹھانے والے کی قسم کو سچا کرنے کا حکم دیا ہے، یہ اس وقت ہے جب کسی قسم کے نقصان کا خطرہ نہ ہو۔ اگر جسے قسم دی جائے اسے یا دوسرے دینداروں کو نقصان کا خطرہ ہو تو اس کا پورا کرنا ضروری نہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی قسم کو پورا نہیں فرمایا کیونکہ ان کی تعبیر میں خطا کا مقام بیان کرنے سے مسلمانوں کے نقصان کا خطرہ تھا، اس لیے مذکورہ حدیث میں قسم کو پورا کرنے کا امر استحبابی ہے۔ یہ بھی اس وقت جب وہاں کوئی امر مانع نہ ہو۔ واللہ أعلم۔ (عمدة القاري: 704/15)(2) مذکورہ حدیث ایک طویل حدیث کا حصہ ہے جسے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1239)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6654
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2115
´قسم کھلانے والے کی قسم پوری کرنے کا بیان۔` براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں قسم دینے والے کی قسم پوری کرنے کا حکم دیا ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2115]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مسلمان کا مسلمان پر حق ہے کہ جائز کام میں اس کی مدد کرے، خصوصاً جب اس سے مدد مانگی بھی گئی ہو۔ قسم دینا بھی ایک قسم کی درخواست ہے لیکن اس کی تاکید ہوتی ہے اور اللہ کا نام لے کر سوال کیا گیا ہوتا ہے، اس لیے اسے ضرور پورا کرنا چاہیے۔
(2) اگر کسی ناجائز کام کے لیے قسم دی جائے تو اسے پورا نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے: ﴿تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾(المائدۃ 5: 2) ”نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔“ اسی طرح کسی ایسے کام کا مطالبہ قسم دے کر کیا گیا ہے جو اس کے لیے کرنا مشکل ہے، تب بھی وہ پورا نہ کرنے میں معذور ہے۔
(3) روز مرہ کے چھوٹے موٹے معاملات میں قسم کا پورا کرنا حسن اخلاق میں شامل ہے مثلا: اگر کوئی کہے: میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ اس کھانے میں سے ضرور کھاؤ تو تھوڑا بہت کھا لینا چاہیے تاکہ مسلمان کو رنج نہ پہنچے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2115