الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: تقدیر کے بیان میں
The Book of Al-Qadar (Divine Preordainment)
9. بَابُ: {وَحَرَامٌ عَلَى قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا أَنَّهُمْ لاَ يَرْجِعُونَ} ، {أَنَّهُ لَنْ يُؤْمِنَ مِنْ قَوْمِكَ إِلاَّ مَنْ قَدْ آمَنَ} ، {وَلاَ يَلِدُوا إِلاَّ فَاجِرًا كَفَّارًا} :
9. باب: اور اس بستی پر ہم نے حرام کر دیا ہے جسے ہم نے ہلاک کر دیا کہ وہ اب دنیا میں لوٹ نہیں سکیں گے (سورۃ انبیاء)“ اور یہ کہ جو لوگ تمہاری قوم کے ایمان لا چکے ہیں ان کے سوا اور کوئی اب ایمان نہیں لائے گا (سورۃ ہود) اور یہ کہ ”وہ بدکرداروں کے سوا اور کسی کو نہیں جنیں گے۔
(9) Chapter. The Statement of Allah: “And a ban is laid on every town (population) which We have destroyed that they shall not return (to this world again, nor repent to Us).” (V.21:95) “...None of your people will believe, except those who have believed, already..." (V.11:36) “...And they will beget none but wicked disbelievers.” (V.71:27)
حدیث نمبر: Q6612
Save to word اعراب English
وقال منصور بن النعمان، عن عكرمة، عن ابن عباس: وحرم بالحبشية وجب"وَقَالَ مَنْصُورُ بْنُ النُّعْمَانِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ: وَحِرْمٌ بِالْحَبَشِيَّةِ وَجَبَ"
‏‏‏‏ اور منصور بن نعمان نے عکرمہ سے بیان کیا اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ «حرم» حبشی زبان کا لفظ ہے اس کے معنی ضرور اور واجب کے ہیں۔

حدیث نمبر: 6612
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني محمود بن غيلان، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن ابن طاوس، عن ابيه، عن ابن عباس، قال: ما رايت شيئا اشبه باللمم مما قال ابو هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم:" إن الله كتب على ابن آدم حظه من الزنا ادرك ذلك لا محالة، فزنا العين: النظر، وزنا اللسان: المنطق، والنفس: تمنى وتشتهي، والفرج: يصدق ذلك او يكذبه"، وقال شبابة: حدثنا ورقاء، عن ابن طاوس، عن ابيه، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنِي مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: مَا رَأَيْتُ شَيْئًا أَشْبَهَ بِاللَّمَمِ مِمَّا قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ عَلَى ابْنِ آدَمَ حَظَّهُ مِنَ الزِّنَا أَدْرَكَ ذَلِكَ لَا مَحَالَةَ، فَزِنَا الْعَيْنِ: النَّظَرُ، وَزِنَا اللِّسَانِ: الْمَنْطِقُ، وَالنَّفْسُ: تَمَنَّى وَتَشْتَهِي، وَالْفَرْجُ: يُصَدِّقُ ذَلِكَ أَوْ يُكَذِّبُهُ"، وَقَالَ شَبَابَةُ: حَدَّثَنَا وَرْقَاءُ، عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
مجھ سے محمود بن غیلان نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں ابن طاؤس نے، انہیں ان کے والد نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ یہ جو «لمم» کا لفظ قرآن میں آیا ہے تو میں «لمم» کے مشابہ اس بات سے زیادہ کوئی بات نہیں جانتا جو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے زنا کا کوئی نہ کوئی حصہ لکھ دیا ہے جس سے اسے لامحالہ گزرنا ہے، پس آنکھ کا زنا (غیرمحرم کو) دیکھنا ہے، زبان کا زنا غیرمحرم سے گفتگو کرنا ہے، دل کا زنا خواہش اور شہوت ہے اور شرمگاہ اس کی تصدیق کر دیتی ہے یا اسے جھٹلا دیتی ہے۔ اور شبابہ نے بیان کیا کہ ہم سے ورقاء نے بیان کیا، ان سے ابن طاؤس نے، ان سے ان کے والد نے، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پھر اس حدیث کو نقل کیا۔

Narrated Ibn `Abbas: I did not see anything so resembling minor sins as what Abu Huraira said from the Prophet, who said, "Allah has written for the son of Adam his inevitable share of adultery whether he is aware of it or not: The adultery of the eye is the looking (at something which is sinful to look at), and the adultery of the tongue is to utter (what it is unlawful to utter), and the innerself wishes and longs for (adultery) and the private parts turn that into reality or refrain from submitting to the temptation."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 77, Number 609


   صحيح البخاري6612عبد الرحمن بن صخرالله كتب على ابن آدم حظه من الزنا أدرك ذلك لا محالة زنا العين النظر زنا اللسان المنطق النفس تمنى وتشتهي الفرج يصدق ذلك أو يكذبه
   صحيح البخاري6243عبد الرحمن بن صخرالله كتب على ابن آدم حظه من الزنا أدرك ذلك لا محالة زنا العين النظر زنا اللسان المنطق النفس تمنى وتشتهي الفرج يصدق ذلك كله ويكذبه
   صحيح مسلم6753عبد الرحمن بن صخرالله كتب على ابن آدم حظه من الزنا أدرك ذلك لا محالة زنا العينين النظر زنا اللسان النطق النفس تمنى وتشتهي الفرج يصدق ذلك أو يكذبه
   صحيح مسلم6754عبد الرحمن بن صخرالعينان زناهما النظر الأذنان زناهما الاستماع اللسان زناه الكلام اليد زناها البطش الرجل زناها الخطا القلب يهوى ويتمنى يصدق ذلك الفرج ويكذبه
   سنن أبي داود2152عبد الرحمن بن صخركتب على ابن آدم حظه من الزنا أدرك ذلك لا محالة زنا العينين النظر زنا اللسان المنطق النفس تمنى وتشتهي الفرج يصدق ذلك ويكذبه
   صحيفة همام بن منبه103عبد الرحمن بن صخرعلى ابن آدم نصيب من الزنا أدرك ذلك لا محالة العين زنيتها النظر وتصديقها الإعراض اللسان زنيته المنطق القلب زنيته التمني الفرج يصدق بما ثم أو يكذب
   مشكوة المصابيح86عبد الرحمن بن صخرإن الله كتب على ابن آدم حظه من الزنا ادرك ذلك لا محالة فزنا العين النظر وزنا اللسان المنطق والنفس تمنى وتشتهي والفرج يصدق ذلك كله ويكذبه
   مسند اسحاق بن راهويه26عبد الرحمن بن صخرالعينان تزنيان، والرجلان تزنيان، ويصدق ذلك الفرج او يكذبه
   مسند اسحاق بن راهويه27عبد الرحمن بن صخرعن حماد بن سلمة ، بهذا الإسناد مثله، قال: بدل الرجلين اليدين
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6612 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6612  
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے بیان کرنے سے امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ طاؤس نے یہ حدیث خود ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی سنی ہے جیسے اگلی روایت سے یہ نکلتا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے واسطہ سے کہا۔
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے کہ زنا کرنے والا بھی تقدیر کے تحت زنا کرتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6612   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6612  
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد اس حقیقت کو بیان کرنا ہے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ قضا و قدر کے فولادی شکنجے میں کسا ہوا ہے۔
جو کچھ تقدیر میں لکھا ہوا ہے وہ بہر صورت ہو کر رہے گا، چنانچہ آیت کریمہ میں ہے:
جب کسی قوم کے اعمال و کردار کے پیش نظر یقین ہو جاتا ہے اور ان پر لازم ہو جاتا ہے کہ اب وہ رجوع نہیں کریں گے تب اللہ تعالیٰ ان پر اپنے عذاب کا کوڑا برساتا ہے۔
(الأنبیاء: 95/21)
اسی طرح قوم نوح کے متعلق بھی تقدیر کا لکھا ہوا غالب آیا۔
مہلت کے باوجود وہ ایمان لانے والے نہیں تھے، اس لیے انہیں بھی تباہی سے دوچار ہونا پڑا۔
(2)
حدیث سے بھی تقدیر کے دائرے کی وسعت کا پتا چلتا ہے کہ اس میں صرف حسنات اور سیئات ہی نہیں بلکہ ان کے مقدمات بھی لکھ دیے گئے ہیں۔
انسان یہ سمجھتا ہے کہ جب اس نے عملی طور پر زنا نہیں کیا تو شاید اس سے پہلے جو خرافات اس سے سرزد ہوئی ہوئی ہیں وہ نہ ہونے کے برابر ہیں، اس لیے وہ شاید محاسبۂ تقدیر میں داخل نہ ہوں لیکن اس مشت خاک کو یقین رکھنا چاہیے کہ وہ بھی مقدرات میں شامل ہیں پھر تقدیر کی گرفت بھی کتنی زبردست ہے کہ جو حصہ زنا ہوتا بھی انسان کے اختیار و ارادے سے۔
(3)
چونکہ زانی کا سارا جسم اس جرم میں شریک ہوتا ہے، اس لیے اس کی سزا بھی ہر ہر عضو کو بھگتنا پڑتی ہے، شاید جنابت میں تمام جسم کا غسل بھی اسی لیے فرض قرار دیا گیا ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6612   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 86  
´قسمت میں لکھا پورا ہو کر رہتا ہے`
«. . . ‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ عَلَى ابْنِ آدَمَ حَظَّهُ مِنَ الزِّنَا أَدْرَكَ ذَلِكَ لَا مَحَالَةَ فَزِنَا الْعَيْنِ النَّظَرُ وَزِنَا اللِّسَانِ الْمَنْطِقُ وَالنَّفْسُ تَمَنَّى وَتَشْتَهِي وَالْفَرْجُ يصدق ذَلِك كُله ويكذبه» ‏‏‏‏وَفِي رِوَايَةٍ لِمُسْلِمٍ قَالَ: «كُتِبَ عَلَى ابْنِ آدَمَ نَصِيبُهُ مِنَ الزِّنَا مُدْرِكٌ ذَلِكَ لَا محَالة فالعينان زِنَاهُمَا النَّظَرُ وَالْأُذُنَانِ زِنَاهُمَا الِاسْتِمَاعُ وَاللِّسَانُ زِنَاهُ الْكَلَامُ وَالْيَدُ زِنَاهَا الْبَطْشُ وَالرِّجْلُ زِنَاهَا الْخُطَا وَالْقَلْبُ يَهْوَى وَيَتَمَنَّى وَيُصَدِّقُ ذَلِكَ الْفَرْجُ وَيُكَذِّبُهُ» ‏‏‏‏ . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے انسان کی قسمت میں زنا کا جو حصہ لکھ رکھا ہے تو وہ اس کو ضرور پہنچے گا، آنکھ کا زنا حرام چیزوں کی طرف دیکھنا ہے اور زبان کا بولنا یعنی نامحرم عورتوں سے شہوت انگیز کلام کرنا اور نفس اس کی آرزو اور خواہش کرتا ہے اور شرمگاہ اس آرزو خواہش کو سچا کرتی یا جھوٹا بتاتی ہے۔ یہ روایت بخاری و مسلم نے کی ہے اور مسلم کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انسان پر اس کے زنا و بدکاری کا حصہ ضرور لکھا جا چکا ہے جسے وہ ضرور پانے والا ہے۔ دونوں آنکھوں کا زنا نامحرم عورت کو بری نگاہ سے دیکھنا ہے، اور دونوں کانوں کا زنا نامحرم شہوت انگیز باتوں کا سننا ہے، اور زبان کا زنا شہوت انگیز باتیں کرنا، اور ہاتھ کا زنا اس کا پکڑ دھکڑ کرنا یعنی نا محرم کو بری نیت سے چھونا، اور پاؤں کا زنا بدکاری اور گناہ کے کاموں کی طرف جانا اور چلنا ہے، اور دل اس کی خواہش کرتا ہے اور شرمگاہ اس کی تصدیق و تکذیب کرتی ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 86]
تخریج:
[صحيح بخاري 6243]،
[صحيح مسلم 6753]

فقہ الحدیث:
➊ جس چیز کا دیکھنا حرام ہے اس پر (دانستہ یا نادانستہ) نظر کا جانا زنا قرار دیا گیا ہے۔ جو نظر نادانستہ پڑ جائے اسے شریعت میں معاف کر دیا گیا ہے، مگر جو شخص جان بوجھ کر بغیر کسی شرعی عذر کے حرام چیز کو دیکھے تو وہ زنا کار اور مجرم ہے۔ اہل ایمان کا یہ طرز عمل ہوتا ہے کہ اگر ان کی نظر اچانک کسی ناپسندیدہ چیز پر پڑ جائے تو فوراً وہاں سے نظر ہٹا لیتے ہیں اور استغفار کرتے ہیں۔
➋ جو اعمال گناہ اور نافرمانی کی طرف لے جاتے ہیں ان سے کلی اجتناب کرنا ضروری ہے۔
➌ فحش کلامی اور حرام چیزوں کا تذکرہ کرنا بھی حرام ہے۔ اسی طرح بےحیائی اور ٹی وی وغیرہ پر فحش پروگرام دیکھنا اور موسیقی، گندے اور شرکیہ گانے سننا حرام ہے۔ کتاب و سنت کے مخالف جتنی چیزیں ہیں ان سے اپنے آپ کو بچانا فرض ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا»
اپنے آپ کو اور اپنے اہل کو (جہنم کی) آگ سے بچاؤ۔ [التحريم: 6]
➍ انسان کو ہر وقت اسی کوشش میں مگن رہنا چاہئیے کہ کتاب و سنت پر دن رات عمل کرتا رہے اور تمام حرام و مکروہ امور سے ہمیشہ اجتناب کرتا رہے۔ اگر نادانستہ کسی حرام و مکروہ امر پر نظر پڑ جائے تو فوراً اپنے آپ کو بچائے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ غفور و رحیم ہے، اپنے فضل و کرم سے سارے گناہ معاف فرما دے گا۔ ان شاء اللہ
بدنصیب ہیں وہ لوگ جو دن رات کتاب و سنت کی مخالفت اور حرام امور میں مگن رہتے ہیں۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 86   

  الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 26  
´ایمان سایہ کی مثل ہے، ایمان کن چیزوں اعمال زائل ہو جاتا ہے`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آنکھیں (دیکھنے کا) زنا کرتی ہیں، ٹانگیں، پاؤں زنا کرتے ہیں اور شرمگاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔ [مسند اسحاق بن راهويه/كتاب الايمان/حدیث: 26]
فوائد:
ایک دوسری حدیث میں مذکوہ حدیث کی وضاحت ملتی ہے:
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ہر آدم زاد کے لیے زنا سے اس کا حصہ (لکھا گیا) ہے اور مذکورہ قصہ بیان کیا، کہا: ہاتھ زنا کرتے ہیں، ان کا بدکاری کو پکڑنا ہے، پاؤں زنا کرتے ہیں، ان کا بدکاری کی طرف چلنا ہے۔ منہ زنا کرتا ہے اور اس کا بدکاری کا بوسہ لینا ہے۔ [سنن ابي داؤد، رقم: 2153]
ایک اور روایت میں ہے کہ:
کان زنا کرتے ہیں اور ان کا بدکاری سننا ہے۔ [سنن ابوداؤدرقم: 2153]
امام نووی رحمہ الله فرماتے ہیں:
مذکورہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ابن آدم پر اس کے زنا کا ایک حصہ مقرر کیا گیا ہے۔ چنانچہ بعض ان میں حقیقی زنا کرتے ہیں، یعنی اپنی شرمگاہ کو دوسرے کی شرمگاہ میں داخل کرتے ہیں (جو حرام ہے)۔
اور بعض مجازی زنا کرتے ہیں یعنی غیر محرم اشیا ء کو دیکھتے ہیں یا لمس کرتے ہیں یا پھر انہیں سنتے ہیں، مثال کے طور پر کسی ناواقف (غیر محرم) عورت کو چھونا، یا اسے بوسہ دینا، چومنا یا اس کے پاس زنا کی غرض سے چل کر جانا، یا اسے دیکھنا اور (اسی طرح) دل میں کوئی (برا عزم) خیال سوچنا وغیرہ یہ سب مجازی زنا کی اقسام ہیں۔ [شرح مسلم للنووي: ص188]
گناہ کی دو اقسام ہیں کبیرہ اور صغیرہ۔
صغیرہ وہ ہیں جن پر شریعت نے کوئی حد مقرر نہیں کی،
اور کبیرہ وہ ہیں جن پر شریعت نے کوئی حد تعزیر مقرر کر دی ہے۔
صغیرہ گناہ عام نیکی سے معاف ہو جاتے ہیں تاہم شریعت نے صغیری گناہ کرنے بھی روگا ہے، بعض اوقات یہ صغیرہ گناہ، کبیرہ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ اس وقت جب ان گناہوں کو گناہ نہ سمجھا جائے اور عادت بنا لی جائے۔
مذکورہ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو ہر قسم کے گناہوں سے بچتے رہنا چاہئے۔
اعضائے جسم کو زنا سے تعبیر کرنا، اس سے زنا کے قبیح ہونے کی طرف اشارہ ہے اور ایسے لوگوں کا انجام انتہائی برا ہو سکتا ہے۔
قرآن مجید میں ہے «وَلَا تقرَبُوا الزِّنٰي اِنَّه’ فَاحِشَةً وَّسَا َٔ سَبِيلَاً» ‏‏‏‏ [الاسراء: 32]
اور تم زنا کے قریب نہ جاؤ وہ بے حیائی کا کام اور بُرا راستہ ہے۔
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 26   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6753  
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے "لم " کی سب سے زیادہ صحیح وضاحت،حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیان کردہ قول میں دیکھی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"بے شک اللہ تعالیٰ نے ابن آدم ؑ کے بارے میں زنا میں اس کا حصہ مقرر کر دیا ہے، جس کو وہ لامحالہ حاصل کر کے رہے گا چنانچہ آنکھوں کا زنا نظر بد ہے اور زبان کا زنا (شہوت ا نگیز) گفتگو ہے اور دل تمنا (آرزو) اور خواہش کرتا ہے اور شرم گاہ اس... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6753]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا مقصد سورہ نجم کی آیت (الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ) (سورۃ نجم،
آیت نمبر 32)

وہ لوگ جو کبیرہ گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے روکتے ہیں،
مگر چھوٹے گناہ" کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں،
میں لفظ "لَّمَمَ" کی تفسیر بیان کرنا ہے کہ اس حدیث میں جن گناہوں کو فرج کے گناہ کے سوا بیان کیا ہے،
وہ "لَّمَمَ" ہیں،
اس حدیث سے معلوم ہوا،
نظربد،
شہوت انگیز گفتگو اور بوس و کنار،
کسی اجنبی عورت کو ہاتھ لگانا اور غلط کاری کی نیت سے اس کی طرف چل کر جانا،
یہ تمام گناہ "لَّمَمَ" میں داخل ہیں،
ان سے گناہ کی طرف میلان کا اظہار ہوتا ہے اور اس کی تصدیق یا تکذیب شرم گاہ کرتی ہے،
یعنی ان کاموں سے شرم گاہ میں حرکت اور داعیہ پیدا ہوتا ہے تو پھر یہ زنا ہو گا،
اگر ان کاموں سے شرم گاہ متاثر نہیں ہوتی تو یہ زنا نہیں ہو گا،
اگرچہ غلط کام ہو گا اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا تصدیق اور تکذیب محض دل اور زبان کا کام نہیں ہے،
اعضاء اور جوارح کا عمل بھی تصدیق اور تکذیب پر دلالت کرتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6753   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6243  
6243. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابو ہریرہ ؓ کی بات سے زیادہ صغیرہ گناہوں سے ملتی جلتی چیز کوئی نہیں دیکھی دوسری روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا: میں نے اس حدیث سے زیادہ چھوٹے گناہوں سے مشابہ کوئی چیز نہیں دیکھی جسے ابو ہریرہ ؓ نے نبی ﷺ سے بیان کیا ہے اللہ تعالٰی نے ابن آدم پر اس کے زنا کا حصہ رکھا ہے جس سے وہ لا محالہ دو چار ہوگا۔ (وہ یہ ہے کہ) آنکھ کا زنا دیکھنا ہے، زبان کا زنا بولنا ہے اور دل اسکی خواہش اور تمنا کرتا ہے پھر شرمگاہ اس خواہش کو سچا کر دکھاتی ہے یا اسے جھٹلا دیتی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6243]
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ ہے کہ نفس میں زنا کی خواہش پیدا ہوتی ہے اب اگر شرمگاہ سے زنا کیا تو زنا کا گناہ لکھا گیا اور اگر خدا کے ڈر سے زنا سے باز رہا تو خواہش غلط اور جھوٹ ہوگئی اس صورت میں معافی ہو جائے گی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6243   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6243  
6243. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابو ہریرہ ؓ کی بات سے زیادہ صغیرہ گناہوں سے ملتی جلتی چیز کوئی نہیں دیکھی دوسری روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا: میں نے اس حدیث سے زیادہ چھوٹے گناہوں سے مشابہ کوئی چیز نہیں دیکھی جسے ابو ہریرہ ؓ نے نبی ﷺ سے بیان کیا ہے اللہ تعالٰی نے ابن آدم پر اس کے زنا کا حصہ رکھا ہے جس سے وہ لا محالہ دو چار ہوگا۔ (وہ یہ ہے کہ) آنکھ کا زنا دیکھنا ہے، زبان کا زنا بولنا ہے اور دل اسکی خواہش اور تمنا کرتا ہے پھر شرمگاہ اس خواہش کو سچا کر دکھاتی ہے یا اسے جھٹلا دیتی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6243]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ''اللَّمَمَ'' کے متعلق سوال ہوا جو قرآن کریم کی درج ذیل آیت میں آیا ہے:
وہ لوگ جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے بچتے ہیں سوائے ان گناہوں کے جو صغیرہ ہیں۔
(النجم53: 32)
انہوں نے اس کے جواب میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث بیان کر دی جس میں زنا جیسے بڑے گناہ کی مبادیات (ابتدائی باتوں)
کا ذکر ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ''لَّمَمَ'' نظر بازی، بات کرنا اور بدکاری کی خواہش کا پیدا ہونا ہے۔
یہ بدکاری کی مبادیات ہیں۔
آخرکار شرمگاہ اس کے ارتکاب کرنے یا چھوڑ دینے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔
(2)
اللہ تعالیٰ نے ازل میں انسان کے لیے جو گناہ لکھ دیا ہے وہ اس سے خلاصی نہیں پا سکتا، البتہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے پر یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے مبادیاتِ زنا کو ''لَّمَمَ'' اور صغیرہ گناہ بنا دیا ہے۔
جب تک شرمگاہ اس کی تصدیق نہ کرے انسان سے اس کے متعلق باز پرس نہ ہو گی اور جب شرمگاہ اس کی تصدیق کر دے تو تمام صغیرہ گناہ اور مبادیات کبیرہ گناہ کی شکل اختیار کر لیں گے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں اس حکمت کی طرف اشارہ ہے جس کی بنا پر گھروں میں اجازت کے بغیر تاک جھانک کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
اس سے گزشتہ عنوان کے ساتھ مناسبت بھی ظاہر ہوتی ہے۔
(فتح الباري: 32/11)
واللہ أعلم۔
(3)
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ دل میں زنا کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔
اس خواہش کی تکمیل کے لیے انسان نظر بازی اور محبت بھری گفتگو بھی کرتا ہے، اب اگر شرمگاہ نے عملاً زنا کر لیا تو بدکاری کا گناہ لکھا جائے گا اور اگر اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اس کے ارتکاب سے باز رہا تو خواہش غلط اور جھوٹ ہو گئی، اس صورت میں گناہ نہیں لکھا جائے گا۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6243   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.