(مرفوع) حدثنا هدبة بن خالد، حدثنا همام، حدثنا قتادة، حدثنا انس بن مالك، عن معاذ بن جبل رضي الله عنه، قال: بينما انا رديف النبي صلى الله عليه وسلم ليس بيني وبينه إلا آخرة الرحل، فقال:" يا معاذ"، قلت: لبيك يا رسول الله وسعديك، ثم سار ساعة، ثم قال:" يا معاذ"، قلت: لبيك يا رسول الله وسعديك، ثم سار ساعة، ثم قال:" يا معاذ بن جبل"، قلت: لبيك رسول الله وسعديك، قال:" هل تدري ما حق الله على عباده؟"، قلت: الله ورسوله اعلم، قال:" حق الله على عباده: ان يعبدوه، ولا يشركوا به شيئا"، ثم سار ساعة، ثم قال:" يا معاذ بن جبل"، قلت: لبيك رسول الله وسعديك، قال:" هل تدري ما حق العباد على الله إذا فعلوه؟"، قلت: الله ورسوله اعلم، قال:" حق العباد على الله ان لا يعذبهم".(مرفوع) حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَيْنَمَا أَنَا رَدِيفُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ إِلَّا آخِرَةُ الرَّحْلِ، فَقَالَ:" يَا مُعَاذُ"، قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، ثُمَّ سَارَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ:" يَا مُعَاذُ"، قُلْتُ: لَبَّيْكَ يا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، ثُمَّ سَارَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ:" يَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ"، قُلْتُ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، قَالَ:" هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ اللَّهِ عَلَى عِبَادِهِ؟"، قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:" حَقُّ اللَّهِ عَلَى عِبَادِهِ: أَنْ يَعْبُدُوهُ، وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا"، ثُمَّ سَارَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ:" يَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ"، قُلْتُ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، قَالَ:" هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ إِذَا فَعَلُوهُ؟"، قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:" حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ أَنْ لَا يُعَذِّبَهُمْ".
ہم سے ہدبہ بن خالد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہمام بن حارث نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اور ان سے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر آپ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ سوا کجاوہ کے آخری حصہ کے میرے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے معاذ! میں نے عرض کیا لبیک وسعدیک، یا رسول اللہ! پھر تھوڑی دیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے پھر فرمایا، اے معاذ! میں نے عرض کیا لبیک وسعدیک یا رسول اللہ! پھر تھوڑی دیر مزید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے۔ پھر فرمایا، اے معاذ! میں نے عرض کیا لبیک وسعدیک یا رسول اللہ! فرمایا، تمہیں معلوم ہے کہ اللہ کا اپنے بندوں پر کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ فرمایا، اللہ کا بندوں پر یہ حق ہے کہ وہ اللہ ہی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر چلتے رہے اور فرمایا، اے معاذ بن جبل! میں نے عرض کیا لبیک وسعدیک یا رسول اللہ! فرمایا، تمہیں معلوم ہے کہ جب بندے یہ کر لیں تو ان کا اللہ پر کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ فرمایا کہ بندوں کا اللہ پر یہ حق ہے کہ وہ انہیں عذاب نہ دے۔
Narrated Mu`adh bin Jabal: While I was riding behind the Prophet as a companion rider and there was nothing between me and him except the back of the saddle, he said, "O Mu`adh!" I replied, "Labbaik O Allah's Apostle! And Sa`daik!" He proceeded for a while and then said, "O Mu`adh!" I said, "Labbaik and Sa`daik, O Allah's Apostle!" He then proceeded for another while and said, "O Mu`adh bin Jabal!" I replied, "Labbaik, O Allah's Apostle, and Sa`daik!" He said, "Do you know what is Allah's right on His slaves?" I replied, "Allah and His Apostle know better." He said, "Allah's right on his slaves is that they should worship Him and not worship anything besides Him." He then proceeded for a while, and again said, "O Mu`adh bin Jabal!" I replied. "Labbaik, O Allah's Apostle, and Sa`daik." He said, "Do you know what is (Allah's) slaves' (people's) right on Allah if they did that?" I replied, "Allah and His Apostle know better." He said, "The right of (Allah's) slaves on Allah is that He should not punish them (if they did that).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 76, Number 507
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6500
حدیث حاشیہ: حدیث میں توحید اورشرک کا بیان ہے توحید یعنی عبادت میں اللہ کو ایک ہی جاننا اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا خالص اسی کی عبادت کرنا ہرقسم کے شرک سے بچنا یہ دخول جنت کا موجب ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6500
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6500
حدیث حاشیہ: (1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو بار بار آواز دی تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی اہم بات بیان کرنے والے ہیں اور اسے سننے کے لیے مکمل طور پر متوجہ ہو جائیں، غفلت نہ کریں۔ (2) اللہ تعالیٰ کی عبادت کے علاوہ اپنے نفس کو ہر قسم کے شغل سے روکے رکھنا نفس کا مجاہدہ ہے۔ چونکہ حدیث میں عبادت کا استحقاق بیان ہوا ہے، اس بنا پر عنوان اور حدیث میں مطابقت واضح ہے۔ نفس کی عام طور پر دو حالتیں ہیں: ایک تو شہوات میں منہمک ہونا اور دوسری اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے گریز کرنا۔ نفس سے مجاہدہ ان دونوں حالات کے پیش نظر ہوتا ہے۔ (3) نفس کے تین دشمن ہیں، ان کا سردار ابلیس لعین ہے، دوسرا انسان کا نفس اور تیسرا غلط قسم کے لوگ۔ نفس کا مددگار شیطان ہوتا ہے، اس لیے نفس سے جہاد بہت مشکل ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا ثواب بھی بہت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”جو انسان اپنے رب کے حضور پیش ہونے سے ڈر گیا اور اپنے نفس کو خواہشات سے لگام دی تو اس کا ٹھکانا جنت ہے۔ “(النازعات: 40)(4) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ نفس سے جہاد کے چار مراتب ہیں: ٭ اسے امور دین سیکھنے کے لیے آمادہ کرنا اور اس پر لگانا۔ ٭ دینی معاملات کے مطابق عمل کرنے اور اس پر ہمیشگی کرنے پر آمادہ کرنا۔ ٭ اسے اس بات پر آمادہ کرنا کہ جن لوگوں کو علم نہیں ہے انہیں تعلیم دے۔ ٭ توحید کی طرف بلانے اور دین کی مخالفت کرنے والوں سے قتال کرنے پر آمادہ کرنا۔ (فتح الباري: 410/11) واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذمے کوئی چیز واجب نہیں۔ حدیث میں ”بندوں کا اللہ پر حق“ کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں سے جزا و سزا کا جو وعدہ کیا ہے وہ اس کو پورا کرے گا۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6500
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 143
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ سواری پر آپ (ﷺ) کے پیچھے سوار تھا میرے اور آپؐ کے درمیان کجاوے کے پچھلے حصے کے سوا اور کوئی چیز حائل نہ تھی۔ تو آپ (ﷺ) نے فرمایا: ”اے معاذ بن جبل!“ میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول میں حاضر ہوں، اور خدمت کے لیے تیار ہوں! پھر کچھ دیر چلنے کے بعد فرمایا: ”اے معاذ بن جبل!“ میں نے عرض کیا میں خدمت میں حاضر ہوں اور آپ کا فرمانبردار ہوں! پھر کچھ وقت... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:143]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) لَبَّيْكَ: لب کا تثنیہ ہے اور (ک) کی طرف مصاف ہے، تکرار اور تاکید و کثرت کے لیے ایسا کرتے ہیں، معنی ہے اجبت لك اجابة بعد اجابة، ”آپ کے لیے بار بار حاضر ہوں“ یا اقمت علي طاعتك اقامة بعد اقامة، ”مسلسل آپ کی اطاعت پر قائم ہوں۔ “(2) سَعْدَيْكَ: سعد کا تثنیہ ہے اور اس کا مقصد بھی تکرار و کثرت ہے معنی ہے: أنا مسعد طاعتك اسعاد بعد اسعاد، یا اسعدك اسعاد ابعد اسعاد، آپ کی خدمت و طاعت کی سعادت پر قائم ہوں۔ فوائد ومسائل: حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے آپ (ﷺ) کے ساتھ بیٹھنے کی کیفیت کو تفصیل سے بیان کیا ہے تاکہ نبی اکرم ﷺ کی جو خاص شفقت اور عنایت حاصل تھی اور بارگاہ نبوی میں جو خاص مقام قرب حاصل تھا، وہ سامعین کے پیش نظر رہے، تاکہ وہ سمجھ سکیں کہ آپ نے حضرت معاذ کو ایسی بات کیوں فرمائی، جس کی عام اشاعت کی اجازت نہ تھی جیسا کہ آگے ان کی حدیث میں آرہا ہے، نیز لوگوں کے سامنے یہ بات واضح ہوجائے کہ مجھے یہ حدیث اچھی طرح یاد ہے حتی کہ اس کی جزئی باتیں بھی محفوظ ہیں۔ (2) رسول اللہ ﷺ نے تھوڑے تھوڑے وقفہ کے ساتھ، حضرت معاذ کو تین دفعہ مخاطب کیا، اور پھر تیسری دفعہ بھی بات مکمل نہیں کی، مقصد یہ تھا کہ حضرت معاذ ؓ پوری طرح آپ کی طرف متوجہ ہوں اور ہمہ تن گوش ہو کر پوری رغبت وتوجہ اور غور وتا مل کے ساتھ آپ کی بات سنیں، کیونکہ جب انسان کسی چیز کا منتظر ہوتا ہے، تو اس کی طرف پوری توجہ کرتا ہے او ر کامل انہماک اورشوق سے سنتا ہے اور ا س کو ذہن نشین کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 143
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5967
5967. حضرت معاذ بن جبل ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں ایک دفعہ نبی ﷺ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا میرے اور آپ کے درمیان صرف کجاوے کی لکڑی تھی۔ آپ نے آواز دی: اے معاذ! میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں اور آپ کی اطاعت کے لیے مستعد ہوں۔ پھر کچھ وقت چلتے رہے اس کے بعد فرمایا: ”اے معاذ“! میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں اور آپ کی اطاعت کے لیے تیار ہوِں۔ پھر کچھ دیر چلتے رہے اس کے بعد فرمایا: ”اے معاذ“! میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں اور آپ کی فرمانبرداری کے لیے تیار ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کا بندوں پر حق یہ ہے کہ وہ صرف اس کی عبادت کریں اوراس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں۔“ پھر تھوڑی دیر چلتے رہے اس کے بعد فرمایا: اے معاذ بن جبل! میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں اور آپ کی اطاعت کے لیے تیار ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تمہیں علم ہے کہ بندوں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:5967]
حدیث حاشیہ: حق سے سنت اللہ مراد ہے یعنی اللہ نے یہی قانون بنا دیا ہے کہ اہل توحید بخشے جائیں خواہ جلد یا بدیر اور اہل شرک داخل جہنم کئے جائیں اور اس میں ہمیشہ ہمیشہ جلتے رہیں۔ اس لیے مشرکین پر جنت قطعاً حرام کر دی گئی ہے کتنے نام نہاد مسلمان بھی افعال شرکیہ میں گرفتار ہیں وہ بھی اسی قانون کے تحت ہوں گے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5967
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5967
5967. حضرت معاذ بن جبل ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں ایک دفعہ نبی ﷺ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا میرے اور آپ کے درمیان صرف کجاوے کی لکڑی تھی۔ آپ نے آواز دی: اے معاذ! میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں اور آپ کی اطاعت کے لیے مستعد ہوں۔ پھر کچھ وقت چلتے رہے اس کے بعد فرمایا: ”اے معاذ“! میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں اور آپ کی اطاعت کے لیے تیار ہوِں۔ پھر کچھ دیر چلتے رہے اس کے بعد فرمایا: ”اے معاذ“! میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں اور آپ کی فرمانبرداری کے لیے تیار ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کا بندوں پر حق یہ ہے کہ وہ صرف اس کی عبادت کریں اوراس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں۔“ پھر تھوڑی دیر چلتے رہے اس کے بعد فرمایا: اے معاذ بن جبل! میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں اور آپ کی اطاعت کے لیے تیار ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تمہیں علم ہے کہ بندوں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:5967]
حدیث حاشیہ: (1) اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ اہل توحید جنت کے حق دار ہیں جبکہ کفر و شرک میں مبتلا لوگ جہنم کا ایندھن ہوں گے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ آدمی اپنی سواری پر کسی دوسرے کو اپنے پیچھے بٹھا سکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے بٹھایا تھا، اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں بلکہ رواداری کا تقاضا ہے کہ اگر گنجائش ہو تو ضرور کسی مسافر کے ساتھ اس طرح کی ہمدردی کرے۔ (3) واضح رہے کہ محدثین کرام نے نام بنام ایسے خوش قسمت حضرات کی نشاندہی کی ہے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھنے کی سعادت حاصل ہوئی اور وہ تیس کے قریب ہیں۔ واللہ أعلم (فتح الباري: 489/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5967
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6267
6267. حجرت معاذ بن جبل ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کے پیچھے سواری پر بیٹھا ہوا تھا، آپ نے آواز دی: ”اے معاذ!“ میں نے عرض کی: میں حاضر ہوں اور آپ کی خدمت کے لیے مستعد ہوں۔ پھر آپ نے تین مرتبہ مجھے اسی طرح مخاطب کیا، اس کے بعد فرمایا: ”تمہیں معلوم ہے کہ اللہ کا بندوں پر کیا حق ہے؟“ میں نے کہا: نہیں۔ پھر آپ نے خود ہی فرمایا: ”اللہ کا بندوں پر حق یہ ہے کہ بندے صرف اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی شریک نہ ٹھہرائیں،“ پھر تھوڑی دیر چلتے رہے اور فرمایا: ”اے معاذ!“ میں نے عرض کی: میں حاضر ہوں اور آپ کی خدمت کے لیے مستعد ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ پر بندوں کا کیا حق ہے جب وہ یہ کرلیں؟ کہ وہ انہیں عذاب نہ دے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6267]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث میں توحید اختیار کرنے پر بہت بڑی بشارت دی گئی اور شرک کرنے کی مذمت کی گئی ہے۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے جواب سے امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان ثابت کیا ہے۔ (2) اللہ تعالیٰ پر حق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے فضل وکرم سے اس بات اپنے ذمے لے لیا ہے بصورت دیگر اللہ تعالیٰ پر کوئی چیز واجب نہیں، وہ جو چاہے کر گزرتا ہے۔ اس کی مرضی کے خلاف کسی کو دم مارنے کی جرأت نہیں ہے۔ جو لوگ بحق فلاں بحق فلاں کہہ کر دعا کرتے ہیں، ان کا یہ طریقہ غلط ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ پر کسی کا کوئی حق واجب نہیں ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6267