صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں
The Book of Ar-Riqaq (Softening of The Hearts)
18. بَابُ الْقَصْدِ وَالْمُدَاوَمَةِ عَلَى الْعَمَلِ:
18. باب: نیک عمل پر ہمیشگی کرنا اور درمیانی چال چلنا (نہ کمی ہو نہ زیادتی)۔
(18) Chapter. The adoption of a middle course (not to go to extremes), and the regularity of one’s deeds.
حدیث نمبر: 6464
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، حدثنا سليمان، عن موسى بن عقبة، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن، عن عائشة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" سددوا، وقاربوا واعلموا ان لن يدخل احدكم عمله الجنة، وان احب الاعمال إلى الله ادومها وإن قل".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" سَدِّدُوا، وَقَارِبُوا وَاعْلَمُوا أَنْ لَنْ يُدْخِلَ أَحَدَكُمْ عَمَلُهُ الْجَنَّةَ، وَأَنَّ أَحَبَّ الْأَعْمَالِ إِلَى اللَّهِ أَدْوَمُهَا وَإِنْ قَلَّ".
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا درمیانی چال اختیار کرو اور بلند پروازی نہ کرو اور جان لو، تم میں سے کسی کا عمل اسے جنت میں نہیں داخل کر سکے گا، اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل وہ ہے جس پر ہمیشگی کی جائے خواہ کم ہی کیوں نہ ہو۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Aisha: Allah's Apostle said, "Do good deeds properly, sincerely and moderately and know that your deeds will not make you enter Paradise, and that the most beloved deed to Allah's is the most regular and constant even though it were little."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 76, Number 471


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري6464عائشة بنت عبد اللهسددوا وقاربوا اعلموا أن لن يدخل أحدكم عمله الجنة أحب الأعمال إلى الله أدومها وإن قل
   صحيح البخاري6467عائشة بنت عبد اللهسددوا وقاربوا وأبشروا لا يدخل أحدا الجنة عمله
   صحيح مسلم7122عائشة بنت عبد اللهسددوا وقاربوا وأبشروا لن يدخل الجنة أحدا عمله قالوا ولا أنت يا رسول الله قال ولا أنا إلا أن يتغمدني الله منه برحمة أحب العمل إلى الله أدومه وإن قل

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6464 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6464  
حدیث حاشیہ:
فرائض الٰہی میں کمی بیشی کا سوال ہی نہیں ہے۔
یہ جملہ نفل عبادتوں کا ذکر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6464   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6467  
6467. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: نیک عمل کرتے وقت حد سے نہ بڑھو بلکہ قریب قریب رہو، یعنی میانہ روی اختیار کرو۔ تمہیں خوشی ہونی چاہیئے کہ کوئی بھی اپنے عمل کی وجہ سے جنت میں نہیں جائے گا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے بھی نہیں؟ فرمایا: میں بھی مگر اس وقت جب اللہ تعالٰی مجھےاپنی رحمت اور مغفرت کے سائے میں ڈھانپ لے۔ ایک دوسری روایت ہے سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے مروی ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: میانہ روی اختیار کرو اور خوش رہو۔ امام مجاہد نے (قولاً سدیدًا) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ سدید اور سداد کے معنیٰ ہیں: سچائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6467]
حدیث حاشیہ:
یعنی سچائی کو ہر حال میں اختیار کرو تم اعمال خیر کروگے تم کو جنت کی بلکہ دنیا میں بھی کامیابی کی بشارت ہے۔
قرآن کی آیت ﴿قُولُوا قولا سَدِیدا﴾ (الأعراف: 43)
کی طرف اشارہ ہے۔
عفان بن مسلم حضرت اما م بخاری کے استاد ہیں اس سند کو لا کر امام بخاری نے علی بن عبد اللہ مدینی کا گمان رفع کیا کہ اگلی روایت منقطع ہے کیونکہ اس میں موسیٰ کے سماع کی ابو سلمہ سے صراحت ہے حدیث میں سدودا کا لفظ آیا تھا سدیداسدادا کا بھی وہی مادہ ہے اس مناسبت سے امام بخاری نے اس کی تفسیر یہاں بیان کر دی۔
قرآن شریف میں جو ہے ﴿تِلْكُمُ الْجَنَّةُ أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ﴾ (الاعراف: 43)
اس کے معارض نہیں ہے کیونکہ عمل صالح بھی منجملہ اسباب دخول جنت ایک سبب ہے لیکن اصلی سبب رحمت اور عنایت الٰہی ہے بعض نے کہا آیت میں ترقی درجات مراد ہے نہ محض دخول جنت اور ترقی اعمال صالحہ کے لحاظ سے ہوگی اس حدیث سے معتزلہ کا رد ہوتا ہے جو کہتے ہیں اعمال صالحہ کرنے والے کو بہشت میں لے جانا اللہ پر واجب ہے۔
معاذاللہ منه۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6467   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6467  
6467. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: نیک عمل کرتے وقت حد سے نہ بڑھو بلکہ قریب قریب رہو، یعنی میانہ روی اختیار کرو۔ تمہیں خوشی ہونی چاہیئے کہ کوئی بھی اپنے عمل کی وجہ سے جنت میں نہیں جائے گا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے بھی نہیں؟ فرمایا: میں بھی مگر اس وقت جب اللہ تعالٰی مجھےاپنی رحمت اور مغفرت کے سائے میں ڈھانپ لے۔ ایک دوسری روایت ہے سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے مروی ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: میانہ روی اختیار کرو اور خوش رہو۔ امام مجاہد نے (قولاً سدیدًا) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ سدید اور سداد کے معنیٰ ہیں: سچائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6467]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان احادیث میں کسی کام کو میانہ روی کے ساتھ ہمیشہ کرنے کی اہمیت و افادیت بیان کی گئی ہے۔
اس عنوان کے دو اجزاء نہیں بلکہ ایک ہی جز کے دو رخ ہیں کیونکہ اسی کام کو ہمیشہ کیا جا سکتا ہے جو میانہ روی اور اعتدال کے ساتھ کیا جائے اور اس میں افراط یا تفریط سے اس کی افادیت اور اہمیت مجروح ہو جاتی ہے قرآن کریم میں بیشمار مقامات پر اعتدال قائم رکھنے پر زور دیا گیا ہے۔
ہم صرف تین آیات پیش کرتے ہیں:
٭ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
آپ اپنی نماز کو نہ زیادہ بلند آواز سے پڑھیں اور نہ بالکل پست آواز سے بلکہ ان کے درمیان اعتدال کا لہجہ اختیار کریں۔
(بني إسرائیل: 110)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ نماز میں قرآن اتنی بلند آواز سے نہ پڑھیں کہ مشرک قرآن کو برا بھلا کہیں اور نہ اتنی آہستہ پڑھیں کہ آپ کے صحابہ بھی نہ سن سکیں بلکہ درمیانی راہ اختیار کریں۔
دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:
نہ تم اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھو اور نہ اسے پوری طرح کھلا ہی چھوڑ دو ورنہ تم خود ملامت زدہ اور درماندہ بن کر رہ جاؤ گے۔
(بنی اسرائیل: 17/29)
اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ خرچ کرتے وقت نہ تو بخل سے کام لیا جائے اور نہ اتنا زیادہ ہی خرچ کیا جائے کہ اپنی ضرورت کے لیے بھی کچھ نہ رہے بلکہ میانہ روی کو اختیار کرنا چاہیے۔
خرچ کرتے وقت اللہ تعالیٰ کی ہدایت یہ ہے:
اور جو لوگ خرچ کرتے ہیں وہ تو اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر ہوتا ہے۔
(الفرقان: 67)
مطلب یہ ہے کہ ضرورت کے کاموں میں حد سے زیادہ خرچ کرنا معیوب ہے، اسی طرح ضرورت کے وقت پیسہ خرچ نہ کرنا بلکہ اسے جوڑ کر رکھنا اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں بلکہ اعتدال کی پالیسی کو اختیار کرنا چاہیے۔
(2)
اسراف اور بخل کے درمیان صفت کو اقتصاد یا قصد کہتے ہیں۔
اسی صفت کو اسلام نے پسند کیا ہے۔
اقتصاد یہ ہے کہ انسان اپنی ضرورت پر اتنا ہی خرچ کرے جتنا ضروری ہو، نہ کم ہو نہ زیادہ۔
امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوان اور پیش کردہ احادیث کا یہی مقصد ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6467   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.