الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں
The Book of Ar-Riqaq (Softening of The Hearts)
15. بَابُ الْغِنَى غِنَى النَّفْسِ:
15. باب: مالدار وہ ہے جس کا دل غنی ہو۔
(15) Chapter. True riches is self-contentment.
حدیث نمبر: Q6446
Save to word اعراب English
وقول الله تعالى: ايحسبون انما نمدهم به من مال وبنين سورة المؤمنون آية 55، إلى قوله تعالى: من دون ذلك هم لها عاملون سورة المؤمنون آية 63، قال ابن عيينة: لم يعملوها لا بد من ان يعملوها.وَقَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى: أَيَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مَالٍ وَبَنِينَ سورة المؤمنون آية 55، إِلَى قَوْلِهِ تَعَالَى: مِنْ دُونِ ذَلِكَ هُمْ لَهَا عَامِلُونَ سورة المؤمنون آية 63، قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: لَمْ يَعْمَلُوهَا لَا بُدَّ مِنْ أَنْ يَعْمَلُوهَا.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ مومنون میں) فرمایا «أيحسبون أنما نمدهم به من مال وبنين‏» کیا یہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جو مال اور اولاد دے کر ان کی مدد کئے جاتے ہیں آخر آیت «من دون ذلك هم لها عاملون‏» تک۔ سفیان بن عیینہ نے کہا کہ «هم لها عاملون‏» سے مراد یہ ہے کہ ابھی وہ اعمال انہوں نے نہیں کئے لیکن ضرور ان کو کرنے والے ہیں۔

حدیث نمبر: 6446
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا احمد بن يونس، حدثنا ابو بكر، حدثنا ابو حصين، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" ليس الغنى عن كثرة العرض، ولكن الغنى غنى النفس".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو حَصِينٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَيْسَ الْغِنَى عَنْ كَثْرَةِ الْعَرَضِ، وَلَكِنَّ الْغِنَى غِنَى النَّفْسِ".
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوبکر بن عیاش نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوحصین نے بیان کیا، ان سے ابوصالح ذکوان نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تونگری یہ نہیں ہے کہ سامان زیادہ ہو، بلکہ امیری یہ ہے کہ دل غنی ہو۔

Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "Riches does not mean, having a great amount of property, but riches is selfcontentment."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 76, Number 453


   صحيح البخاري6446عبد الرحمن بن صخرليس الغنى عن كثرة العرض ولكن الغنى غنى النفس
   صحيح مسلم2420عبد الرحمن بن صخرليس الغنى عن كثرة العرض ولكن الغنى غنى النفس
   جامع الترمذي2373عبد الرحمن بن صخرليس الغنى عن كثرة العرض ولكن الغنى غنى النفس
   سنن ابن ماجه4137عبد الرحمن بن صخرليس الغنى عن كثرة العرض ولكن الغنى غنى النفس
   صحيفة همام بن منبه62عبد الرحمن بن صخرليس الغنى من كثرة العرض ولكن الغنى غنى النفس
   مسندالحميدي1094عبد الرحمن بن صخرليس الغنى عن كثرة العرض، إنما الغنى غنى النفس
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6446 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6446  
حدیث حاشیہ:
دل غنی ہو تو تھوڑا ہی بہت ہے، دل غنی نہ ہو تو پہاڑ برابر دولت ملنے سے بھی پیٹ نہیں بھر سکتا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6446   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6446  
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ کثرتِ مال سے تونگری نہیں آتی کیونکہ بے شمار لوگ جن کے پاس مال و دولت کی کثرت ہوتی ہے وہ صبر اور قناعت سے خالی ہوتے ہیں اور مال کو زیادہ کرنے کی فکر میں رہتے ہیں، خواہ اس کے لیے انہیں ناجائز ذرائع ہی کیوں نہ اختیار کرنے پڑیں، گویا حرص اور لالچ کی وجہ سے تنگدست اور حقیر ہیں۔
اگر انسان کا دل غنی ہے اور اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے پر صبر اور قناعت کرتا ہے اور کثرتِ مال کی خواہش نہیں کرتا تو حقیقت کے اعتبار سے ایسا انسان غنی ہے۔
اس بات کی مزید وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے، آپ نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
اے ابوذر! کیا تو خیال کرتا ہے کہ مال کی کثرت تونگری ہے۔
میں نے کہا:
ہاں۔
آپ نے فرمایا:
کیا تو سمجھتا ہے کہ مال کی قلت ناداری ہے؟ میں نے عرض کی:
جی ہاں۔
آپ نے فرمایا:
تونگری تو دل کی مال داری ہے اور فقیری تو دل کی ناداری ہے۔
(الإحسان بترتیب صحیح ابن حبان: 396/2) (2)
قرآن کریم نے ایسے بے نیاز حضرات کی مال داری کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
ان کے سوال نہ کرنے کی وجہ سے ناواقف لوگ انہیں خوشحال سمجھتے ہیں۔
آپ ان کے چہروں سے ان کی کیفیت پہچان سکتے ہیں۔
وہ لوگوں سے لپٹ کر سوال نہیں کرتے۔
(البقرة: 273) (3)
﴿وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَىٰ ﴿٨﴾ کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس غنا سے مراد بھی دل کی تونگری ہے۔
(فتح الباري: 329/11)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6446   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4137  
´قناعت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مالداری دنیاوی ساز و سامان کی زیادتی سے نہیں ہوتی، بلکہ اصل مالداری تو دل کی بے نیازی اور آسودگی ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4137]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
انسان دولت اس لیے حاصل کرتا ہے کہ اس کے کام چلتے رہیں لیکن جب دولت خود مقصود بن جائے تو پھر مال ودولت کی کثرت کے باوجود سکون واطمینان حاصل نہیں ہوتا جس کے لیے کوشش کی جاتی ہے۔

(2)
قناعت کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے پاس موجودہ رزق کو کافی سمجھےاور اپنی ضروریات کو اس حد تک محدود کرلے کہ حلال روزی میں گزارا ہوجائے۔

(3)
دولت مند وہ ہے جس کا دل دولت مند ہے۔
اور دولت مند تب ہوتا ہے جب اس میں حرص وبخل نہ ہو۔
ایسا آدمی تھوڑے سے مال سے اتنی خوشی حاصل کرلیتا ہے جو حریص کو بہت زیادہ مال سے بھی حاصل نہیں ہوتی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4137   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2373  
´دل کی بے نیازی اور استغناء اصل دولت ہے`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مالداری ساز و سامان کی کثرت کا نام نہیں ہے، بلکہ اصل مالداری نفس کی مالداری ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد/حدیث: 2373]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
انسان کے پاس جوکچھ ہے اسی پرصابروقانع رہ کردوسروں سے بے نیازرہنا اور ان سے کچھ نہ طلب کرنادرحقیقت یہی نفس کی مالداری ہے،
گویا بندہ اللہ کی تقسیم پر راضی رہے،
دوسرں کے مال ودولت کوللچائی ہوئی نظرسے نہ دیکھے اور زیادتی کی حرص نہ رکھے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2373   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1094  
1094- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: خوشحالی مال ودولت زیادہ ہونے کی وجہ سے نہیں ہوتی اصل خوشحالی دل کا خوشحال ہونا ہے۔‏‏‏‏ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1094]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مال و دولت کی کوئی حقیقت نہیں ہے، مومن انسان مال و دولت کی ذرا بھی پروا نہیں کرتا، آج لوگوں نے زندگی کا مقصد مال و دولت جمع کرنے کو ہی سمجھ لیا ہے، جبکہ مومن انسان جس کے پاس مال و دولت حقیقت میں نہیں ہوتا لیکن وہ دل کے لحاظ سے اس طرح ہوتا ہے جیسے اس کے پاس کروڑوں روپے ہیں، اس کی باتوں اور اس کے کردار سے وسعت محسوس ہوتی ہے، اور وہ ہر موقع پر فراخ دلی کا مظاہرہ کرتا ہے، لہٰذا انسان کو مال و دولت کی بجائے قرآن و سنت کے فہم اور اس پر عمل کرنے پر توجہ کرنی چاہیے، اور زندگی کا مقصد دین کی نشر و اشاعت، دین کی تبلیغ اور اس پر عمل کو بنانا چاہیے، انسانی ضروریات اللہ تعالیٰ خود بخود پوری فرما دیتے ہیں، ان شاءاللہ۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1092   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2420  
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دولت مندی و دولت یا مال و اسباب کی کثرت سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ حقیقی دولت مندی دل کی بے نیازی ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2420]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
تونگری اور محتاجی،
خوشحالی اور بدحالی کا تعلق روپیہ پیشہ اور مال واسباب سے زیادہ آدمی کے دل سے ہے اگر دل غنی اور بے نیاز ہے تو آدمی تونگر اور خوشحال ہے اور اگر دل حرص و طمع کا اسیر ہے تو دولت کے ڈھیروں کے باوجود وہ خوشحالی سے محروم اور محتاج و پریشان حال ہے سعدی علیہ الرحمہ کا مشہور قول ہے وہ تونگری بدل است نہ بہ مال۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2420   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.