(مرفوع) حدثني احمد بن المقدام، حدثنا الفضيل بن سليمان، حدثنا ابو حازم، حدثنا سهل بن سعد الساعدي، كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في الخندق وهو يحفر، ونحن ننقل التراب ويمر بنا، فقال:" اللهم لا عيش إلا عيش الآخره، فاغفر للانصار، والمهاجره"، تابعه سهل بن سعد، عن النبي صلى الله عليه وسلم مثله.(مرفوع) حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ الْمِقْدَامِ، حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ، حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ السَّاعِدِيُّ، كُنَّا مَع رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْخَنْدَقِ وَهُوَ يَحْفِرُ، وَنَحْنُ نَنْقُلُ التُّرَابَ وَيَمُرُّ بِنَا، فَقَالَ:" اللَّهُمَّ لَا عَيْشَ إِلَّا عَيْشُ الْآخِرَهْ، فَاغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ، وَالْمُهَاجِرَهْ"، تَابَعَهُ سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ.
ہم سے احمد بن مقدام نے بیان کیا، کہا ہم سے فضیل بن سلیمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوحازم نے بیان کیا، ان سے سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ خندق کے موقع پر موجود تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی خندق کھودتے جاتے تھے اور ہم مٹی کو اٹھاتے جاتے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے قریب سے گزرتے ہوئے فرماتے «اللهم لا عيش إلا عيش الآخره، فاغفر للأنصار والمهاجره»”اے اللہ! زندگی تو بس آخرت ہی کی زندگی ہے، پس تو انصار و مہاجرین کی مغفرت کر۔“ اس روایت کی متابعت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کی ہے۔
Narrated Sahl bin Sa`d As-Sa`idi: We were in the company of Allah's Apostle in (the battle of) Al-Khandaq, and he was digging the trench while we were carrying the earth away. He looked at us and said, "O Allah! There is no life worth living except the life of the Hereafter, so (please) forgive the Ansar and the Emigrants."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 76, Number 423
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6414
حدیث حاشیہ: (1) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین و انصار کے لیے خیر و برکت کی دعا فرمائی۔ آپ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے درج ذیل جذبات کے اظہار پر یہ دعائیں فرمائیں: ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر اس امر کی بیعت کی ہے کہ ہم جب تک زندہ ہیں اسلام کے راستے پر گامزن رہیں گے۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4100)(2) واضح رہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے سخت سردی کے وقت خندق کھودی تھی۔ اس وقت ان کے پاس غلام وغیرہ بھی نہ تھے جو ان کی جگہ خندق کھودنے کا فریضہ سرانجام دیتے۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4099)(3) دنیا میں آرام و راحت اور خوشی عیشی کی زندگی گزارنا اگرچہ حرام اور ناجائز نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں کا مقام یہی ہے کہ وہ دنیا میں نازونعمت کی زندگی گزارنے کے بجائے آخرت کی عیش و عشرت پر نظر رکھیں۔ اللهم لا عيشَ إلا عيشُ الآخرةِ کا یہی مطلب ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن روانہ کیا تو نصیحت فرمائی: ''اے معاذ! آرام طلبی اور خوش عیشی سے کنارہ کش رہنا، اللہ تعالیٰ کے خاص بندے آرام طلب اور خوش عیش نہیں ہوا کرتے۔ '' (مسند أحمد: 243/5، والصحیحة للألباني، حدیث: 353)(4) شارح ابن منیر فرماتے ہیں کہ لوگوں کی اکثریت صحت و فرصت کے باوجود جو خسارے میں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت کی زندگی کے مقابلے میں پسند کیا ہے، لہذا جس عیش و عشرت میں وہ مبتلا ہیں اس کی کچھ بھی حقیقت نہیں بلکہ وہ تو پانی کے بلبلے کی طرح ہے اور جس زندگی کو وہ نظر انداز کیے ہوئے ہیں اصل زندگی تو وہی ہے اور جس نے آخرت کی زندگی کو کھوٹا کر دیا دراصل وہ گھاٹے اور خسارے میں ہے۔ (المتواري، ص: 391)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6414
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3856
´ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان` سہل بن سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ خندق کھود رہے تھے اور ہم مٹی ڈھو رہے تھے، آپ نے ہمیں دیکھا تو فرمایا: «اللهم لا عيش إلا عيش الآخره فاغفر للأنصار والمهاجره»”اے اللہ زندگی تو آخرت ہی کی زندگی ہے، تو انصار و مہاجرین کی مغفرت فرما“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3856]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: صاحب تحفہ الأحوذی نے اس حدیث پر (باب مناقب سہل بن سعد) کاعنوان لگایا ہے، اور یہی مناسب ہے، کہ اس حدیث کا تعلق ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے کسی طرح نہیں ہے، اور اس میں تمام مہاجرین وانصار صحابہ کی منقبت کا بیان ہے، جو خاص طور پر خندق کھودنے میں شریک تھے، رضی اللہ عنہم اجمعین۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3856
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3797
3797. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے جبکہ ہم خندق کھودنے میں مصروف تھے اور اپنے کندھوں پر مٹی اٹھا رہے تھے۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ نے یہ دعا فرمائی: ”اے اللہ! آخرت کی زندگی کے علاوہ کوئی حقیقی زندگی نہیں۔ اے اللہ! تو انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3797]
حدیث حاشیہ: یہ جنگ احزاب کا واقعہ ہے جس میں مسلمانوں نے کفار عرب کے لشکروں کی جو تعداد میں بہت تھے، اندرون شہر سے مدافعت کی تھی اور شہر کی حفاظت کے لیے اطراف شہر میں خندق کھودی گئی تھی، اسی لیے اسے جنگ خندق بھی کہا گیا ہے، تفصیلی بیان آگے آئے گا، اس میں انصار اور مہاجرین کی فضیلت ہے اور یہی ترجمۃ الباب ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3797
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4098
4098. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ خندق کھودنے میں ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے۔ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم خندق کھود رہے تھے جبکہ ہم اپنے کندھوں پر مٹی اٹھا اٹھا کر باہر ڈال رہے تھے۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ نے یہ دعا فرمائی: "اے اللہ! آخرت کی زندگی ہی آرام کی زندگی ہے، اس لیے تو مہاجرین اور انصار کو معاف کر دے۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:4098]
حدیث حاشیہ: آپ نے انصار اور مہاجرین کی موجودہ تکالیف کو دیکھا تو ان کی تسلی کے لیے فرمایا کہ اصل آرام آخرت کا آرام ہے۔ دنیا کی تکالیف پر صبر کرنا مومن کے لیے ضروری ہے۔ جنگ خندق سخت تکلیف کے زمانے میں سامنے آئی تھی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4098
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3797
3797. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے جبکہ ہم خندق کھودنے میں مصروف تھے اور اپنے کندھوں پر مٹی اٹھا رہے تھے۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ نے یہ دعا فرمائی: ”اے اللہ! آخرت کی زندگی کے علاوہ کوئی حقیقی زندگی نہیں۔ اے اللہ! تو انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3797]
حدیث حاشیہ: 1۔ یہ غزوہ خندق کا واقعہ ہے جب قبائل مدینہ ٹوٹ پڑے تھے اندرون شہر کی حفاظت کے لیے خندق کھودی گئی۔ اس خندق کھودنے میں انصار اور مہاجرین نے حصہ لیا۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ نے انصار اور مہاجرین کے لیے ڈھیروں دعائیں کیں۔ 2ان تین روایات میں رسول اللہﷺ کے مختلف الفاظ بیان ہوئے ہیں۔ آپ نے مختلف مواقع پر مختلف دعائیں فرمائیں، چنانچہ کبھی فرمایا: ”انھیں بخش دے۔ “ کبھی ان کی اصلاح کے لیے دعا فرمائی اور کبھی ان پر رحم و کرم کرنے کی دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان تمام دعاؤں کو شرف قبولیت سے نوازا۔ (فتح الباري: 150/7)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3797
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4098
4098. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ خندق کھودنے میں ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے۔ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم خندق کھود رہے تھے جبکہ ہم اپنے کندھوں پر مٹی اٹھا اٹھا کر باہر ڈال رہے تھے۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ نے یہ دعا فرمائی: "اے اللہ! آخرت کی زندگی ہی آرام کی زندگی ہے، اس لیے تو مہاجرین اور انصار کو معاف کر دے۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:4098]
حدیث حاشیہ: 1۔ غزوہ خندق کے موقع پر مدینے کا موسم انتہائی سرد تھا رسول اللہ ﷺ نے خندق کھودتے وقت انصار اور مہاجرین کی تکلیف کو دیکھا تو ان کی تسلی کے لیے فرمایا: ”اصل آرام تو آخرت کے دن ملے گا اور دنیا کی تکلیفوں پر صبر کرنا مومن کی شان ہے۔ “ رسول اللہﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو ثواب کی ترغیب دلانے کے لیے خود خندق کھودنے میں حصہ لیا اور آپ کے ساتھ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بھی اس کام میں حصہ لیا کیونکہ اس وقت ان کے نوکر اور غلام نہ تھےجو خندق کھودنے کا کام کرتے۔ 2۔ واضح رہے کہ مدینے کے گرد خندق کھودنے کی تجویز حضرت سلمان فارسی ؓ کی تھی جسے رسول اللہ ﷺ نے مناسب خیال فرمایا۔ (فتح الباری: 7/491)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4098