ويذكر عن بلال، انه جعل إصبعيه في اذنيه، وكان ابن عمر لا يجعل إصبعيه في اذنيه، وقال إبراهيم: لا باس ان يؤذن على غير وضوء، وقال عطاء: الوضوء حق وسنة، وقالت عائشة: كان النبي صلى الله عليه وسلم يذكر الله على كل احيانه.وَيُذْكَرُ عَنْ بِلَالٍ، أَنَّهُ جَعَلَ إِصْبَعَيْهِ فِي أُذُنَيْهِ، وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ لَا يَجْعَلُ إِصْبَعَيْهِ فِي أُذُنَيْهِ، وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ: لَا بَأْسَ أَنْ يُؤَذِّنَ عَلَى غَيْرِ وُضُوءٍ، وَقَالَ عَطَاءٌ: الْوُضُوءُ حَقٌّ وَسُنَّةٌ، وَقَالَتْ عَائِشَةُ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ اللَّهَ عَلَى كُلِّ أَحْيَانِهِ.
اور بلال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اذان میں اپنی دونوں انگلیاں اپنے کانوں میں داخل کیں۔ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اذان میں کانوں میں انگلیاں نہیں ڈالتے تھے۔ اور ابراہیم نخعی نے کہا کہ بےوضو اذان دینے میں کوئی برائی نہیں اور عطاء نے کہا کہ اذان میں وضو ضروری اور سنت ہے۔ اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب وقتوں میں اللہ کو یاد فرمایا کرتے تھے۔
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے عون بن ابی حجیفہ سے بیان کیا، انہوں نے اپنے باپ سے کہ انھوں نے بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دیتے ہوئے دیکھا۔ وہ کہتے ہیں میں بھی ان کے منہ کے ساتھ ادھر ادھر منہ پھیرنے لگا۔
رأيت رسول الله في قبة حمراء من أدم رأيت بلالا أخذ وضوء رسول الله ورأيت الناس يبتدرون ذاك الوضوء فمن أصاب منه شيئا تمسح به ومن لم يصب منه شيئا أخذ من بلل يد صاحبه رأيت بلالا أخذ عنزة فركزها وخرج النبي صلى الله عليه
رأى رسول الله في قبة حمراء من أدم رأيت بلالا أخرج وضوءا فرأيت الناس يبتدرون ذلك الوضوء فمن أصاب منه شيئا تمسح به ومن لم يصب منه أخذ من بلل يد صاحبه رأيت بلالا أخرج عنزة فركزها وخرج رسول الله في حلة حمراء مشمرا فصل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 634
حدیث حاشیہ: اس باب کے ذیل میں حضرت الامام ؒ نے کئی ایک مسائل پر روشنی ڈالی ہے۔ مثلاً مؤذن کو حي علی الصلوٰة، حي علی الفلاح کے وقت دائیں بائیں منہ پھیرنا درست ہے نیز کانوں میں انگلیاں داخل کرنا بھی جائز ہے تاکہ آواز میں بلندی پیدا ہو۔ کوئی کانوں میں انگلیاں نہ ڈالیں توبھی کوئی حرج نہیں۔ وضو کر کے اذان کہنا بہتر ہے مگراس کے لیے وضو شرط نہیں ہے جن لوگوں نے وضو ضروری قرار دیا ہے، انھوں نے فضیلت کا پہلواختیار کیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 634
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 634
فوائد و مسائل: باب اور حدیث میں مناسبت: امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں اذان کے وقت اِدھر اُدھر منہ کرنے کو پیش فرمایا ہے یہاں مناسبت یہ معلوم ہوتی ہے کہ نماز کے لئے وضو شرط ہے اور بندہ نماز میں التفات اِدھر اُدھر اپنے منہ نہیں کر سکتا اس لئے کہ نماز میں قبلہ رو ہونا شرط ہے، لہٰذا جب اذان میں اِدھر اُدھر بندہ اپنا منہ کر سکتا ہے تو معلوم ہوا کہ اس کے لئے وضو شرط نہیں ہے جیسا کہ امی عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل نقل کیا کہ آپ علیہ السلام ہر حالت میں ذکر فرماتے تھے تو معلوم ہوا کہ ہر حالت میں ذکر کرنے کے لئے وضو شرط نہیں اور اذان دینا بھی ایک ذکر ہے اور اس پر بھی وضو شرط نہیں ہے۔ ◈ ابوجحیفہ سے جو اثر منقول ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ اذان میں اِدھر اُدھر منہ کیا کرتے تھے یہ بھی اسی مسئلہ پر دال ہے۔ «والله اعلم» ◈ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «غرضه اثبات ان الأذان غير ملحق بالصلاة فى الاحكام ولا يشترط فيه الاستقبال، وبهذا يتحقق المناسبة بين الترجمة والاثار الواردة فيه»[شرح تراجم ابواب البخاري، ص202] ”امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض یہ ہے کہ آپ ثابت کر رہے ہیں کہ اذان نماز کے ساتھ ملحق نہیں ہے اور نہ ہی اس میں (بیت اللہ کی طرف منہ کرنا) استقبال کی کوئی شرط ہے۔“ لہٰذا یہی مناسبت ہے ترجمۃ الباب کی ان آثار کے ساتھ جو وارد ہوئے ہیں۔ ◈ امام عبدالله بن سالم البصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «لأن الأذان من جملة الاذكار فلا يشترط فيه ما يشترط فى الصلاة من الطهارة ولا من استقبال القبلة كما لا يستحب فيه الخشوع الذى ينافيه الالتفات»[ضياء الباري فى مالك ابواب البخاري، ج7، ص74] ”اذان دراصل اذکار میں سے ہے اس (کی ادائیگی کے لئے) وہ شرائط نہیں ہیں جو نماز کی ہیں۔ جیسے کہ طہارت کا ہونا، قبلہ رو ہونا اور اس میں خشوع کا ہونا بھی مستحب نہیں ہے جو التفات کے منافی ہو (یعنی اذان میں التفات کر سکتے ہیں)۔“ ”امام بخاری رحمہ اللہ کا ترجمۃ الباب میں یہ مقصود ہے کہ مؤذن دائیں اور بائیں طرف التفات کر سکتا ہے۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے کہ میں (اذان دیتے ہوئے) اپنے منہ کو ادھر ادھر یعنی دائیں اور بائیں پھیرتا «حي على الصلاة» اور «حي على الفلاح» پر۔ ان تصریحات کا حاصل یہ ہے کہ اذان میں جب التفات ہو سکتا ہے تو اس کا حکم نماز کا نہیں ہے کیونکہ نماز میں خشوع اور خضوع کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ بس جب اذان کا حکم نماز جیسا نہیں تو اس کے لئے طہارت بھی شرط نہیں۔ یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
الشيخ عبد السلام بھٹوی رحمہ اللہ، فوائد، صحیح بخاری ح : 634
«باب هل يتتبع المؤذن فاه هاهنا وها هنا، وهل يلتفت فى الأذان»
باب: کیا مؤذن اذان میں اپنا منہ ادھر ادھر (دائیں بائیں) پھرائے اور کیا اذان کہتے وقت ادھر ادھر دیکھ سکتا ہے؟ فوائد:
➊ اس باب میں امام صاحب نے تین مسائل بیان کیے ہیں: ایک یہ کہ کیا مؤذن اذان میں دائیں اور بائیں جانب اپنا منہ پھیر سکتا ہے؟ دوسرا یہ کہ کیا مؤذن اذان کہتے وقت کانوں میں انگلیاں ڈالے گا؟ اور تیسرا یہ کہ کیا اذان کے لیے وضو ضروری ہے؟ ان تمام مسائل کا اصل یہ ہے کہ اذان نماز سے الگ ایک عبادت ہے، اس میں وہ پابندیاں نہیں ہیں جو نماز میں ہیں، مثلاً نماز کے لیے باوضو ہونا، قبلہ رخ رہنا، ادھر ادھر نہ دیکھنا، کسی سے بات نہ کرنا، ہنسنے سے اجتناب کرنا اور خشوع و خضوع لازم ہے اور ان سب باتوں کی دلیل قرآن یا حدیث میں موجود ہے جب کہ اذان کے لیے ان میں سے کوئی پابندی قرآن و حدیث سے ثابت نہیں۔
➋ اذان کے دوران دائیں بائیں طرف پھرنے اور دیکھنے کے بارے میں آئندہ حدیث کے تحت بات ہو گی۔
➌ اذان کے دوران کانوں میں انگلیاں ڈالنے سے متعلق امام صاحب نے دو آثار نقل کیے ہیں: ایک یہ کہ بلال رضی اللہ عنہ سے ذکر کیا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنی انگلیاں کانوں میں ڈالیں۔ دوسرا یہ کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنے کانوں میں انگلیاں نہیں ڈالتے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک اس میں وسعت ہے، کانوں میں انگلیاں ڈالے یا نہ ڈالے دونوں طرح ٹھیک ہے۔ البتہ ایک بات قابلِ توجہ ہے کہ انھوں نے بلال رضی اللہ عنہ کے اثر کو «يُذْكَرُ»(ذکر کیا جاتا ہے) کے الفاظ سے بیان کیا ہے، جو وہ عام طور پر ایسی روایت کے متعلق استعمال کرتے ہیں جس میں کوئی کمزوری ہوتی ہے، جب کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اثر کو ایسے الفاظ سے بیان کیا ہے جن میں جزم و یقین ہے، اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ ان کے نزدیک ابن عمر رضی اللہ عنہما کا عمل راجح ہے، اگرچہ دوسرا بھی جائز ہے۔ البتہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کچھ آثار و شواہد کے ساتھ اسے قوی بنایا ہے، جن میں سے ایک ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ترمذی کی حدیث ہے کہ میں نے بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کہتے ہوئے دیکھا، وہ گھوم رہے تھے اور منہ کو اِدھر اور اُدھر لے جا رہے تھے اور ان کی انگلیاں ان کے کانوں میں تھیں۔ [ترمذي: 197] ترمذی نے اسے حسن صحیح اور شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے۔ حافظ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کانوں میں انگلیاں ڈالنے کے دو فائدے ہیں: ایک یہ کہ اس سے آواز بلند ہو جاتی ہے، دوسرا یہ کہ یہ اذان کی علامت ہے، دور والا یا بہرا آدمی اسے دیکھ کر جان لیتا ہے کہ مؤذن اذان کہہ رہا ہے۔ آج کل لاؤڈ سپیکر کی وجہ سے کانوں میں انگلیاں ڈالنے یا دائیں بائیں پھرنے کی چنداں ضرورت نہیں رہی، اس لیے اگر یہ عمل نہ بھی کیے جائیں تو کوئی حرج نہیں۔
➍ اذان باوضو ہو کر کہنے کے متعلق امام صاحب نے ایک قول ابراہیم نخعی کا بیان کیا ہے کہ وضو کے بغیر اذان کہنے میں کوئی حرج نہیں۔ دوسرا عطاء کا کہ وضو حق اور سنت ہے مگر ساتھ ہی ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث ذکر کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام اوقات میں اللہ کا ذکر کیا کرتے تھے۔ اس سے ظاہر ہے کہ وہ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کی بات کو ترجیح دے رہے ہیں کہ اذان کے لیے وضو ضروری نہیں۔ البتہ اس میں شک نہیں کہ باوضو اذان کہنا یا اللہ تعالی کا کوئی بھی ذکر کرنا بےبوضو سے افضل ہے، کیونکہ وضو اپنی جگہ خود ایک عبادت ہے۔
فائدہ:
ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت کا کچھ حصہ حدیث (187) میں گزر چکا ہے۔ اس حدیث میں مؤذن کے منہ کو ادھر ادھر پھیرنے کا ذکر ہے۔ صحیح مسلم میں اس کے راوی سفیان سے وکیع کی روایت مفصل ہے۔ اس کے لفظ یہ ہیں: «فَجَعَلْتُ أَتَتَبَّعُ فَاهُ هَاهُنَا وَهَاهُنَا - يَقُولُ: يَمِينًا وَشِمَالًا - يَقُولُ: حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ»[مسلم: 503/249]”تو میں بھی ان کے منہ کی پیروی کرتے ہوئے ادھر ادھر یعنی دائیں اور بائیں طرف اپنا منہ پھیرنے لگا، جب وه «حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ» اور «حَيَّ عَلَي الْفَلَاحِ» کہہ رہے تھے۔“ اس میں اذان میں منہ ادھر ادھر پھیرنے کا موقع بھی بیان ہوا ہے کہ وہ «حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ» کے وقت ہے اور یہ کہ ادھر ادھر صرف منہ پھیرنا ہے، پورا جسم نہیں پھیرنا۔ ابن خزیمہ نے اس حدیث (387) پر ان دونوں باتوں کا باب قائم کیا ہے۔ پھر اس بات میں اختلاف ہے کہ «حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ» میں دونوں دفعہ دائیں طرف اور «حَيَّ عَلَى الفَلَاحِ» میں دونوں دفعہ بائیں طرف منہ پھیرنا چاہیے یا «حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ» اور «حَيَّ عَلَي الْفَلَاح» دونوں میں ایک دفعہ دائیں اور ایک دفعہ بائیں طرف منہ پھیرنا چاہیے۔ ابن بطال نے [شرح صحيح بخاري] میں فرمایا: پہلی صورت حدیث کے الفاظ کے زیادہ قریب ہے جب کہ دوسری صورت میں دونوں کلموں کو دائیں اور بائیں جانب کا حصہ مل جاتا ہے۔
واضح رہے کہ اس منہ پھیرنے کا فائدہ اس وقت ہے جب کسی اونچی جگہ اذان کہہ رہا ہو اور دائیں اور بائیں دونوں جانب آواز دور تک پہنچانا مقصود ہو۔ لاؤڈ سپیکر میں اس کی ضرورت نہیں، ہاں! بلال رضی اللہ عنہ سے مشابہت کا شرف حاصل کرنے کے لیے منہ پھیر لے تو بہتر ہے۔ اس حدیث سے بھی اذان اور نماز کا فرق واضح ہو رہا ہے کہ نماز میں نہ دائیں بائیں منہ پھیرنا جائز ہے نہ ادھر ادھر دیکھنے کی اجازت ہے جب کہ اذان میں بلال رضی اللہ عنہ یہ دونوں کام کرتے تھے۔
یہاں اذان سے متعلقہ مسائل ختم ہیں، اس کے بعد نماز با جماعت کے مسائل ذکر ہوں گے۔
فتح السلام بشرح صحیح البخاری الامام، حدیث/صفحہ نمبر: 634
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:634
حدیث حاشیہ: امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ اذان دیتے ہوئے چہرے کو دائیں بائیں کیا جاسکتا ہے، نماز کی طرح قبلے کی طرف منہ کیے رکھنا ضروری نہیں۔ ایک روایت میں اس وقت کی تعیین بیان ہوئی ہے جب مؤذن اپنے چہرے کو دائیں بائیں پھیرے، یعنی حي على الصلاة اور حي على الفلاح کے موقع پر اپنا چہرہ دائیں بائیں پھیرنا چاہیے۔ امام ابن خزیمہ ؒ نے اس روایت پر جو عنوان قائم کیا ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ پورے بدن کو پھیرنے کے بجائے صرف اپنے چہرے کو پھیرنا چاہیے۔ مصنف عبدالرزاق کی روایت میں دو اضافے ہیں: ایک پورے بدن کو پھیرنا اور دوسرا اپنے کانوں میں انگلیاں ڈالنا۔ ترمذی کی روایت سے بھی پتہ چلتا ہےکہ دائیں بائیں چہرہ پھیرنے کے بجائے پورے جسم سے گھومتے تھے لیکن بعض روایات میں گھومنے کی نفی بھی آئی ہے۔ ان کے درمیان بایں طور تطبیق دی گئی ہے کہ جن روایات میں گھومنے کا اثبات ہے اس سے مراد صرف چہرے کا پھیرنا ہے اور جن روایات میں گھومنے کی نفی ہے اس سے مراد پورے جسم کا پھیرنا ہے۔ (فتح الباري: 151/2) بہرحال امام بخاری ؒ نے عنوان میں لفظ هل لا کر اشارہ کیا ہے کہ ان مسائل میں متقدمین کے ہاں اختلاف ہے، پھر آثار و احادیث سے اپنے رجحان کو واضح کیا ہے۔ والله أعلم.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 634
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1120
عون بن ابی جحیفہ سے روایت ہے کہ اس کے باپ نے رسول اللہ ﷺ کو چمڑے کے سرخ خیمہ میں دیکھا، اور بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا، اس نے آپﷺ کے وضو کا پانی باہر نکالا اس نے کہا تو میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ اس پانی کو لینے کے لیے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں، جس کو اس سے کچھ پانی مل گیا، اس نے اس کو بدن پر مل لیا اور جس کو نہ ملا اس نے اپنے ساتھی کے تر ہاتھ سے ہاتھ تر کیا، پھر... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:1120]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اگر امام کے آگے سترہ ہوتو اس کے سامنے سے گزرنے کی صورت میں نماز متاثر نہیں ہوتی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1120
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5859
5859. حضرت ابو حجیفہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ چمڑے کے سرخیمے میں تشریف فرما تھے۔ میں نے حضرت بلال ؓ کو دیکھا کہ وہ نبی ﷺ کے وضو کا پانی لیے ہوئے ہیں اور لوگ اس وضو کا پانی لینے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر کسی کو پانی مل جاتا تو وہ اسے بدن پر لگا لیتا اور جسے پانی نہ ملتا تو وہ اپنےساتھی کے ہاتھ کی تری ہی لے لیتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5859]
حدیث حاشیہ: اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے دلوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت وعقیدت کس درجہ تھی۔ آپ کے وضو کے گرے ہوئے پانی کو وہ کس سبقت کے ساتھ حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ رضی اللہ عنہم اجمعین۔ اثنائے بیان میں سرخ خیمے کا ذکر آیا ہے یہی باب سے مطابقت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5859
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:376
376. حضرت ابوجحیفہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو چمڑے کے ایک سرخ خیمے میں دیکھا اور میں نے یہ بھی بچشم خود ملاحظہ کیا کہ جب حضرت بلال ؓ رسول اللہ ﷺ کے وضو سے بچا ہوا پانی لائے تو لوگ اسے دست بدست لینے لگے۔ جسے اس میں سے کچھ مل جاتا، وہ اسے اپنے چہرے پر مل لیتا اور جسے کچھ نہ ملتا وہ اپنے پاس والے آدمی کے ہاتھ سے تری لے لیتا۔ پھر میں نے حضرت بلال ؓ کو دیکھا کہ انھوں نے ایک نیزہ اٹھا کر زمین میں گاڑ دیا ور نبی ﷺ ایک سرخ جوڑا زیب تن کیے، دامن اٹھائے برآمدہوئے اور چھوٹے نیزے کی طرف منہ کر کے لوگوں کو دو رکعت پڑھائیں۔ میں نے دیکھا کہ لوگ اور جانور نیزے کے آگے سے گزر رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:376]
حدیث حاشیہ: 1۔ حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ اس حدیث سے سرخ کپڑے پہننے کا جواز ثابت ہوتا ہے، مگر احناف اس کے خلاف ہیں، وہ کہتے ہیں کہ سرخ لباس مکروہ ہے اور انھوں نے حدیث مذکور کی یہ تاویل کی ہے کہ یہ حلہ (جوڑا) ایسی چادروں پر مشتمل تھا۔ جس میں سرخ دھاریاں تھیں۔ (فتح الباري: 629/1) لیکن احناف کے ہاں اس میں تفصیل ہے جسے ملا علی قاری ؒ نے بایں طور بیان کیا ہے، اگر وہ رنگ عصفر یا زعفران کا ہو تو مردوں کے لیے اس کا استعمال مکروہ ہے اور اگر ان دو چیزوں کے علاوہ سرخ رنگ ہو تو دیکھا جائے کہ سرخ رنگ شوخ ہے یا ہلکا اگر شوخ ہو تو اس کا استعمال مکروہ تنزیہی یا خلاف تقوی ہے اور اگر رنگ پھیکا ہو تو اس کا استعمال مباح ہے، پھر اگر سرخ کپڑا دھاری دار ہو، یعنی زمین سفید اور اس پر سرخ دھاریاں ہو تو اس کے استعمال میں استحباب کا درجہ ہے۔ ترقی کر کے اسے سنت بھی کہا جا سکتا ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ اسے پسند فرماتے تھے۔ امام بخاری ؒ نے لکھا ہے کہ آپ کا یہ جوڑا خالص سرخ رنگ کا نہ تھا بلکہ اس میں سرخ دھاریاں تھیں اس سے مردوں کو سرخ لباس پہنچنے کا جواز ملتا ہے، بشرطیکہ عورتوں اور کفار سے مشابہت نیز شہرت و ریا کاری کی ہوس نہ ہو۔ (عون الباري: 508/1) حافظ ابن حجر ؒ نے محدث ابن التین ؒ کے حوالے سے لکھا ہے: بعض لوگوں کا خیال ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ سرخ جوڑا جنگی حالات کے پیش نظر زیب تن فرمایا تھا۔ یہ خیال محل نظر ہے، کیونکہ یہ واقعہ حجۃ الوداع کے بعد کا ہے اور اس وقت کسی قسم کے جنگی حالات نہ تھے۔ (فتح الباري: 629/1) واضح رہے کہ سرخ رنگ کے متعلق یہ تفصیل کپڑوں سے متعلق ہے چمڑے کے متعلق کسی رنگ میں کراہت نہیں۔ 2۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓ سے مروی ایک حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس سے ایک آدمی گزرا جس نے دوسرخ کپڑے پہن رکھے تھے، اس نے آپ کو سلام کیا لیکن آپ نے اس کا جواب نہ دیا۔ (سنن أبي داود، للباس، حدیث: 4069) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سرخ لباس کو اچھا خیال نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ آپ نے اس کے سلام کا جواب دینا بھی گوارانہیں فرمایا۔ جبکہ امام بخاری ؒ کی پیش کردہ حدیث میں ہے کہ خود رسول اللہ ﷺ نے سرخ لباس زیب تن فرمایا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کے متعدد جوابات دیے ہیں، اس کی سند ضعیف ہے۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر ؒ نے صراحت کی ہے۔ (فتح الباري: 629/1) اگرچہ امام ترمذی ؒ نے اسے حسن قراردیا ہے۔ (جامع الترمذي، الأدب، حدیث: 2807) اگر اس کی سند کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو اس سے اقوی حدیث اس کے معارض ہے اور اسے ترجیح ہوگی۔ پھر یہ خاص واقعہ ہے جس میں کسی اور چیز کا احتمال بھی ہو سکتا ہے، ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کسی اور وجہ سے سلام کا جواب نہ دیا ہو۔ امام بیہقی ؒ نے اس کا بایں طور پر جواب دیا ہے کہ اسے تیار کرنے کے بعد رنگا گیا تھا، اگر اس کے دھاگے کو رنگ کر کپڑا تیار کیا جائے تو چنداں حرج نہیں۔ امام ترمذیؒ نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ اس کا لباس عصفر بوٹی سے رنگا ہوا تھا، اگر اس کے بغیر کسی اور چیز سے سرخ رنگ دیا جائے تو ممانعت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امام ترمذی ؒ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے (باب ماجاء في کراھیة لبس المعصفر للرجال) ”عصفر سے رنگے ہوئے کپڑوں کی کراہت۔ “ بہر حال سرخ رنگ کے کپڑے استعمال کیے جا سکتے ہیں اور اس میں کوئی ممانعت نہیں، بشرطیکہ عورتوں اور کفار سے مشابہت نہ ہو۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 376
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5859
5859. حضرت ابو حجیفہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ چمڑے کے سرخیمے میں تشریف فرما تھے۔ میں نے حضرت بلال ؓ کو دیکھا کہ وہ نبی ﷺ کے وضو کا پانی لیے ہوئے ہیں اور لوگ اس وضو کا پانی لینے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر کسی کو پانی مل جاتا تو وہ اسے بدن پر لگا لیتا اور جسے پانی نہ ملتا تو وہ اپنےساتھی کے ہاتھ کی تری ہی لے لیتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5859]
حدیث حاشیہ: امام بخاری رحمہ اللہ نے چمڑے کے سرخ خیمے کے متعلق عنوان قائم کیا ہے لیکن دوسری حدیث میں سرخ خیمے کا ذکر نہیں ہے، دراصل پہلی حدیث میں جو واقعہ بیان ہوا ہے وہ حجۃ الوداع کا ہے اور دوسری حدیث میں غزوۂ طائف کا ذکر ہے جس میں حنین کی غنیمتیں تقسیم ہوئی تھیں۔ ان دونوں واقعات میں صرف دو سال کا وقفہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتنے شاہ خرچ نہ تھے کہ دو سال کے بعد نیا خیمہ خرید فرماتے بلکہ حجۃ الوداع کے موقع پر جس خیمے میں آپ تشریف فرما تھے یہ وہی خیمہ ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو جمع کر کے ان کی غلط فہمی دور فرمائی تھی، اس لیے اگرچہ دوسری حدیث میں سرخ خیمے کا ذکر نہیں، تاہم اس خیمے سے مراد بھی سرخ خیمہ ہی ہے۔ واللہ أعلم (فتح الباري: 386/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5859