وقول المؤذن الصلاة في الرحال. في الليلة الباردة او المطيرة.وَقَوْلِ الْمُؤَذِّنِ الصَّلاَةُ فِي الرِّحَالِ. فِي اللَّيْلَةِ الْبَارِدَةِ أَوِ الْمَطِيرَةِ.
اور جب سردی یا بارش کی رات ہو تو مؤذن یوں پکار دے کہ اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو۔
(مرفوع) حدثنا مسلم بن إبراهيم، قال: حدثنا شعبة، عن المهاجر ابي الحسن، عن زيد بن وهب، عن ابي ذر، قال:" كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر فاراد المؤذن ان يؤذن، فقال له: ابرد، ثم اراد ان يؤذن، فقال له: ابرد، ثم اراد ان يؤذن، فقال له: ابرد، حتى ساوى الظل التلول، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: إن شدة الحر من فيح جهنم".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْمُهَاجِرِ أَبِي الْحَسَنِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ:" كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَأَرَادَ الْمُؤَذِّنُ أَنْ يُؤَذِّنَ، فَقَالَ لَهُ: أَبْرِدْ، ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يُؤَذِّنَ، فَقَالَ لَهُ: أَبْرِدْ، ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يُؤَذِّنَ، فَقَالَ لَهُ: أَبْرِدْ، حَتَّى سَاوَى الظِّلُّ التُّلُولَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ شِدَّةَ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ".
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے مہاجر ابوالحسن سے بیان کیا، انہوں نے زید بن وہب سے، انہوں نے ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ مؤذن نے اذان دینی چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھنڈا ہونے دے۔ پھر مؤذن نے اذان دینی چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہی فرمایا کہ ٹھنڈا ہونے دے۔ یہاں تک کہ سایہ ٹیلوں کے برابر ہو گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گرمی کی شدت دوزخ کی بھاپ سے پیدا ہوتی ہے۔
Narrated Abu Dhar: We were in the company of the Prophet on a journey and the Mu'adh-dhin wanted to pronounce the Adhan for the (Zuhr) prayer. The Prophet said to him, "Let it become cooler." Then he again wanted to pronounce the Adhan but the Prophet; said to him, "Let it become cooler." The Mu'adh-dhin again wanted to pronounce the Adhan for the prayer but the Prophet said, "Let it become cooler," till the shadows of the hillocks become equal to their sizes. The Prophet added, "The severity of the heat is from the raging of Hell."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 11, Number 602
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 629
حدیث حاشیہ: حضرت امام بخاری ؒ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ مسلمان مسافروں کی جب ایک جماعت موجود ہو تو وہ بھی اذان، تکبیر اور جماعت اسی طرح کریں جس طرح حالت اقامت میں کیا کرتے ہیں۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ گرمیوں میں ظہر کی نماز ذرا دیر سے پڑھنا مناسب ہے۔ تاکہ گرمی کی شدت کچھ کم ہوجائے جو دوزخ کے سانس لینے سے پیدا ہوتی ہے۔ جیسی دوزخ ہے ویسا ہی اس کا سانس بھی ہے۔ جس کی حقیقت اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ مزید کدوکاوش کی ضرورت نہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 629
الشيخ عبد السلام بھٹوی رحمہ اللہ، فوائد، صحیح بخاری ح : 629
فائدہ:
یہ حدیث (535) میں گزر چکی ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ سفر میں اذان اور اقامت نہیں کہنی چاہیے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے کہ سفر میں اذان نہیں صرف اقامت ہونی چاہیے، کیونکہ اذان صرف لشکر یا ایسے قافلے میں ہونی چاہیے جس کا امیر ہو، ہاں! فجر کے وقت وہ دو اذانیں کہتے تھے۔ [فتح الباري] امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ باب لانے سے مقصد یہ ہے کہ سفر میں بھی اگر ایک سے زیادہ آدمی ہیں تو انھیں تمام نمازوں کے لیے اذان اور اقامت کہنی چاہیے، جیسا کہ ابوذر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں تھے اس کے باوجود آپ نے مؤذن (بلال رضی اللہ عنہ۔ [فتح الباري]) سے ظہر کی اذان کچھ تاخیر سے دلوائی، اسی طرح مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی کو بھی آپ نے اذان اور اقامت کا حکم دیا، جیسا کہ اس کے بعد والی احادیث میں آ رہا ہے۔ عرفات اور مزدلفہ میں بھی اسی طرح اذان کہنی چاہیے۔ اس سے ان احادیث کی طرف اشارہ ہے جن میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے موقع پر عرفات میں ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ ظہر اور عصر اور ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ مزدلفہ میں مغرب اور عشاء پڑھی۔
فتح السلام بشرح صحیح البخاری الامام، حدیث/صفحہ نمبر: 629
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:629
حدیث حاشیہ: (1) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ دورانِ سفر میں اذان اس وقت کہی جائے جب کسی لشکر یا قافلے کا امیر موجود ہو اس کے علاوہ صرف اقامت کہنے کا حکم ہے۔ امام مالک کا بھی یہی موقف ہے کہ جماعت میں اگر امیر ہو تو اذان کہی جائے بصورت دیگر نہیں۔ امام بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ اذان ایک مستقل چیز ہے، وہ امیر پر موقوف نہیں، جیسا کہ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مؤذن نے دوران سفر میں بار بار اذان کہنے کا ارادہ کیا، بالآخر جب گرمی کی شدت کم ہوئی تو ظہر کے لیے اذان دی گئی، پھر اقامت کے ساتھ نماز باجماعت ادا کی گئی۔ اس عنوان کا یہ مقصد نہیں کہ دوران سفر میں اکیلا آدمی اذان اور اقامت نہیں کہہ سکتا، کیونکہ قبل ازیں حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ایک حدیث (609) گزرچکی ہے کہ اکیلا آدمی بھی بآواز بلند اذان دے۔ اذان کے بےشمار مصالح اور متعدد فوائد ہیں، ان میں ایک مشروعیت اجتماع بھی ہے، اس لیے اگر جماعت نہیں تو بھی اذان کہنا مشروع ہے۔ (2) امام بخاری ؒ نے میدان عرفات اور مزدلفہ میں بھی اذان اور اقامت کا ذکر کیا ہے، حالانکہ حج بیت اللہ امیر پر موقوف نہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ دوران سفر میں اگر مسافر زیادہ ہوں تو انھیں اذان اور اقامت کا ضرور اہتمام کرنا چاہیے، خواہ امیر ہویا نہ ہو۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 629
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 535
´سخت گرمی میں ظہر کو ذرا ٹھنڈے وقت پڑھنا۔` «. . . عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: " أَذَّنَ مُؤَذِّنُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ، فَقَالَ: أَبْرِدْ أَبْرِدْ، أَوْ قَالَ: انْتَظِرِ انْتَظِرْ، وَقَالَ: شِدَّةُ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ، فَإِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ فَأَبْرِدُوا عَنِ الصَّلَاةِ "حَتَّى رَأَيْنَا فَيْءَ التُّلُولِ . . . .» ”. . . ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن (بلال) نے ظہر کی اذان دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھنڈا کر، ٹھنڈا کر، یا یہ فرمایا کہ انتظار کر، انتظار کر، اور فرمایا کہ گرمی کی تیزی جہنم کی آگ کی بھاپ سے ہے۔ اس لیے جب گرمی سخت ہو جائے تو نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو، پھر ظہر کی اذان اس وقت کہی گئی جب ہم نے ٹیلوں کے سائے دیکھ لیے۔ . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/بَابُ الإِبْرَادِ بِالظُّهْرِ فِي شِدَّةِ الْحَرِّ:: 535]
تشریح: ٹھنڈا کرنے کا یہ مطلب ہے کہ زوال کے بعد پڑھے نہ یہ کہ ایک مثل سایہ ہو جانے کے بعد، کیونکہ ایک مثل سایہ ہو جانے پر تو عصر کا اوّل وقت ہو جاتا ہے۔ جمہور علماءکا یہی قول ہے۔ زوال ہونے پر فوراً پڑھ لینا یہ تعجیل ہے، اور ذرا دیر کر کے تاکہ موسم گرما میں کچھ خنکی آ جائے پڑھنا یہ ابراد ہے۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: «وقداختار قوم من اهل العلم تاخيرصلوٰة الظهر فى شدة الحر وهوقول ابن المبارك واحمدواسحاق» یعنی اہل علم کی ایک جماعت کا مذہب مختار یہی ہے کہ گرمی کی شدت میں ظہر کی نماز ذرا دیر سے پڑھی جائے۔ عبداللہ بن مبارک و احمد و اسحاق کا یہی فتوی ہے۔ مگر اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ ظہر کو عصر کے اول وقت ایک مثل تک کے لیے مؤخر کر دیا جائے، جب کہ بدلائل قویہ ثابت ہے کہ عصر کا وقت ایک مثل سایہ ہونے کے بعد شروع ہو جاتا ہے۔ خود حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی مقام پر متعدد روایات سے عصر کا اوّل وقت بیان فرمایا ہے۔ جو ایک سایہ ہونے پر شروع ہو جاتا ہے۔ جو کہ مختار مذہب ہے اور دوسرے مقام پر اس کی تفصیل ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 535
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 539
´سفر میں ظہر کو ٹھنڈے وقت میں پڑھنا` «. . . عَنْ أَبِي ذَرٍّ الْغِفَارِيِّ، قَالَ: " كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَأَرَادَ الْمُؤَذِّنُ أَنْ يُؤَذِّنَ لِلظُّهْرِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَبْرِدْ، ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يُؤَذِّنَ، فَقَالَ لَهُ: أَبْرِدْ حَتَّى رَأَيْنَا فَيْءَ التُّلُولِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ شِدَّةَ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ، فَإِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ فَأَبْرِدُوا بِالصَّلَاةِ "، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: تَتَفَيَّأُ تَتَمَيَّلُ . . .» ”. . . ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ مؤذن نے چاہا کہ ظہر کی اذان دے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وقت کو ٹھنڈا ہونے دو، مؤذن نے (تھوڑی دیر بعد) پھر چاہا کہ اذان دے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھنڈا ہونے دو۔ جب ہم نے ٹیلے کا سایہ ڈھلا ہوا دیکھ لیا۔ (تب اذان کہی گئی) پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گرمی کی تیزی جہنم کی بھاپ کی تیزی سے ہے۔ اس لیے جب گرمی سخت ہو جایا کرے تو ظہر کی نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا «يتفيئو»(کا لفظ جو سورۃ النحل میں ہے) کے معنے «تتميل»(جھکنا، مائل ہونا) ہیں . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/بَابُ الإِبْرَادِ بِالظُّهْرِ فِي السَّفَرِ:: 539]
� تشریح: حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی عادت ہے کہ حدیث میں کوئی لفظ ایسا آ جائے جو قرآن میں بھی ہو تو ساتھ ہی قرآن کے لفظ کی بھی تفسیر کر دیتے ہیں۔ یہاں حدیث میں «يتفيا» کا لفظ ہے جو قرآن مجید میں «يتفيؤا» مذکور ہوا ہے، مادہ ہر دو کا ایک ہی ہے، اس لیے اس کی تفسیر بھی نقل کر دی ہے۔ پوری آیت سورۃ نحل میں ہے جس میں ذکر ہے کہ ہر چیز کا سایہ اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرنے کے لیے بھی دائیں اور کبھی بائیں جھکتا رہتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 539
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1400
حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے مؤذن نے ظہر کی اذان دینا چاہی تو آپﷺ نے فرمایا: ”ٹھنڈا وقت ہونے دو، ٹھنڈا وقت ہونے دو۔“ یا آپﷺ نے فرمایا: ”انتظار کرو، انتظار کرو۔“ اور فرمایا: ”گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ کے سبب سے ہے، اس لیے جب گرمی شدید ہو تو نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو۔“ ابو ذر رضی اللہ تعالی عنہ کا قول ہے، حتیٰ کہ ہم نے ٹیلوں کا سایہ دیکھا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1400]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) فَيئَ: سورج ڈھلنےکے بعد کے سایہ کو فیئَ کہتے ہیں۔ (2) تلول: تل کی جمع ہے، مٹی یا ریت کا ٹیلہ۔ فوائد ومسائل: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کا مقصد یہ ہے کہ جس موسم میں جہاں نصف النہار کے وقت سخت گرمی ہو اور گرمی کی شدت کی وجہ سے فضا جہنم بن رہی ہو تو ظہر کی نماز تاخیر کر کے ایسے وقت پڑھی جائے جب گرمی کی شدت ٹوٹ جائے اور وقت کچھ ٹھنڈا ہو جائےاور جمہور کا یہی موقف ہے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اس کو جامعت کے لیے دور سے آنے والوں کے لیے مانتے ہیں اس کے مطابق امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے باب قائم کیا ہے لیکن یہ تاویل درست نہیں ہے اور ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابراد اتنا ہونا چاہیے کہ دیواروں کا سایہ اس قدر ہو جائے کہ اس میں آنا جانا ممکن ہو یہ مقصد نہیں ہے گرمی ختم ہو جائے اور زمین ٹھنڈی ہو جائے کیونکہ اگر یہ مقصد ہوتا تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو سجدہ کرنے کے لیے زمین پر کپڑا بچھانے کی ضرورت پیش نہ آتی اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو گرمی کی شکایت کرنے کی ضرورت لا حق نہ ہوتی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1400
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:535
535. حضرت ابوذر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ کے مؤذن نے (ایک مرتبہ) ظہر کی اذان دینی چاہی تو آپ نے فرمایا: ”وقت کو ذرا ٹھنڈا ہو جانے دو۔“”وقت کو ذرا ٹھنڈا ہو جانے دو۔“ یا فرمایا: ”ٹھہر جاؤ، ٹھہر جاؤ، کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ سے ہوتی ہے۔“ چنانچہ (آپ نے اتنی تاخیر کی کہ) ہم نے ٹیلوں کا سایہ زمین پر پڑتے دیکھا، (آپ نے مزید فرمایا:)”جب بھی گرمی زیادہ ہوا کرے، تم نماز کو ٹھنڈے وقت میں ادا کیا کرو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:535]
حدیث حاشیہ: (1) یہ ایک سفر کا واقعہ ہے جس کی تفصیل حدیث: (539) میں آرہی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے گرمی کی شدت میں اذان دینے سے منع فرمایا، کیونکہ جب وقت میں گنجائش ہے تو لوگوں کو سخت گرمی میں نماز کے لیے آنے کی دعوت نہ دی جائے۔ انھیں مشقت میں مبتلا کرنا درست نہیں۔ جب شدت ختم ہوجائے تو اذان دی جائے تاکہ نماز کے لیے جمع ہونا دشوار نہ ہو۔ واضح رہے کہ نماز ظہر کو ٹھنڈا کر کے ادا کرنے کا حکم عام ہے، خواہ سفر ہو یا حضر، مسجد میں دور سے آنا پڑے یا قریب سے، سائے کا بندوبست ہو یا نہ ہو، کیونکہ ٹھنڈا کرکے نماز ادا کرنے کی علت یہ بیان کی گئی ہے کہ سخت گرمی کے دنوں میں عین دوپہر کے وقت جہنم سانس لیتا ہے جو غضب الٰہی کی علامت ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے۔ عین نصف النہار کے وقت نماز نہ پڑھا کرو کیونکہ یہ ایسی گھڑی ہے جس میں جہنم کو تیز کیا جاتا ہے۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1930(832)(2) اس مقام پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب نماز پڑھنا رحمت الٰہی کا باعث ہے تو نماز فورا پڑھنی چاہیے تاکہ غضب الٰہی کے دور ہونے کا سبب بنے؟ اس کا جواب بایں طور دیا گیا ہے کہ جب شارع علیہ السلام خود ہی کسی چیز کی علت بیان کردیں تو اسے بلا چون وچرا تسلیم کرنا ضروری ہے، خواہ اس کا مفہوم سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ (فتح الباري: 24/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 535
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:539
539. حضرت ابوذر غفاری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک مرتبہ ہم لوگ نبی ﷺ کے ہمراہ سفر میں تھے کہ مؤذن نے نماز ظہر کے لیے اذان دینے کا ارادہ کیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”ابھی ٹھنڈے وقت کا انتظار کرو۔“ اس نے کچھ دیر بعد پھر اذان دینے کا ارادہ کیا تو آپ نے فرمایا: ”ابھی ٹھنڈے وقت کا انتظار کرو۔“ تاآنکہ ہم نے ٹیلوں کا سایہ دیکھا۔ اس کے بعد نبی ﷺ نے فرمایا: ”گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ سے ہوتی ہے، اس لیے جب گرمی سخت ہو تو نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو۔“ حضرت ابن عباس ؓ نے (تتفيأ) کے معنی بایں الفاظ بیان کیے: جب ان کے سائے جھک جاتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:539]
حدیث حاشیہ: (1) ایک روایت میں صراحت ہے کہ اذان دینے والے سیدنا بلال ؓ تھے، انھیں رسول اللہ ﷺ نے تین مرتبہ ٹھنڈے وقت کا انتظار کرنے کی تلقین فرمائی۔ صحیح بخاری کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ٹیلوں کا سایہ ان کے برابر ہوگیا تو اذان دی گئی۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 629) اس مساوات کا مطلب یہ نہیں کہ ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہونے تک نماز ظہر کا انتظار کیا، بلکہ ساوٰی کے الفاظ ظَهَرَ کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ دوران سفر میں رسول اللہ ﷺ نے نماز ظہر کو عصر کے ساتھ جمع کرنے کے لیے اس کے آخری وقت کا انتظار کیا ہو۔ (فتح الباري: 29/2) لیکن حدیث میں جمع کرنے کا کوئی اشارہ نہیں ہے۔ بظاہر راوی کا ارادہ حقیقی مساوات بیان کرنا نہیں بلکہ سایہ ظاہر ہونے کو بیان کرنا ہے۔ جیساکہ حدیث: (535) سے معلوم ہوتا ہے۔ (2) بعض ائمۂ کرام نے سخت گرمی کے دنوں میں نماز ظہر مؤخر کرنے کے متعلق یہ موقف اختیار کیا کہ تاخیر اس صورت میں ہوسکتی ہے جب لوگوں کو سخت گرمی میں نمازادا کرنا دشوار ہو اور نمازیوں کو نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے دور سے مسجد میں آنا پڑے، منفرد کے لیے بہر صورت اول وقت نماز ادا کرنا افضل ہے۔ اسی طرح اگر نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے دور سے نہ آنا پڑتا ہو یا نماز پڑھنے والے ایک مقام پر جمع ہوں یا دور سے آنے کی صورت میں سائے وغیرہ کا اہتمام ہوتو نمازمؤخر کرنے سے اجتناب کیا جائے، بلکہ اسے اول وقت ہی ادا کرنا چاہیے۔ جیسا کہ امام ترمذی ؒ لکھتے ہیں: ”امام شافعی ؒ نے فرمایا کہ نماز ظہر کو ٹھنڈے وقت میں پڑھنے کی ہدایت صرف اس صورت میں ہے جب نمازیوں کو مسجد میں دور سے آنا پڑتا ہو لیکن تنہا یا اپنی قوم کی مسجد میں نماز باجماعت پڑھنے والے کے متعلق میں یہی پسند کرتا ہوں کہ گرمی کی شدت میں بھی نماز ظہر کو مؤخر نہ کیا جائے۔ “(جامع الترمذي، الصلاة، حدیث: 157) امام بخاری ؒ کا اس عنوان کے ذریعے سے غالباً اسی موقف کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ گرمی کی شدت میں نماز ظہر کو تاخیر سے ادا کرنے کا حکم سفروحضر دونوں میں عام ہے اور اس میں کسی طرح کی تخصیص نہیں ہے۔ (3) ابراد کےلیے کوئی خاص حد بیان نہیں ہوئی کہ اس کی انتہا کیا ہے؟ مختلف احوال و ظروف کے پیش نظر اس کا حکم مختلف ہو سکتا ہے۔ البتہ اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ اسے ٹھنڈا کرتے کرتے اسے اس کے آخر وقت تک نہ پہنچا دیا جائے۔ واضح رہے کہ دوران سفر میں اس وقت نماز کو ٹھنڈا کیا جائے، جب مسافر حضرات پڑاؤ کیے ہوئے ہوں، بصورت دیگر جب سفر جاری ہوتو اس وقت جمع تقدیم اور جمع تاخیر دونوں ممکن ہیں۔ (4) امام بخاری ؒ کا یہ اسلوب ہے کہ اگر حدیث میں کوئی ایسا لفظ آجائے کہ وہ یا اس سے ملتا جلتا لفظ قرآن نے استعمال کیا ہو تو قرآن کریم کے لفظ کوذکر کر کے اس کی لغوی تشریح کردیتے ہیں، چنانچہ حدیث میں آنے والے لفظ (فيئ التلول) کی مناسبت سے(يَتَفَيَّأُ ظِلَالُهُ) (النحل: 16: 48) کی لفظی تشریح کرتے ہوئے حضرت ابن عباس ؓ کا قول پیش کیا کہ اس کے معنی مائل ہونا ہیں، یعنی سائے کو (فيئ) اس لیے کہتے ہیں کہ یہ پہلے ایک جانب جھکا ہوتا ہے، پھر دوسری طرف مائل ہوجاتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 539