ہم سے عبداللہ بن صباح نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ میں نے اپنے والد سے سنا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ایک راز کی بات کہی تھی اور میں نے وہ راز کسی کو نہیں بتایا (ان کی والدہ) ام سلیم رضی اللہ عنہا نے بھی مجھ سے اس کے متعلق پوچھا لیکن میں نے انہیں بھی نہیں بتایا۔
Narrated Anas bin Malik: The Prophet confided to me a secret which I did not disclose to anybody after him. And Um Sulaim asked me (about that secret) but I did not tell her.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 74, Number 304
أتى علي رسول الله وأنا ألعب مع الغلمان قال فسلم علينا فبعثني إلى حاجة فأبطأت على أمي فلما جئت قالت ما حبسك قلت بعثني رسول الله لحاجة قالت ما حاجته قلت إنها سر قالت لا تحدثن بسر رسول الله أحدا قال أنس والله لو حدثت به أحدا لحدثتك يا ثابت
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6289
حدیث حاشیہ: دارمی کی روایت میں یوں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو ایک کام کے لئے بھیجا تھا جس کی وجہ سے میں اپنی والدہ کے پاس دیر میں پہنچا۔ والدہ نے تاخیر کی وجہ پوچھی میں نے کہا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے راز کی ایک بات ہے پھر حضرت والدہ نے بھی یہی فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے راز کی بات کسی کے سامنے ظاہر نہ کیجيو مگر اس میں وہی راز مراد ہے جس کے ظاہر ہونے سے ایک مسلمان بھائی کو نقصان کا خوف ہو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6289
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6289
حدیث حاشیہ: (1) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک کام کے لیے بھیجا تھا جس کی وجہ سے میں اپنی والدہ کے پاس دیر سے پہنچا۔ والدہ نے تاخیر کی وجہ پوچھی تو میں نے کہا: وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راز کی ایک بات تھی۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ والدہ نے بھی تاکید کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز کسی کے سامنے ظاہر مت کرنا۔ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث: 6378(2482) ، وفتح الباري: 98/11)(2) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ راز ازواج مطہرات رضی اللہ عنہا کے ساتھ خاص تھا کیونکہ اگر دینی یا علمی بات ہوتی تو اس کا چھپانا تو جائز ہی نہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس سے وہ راز مراد ہے جس کے ظاہر ہونے سے مسلمان بھائی کو نقصان کا اندیشہ ہو۔ (فتح الباري: 99/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6289
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5203
´بچوں کو سلام کرنے کا بیان۔` انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے اور میں ابھی ایک بچہ تھا، آپ نے ہمیں سلام کیا، پھر میرا ہاتھ پکڑا اور اپنی کسی ضرورت سے مجھے بھیجا اور میرے لوٹ کر آنے تک ایک دیوار کے سائے میں بیٹھے رہے، یا کہا: ایک دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھے رہے۔ [سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5203]
فوائد ومسائل: 1: بچوں کو سلام کہنا چاہیے اس میں بڑے آدم کے لئے کوئی ہتک والی بات نہیں، بلکہ بچوں کی تعلیم وتربیت اور ان کے ساتھ انس وپیار کا اظہار ہے۔
2: ہمارے فاضل محقق نے اس روایت کو سندا ضعیف قراردیا ہے، جبکہ شیخ البانی ؒ نے اس روایت کی بابت کہا ہے کہ اس روایت میں مذکور (و قعد في ظل جدار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ) کے الفاظ صحیح نہیں ہیں، باقی روایت صحیح ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5203
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3700
´بچوں اور عورتوں کو سلام کرنے کا بیان۔` انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے، (اس وقت) ہم بچے تھے تو آپ نے ہمیں سلام کیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3700]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل:
(1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ اس حدیث کے بعض حصے کے شواہد بخاری و مسلم میں موجود ہیں دیگر محققین نے مذکورہ روایت کو صحیح قرار دیا ہے جس سے تصحیح حدیث والی رائے ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔ واللہ أعلم- مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحديثية مسند الإمام أحمد: 19/ 244، 245 وصحيح سنن ابن ماجة للألبانى رقم: 3000 وسنن ابن ماجة بتحقيق الدكتور بشار عواد رقم: 3700)
(2) اصل قاعدہ یہ ہے کہ چھوٹا بڑے کو سلام کہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: چھوٹا بڑے کو، گزرنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کہے اور تھوڑے زیادہ کو سلام کہیں۔ (صحيح البخاري، الأسئذان، باب: يسلم الصغير على الكبير حديث: 6234)
(3) بچوں کی تربیت کے لیے بڑا چھوٹے کو سلام کہہ سکتا ہے۔
(4) اس سے بچوں پر شفقت کا اظہار ہوتا ہے اور دل سے تکبر ختم ہوتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3700
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6378
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لا ئے اس وقت میں لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہا: آپ نے ہم سب کو سلام کیا اور مجھے کسی کام کے لیے بھیج دیا تو میں اپنی والد ہ کے پاس تا خیر سے پہنچا،جب میں آیا تو والدہ نے پو چھا: تمھیں دیر کیوں ہوئی۔؟میں نے کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کا م سے بھیجا تھا۔ انھوں نے پو چھا: آپ کا وہ کام کیا تھا؟ میں نے کہا:... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:6378]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض راز اس قدر پوشیدہ رکھنے والے ہوتے ہیں کہ ان کے مرنے کے بعد بھی ظاہر نہیں کیا جا سکتا، اس لیے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے آپ کی وفات کے بعد بھی اپنے شاگرد رشید کو آپ کے راز سے مطلع نہیں کیا۔