38. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سخت گو اور بدزبان نہ تھے، «فاحش» بکنے والا اور «متفحش» لوگوں کو ہنسانے کے لیے بد زبانی کرنے والا بےحیائی کی باتیں کرنے والا۔
(38) Chapter. The Prophet was neither a Fahish (one who speaks bad words) nor a Mutafahhish (one who speaks obscene evil words to make people laugh).
ہم سے اصبغ بن فرج نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے عبداللہ بن وہب نے خبر دی انہوں نے کہا ہم کو ابویحییٰ فلیح بن سلیمان نے خبر دی، انہیں ہلال بن اسامہ نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ گالی دیتے تھے نہ بدگو تھے نہ بدخو تھے اور نہ لعنت ملامت کرتے تھے۔ اگر ہم میں سے کسی پر ناراض ہوتے اتنا فرماتے اسے کیا ہو گیا ہے، اس کی پیشانی میں خاک لگے۔
Narrated Anas bin Malik: The Prophet was not one who would abuse (others) or say obscene words, or curse (others), and if he wanted to admonish anyone of us, he used to say: "What is wrong with him, his forehead be dusted!"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 58
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6031
حدیث حاشیہ: قال الخطابي ھذا الدعاء یحتمل وجھین أن یجر بوجھه فیصیب التراب جبینه والذکر أن یکون له دعاء بالطاعة فیصلي فیترب جبینه وقال الداودي ھذہ کلمة جرت علی لسان العرب ولایراد حقیقتھا (عینی) یعنی یہ دعا احتمال بھی رکھتی ہے کہ وہ شخص چہرے کے بل کھینچا جائے اور اس کی پیشانی کو مٹی لگے یا اس کے حق میں نیک دعا بھی ہو سکتی ہے کہ وہ نماز پڑھے اور نماز میں بحالت سجدہ اس کی پیشانی کو مٹی لگے۔ داؤدی نے کہا کہ یہ ایسا کلمہ ہے جو اہل عرب کی زبان پرعموماً جاری رہتا ہے اور اس کی حقیقت مراد نہیں لی جایا کرتی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6031
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6031
حدیث حاشیہ: (1) سباب، فحاش اور لعان تینوں مبالغے کے صیغے ہیں، یعنی بہت گالی گلوچ کرنے والا، بہت بے ہودہ بکنے والا اور بہت لعن طعن کرنے والا۔ مبالغے کی نفی سے اصل فعل کی نفی نہیں ہوتی لیکن اس حدیث میں اصل فعل کی نفی مقصود ہے، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قطعی طور پر گالی گلوچ کرنے والے، بیہودہ باتیں کرنے والے اور لعنت کرنے والے نہ تھے۔ (2) ان تینوں میں فرق یہ ہے کہ لعنت کے معنی ہیں: اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہونا۔ سب کا تعلق نسب سے جبکہ فحش کا تعلق حسب سے ہے۔ (3) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ”اس کی پیشانی خاک آلود ہو۔ “ اس کے بھی دومعنی ہیں: ٭وہ اپنے چہرے کے بل گرے اور اس کی پیشانی خاک آلود ہو جائے۔ ٭وہ نماز پڑھے تو اس کی پیشانی مٹی سے مل جائے، اس صورت میں یہ نیک دعا ہے، لیکن یہ معنی مقصود نہیں کیونکہ عربوں کے ہاں حکم نماز سے پہلے ہی یہ ضرب المثل رائج اور مشہور تھی۔ بہرحال اس کلمے سے حقیقی معنی مراد نہیں کیونکہ عربوں کی زبان پر یہ کلمہ بے ساختہ جاری ہو جاتا تھا۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6031
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:251
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ فن جرح و تعدیل بالکل ٹھیک ہے، اور اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر کسی شخص میں کوئی کمی و کوتاہی ہے، اور وہ آپ سے بات کرنا چاہتا ہے، تو اس سے نرم بات کی جائے۔ بدکردار آدمی کو چھوڑ نا درست ہے، اور غلط کردار والا انسان اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت ہی برا ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں محفوظ فرمائے، آمین۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 251
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6046
6046. حضرت انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ فحش گو نہ تھے اور نہ لعنت والے ہی تھے نیز گالی گلوچ بھی نہیں کرتے تھے بلکہ کسی کو عتاب و زجر کرتے وقت فرماتے: ”اسے کیا ہو گیا ہے؟ اس کی پیشانی خاک آلود ہو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6046]
حدیث حاشیہ: آپ کا یہ فرمانا بھی بطریق بد دعا کے اثر نہ کرتا کیونکہ آپ نے اللہ پاک سے یہ عرض کر لیا تھا۔ یا رب! اگر میں کسی کو برا کہہ دوں تو اس کے لئے اس میں بہتری ہی کیجیو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6046
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6046
6046. حضرت انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ فحش گو نہ تھے اور نہ لعنت والے ہی تھے نیز گالی گلوچ بھی نہیں کرتے تھے بلکہ کسی کو عتاب و زجر کرتے وقت فرماتے: ”اسے کیا ہو گیا ہے؟ اس کی پیشانی خاک آلود ہو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6046]
حدیث حاشیہ: (1) کسی کو لعنت کرنا اور گالی گلوچ دینا بہت بڑا جرم ہے،ایسا کرنے سے انسان اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت سے اعزازات سے محروم ہو جاتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ”جو بہت زیادہ لعنت کرنے والے ہوں گے وہ قیامت کے دن کسی کے سفارشی یا گواہ نہیں بن سکیں گے۔ “(سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 4907)(2) یہ کس قدر محرومی ہے کہ انسان کسی پر لعن وطعن کرنے سے اس فضیلت سے محروم کر دیا جائے جو قیامت کے دن اس کی عزت افزائی کا باعث ہو، حالانکہ اہل ایمان قیامت کے دن اپنے رشتے داروں اور دوسرے لوگوں کی سفارش بھی کریں گے اور ان کے حق میں گواہی بھی دیں گے۔ واللہ المستعان
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6046