(مرفوع) حدثنا إسماعيل بن عبد الله، قال: حدثني مالك، عن صفوان بن سليم، يرفعه إلى النبي صلى الله عليه وسلم قال:" الساعي على الارملة والمسكين كالمجاهد في سبيل الله، او كالذي يصوم النهار ويقوم الليل".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، يَرْفَعُهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" السَّاعِي عَلَى الْأَرْمَلَةِ وَالْمِسْكِينِ كَالْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَوْ كَالَّذِي يَصُومُ النَّهَارَ وَيَقُومُ اللَّيْلَ".
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے صفوان بن سلیم تابعی اس حدیث کو مرسلاً روایت کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیواؤں اور مسکینوں کے لیے کوشش کرنے والا اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے یا اس شخص کی طرح ہے جو دن میں روزے رکھتا ہے اور رات کو عبادت کرتا ہے۔
Narrated Safwan bin Salim: The Prophet said "The one who looks after and works for a widow and for a poor person, is like a warrior fighting for Allah's Cause or like a person who fasts during the day and prays all the night." Narrated Abu Huraira that the Prophet said as above.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 35
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6006
حدیث حاشیہ: (1) بیوہ وہ عورت ہے جس کا خاوند فوت ہو جائے، اس کی ضروریات کا خیال رکھنا بھی اہل اسلام کی ذمے داری ہے۔ اسی طرح وہ عورت جسے اس کے خاوند نے طلاق دے دی ہو اور اس کا دنیا میں کوئی سہارا نہ ہو۔ (2) بیوہ اگر رشتے دار نہ بھی ہو تو نادار ہونے کی صورت میں اس کا اور اس کے یتیم بچوں کا خیال رکھنا بہت بڑی نیکی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6006
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2578
´بیواؤں کے لیے محنت کرنے والے کی فضیلت کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیوہ عورت اور مسکین پر خرچ کرنے کے لیے محنت کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کے مانند ہے۔“[سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2578]
اردو حاشہ: (1) بیوہ کے لیے بھاگ دوڑ کرنا یقینا فضیلت والا کام ہے بشرطیکہ ذاتی منفعت، مثلاً: نکاح کے لیے مائل کرنا مقصود نہ ہو اور نہ اس کے عوض اس سے اپنے گھریلو کام ہی کروائے۔ (2) جہاد فی سبیل اللہ افضل عمل ہے کیونکہ اس میں انسان اپنی جان تک کو خطرے میں ڈال دیتا ہے، اس لیے اس کا ثواب سب سے زیادہ ہے۔ اسی طرح بیوہ اور مسکین جیسے بے سہارا افراد سے تعاون بھی عظیم نیکی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2578
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2140
´روزی کمانے کی ترغیب۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیوہ عورتوں اور مسکینوں کے لیے محنت و کوشش کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کے مانند ہے، اور اس شخص کے مانند ہے جو رات بھر قیام کرتا، اور دن کو روزہ رکھتا ہے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2140]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) معاشرے کے ضرورت مند، نادار اور معذور افراد کی کفالت اور خبر گیری بہت عظیم عمل ہے۔ جس طرح جہاد اسلامی معاشرے کو کافروں کے شر سے محفوظ رکھتا ہے، اسی طرح ناداروں کی خبر گیری انہیں اسلام کے فوائد سے مستفید کرکے ان کے دل میں اسلام کی محبت قائم رکھتی ہے۔ بلکہ بعض حالات میں انسان فقرو فاقہ سے مجبور ہور کر کفر اختیار کرلیتا ہے۔
(2) عیسائی تبلیغی (مشنری) ادارے نادار افراد کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر انہیں اسلام سے خارج کر دیتے ہیں۔ اس طرح ان کی طاقت بڑھتی اور مسلمانوں کی طاقت کم ہوتی ہے، لہٰذا ضرورت مندوں کی مدد کرکے مسلمانوں کی طاقت کو محفوظ رکھنا اور کفر کی طاقت کو بڑھنے سے روکنا یقیناً جہاد کے مقاصد کے حصول کا ذریعہ ہے۔
(3) بیوہ کی کفالت کا بہترین ذریعہ اس کے نکاح کا بندوبست کرنا ہے۔ اس طرح اس کی عصمت بھی محفوظ ہوجاتی ہے اور اس کی اور اس کے یتیم بچوں کی کفالت و تربیت کا مستقل انتظام ہو جاتا ہے، تاہم اگر کسی وجہ سے اس کا نکاح نہ ہو سکے تو اس کی اور اسے بچوں کی جائز ضروریات پوری کر کے انہیں معاشرے کے مفید ارکان بنانا مسلمانوں کا فرض ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2140
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1969
´مہمان نوازی کا ذکر اور اس کی مدت کا بیان۔` صفوان بن سلیم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”بیوہ اور مسکین پر خرچ کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے، یا اس آدمی کی طرح ہے جو دن میں روزہ رکھتا ہے اور رات میں عبادت کرتا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1969]
اردو حاشہ: نوٹ: (اس روایت کا پہلا حصہ مرسل ہے، صفوان تابعی ہیں، اگلی روایت کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، مالک کے طرق کے لیے دیکھئے: (فتح الباری 9/499)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1969
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7468
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتےہیں،آپ نے فرمایا:"بیوہ اور مسکین کے لیے محنت ومشقت یا بھاگ دوڑ کرنے والا،اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے اورمیراخیال ہے کہ یہ بھی کہا اور اس قیام کرنے والے کی طرح ہے جوتھکتا نہیں،سست نہیں پڑتا اور اس روزے دار کی طرح ہے،جو کبھی روزہ نہیں چھوڑتا۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:7468]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: وہ انسان جو بغیر طمع و لالچ اور دنیوی مفادات کے محض اللہ کی رضا کے لیے اخلاص کے ساتھ اپنا کمایا ہوا مال بیوہ یا مسکین پر خرچ کرتا ہے، وہ حدیث میں مذکور، اجروثواب کاحق دار ٹھہرتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7468
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5353
5353. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص بیوگان اور مساکین کا خدمت گار ہے وہ مجاہد فی سبیل اللہ یا رات کو قیام کرنے اور دن کو روزہ رکھنے والے کی طرح ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5353]
حدیث حاشیہ: خدمت خلق کتنا بڑا نیک کام ہے اس حدیث سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اللہ توفیق دے، آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5353
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5353
5353. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص بیوگان اور مساکین کا خدمت گار ہے وہ مجاہد فی سبیل اللہ یا رات کو قیام کرنے اور دن کو روزہ رکھنے والے کی طرح ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5353]
حدیث حاشیہ: (1) خدمت خلق بہت بڑا کام ہے۔ اس حدیث سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ (2) جب مذکورہ فضیلت اس شخص کے لیے ہے جو بیگانوں اور اجنبی لوگوں سے حسن سلوک کرتا ہے تو اپنے عزیزوں، رشتے داروں اور اہل و عیال سے اچھا برتاؤ کرنے والا تو بطریق اولیٰ اس دوہرے ثواب کا حقدار ہو گا۔ (فتح الباري: 619/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5353
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6007
6007. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایای: ”بیواؤں اور مسکینوں کے لیے کوشش کرنے والا اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔“ قعنبی نے کہا: میرا گمان ہے کہ مالک نے کہا: بیواؤں اور مساکین کے لیے محنت و کوشش کرنے والا اس تہجد گزار کی طرح ہے جو سستی نہیں کرتا اور اس روزے دار کی طرح ہے جو روزے نہیں چھوڑتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6007]
حدیث حاشیہ: (1) معاشرے میں غریبوں، یتیموں، مسکینوں، ضرورت مندوں اور بیواؤں کی ضروریات کا خیال رکھنا اہل ایمان کی ذمے داری ہے۔ اگر انسان اپنی ہی فکر کرے، دوسرے کا خیال نہ رکھے تو اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کی برکات روک کر اہل دنیا کو اجتماعی سزا دیتا ہے۔ (2) اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایسے لوگوں کی تعریف کی ہے جو یتیموں، مسکینوں اور قیدیوں کو کھانا کھلانے کا اہتمام کرتے ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”نیک لوگ اللہ کی محبت میں مسکین،یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔ “(الدھر76: 8) غلام اور نوکر چاکر بھی اسی ذیل میں آتے ہیں جن کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6007