(مرفوع) حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: اخبرني عروة بن الزبير، ان حكيم بن حزام، اخبره انه قال: يا رسول الله، ارايت امورا كنت اتحنث بها في الجاهلية من صلة وعتاقة وصدقة هل لي فيها من اجر؟ قال حكيم: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اسلمت على ما سلف من خير" ويقال ايضا: عن ابي اليمان، اتحنث وقال معمر، وصالح، وابن المسافر، اتحنث، وقال ابن إسحاق: التحنث: التبرر، وتابعهم هشام، عن ابيه.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ أُمُورًا كُنْتُ أَتَحَنَّثُ بِهَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ مِنْ صِلَةٍ وَعَتَاقَةٍ وَصَدَقَةٍ هَلْ لِي فِيهَا مِنْ أَجْرٍ؟ قَالَ حَكِيمٌ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَسْلَمْتَ عَلَى مَا سَلَفَ مِنْ خَيْرٍ" وَيُقَالُ أَيْضًا: عَنْ أَبِي الْيَمَانِ، أَتَحَنَّثُ وَقَالَ مَعْمَرٌ، وَصَالِحٌ، وَابْنُ الْمُسَافِرِ، أَتَحَنَّثُ، وَقَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: التَّحَنُّثُ: التَّبَرُّرُ، وَتَابَعَهُمْ هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور انہیں حکیم بن حزام نے خبر دی، انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ کا ان کاموں کے بارے میں کیا خیال ہے جنہیں میں عبادت سمجھ کر زمانہ جاہلیت میں کرتا تھا مثلاً صلہ رحمی، غلام کی آزادی، صدقہ، کیا مجھے ان پر ثواب ملے گا؟ حکیم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے تم ان تمام اعمال خیر کے ساتھ اسلام لائے ہو جو پہلے کر چکے ہو۔ اور بعضوں نے ابوالیمان سے بجائے «اتحنث» کے «اتحت»(تاء کے ساتھ) روایت کیا ہے اور معمر اور صالح اور ابن مسافر نے بھی «اتحت» روایت کیا ہے۔ ابن اسحاق نے کہا «اتحنث»، «تحت» سے نکلا ہے اس کے معنی مثل اور عبادت کرنا۔ ہشام نے بھی اپنے والد عروہ سے ان لوگوں کی متابعت کی ہے۔
Narrated Hakim bin Hizam: That he said, "O Allah's Apostle! What do you think about my good deeds which I used to do during the period of ignorance (before embracing Islam) like keeping good relations with my Kith and kin, manumitting of slaves and giving alms etc; Shall I receive the reward for that?" Allah's Apostle said, "You have embraced Islam with all those good deeds which you did.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 21
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5992
حدیث حاشیہ: حضرت حکیم بن حزام قریشی اموی حضرت خدیجہ کے بھتیجے ہیں اور واقعہ فیل سے سوا سال پہلے پیدا ہوئے۔ کفر اور اسلام ہر دو زمانوں میں معزز بن کر رہے۔ سنہ54ھ میں بعمر120سال وفات پائی۔ کفر اور اسلام ہر دومیں ساٹھ ساٹھ سال ہوئے بہت ہی عاقل فاضل پرہیز گار تھے۔ رضي اللہ عنه و أرضاہ آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5992
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5992
حدیث حاشیہ: (1) حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے زمانۂ کفر میں ساٹھ سال پھر زمانۂ اسلام میں بھی ساٹھ سال گزارے اور کفرو اسلام کے زمانے میں انتہائی معزز زمانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی نے حالت شرک میں اچھے کام کیے، پھر وہ مسلمان ہوا تو اس کے اچھے کام کالعدم نہیں ہو جائیں گے بلکہ حالت کفر کے نیک اعمال کا ثواب بھی اسے دیا جائے گا۔ ان نیک اعمال میں سے ایک صلہ رحمی کا عمل بھی ہے جس کا حدیث میں بطور خاص ذکر ہے، دور جاہلیت میں کی گئی صلہ رحمی کا بھی اجرو ثواب دیا جائے گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے: (باب من تصدق في الشرك ثم أسلم) ”جو زمانۂ شرک میں صدقہ وخیرات کرے پھر مسلمان ہو جائے۔ “(صحیح البخاري، الزکاة، باب: 24) بہرحال زمانۂ شرک کی عبادات وطاعات اسلام لانے کے بعد ضائع نہیں ہوں گی۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5992
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1436
´کافر اگر مسلمان ہو جائے تو اسے اچھے کاموں کا بھی اجر ملتا ہے` «. . . عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ:" قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ أَشْيَاءَ كُنْتُ أَتَحَنَّثُ بِهَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ مِنْ صَدَقَةٍ أَوْ عَتَاقَةٍ وَصِلَةِ رَحِمٍ، فَهَلْ فِيهَا مِنْ أَجْرٍ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَسْلَمْتَ عَلَى مَا سَلَفَ مِنْ خَيْرٍ . . .» ”. . . حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ان نیک کاموں سے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں جنہیں میں جاہلیت کے زمانہ میں صدقہ ‘ غلام آزاد کرنے اور صلہ رحمی کی صورت میں کیا کرتا تھا۔ کیا ان کا مجھے ثواب ملے گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنی ان تمام نیکیوں کے ساتھ اسلام لائے ہو جو پہلے گزر چکی ہیں . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الزَّكَاة: 1436]
� لغوی توضیح: «اَتَحَنَّثُ»(بروزن تفعل) کا معنی ہے، میں عبادت و تقرب کی غرض سے جو کام کرتا تھا۔
فہم الحدیث: یہ حدیث اس بات کا ثبوت ہے کہ کافر اگر مسلمان ہو جائے اور پھر اسلام کی حالت میں ہی فوت ہو تو اسے ان اچھے کاموں کا بھی اجر ملتا ہے جو اس نے زمانہ کفر میں کیے ہوتے ہیں۔
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 77
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:564
564- سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے زمانۂ جاہلیت میں چالیس غلام آزاد کئے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”تم نے پہلے جو نیکیاں کی تھیں اسی وجہ سے تم نے اسلام قبول کیا ہے۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:564]
فائدہ: صحیح بخاری میں مفصل حدیث ہے کہ حکیم بن حزام نے زمانہ جاہلیت میں سو غلام آزاد کیے اور ایک سو اونٹ لوگوں کو سواری کے لیے دیے۔ جب وہ مسلمان ہوئے تو سو اونٹ مزید لوگوں کو سواری کے لیے دیے اور سو غلام آزاد کیے۔ سیدنا حکیم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: ”اے اللہ کے رسول! مجھے ان اشیاء کے متعلق بتائیں جو میں زمانہ جاہلیت میں کرتا رہا ہوں، یعنی وہ چیزیں میں ثواب کے لیے کرتا تھا۔۔۔“ اس سے ثابت ہوا کہ کافر ثواب کی نیت سے اگر کوئی اچھا کام کرتا ہے تو اسے اس صورت میں اس کا اجر ملے گا جب وہ مسلمان ہوجائے۔ یادر ہے کافر کی حالت کفر میں کوئی نیکی قبول نہیں ہوتی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا﴾(الكهف: 104) ”ان کی کوشش (نیکی) دنیا کی زندگی میں ضائع ہوگئی۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 564
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 323
عروہ بن زبیرؒ بیان کرتے ہیں کہ مجھے حکیم بن حزامؓ نے بتایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: بتائیے وہ امور جو میں جاہلیت کے دور میں گناہ سے بچنے کی خاطر کرتا تھا، کیا مجھے ان کا کچھ اجر ملے گا؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو تم پہلے نیکیاں کر چکے ہو ان کے ساتھ اسلام لائے ہو۔“ تحنث، تعبد: یعنی عبادت و بندگی کو کہتے ہیں۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:323]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) أُمُورٌ: أَمْرٌ کی جمع ہے، مراد: کام اور عمل ہیں۔ (2) أَتَحَنَّثُ: تَحَنّثٌ سے ماخوذ ہے، یعنی ایسا کام کرنا جس کی بنا پر انسان گناہ سے نکل جائے، مقصود عبادت یا نیک کام کرنا ہے۔ فوائد ومسائل: قرآن وحدیث سے یہ بات ثابت ہے کہ کافر انسان کی اطاعت وعبادت یا نیکی کا اعتبار نہیں ہے، کیونک کام (عمل) نیکی اس صورت میں بنتا ہے جب اسے آخرت پر یقین رکھتے ہوئے آخرت میں اجر وثواب کے حصول کے لیے کیا جائے اور کافر یہ یقین نہیں رکھتا، لیکن اسلام اور ایمان اپنے اندر اتنا وزن اور قوت رکھتے ہیں کہ کفر کی حالت میں کی گئی بے وزن اور بیکا ر نیکیاں، ان کے اندر بھی وزن پیدا ہوجاتا ہے اور وہ بھی کار آمد بن جاتی ہیں۔ اگر کافر کفر پر مرتا تو یہ اعمال رائیگاں جاتے، اس سے نبی اکرم ﷺ سے فرمایا: "إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالْخَوَاتِیْمِ" ”عملوں کے نتیجہ کا مدار خاتمہ پر ہے۔ “
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 323
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 325
ابن شہاب زہریؒ کے ایک اور شاگرد معمرؒ نے اسی (سابقہ) سند کے ساتھ یہی روایت بیان کی۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:325]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: : أَتَبَرَّرُ: بر (نیکی، احسان) سے ماخوذ ہے، ان کے ذریعہ لوگوں سے احسان اور اللہ کا تقرب چاہتا تھا۔ فوائد ومسائل: اس حدیث کا ایک مطلب یہ بھی لیا گیا ہے کہ جاہلیت کے دور کے نیک اعمال نے تیرے اندر، اسلام لانے کی صلاحیت واستعداد پیدا کی اور وہ تیرے اسلام لانے کا باعث وسبب بنے۔ یا یہ ان ہی نیکوں کی برکت اور نتیجہ ہے کہ تم اسلام لے آئے ہو۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 325
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1436
1436. حضرت حکیم بن حزام ؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نےعرض کیا:اللہ کےرسول ﷺ!میں زمانہ جاہلیت میں عبادت کی نیت سے جو صدقہ دیتا تھا یاغلام آزاد کرتا اور صلہ رحمی کرتاتھا کیا ان کا مجھے کوئی اجر ملے گا؟نبی کریم ﷺ نےفرمایا:”تم ان نیکیوں کے ساتھ اسلام لائے ہو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1436]
حدیث حاشیہ: امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر کافر مسلمان ہوجائے تو کفر کے زمانہ کی نیکیوں کا بھی ثواب ملے گا۔ یہ اللہ پاک کی عنایت ہے۔ اس میں کسی کا کیا اجارہ ہے۔ بادشاہ حقیقی کے پیغمبر نے جو کچھ فرمادیا وہی قانون ہے۔ اس سے زیادہ صراحت دار قطنی کی روایت میں ہے کہ جب کافر اسلام لاتا ہے اور اچھی طرح مسلمان ہوجاتا ہے تو اس کی ہر نیکی جو اس نے اسلام سے پہلے کی تھی‘ لکھ لی جاتی ہے اور ہر برائی جو اسلام سے پہلے کی تھی مٹادی جاتی ہے۔ اس کے بعد ہر نیکی کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک ملتا رہتا ہے اور ہر برائی کے بدلے ایک برائی لکھی جاتی ہے۔ بلکہ ممکن ہے اللہ پاک اسے بھی معاف کردے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1436
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2538
2538. حضرت حکیم بن حزام ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے زمانہ جاہلیت میں سو غلام آزاد کیے اور ایک سو اونٹ لوگوں کو سواری کے لیے دیے تھے۔ جب وہ مسلمان ہوئے تو سواونٹ مزید لوگوں کوسواری کے لیے دیے اور سو غلام آزاد کیے۔ حضرت حکیم ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا: اللہ کے رسول ﷺ!مجھے ان اشیاء کے متعلق بتائیں جو میں زمانہ جاہلیت میں کرتا رہا ہوں؟ یعنی وہ چیزیں میں ثواب کے لیے کرتاتھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم اسلام لے آئے ہو اور جو نیک کام تم نے پہلے کیے ہیں وہ قائم رہیں گے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2538]
حدیث حاشیہ: یہ اللہ جل جلالہ کی عنایت ہے اپنے مسلمان بندوں پر حالانکہ کافر کی کوئی نیکی مقبول نہیں اورآخرت میں اس کو ثواب نہیں ملنے کا۔ مگر جو کافر مسلمان ہوجائے اس کے کفر کے زمانے کی نیکیاں بھی قائم رہیں گی۔ اب جن علماءنے اس حدیث کے خلاف رائے لگائی ہے ان سے یہ کہنا چاہئے کہ آخرت کا حال پیغمبر صاحب تم سے زیادہ جانتے تھے۔ جب اللہ ایک فضل کرتا ہے تو تم کیوں اس کے فضل کو روکتے ہو ﴿أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَى مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ﴾(النساء: 54)(وحیدی) حضرت حکیم بن حزام ؓ وہ جلیل القدر بزرگ سخی تر صحابی ہیں جنہوں نے قبل اسلام سو غلام آزاد کئے اور سو اونٹ لوگوں کی سواری کے لیے دئیے تھے۔ پھر اللہ نے ان کو دولت اسلام سے نوازا تو ان کو خیال آیا کہ کیوں نہ اسلام میں بھی ایسے ہی نیک کام کئے جائیں۔ چنانچہ مسلمان ہونے کے بعد پھر سو اونٹ لوگوں کی سواری کے لئے دئیے اور سو غلام آزاد کئے۔ کہتے ہیں کہ یہ سو اونٹ ہر دو زمانوں میں انہوں نے حاجیوں کی سواری کے لئے پیش کئے تھے۔ پھر ان کو مکہ شریف میں قربان کیا۔ آنحضرت ﷺ نے ان کو بشارت دی کہ اسلام لانے کے بعد ان کی عہد کفر کی بھی جملہ نیکیاں ثابت رہیں گی اور اللہ پاک سب کا ثواب عظیم ان کو عطا کرے گا۔ اس سے مقصد باب ثابت ہوا کہ مشرک کافر بھی اگر کوئی غلام آزاد کرے تو اس کا یہ نیک عمل صحیح قرار دیا جائے گا۔ غیرمسلم جو نیکیاں کرتے ہیں ان کو دنیا میں ان کی جزا مل جاتی ہے۔ ﴿وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ نَصِيبٍ﴾(الشوریٰ: 20) یعنی آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2538
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2220
2220. حضرت حکیم بن حزام ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! ان نیک کاموں کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے جنھیں میں زمانہ جاہلیت میں صلہ رحمی، غلام آزاد کرنے اور صدقہ دینے کے سلسلے میں کیاکرتا تھا۔ کیا ان اعمال کا بھی مجھے ثواب ملےگا؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو کچھ بھلائی تم گزشتہ دور میں کرچکے ہو اسے باقی رکھتے ہوئے تم اسلام لائے ہو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2220]
حدیث حاشیہ: یعنی وہ تمام نیکیاں قائم رہیں گی اور ضرور ان کا ثواب ملے گا۔ آخر میں یہ حدیث لا کر حضرت امام بخاری ؒ نے غالباً یہ اشارہ کیا ہے کہ جائز حدود میں اسلام لانے سے پہلے کے معاملات لین دین اسلام قبول کرنے کے بعد بھی قائم رہیں گے اور ان میں کوئی رد و بدل نہ ہو گا۔ یا فریقین میں سے کوئی ایک فریق مسلمان ہوگیا ہے اور جائز حدود میں اس کا لین دین کا کوئی سلسلہ ہے جس کا تعلق جاہلیت سے ہے تو ہ اپنے دستور پر اسے چالو رکھ سکے گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2220
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1436
1436. حضرت حکیم بن حزام ؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نےعرض کیا:اللہ کےرسول ﷺ!میں زمانہ جاہلیت میں عبادت کی نیت سے جو صدقہ دیتا تھا یاغلام آزاد کرتا اور صلہ رحمی کرتاتھا کیا ان کا مجھے کوئی اجر ملے گا؟نبی کریم ﷺ نےفرمایا:”تم ان نیکیوں کے ساتھ اسلام لائے ہو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1436]
حدیث حاشیہ: (1) حدیث کے آخری حصے کا ایک ترجمہ یہ بھی ہے کہ تم گزشتہ نیکیوں پر پابند رہنے کی بنا پر تو مسلمان ہوئے ہو، یعنی تمہیں ان کا ثواب ملے گا۔ اس کے متعلق کوئی تاویل کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اسے اپنے ظاہری مفہوم ہی پر محمول کرنا چاہیے، یعنی کافر کو اسلام لانے کے بعد دوران کفر میں کی گئی نیکیوں کا بھی ثواب ملے گا۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ جو شخص اسلام لایا پھر اس نے اچھی طرح اسلام کے تقاضوں کو پورا کیا تو اسے زمانہ کفر کی طاعات و حسنات کا بھی اجر ملے گا اور اس کی دوران کفر میں کی ہوئی تمام غلطیوں کو بھی مٹا دیا جائے گا۔ (سنن النسائي، الإیمان، حدیث: 5001) جبکہ صحیح بخاری میں صرف کفارہ سیئات کا ذکر ہے اور نیکیوں کو جمع کرنے کے الفاظ نہیں ہیں۔ (صحیح البخاري، الإیمان، حدیث: 41) بعض حضرات نے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ نے اس جملے کو دانستہ حذف کر دیا ہے، کیونکہ دوران کفر میں کی ہوئی نیکیوں کو ثواب ملنا عام قواعد کے خلاف ہے، لیکن ابن بطال نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر جو چاہے اور جس طرح چاہے اپنا فضل و کرم کرے ہمیں اس پر اعتراض کی اجازت نہیں۔ (فتح الباري: 134/1)(2) ہمارے نزدیک ابن بطال نے بجا فرمایا ہے اور بلاوجہ امام بخاری ؒ کے متعلق ایسا کہنا درست نہیں۔ اس سلسلے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ حسنات کی دو قسمیں ہیں: ٭ ایسی حسنات جن کا براہ راست عبادات سے تعلق نہیں بلکہ وہ مکارم اخلاق اور انسانی ہمدردی سے متعلق ہیں، مثلا: حلم و بردباری، غلام آزاد کرنا اور صدقہ و خیرات کرنا وغیرہ۔ حسنات کی یہ اقسام کافر کے لیے آخرت میں نافع ہوں گی۔ صلہ رحمی کے متعلق تو حدیث میں صراحت ہے کہ کافر کو بھی اس کے عوض دنیا میں عزت اور رزق میں کشادگی حاصل ہوتی ہے، لیکن اس قسم کی حسنات اخروی عذاب سے نجات کا باعث نہیں ہوں گی، کیونکہ اس کے لیے ایمان شرط ہے، خواہ دھندلا سا ہی کیوں نہ ہو، البتہ ان کی وجہ سے عذاب میں تخفیف ضرور ہو گی، مثلا: نبی ﷺ کے چچا ابو طالب کا سارا بدن عذاب سے محفوظ ہو گا، صرف آگ کے جوتے ان کو پہنائے جائیں گے جن کی گرمی سے ان کا دماغ کھولتا رہے گا۔ (صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث: 3885) ٭ ایسی حسنات جن کا تعلق براہِ راست عبادات سے ہے، مثلا: نماز پڑھنا یا حج کرنا، ان کا دنیا یا آخرت میں کوئی اعتبار نہ ہو گا، ہاں! اگر مسلمان ہو جائے تو انہیں شمار کر لیا جائے گا۔ اگر مسلمان نہ ہوا اور حالت کفر پر موت آئی تو ایسی عبادات کو هباء منثورا کر دیا جائے گا، کیونکہ عبادات میں نیت ضروری ہے اور ایمان کے بغیر نیت معتبر نہیں ہو گی۔ دوسری قسم کی طاعات میں نیت شرط نہیں ہے۔ حضرت حکیم بن حزام ؓ کی حدیث میں بھی صرف عتق و صدقہ اور صلہ رحمی وغیرہ کا ذکر ہے، عبادات کا اس میں کوئی ذکر نہیں۔ حدیث میں ہے کہ کافر انسان کو دنیا میں اس کے اچھے کاموں کا صلہ کشادگی رزق کی صورت میں دیا جاتا ہے۔ (فتح الباري: 381/3) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ کافر یا مشرک جب دائرہ اسلام میں داخل ہوتا ہے تو اس کی سابقہ نیکیاں بھی محفوظ رہتی ہیں اور اسے زمانہ کفر کی نیکیوں کا ثواب ملتا ہے، یہ محض اللہ کا فضل اور اس کا کرم ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے متعدد توجیہات ذکر کی ہیں، لیکن ہمارے نزدیک یہی بات صحیح ہے کہ کافر جب مسلمان ہو جائے تو اس کی سابقہ نیکیوں کو بھی اس کے نامہ اعمال میں جمع کر دیا جائے گا بشرطیکہ وہ اسلام پر کاربند رہتے ہوئے فوت ہوا ہو۔ (فتح الباري: 381/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1436
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2220
2220. حضرت حکیم بن حزام ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! ان نیک کاموں کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے جنھیں میں زمانہ جاہلیت میں صلہ رحمی، غلام آزاد کرنے اور صدقہ دینے کے سلسلے میں کیاکرتا تھا۔ کیا ان اعمال کا بھی مجھے ثواب ملےگا؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو کچھ بھلائی تم گزشتہ دور میں کرچکے ہو اسے باقی رکھتے ہوئے تم اسلام لائے ہو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2220]
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ نے کفارومشرکین کے حقوق کے متعلق مزید یہ بیان کیا ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں اگر کسی نے نیکی کے کام کیے تھے پھر وہ اسلام لے آیا تو اسے ان نیکیوں پر بھی اجر ملے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم ان نیکیوں کو ختم کرکے نہیں بلکہ انھیں باقی رکھ کر اسلام لائے ہو اور اس پر تمھیں اجر ملے گا۔ اس کے برعکس جو باطل چیزیں ہیں اسلام لانے کے بعد ان کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔ اسلام ان سب کو مٹا دے گا۔ “(2) عنوان سے اس حدیث کی مطابقت بایں طور ہے کہ مشرک کا صدقہ کرنا، اپنے اقارب سے حسن سلوک کرنا اور غلام آزاد کرنا تب ہی درست ہوسکتا ہے کہ ان میں اس کی ملکیت صحیح ہو۔ مشرک کا حق ملکیت تسلیم شدہ ہے کیونکہ غلام آزاد کرنے کی صحت اس بات پر موقوف ہے کہ اس کی ملکیت کو صحیح تسلیم کیا جائے۔ (فتح الباري: 512/4)(3) اس حدیث کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ تم نے گزشتہ دور میں جو بھلائیاں کی ہیں انھی کی بدولت تمھیں قبول اسلام کی توفیق ملی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2220
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2538
2538. حضرت حکیم بن حزام ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے زمانہ جاہلیت میں سو غلام آزاد کیے اور ایک سو اونٹ لوگوں کو سواری کے لیے دیے تھے۔ جب وہ مسلمان ہوئے تو سواونٹ مزید لوگوں کوسواری کے لیے دیے اور سو غلام آزاد کیے۔ حضرت حکیم ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا: اللہ کے رسول ﷺ!مجھے ان اشیاء کے متعلق بتائیں جو میں زمانہ جاہلیت میں کرتا رہا ہوں؟ یعنی وہ چیزیں میں ثواب کے لیے کرتاتھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم اسلام لے آئے ہو اور جو نیک کام تم نے پہلے کیے ہیں وہ قائم رہیں گے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2538]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مشرک انسان کا ثواب کی نیت سے غلام آزاد کرنا جائز ہے لیکن اس کا ثواب تب ہی ملے گا کہ وہ اسلام قبول کر لے۔ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کفر کی حالت میں ان لوگوں کی عبادت صحیح ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا﴾”ان کی کوشش (نیکی اور اچھائی) دنیا کی زندگی میں ضائع ہو گئی۔ “(الکھف104: 18) بلکہ اس کے بعد جب مسلمان ہو گا تو بحالت کفر کیے ہوئے نیک اعمال سے فائدہ حاصل کرے گا، چنانچہ حکیم بن حزام ؒ نے جب غلام آزاد کیے تو وہ اس وقت کافر تھے، ان کو ثواب مسلمان ہونے کے بعد حاصل ہوا، تو جس انسان نے بحالت مسلمان غلاموں کو آزاد کیا اسے تو بطریق اولیٰ ثواب حاصل ہو گا۔ (2) واضح رہے کہ کافر کی کوئی نیکی قبول نہیں ہوتی اور نہ اسے آخرت ہی میں کوئی ثواب ملے گا، البتہ مسلمان بندوں پر اللہ کی خاص مہربانی ہے کہ ان کی زمانۂ کفر میں کی ہوئی نیکیاں برقرار رہتی ہیں جیسا کہ حدیث میں صراحت ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2538