وقال إبراهيم من ترك صلاة واحدة عشرين سنة لم يعد إلا تلك الصلاة الواحدة.وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ مَنْ تَرَكَ صَلاَةً وَاحِدَةً عِشْرِينَ سَنَةً لَمْ يُعِدْ إِلاَّ تِلْكَ الصَّلاَةَ الْوَاحِدَةَ.
اور ابراہیم نخعی نے کہا جو شخص بیس سال تک ایک نماز چھوڑ دے تو فقط وہی ایک نماز پڑھ لے۔
(مرفوع) حدثنا ابو نعيم، وموسى بن إسماعيل، قالا: حدثنا همام، عن قتادة، عن انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" من نسي صلاة فليصل إذا ذكرها، لا كفارة لها إلا ذلك، واقم الصلاة لذكري"، قال موسى: قال همام: سمعته يقول بعد واقم الصلاة للذكرى، وقال حبان: حدثنا همام، حدثنا قتادة، حدثنا انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، وَمُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَا: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ نَسِيَ صَلَاةً فَلْيُصَلِّ إِذَا ذَكَرَهَا، لَا كَفَّارَةَ لَهَا إِلَّا ذَلِكَ، وَأَقِمْ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي"، قَالَ مُوسَى: قَالَ هَمَّامٌ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ بَعْدُ وَأَقِمْ الصَّلَاةَ للذِّكْرَى، وَقَالَ حَبَّانُ: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، حَدَّثَنَا أَنَسٌ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ.
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین اور موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، ان دونوں نے کہا کہ ہم سے ہمام بن یحییٰ نے قتادہ سے بیان کیا، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کوئی نماز پڑھنا بھول جائے تو جب بھی یاد آ جائے اس کو پڑھ لے۔ اس قضاء کے سوا اور کوئی کفارہ اس کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ اور (اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ) نماز میرے یاد آنے پر قائم کر۔ موسیٰ نے کہا کہ ہم سے ہمام نے حدیث بیان کی کہ میں نے قتادہ رضی اللہ عنہ سے سنا وہ یوں پڑھتے تھے نماز پڑھ میری یاد کے لیے۔ حبان بن ہلال نے کہا، ہم سے ہمام نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے، کہا ہم سے انس رضی اللہ عنہ نے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، پھر ایسی ہی حدیث بیان کی۔
Narrated Anas: The Prophet said, "If anyone forgets a prayer he should pray that prayer when he remembers it. There is no expiation except to pray the same." Then he recited: "Establish prayer for My (i.e. Allah's) remembrance." (20.14).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 10, Number 571
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 597
تشریح: اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ان لوگوں کی تردید ہے جو کہتے ہیں کہ قضاء شدہ نماز دو بار پڑھے، ایک بار جب یاد آئے اور دوسری بار دوسرے دن اس کے وقت پر پڑھے۔ اس موقعہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت شریفہ «واقم الصلوٰة لذكري» اس لیے تلاوت فرمائی کہ قضاء نماز جب بھی یاد آ جائے اس کا وہی وقت ہے۔ اسی وقت اسے پڑھ لیا جائے۔
شارحین لکھتے ہیں: «في الاية وجوه من المعاني اقربها مناسبة بذلك الحديث ان يقال اقم الصلوٰة وقت ذكرها فان ذكرالصلوٰة هو ذكرالله تعالىٰ اويقدر المضاف فيقال اقم الصلوٰة وقت ذكر صلوٰتي» یعنی نماز یاد آنے کے وقت پر قائم کرو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 597
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 597
حدیث حاشیہ: اس سے امام بخاری ؒ کا مقصد ان لوگوں کی تردید ہے جو کہتے ہیں کہ قضاء شدہ نماز دو بار پڑھے، ایک بار جب یاد آئے اوردوسری بار دوسرے دن اس کے وقت پر پڑھے۔ اس موقعہ پر آنحضرت ﷺ نے آیت شریفہ وأقم الصلوٰة لذکري اس لیے تلاوت فرمائی کہ قضا نماز جب بھی یاد آجائے، اس کا وہی وقت ہے۔ اسی وقت اسے پڑھ لیا جائے۔ شارحین لکھتے ہیں: في الآیة وجوہ من المعاني أقربها مناسبة بذلك الحدیث أن یقال أقم الصلوٰة وقت ذکرها فإن ذکرالصلوٰة هو ذکراللہ تعالیٰ أو یقدر المضاف فیقال أقم الصلوٰة وقت ذکر صلوٰتي ”یعنی نماز یاد آنے کے وقت پر قائم کرو۔ “
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 597
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:597
حدیث حاشیہ: (1) ایک روایت بایں الفاظ ہے: جو بھول جائے یا سوجائے تو جب بھی یاد آئے یا بیدار ہو تو فوت شدہ نماز ادا کرے۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1568(684) ایک روایت میں ہے کہ ”اگلے دن اسے اپنے وقت پر پڑھے۔ “(سنن ابی داود، الصلاة، حدیث: 437) اس اضافے سے بعض حضرات نے یہ مسئلہ کشید کیا ہے کہ فوت شدہ نماز کو دو مرتبہ ادا کرے: ایک مرتبہ جب یاد آئے اور پھر دوسرے دن اسے اپنے وقت پر بھی پڑھے۔ لیکن حدیث کے الفاظ اس کے متعلق نص صریح کی حیثیت نہیں رکھتے، کیونکہ ان الفاظ کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ آئندہ دن موجودہ نماز کو اس کے وقت پر ادا کرے، سستی سے کام نہ لے، ایسا نہ ہوکے اگلے دن پھر بروقت نہ پڑھ سکے اور یہی معنی راجح ہیں۔ اور جہاں تک ابو داود کی حدیث (438) کا تعلق ہے، جس میں دوبارہ نماز ادا کرنے کی صراحت ہے تو وہ شاذ ہے۔ تفصیل کےلیے دیکھیے: (ضعيف سنن أبي داود للألباني، حديث: 41)(2) امام بخاری ؒ نے أَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي کے متعلق دوقراءتوں کا ذکر کیا ہے: ٭ابو نعیم اور موسیٰ بن اسماعیل کے بیان کے مطابق لفظ "ذکر" یائے متکلم کی طرف مضاف ہے۔ ٭صرف موسیٰ کے بیان کے مطابق یہ لفظ اسم مقصور ہے، یعنی آخر میں یائے متکلم کے بجائے الف مقصورہ ہے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے کسی راوی نے یہ آیت کریمہ تلاوت کی۔ لیکن صحیح مسلم کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہےکہ خود رسول اللہ ﷺ نے اسے تلاوت فرمایا، چنانچہ حدیث کے الفاظ ہیں: ”جو شخص نماز سے سورہے یا غفلت کرے تو اسے چاہیے کہ یاد آنے پر اسے پڑھ لے۔ “ کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”میری یاد کےلیے نماز قائم کرو۔ “(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1569(684) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہےکہ آیت کریمہ کی تلاوت خود رسول اللہ ﷺ نے فرمائی ہے، نیز امام بخاری ؒ نے آخر میں ایک تعلیق بیان کر کے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ قتادہ کا حضرت انس ؓ سے سماع ثابت ہے۔ اس تعلیق کو محدث ابو عوانہ نے اپنی"صحیح" میں متصل سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔ (فتح الباري: 95/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 597
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 442
´جو نماز کے وقت سو جائے یا اسے بھول جائے تو کیا کرے؟` انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کوئی نماز بھول جائے تو جب یاد آئے اسے پڑھ لے، یہی اس کا کفارہ ہے اس کے علاوہ اس کا کوئی اور کفارہ نہیں۔“[سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 442]
442۔ اردو حاشیہ: روزے اور حج کی طرح نماز کا کوئی مالی و بدنی کفارہ نہیں ہے، کوئی دوسرا کسی کی جانب سے نماز ادا نہیں کر سکتا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 442
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 614
´جو شخص نماز بھول جائے تو کیا کرے؟` انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص نماز بھول جائے، جب یاد آ جائے تو اسے پڑھ لے۔“[سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 614]
614 ۔ اردو حاشیہ: معلوم ہوا فرض نماز کی قضا کے لیے کوئی وقت مکروہ نہیں ہے، جب بھی یاد آئے یا بیدار ہو، نماز پڑھ لے۔ یہ جمہور اہل علم کا موقف ہے۔ اوقات مکروہ والی روایت بلا سبب نفل نماز کے لیے ہے، البتہ احناف کا خیال ہے کہ طلوع، غروب اور استوا کے اوقات میں نماز کو مؤخر کیا جائے مگر بہت سی روایات جو پیچھے گزر چکی ہیں، ان اوقات میں فرض نماز پڑھنے پر دلالت کرتی ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 614
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث695
´نماز کے وقت سو جائے یا اسے پڑھنا بھول جائے تو کیا کرے؟` انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شخص کے متعلق سوال کیا گیا جو نماز سے غافل ہو جائے، یا سو جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب یاد آ جائے تو پڑھ لے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصلاة/حدیث: 695]
اردو حاشہ: (1) بھول اور نیند عذر ہے جس کی وجہ سے نماز تاخیر کا گناہ نہیں ہوتا بشرطیکہ اس میں بے پرواہی کو دخل نہ ہو۔
(2) بھول سے رہ جانے والی نماز یاد آنے پر فوراً ادا کرلینی چاہیے بلا وجہ مزید تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔
(3) اگر نیند سے اس وقت بیدار ہو جب نماز کا وقت گزر چکا ہو تو اسی وقت نماز پڑھ لے بشرطیکہ کراہت کا وقت نہ ہو۔ ایک حدیث میں ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا: (لَاتَحَرَّوا بِصَلٰوتِكُمْ طُلُوعَ الشَّمْسِ وَلَا غُرُوْبِهَا)(صحيح البخاري، مواقيت الصلاة، باب الصلاة بعد الفجر حتي ترتفع الشمس، حديث: 582) جان بوجھ کر نماز سورج طلوع یا غروب ہوتے وقت نہ پڑھو۔ ۔ جس شخص کو مکروہ وقت میں نماز یاد آئی یا اس وقت جاگا تو وہ مکروہ وقت گزار کر نماز پڑھے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 695
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1569
انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی نماز سے سویا رہے یا اس سے غافل ہو جائے تو اسے یاد آنے پر پڑھ لے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ”میری یاد کے لیے نماز پڑھو“۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1569]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان جس وقت بھی نیند سے بیدار ہو یا بھول جانے کی صورت میں جب نماز یاد آ جائے وہ نماز پڑھ لے گا۔ ہاں بلاسبب اورعمداً اوقات مکروہ میں نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا یہی مسلک ہے کہ اوقات مکروہ میں نماز کی قضائی دی جا سکتی ہے۔ احناف کے نزدیک ان اوقات میں نماز کی قضائی دینا بھی درست نہیں ہے۔