(مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن زيد، عن يحيى بن سعيد، عن عبيد بن حنين، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال:" لبثت سنة وانا اريد ان اسال عمر عن المراتين اللتين تظاهرتا على النبي صلى الله عليه وسلم فجعلت اهابه، فنزل يوما منزلا فدخل الاراك فلما خرج سالته، فقال: عائشة وحفصة، ثم قال: كنا في الجاهلية لا نعد النساء شيئا، فلما جاء الإسلام وذكرهن الله، راينا لهن بذلك علينا حقا من غير ان ندخلهن في شيء من امورنا، وكان بيني وبين امراتي كلام فاغلظت لي، فقلت لها: وإنك لهناك قالت: تقول: هذا لي وابنتك تؤذي النبي صلى الله عليه وسلم، فاتيت حفصة فقلت: لها إني احذرك ان تعصي الله ورسوله وتقدمت إليها في اذاه، فاتيت ام سلمة، فقلت لها، فقالت: اعجب منك يا عمر، قد دخلت في امورنا فلم يبق إلا ان تدخل بين رسول الله صلى الله عليه وسلم وازواجه فرددت، وكان رجل من الانصار إذا غاب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم وشهدته اتيته بما يكون، وإذا غبت عن رسول الله صلى الله عليه وسلم وشهد اتاني بما يكون من رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكان من حول رسول الله صلى الله عليه وسلم قد استقام له فلم يبق إلا ملك غسان بالشام، كنا نخاف ان ياتينا فما شعرت إلا بالانصاري وهو يقول: إنه قد حدث امر قلت له: وما هو اجاء الغساني؟ قال: اعظم من ذاك، طلق رسول الله صلى الله عليه وسلم نساءه، فجئت فإذا البكاء من حجرهن كلها وإذا النبي صلى الله عليه وسلم قد صعد في مشربة له، وعلى باب المشربة وصيف، فاتيته فقلت: استاذن لي، فاذن لي، فدخلت فإذا النبي صلى الله عليه وسلم على حصير قد اثر في جنبه، وتحت راسه مرفقة من ادم حشوها ليف، وإذا اهب معلقة وقرظ، فذكرت الذي قلت لحفصة، وام سلمة والذي ردت علي ام سلمة، فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلبث تسعا وعشرين ليلة ثم نزل".(مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ حُنَيْنٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" لَبِثْتُ سَنَةً وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ عَنِ الْمَرْأَتَيْنِ اللَّتَيْنِ تَظَاهَرَتَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلْتُ أَهَابُهُ، فَنَزَلَ يَوْمًا مَنْزِلًا فَدَخَلَ الْأَرَاكَ فَلَمَّا خَرَجَ سَأَلْتُهُ، فَقَالَ: عَائِشَةُ وَحَفْصَةُ، ثُمَّ قَالَ: كُنَّا فِي الْجَاهِلِيَّةِ لَا نَعُدُّ النِّسَاءَ شَيْئًا، فَلَمَّا جَاءَ الْإِسْلَامُ وَذَكَرَهُنَّ اللَّهُ، رَأَيْنَا لَهُنَّ بِذَلِكَ عَلَيْنَا حَقًّا مِنْ غَيْرِ أَنْ نُدْخِلَهُنَّ فِي شَيْءٍ مِنْ أُمُورِنَا، وَكَانَ بَيْنِي وَبَيْنَ امْرَأَتِي كَلَامٌ فَأَغْلَظَتْ لِي، فَقُلْتُ لَهَا: وَإِنَّكِ لَهُنَاكِ قَالَتْ: تَقُولُ: هَذَا لِي وَابْنَتُكَ تُؤْذِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَيْتُ حَفْصَةَ فَقُلْتُ: لَهَا إِنِّي أُحَذِّرُكِ أَنْ تَعْصِي اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَتَقَدَّمْتُ إِلَيْهَا فِي أَذَاهُ، فَأَتَيْتُ أُمَّ سَلَمَةَ، فَقُلْتُ لَهَا، فَقَالَتْ: أَعْجَبُ مِنْكَ يَا عُمَرُ، قَدْ دَخَلْتَ فِي أُمُورِنَا فَلَمْ يَبْقَ إِلَّا أَنْ تَدْخُلَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَزْوَاجِهِ فَرَدَّدَتْ، وَكَانَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ إِذَا غَابَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَهِدْتُهُ أَتَيْتُهُ بِمَا يَكُونُ، وَإِذَا غِبْتُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَهِدَ أَتَانِي بِمَا يَكُونُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ مَنْ حَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِ اسْتَقَامَ لَهُ فَلَمْ يَبْقَ إِلَّا مَلِكُ غَسَّانَ بِالشَّأْمِ، كُنَّا نَخَافُ أَنْ يَأْتِيَنَا فَمَا شَعَرْتُ إِلَّا بِالْأَنْصَارِيِّ وَهُوَ يَقُولُ: إِنَّهُ قَدْ حَدَثَ أَمْرٌ قُلْتُ لَهُ: وَمَا هُوَ أَجَاءَ الْغَسَّانِيُّ؟ قَالَ: أَعْظَمُ مِنْ ذَاكَ، طَلَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ، فَجِئْتُ فَإِذَا الْبُكَاءُ مِنْ حُجَرِهِنَّ كُلِّهَا وَإِذَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ صَعِدَ فِي مَشْرُبَةٍ لَهُ، وَعَلَى باب الْمَشْرُبَةِ وَصِيفٌ، فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ: اسْتَأْذِنْ لِي، فَأَذِنَ لِي، فَدَخَلْتُ فَإِذَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حَصِيرٍ قَدْ أَثَّرَ فِي جَنْبِهِ، وَتَحْتَ رَأْسِهِ مِرْفَقَةٌ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ، وَإِذَا أُهُبٌ مُعَلَّقَةٌ وَقَرَظٌ، فَذَكَرْتُ الَّذِي قُلْتُ لِحَفْصَةَ، وَأُمِّ سَلَمَةَ وَالَّذِي رَدَّتْ عَلَيَّ أُمُّ سَلَمَةَ، فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَبِثَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ لَيْلَةً ثُمَّ نَزَلَ".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے، ان سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے عبید بن حنین نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں عمر رضی اللہ عنہ سے ان عورتوں کے بارے میں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملہ میں اتفاق کر لیا تھا، پوچھنے کا ارادہ کرتا رہا لیکن ان کا رعب سامنے آ جاتا تھا۔ ایک دن (مکہ کے راستہ میں) ایک منزل پر قیام کیا اور پیلو کے درختوں میں (وہ قضائے حاجت کے لیے) تشریف لے گئے۔ جب قضائے حاجت سے فارغ ہو کر واپس تشریف لائے تو میں نے پوچھا انہوں نے بتلایا کہ عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہما ہیں پھر کہا کہ جاہلیت میں ہم عورتوں کو کوئی حیثیت نہیں دیتے تھے۔ جب اسلام آیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر کیا (اور ان کے حقوق) مردوں پر بتائے تب ہم نے جانا کہ ان کے بھی ہم پر کچھ حقوق ہیں لیکن اب بھی ہم اپنے معاملات میں ان کا دخیل بننا پسند نہیں کرتے تھے۔ میرے اور میری بیوی میں کچھ گفتگو ہو گئی اور اس نے تیز و تند جواب مجھے دیا تو میں نے اس سے کہا اچھا اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی۔ اس نے کہا تم مجھے یہ کہتے ہو اور تمہاری بیٹی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تکلیف پہنچاتی ہے۔ میں (اپنی بیٹی ام المؤمنین) حفصہ کے پاس آیا اور اس سے کہا میں تجھے تنبیہ کرتا ہوں کہ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچانے کے معاملہ میں سب سے پہلے میں ہی حفصہ کے یہاں گیا پھر میں ام سلمہ کے پاس آیا اور ان سے بھی یہی بات کہی لیکن انہوں نے کہا کہ حیرت ہے تم پر عمر! تم ہمارے معاملات میں دخیل ہو گئے ہو۔ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی ازواج کے معاملات میں دخل دینا باقی تھا۔ (سو اب وہ بھی شروع کر دیا) انہوں نے میری بات رد کر دی۔ قبیلہ انصار کے ایک صحابی تھے جب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں موجود نہ ہوتے اور میں حاضر ہوتا تو تمام خبریں ان سے آ کر بیان کرتا تھا اور جب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے غیر حاضر ہوتا اور وہ موجود ہوتے تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق تمام خبریں مجھے آ کر سناتے تھے۔ آپ کے چاروں طرف جتنے (بادشاہ وغیرہ) تھے ان سب سے آپ کے تعلقات ٹھیک تھے۔ صرف شام کے ملک غسان کا ہمیں خوف رہتا تھا کہ وہ کہیں ہم پر حملہ نہ کر دے۔ میں نے جو ہوش و حواس درست کئے تو وہی انصاری صحابی تھے اور کہہ رہے تھے کہ ایک حادثہ ہو گیا۔ میں نے کہا کیا بات ہوئی۔ کیا غسان چڑھ آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے بھی بڑا حادثہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج کو طلاق دے دی۔ میں جب (مدینہ) حاضر ہوا تو تمام ازواج کے حجروں سے رونے کی آواز آ رہی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بالا خانہ پر چلے گئے تھے اور بالا خانہ کے دروازہ پر ایک نوجوان پہرے دار موجود تھا میں نے اس کے پاس پہنچ کر اس سے کہا کہ میرے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر حاضر ہونے کی اجازت مانگ لو پھر میں اندر گیا تو آپ ایک چٹائی پر تشریف رکھتے تھے جس کے نشانات آپ کے پہلو پر پڑے ہوئے تھے اور آپ کے سر کے نیچے ایک چھوٹا سا چمڑے کا تکیہ تھا۔ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ چند کچی کھالیں لٹک رہی تھیں اور ببول کے پتے تھے۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی ان باتوں کا ذکر کیا جو میں نے حفصہ اور ام سلمہ سے کہی تھیں اور وہ بھی جو ام سلمہ نے میری بات رد کرتے ہوئے کہا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر مسکرا دیئے۔ آپ نے اس بالا خانہ میں انتیس دن تک قیام کیا پھر آپ وہاں سے نیچے اتر آئے۔
Narrated Ibn `Abbas: For one year I wanted to ask `Umar about the two women who helped each other against the Prophet but I was afraid of him. One day he dismounted his riding animal and went among the trees of Arak to answer the call of nature, and when he returned, I asked him and he said, "(They were) `Aisha and Hafsa." Then he added, "We never used to give significance to ladies in the days of the Pre-lslamic period of ignorance, but when Islam came and Allah mentioned their rights, we used to give them their rights but did not allow them to interfere in our affairs. Once there was some dispute between me and my wife and she answered me back in a loud voice. I said to her, 'Strange! You can retort in this way?' She said, 'Yes. Do you say this to me while your daughter troubles Allah's Apostle?' So I went to Hafsa and said to her, 'I warn you not to disobey Allah and His Apostle.' I first went to Hafsa and then to Um Salama and told her the same. She said to me, 'O `Umar! It surprises me that you interfere in our affairs so much that you would poke your nose even into the affairs of Allah's Apostle and his wives.' So she rejected my advice. There was an Ansari man; whenever he was absent from Allah's Apostle and I was present there, I used to convey to him what had happened (on that day), and when I was absent and he was present there, he used to convey to me what had happened as regards news from Allah's Apostle . During that time all the rulers of the nearby lands had surrendered to Allah's Apostle except the king of Ghassan in Sham, and we were afraid that he might attack us. All of a sudden the Ansari came and said, 'A great event has happened!' I asked him, 'What is it? Has the Ghassani (king) come?' He said, 'Greater than that! Allah's Apostle has divorced his wives! I went to them and found all of them weeping in their dwellings, and the Prophet had ascended to an upper room of his. At the door of the room there was a slave to whom I went and said, "Ask the permission for me to enter." He admitted me and I entered to see the Prophet lying on a mat that had left its imprint on his side. Under his head there was a leather pillow stuffed with palm fires. Behold! There were some hides hanging there and some grass for tanning. Then I mentioned what I had said to Hafsa and Um Salama and what reply Um Salama had given me. Allah's Apostle smiled and stayed there for twenty nine days and then came down." (See Hadith No. 648, Vol. 3 for details)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 72, Number 734
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5843
حدیث حاشیہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس واقعہ میں ایک چٹائی پر تشریف فرما تھے چٹائی بھی ایسی کہ جسم مبارک پر اس کے نشانات عیاں تھے اس سے باب کا مضمون نکلتا ہے کہ آ پ کے بستر کا یہ حال تھا چمڑے کا تکیہ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ چند کچی کھالیں لٹک رہی تھیں جن کی دباغت کے لیے ببول کے پتے رکھے ہوئے تھے جو جی ساری دنیا کو ترک دنیا کا سبق دینے کے لیے مبعوث ہوا اس کی پاکیزہ زندگی ایسی سادہ ہونی چایئیے۔ صلی اللہ علیه وسلم الف ألف مرة بعدد کل ذرة آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5843
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5843
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر کا بیان ہے، آپ کے نیچے ایک چٹائی تھی جس نے آپ کے پہلو پر نشانات لگا رکھے تھے۔ یہ نہایت ہی سادہ زندگی اور سادگی سے رہنا سہنا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تکیہ بھی چمڑے کا تھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی، اس کے علاوہ چند کچی کھالیں لٹک رہی تھیں اور انہیں رنگنے کے لیے کیکر کے پتے بکھرے پڑے تھے۔ (2) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا نقشہ ہمارے سامنے بیان کیا ہے جو رسول دنیا والوں کو ترک دنیا کا سبق دینے کے لیے بھیجے گئے تھے۔ بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیاوی ٹھاٹھ باٹھ اور تکلفات سے بالاتر تھے، ہمیں بھی زندگی کا یہ نمونہ اختیار کرنا چاہیے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5843