وقال ابن عباس خرج النبي صلى الله عليه وسلم وعليه عصابة دسماء وقال انس عصب النبي صلى الله عليه وسلم على راسه حاشية بردوَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ عِصَابَةٌ دَسْمَاءُ وَقَالَ أَنَسٌ عَصَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَأْسِهِ حَاشِيَةَ بُرْدٍ
اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے اور سر مبارک پر ایک سیاہ پٹی لگا ہوا عمامہ تھا اور انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر پر چادر کا کونا لپیٹ لیا تھا۔
(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن موسى، اخبرنا هشام، عن معمر، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة رضي الله عنها، قالت:" هاجر ناس إلى الحبشة من المسلمين، وتجهز ابو بكر مهاجرا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: على رسلك فإني ارجو ان يؤذن لي، فقال ابو بكر: او ترجوه بابي انت، قال: نعم، فحبس ابو بكر نفسه على النبي صلى الله عليه وسلم، لصحبته وعلف راحلتين كانتا عنده، ورق السمر اربعة اشهر، قال عروة: قالت عائشة: فبينا نحن يوما جلوس في بيتنا في نحر الظهيرة، فقال قائل لابي بكر: هذا رسول الله صلى الله عليه وسلم مقبلا متقنعا، في ساعة لم يكن ياتينا فيها، قال ابو بكر: فدا لك ابي وامي، والله إن جاء به في هذه الساعة إلا لامر، فجاء النبي صلى الله عليه وسلم فاستاذن، فاذن له، فدخل، فقال حين دخل لابي بكر: اخرج من عندك، قال: إنما هم اهلك بابي انت يا رسول الله، قال: فإني قد اذن لي في الخروج، قال: فالصحبة بابي انت وامي يا رسول الله، قال: نعم، قال: فخذ بابي انت يا رسول الله إحدى راحلتي هاتين، قال النبي صلى الله عليه وسلم بالثمن قالت: فجهزناهما احث الجهاز، وضعنا لهما سفرة في جراب فقطعت اسماء بنت ابي بكر قطعة من نطاقها، فاوكات به الجراب، ولذلك كانت تسمى ذات النطاق، ثم لحق النبي صلى الله عليه وسلم وابو بكر بغار في جبل، يقال له ثور، فمكث فيه ثلاث ليال، يبيت عندهما عبد الله بن ابي بكر وهو غلام شاب، لقن ثقف فيرحل من عندهما سحرا، فيصبح مع قريش بمكة كبائت، فلا يسمع امرا يكادان به إلا وعاه حتى ياتيهما بخبر ذلك حين يختلط الظلام، ويرعى عليهما عامر بن فهيرة مولى ابي بكر منحة من غنم فيريحها عليهما حين تذهب ساعة من العشاء، فيبيتان في رسلهما حتى ينعق بها عامر بن فهيرة، بغلس يفعل ذلك كل ليلة من تلك الليالي الثلاث".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" هَاجَرَ نَاسٌ إِلَى الْحَبَشَةِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَتَجَهَّزَ أَبُو بَكْرٍ مُهَاجِرًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَلَى رِسْلِكَ فَإِنِّي أَرْجُو أَنْ يُؤْذَنَ لِي، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَوَ تَرْجُوهُ بِأَبِي أَنْتَ، قَالَ: نَعَمْ، فَحَبَسَ أَبُو بَكْرٍ نَفْسَهُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لِصُحْبَتِهِ وَعَلَفَ رَاحِلَتَيْنِ كَانَتَا عِنْدَهُ، وَرَقَ السَّمُرِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ، قَالَ عُرْوَةُ: قَالَتْ عَائِشَةُ: فَبَيْنَا نَحْنُ يَوْمًا جُلُوسٌ فِي بَيْتِنَا فِي نَحْرِ الظَّهِيرَةِ، فَقَالَ قَائِلٌ لِأَبِي بَكْرٍ: هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُقْبِلًا مُتَقَنِّعًا، فِي سَاعَةٍ لَمْ يَكُنْ يَأْتِينَا فِيهَا، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فِدًا لَكَ أَبِي وَأُمِّي، وَاللَّهِ إِنْ جَاءَ بِهِ فِي هَذِهِ السَّاعَةِ إِلَّا لِأَمْرٍ، فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَأْذَنَ، فَأَذِنَ لَهُ، فَدَخَلَ، فَقَالَ حِينَ دَخَلَ لِأَبِي بَكْرٍ: أَخْرِجْ مَنْ عِنْدَكَ، قَالَ: إِنَّمَا هُمْ أَهْلُكَ بِأَبِي أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَإِنِّي قَدْ أُذِنَ لِي فِي الْخُرُوجِ، قَالَ: فَالصُّحْبَةُ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَخُذْ بِأَبِي أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِحْدَى رَاحِلَتَيَّ هَاتَيْنِ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالثَّمَنِ قَالَتْ: فَجَهَّزْنَاهُمَا أَحَثَّ الْجِهَازِ، وَضَعْنَا لَهُمَا سُفْرَةً فِي جِرَابٍ فَقَطَعَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ أَبِي بَكْرٍ قِطْعَةً مِنْ نِطَاقِهَا، فَأَوْكَأَتْ بِهِ الْجِرَابَ، وَلِذَلِكَ كَانَتْ تُسَمَّى ذَاتَ النِّطَاقِ، ثُمَّ لَحِقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ بِغَارٍ فِي جَبَلٍ، يُقَالُ لَهُ ثَوْرٌ، فَمَكُثَ فِيهِ ثَلَاثَ لَيَالٍ، يَبِيتُ عِنْدَهُمَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ وَهُوَ غُلَامٌ شَابٌّ، لَقِنٌ ثَقِفٌ فَيَرْحَلُ مِنْ عِنْدِهِمَا سَحَرًا، فَيُصْبِحُ مَعَ قُرَيْشٍ بِمَكَّةَ كَبَائِتٍ، فَلَا يَسْمَعُ أَمْرًا يُكَادَانِ بِهِ إِلَّا وَعَاهُ حَتَّى يَأْتِيَهُمَا بِخَبَرِ ذَلِكَ حِينَ يَخْتَلِطُ الظَّلَامُ، وَيَرْعَى عَلَيْهِمَا عَامِرُ بْنُ فُهَيْرَةَ مَوْلَى أَبِي بَكْرٍ مِنْحَةً مِنْ غَنَمٍ فَيُرِيحُهَا عَلَيْهِمَا حِينَ تَذْهَبُ سَاعَةٌ مِنَ الْعِشَاءِ، فَيَبِيتَانِ فِي رِسْلِهِمَا حَتَّى يَنْعِقَ بِهَا عَامِرُ بْنُ فُهَيْرَةَ، بِغَلَسٍ يَفْعَلُ ذَلِكَ كُلَّ لَيْلَةٍ مِنْ تِلْكَ اللَّيَالِي الثَّلَاثِ".
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام بن عروہ نے خبر دی، انہیں معمر نے، انہیں زہری نے، انہیں عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ بہت سے مسلمان حبشہ ہجرت کر کے چلے گئے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی ہجرت کی تیاریاں کرنے لگے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابھی ٹھہر جاؤ کیونکہ مجھے بھی امید ہے کہ مجھے (ہجرت کی) اجازت دی جائے گی۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: کیا آپ کو بھی امید ہے؟ میرا باپ آپ پر قربان۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں۔ چنانچہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنے کے خیال سے رک گئے اور اپنی دو اونٹنیوں کو ببول کے پتے کھلا کر چار مہینے تک انہیں خوب تیار کرتے رہے۔ عروہ نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا ہم ایک دن دوپہر کے وقت اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سر ڈھکے ہوئے تشریف لا رہے ہیں۔ اس وقت عموماً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں تشریف نہیں لاتے تھے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا میرے ماں باپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے وقت کسی وجہ ہی سے تشریف لا سکتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکان پر پہنچ کر اجازت چاہی اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں اجازت دی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لائے اور اندر داخل ہوتے ہی ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ جو لوگ تمہارے پاس اس وقت ہیں انہیں اٹھا دو۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی میرا باپ آپ پر قربان ہو یا رسول اللہ! یہ سب آپ کے گھر ہی کے افراد ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے ہجرت کی اجازت مل گئی ہے۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی پھر یا رسول اللہ! مجھے رفاقت کا شرف حاصل رہے گا؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں۔ عرض کی یا رسول اللہ! میرے باپ آپ پر قربان ہوں ان دو اونٹنیوں میں سے ایک آپ لے لیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن قیمت سے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر ہم نے بہت جلدی جلدی سامان سفر تیار کیا اور سفر کا ناشتہ ایک تھیلے میں رکھا۔ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا نے اپنے پٹکے کے ایک ٹکڑے سے تھیلہ کے منہ کو باندھا۔ اسی وجہ سے انہیں ”ذات النطاق“(پٹکے والی) کہنے لگے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ ثور نامی پہاڑ کی ایک غار میں جا کر چھپ گئے اور تین دن تک اسی میں ٹھہرے رہے۔ عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہما رات آپ حضرات کے پاس ہی گزارتے تھے۔ وہ نوجوان ذہین اور سمجھدار تھے۔ صبح تڑکے میں وہاں سے چل دیتے تھے اور صبح ہوتے ہوتے مکہ کے قریش میں پہنچ جاتے تھے۔ جیسے رات میں مکہ ہی میں رہے ہوں۔ مکہ مکرمہ میں جو بات بھی ان حضرات کے خلاف ہوتی اسے محفوظ رکھتے اور جوں ہی رات کا اندھیرا چھا جاتا غار ثور میں ان حضرات کے پاس پہنچ کر تمام تفصیلات کی اطلاع دیتے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مولیٰ عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ دودھ دینے والی بکریاں چراتے تھے اور جب رات کا ایک حصہ گزر جاتا تو ان بکریوں کو غار ثور کی طرف ہانک لاتے تھے۔ آپ حضرات بکریوں کے دودھ پر رات گزارتے اور صبح کی پو پھٹتے ہی عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ وہاں سے روانہ ہو جاتے۔ ان تین راتوں میں انہوں نے ہر رات ایسا ہی کیا۔
Narrated `Aisha: Some Muslim men emigrated to Ethiopia whereupon Abu Bakr also prepared himself for the emigration, but the Prophet said (to him), "Wait, for I hope that Allah will allow me also to emigrate." Abu Bakr said, "Let my father and mother be sacrificed for you. Do you hope that (emigration)?" The Prophet said, 'Yes." So Abu Bakr waited to accompany the Prophet and fed two she-camels he had on the leaves of As-Samur tree regularly for four months One day while we were sitting in our house at midday, someone said to Abu Bakr, "Here is Allah's Apostle, coming with his head and a part of his face covered with a cloth-covering at an hour he never used to come to us." Abu Bakr said, "Let my father and mother be sacrificed for you, (O Prophet)! An urgent matter must have brought you here at this hour." The Prophet came and asked the permission to enter, and he was allowed. The Prophet entered and said to Abu Bakr, "Let those who are with you, go out." Abu Bakr replied, "(There is no stranger); they are your family. Let my father be sacrificed for you, O Allah's Apostle!" The Prophet said, "I have been allowed to leave (Mecca)." Abu Bakr said, " I shall accompany you, O Allah's Apostle, Let my father be sacrificed for you!" The Prophet said, "Yes," Abu Bakr said, 'O Allah's Apostles! Let my father be sacrificed for you. Take one of these two shecamels of mine" The Prophet said. I will take it only after paying its price." So we prepared their baggage and put their journey food In a leather bag. And Asma' bint Abu Bakr cut a piece of her girdle and tied the mouth of the leather bag with it. That is why she was called Dhatan- Nitaqaln. Then the Prophet and Abu Bakr went to a cave in a mountain called Thour and remained there for three nights. `Abdullah bin Abu Bakr. who was a young intelligent man. used to stay with them at night and leave before dawn so that in the morning, he would he with the Quraish at Mecca as if he had spent the night among them. If he heard of any plot contrived by the Quraish against the Prophet and Abu Bakr, he would understand it and (return to) inform them of it when it became dark. 'Amir bin Fuhaira, the freed slave of Abu Bakr used to graze a flock of milch sheep for them and he used to take those sheep to them when an hour had passed after the `Isha prayer. They would sleep soundly till 'Amir bin Fuhaira awakened them when it was still dark. He used to do that in each of those three nights.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 72, Number 698
أذن لي في الخروج قال فالصحبة بأبي أنت وأمي يا رسول الله قال نعم قال فخذ بأبي أنت يا رسول الله إحدى راحلتي هاتين قال النبي بالثمن قالت فجهزناهما أحث الجهاز وضعنا لهما سفرة في جراب قطعت أسماء بنت أبي بكر قطعة من نطاقها فأوكأت به الجراب و
لم أعقل أبوي إلا وهما يدينان الدين لم يمر عليهما يوم إلا يأتينا فيه رسول الله طرفي النهار بكرة وعشية بينما نحن جلوس في بيت أبي بكر في نحر الظهيرة قال قائل هذا رسول الله في ساعة لم يكن يأتينا فيها قال أبو بكر
استأجر النبي وأبو بكر رجلا من بني الديل ثم من بني عبد بن عدي هاديا خريتا الخريت الماهر بالهداية قد غمس يمين حلف في آل العاص بن وائل وهو على دين كفار قريش فأمناه فدفعا إليه راحلتيهما وواعداه غار ثور بعد ثلاث ليال فأتاهما براحلتيهما صبيحة
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5807
حدیث حاشیہ: باب اور حدیث میں یہ مطابقت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے گھر سر ڈھانک کر تشریف لائے۔ رومال سے سر ڈھانکنے کا یہ رواج عربوں میں آج تک موجود ہے، وہاں کی گرم آب وہوا کے لیے یہ عمل ضروری ہے۔ اس حدیث میں ہجرت سے متعلق کئی امور بیان کئے گئے ہیں جن کی مزید تفصیلات واقعہ ہجرت میں اس حدیث کے ذیل میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5807
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5807
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوپہر کے وقت سر منہ ڈھانپ کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے۔ چادر وغیرہ سے سر منہ ڈھانپنے کا رواج عربوں میں آج بھی موجود ہے۔ وہاں کی گرم آب و ہوا کے وقت ایسا کرنا ضروری بھی ہے، بلاوجہ ایسا کرنا درست نہیں، تاہم کسی ضرورت کے پیش نظر ڈھاٹا باندھنا جائز ہے، مثلاً: سخت گرمی ہو یا سردی ہو یا کوئی ایسی چیز جس کے لیے ایسا کرنا ضروری ہو تو سر منہ ڈھانپنے میں کوئی حرج نہیں۔ (2) اگر خود سے کوئی نقصان دہ چیز دور کرنا مقصود ہو تو جائز ہے بصورت دیگر سر منہ ڈھانپنے سے بچنا چاہیے کیونکہ اس سے شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ اپنے آپ کو اس قسم کے امتحان میں نہ ڈالے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5807
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4083
´سر ڈھانپنے کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں ہم اپنے گھر میں گرمی میں عین دوپہر کے وقت بیٹھے تھے کہ اسی دوران ایک کہنے والے نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سر ڈھانپے ایک ایسے وقت میں تشریف لا رہے ہیں جس میں آپ نہیں آیا کرتے ہیں چنانچہ آپ آئے اور اندر آنے کی اجازت مانگی ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو اجازت دی تو آپ اندر تشریف لائے۔ [سنن ابي داود/كتاب اللباس /حدیث: 4083]
فوائد ومسائل: 1: یہ واقعہ سفر ہجرت کی تیاری کے دنوں کا ہے۔
2: مرد کے لئے مباح ہے کہ موسم یا احوال کی مناسبت سے سر اور چہرہ ڈھانپ لے تو کوئی حرج نہیں، کبھی حیا سے بھی ایسا ہو سکتا ہے۔
3: دوسرے کے گھر میں خواہ وہ کتنا ہی قریبی کیوں نہ ہو اجازت لے کراندر جانا چاہیے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4083
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6079
6079. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: میں نے جب ہوش سنبھالا تو اپنے والدین کو دین اسلام کے تابع پایا۔ ان پر کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا جس میں رسول اللہ ﷺ صبح شام ہمارے پاس تشریف نہ لاتے ہوں۔ ایک مرتبہ ہم سخت دوپہر کے وقت حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے گھر بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی نے کہا: یہ رسول اللہ ﷺ تشریف نہیں لاتے تھے، حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا: آپ ﷺ کا اس وقت تشریف لانا کسی خاص وجہ ہی سے ہو سکتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا: آپ ﷺ کا اس وقت تشریف لانا کسی خاص وجہ ہی سےہو سکتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے مکہ مکرمہ سے باہر چلے جانے کی اجازت مل گئی ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6079]
حدیث حاشیہ: اس کے بعد ہجرت کا واقعہ پیش آیا، حضرت ابو بکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے دو اونٹ خاص اس مقصد کے لئے کھلا پلا کر تیار کر رکھے تھے، رات کے اندھیرے میں آپ دونوں سوار ہو کر ایک غلام فہید کو ساتھ لے کر گھر سے نکل پڑے اور رات کو غار ثور میں قیام فرمایا جہاں تین رات آپ قیام پذیر رہے، یہاں سے بعد میں چل کر مدینہ پہنچے۔ یہ ہجرت کا واقعہ اسلام میں اس قدر اہمیت رکھتا ہے کہ سنہ ہجری اسی سے شروع کیا گیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6079
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2264
2264. نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ (ام المومنین) حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور ابو بکر ؓ نے بنو دیل کے ایک شخص کو، جو راستہ بتانے میں ماہر تھا، بطورگائیڈ (رہن) مقرر کیا، حالانکہ وہ کفارقریش کے دین پر تھا۔ ان دونوں نے ا پنی اونٹنیاں اس کے حوالے کردین اور اس سے یہ وعدہ لیا کہ وہ تین راتوں کے بعد (تیسری رات کی صبح کو اونٹنیاں لے کر) غارثور پرآئے، چنانچہ وہ (حسب وعدہ) تیسری رات کی صبح دونوں سواریاں لے کر وہاں آگیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2264]
حدیث حاشیہ: اس حدیث میں رسول کریم ﷺ کی ہجرت سے متعلق ایک جزوی ذکر ہے کہ آپ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے شب ہجرت میں سفر شروع کرنے سے پہلے ایک ایسے شخص کو بطور راہبر مزدور مقرر فرما لیا تھا جو کفار قریش کے دین پر تھا اور یہ بنودیل میں سے تھا۔ آنحضرت ﷺ اور حضرت صدیق اکبر ؓ کو اس پر اعتماد تھا اس لیے اپنی ہر دو سواریوں کو اس کے حوالہ کرتے ہوئے اس سے وعدہ لے لیا کہ وہ تین راتیں گزر جانے کے بعد دونوں سواریوں کو لے کر غار ثور پر چلا آئے۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا۔ اور آپ ہر دو نے سفر شروع کیا۔ یہ شخص بطور ایک ماہر راہبر کے تھا اور عامر بن فہیرہ کو ہر دو سواریوں کے لیے نگران کے طور پر مقرر کیا تھا۔ اگلے باب میں مذکور ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس شخص کو اس شرط پر مزدور مقرر کیا کہ وہ اپنا مقرر کام تین راتیں گزرنے کے بعد انجام دے۔ اسی طرح اگر ایک ماہ بعد یا سال بعد کی شرط پر کسی کو مزدور رکھا جائے اور ہر دو فریق راضی ہوں تو ایسا معاملہ کرنا درست ہے۔ اس حدیث سے بھی ضرورت کے وقت کسی معتمد غیر مسلم کو بطور مزدور رکھ لینا جائز ثابت ہوا۔ و هذا هو المراد الحمد للہ کہ کعبہ شریف میں غار ثور کی طرف بیٹھے ہوئے یہ حدیث اور اس کی یہ تشریح حوالہ قلم کر رہا ہوں، چودہ سو سال گزررہے ہیں مگر حیات طیبہ کا ایک ایک ورق ہر طرح سے اتنامحفوظ ہے کہ اس سے زیادہ ممکن نہیں۔ یہی وہ غار ثور ہے جس کو آج جبل الثور کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اسی میں آنحضرت ﷺ نے اپنے یار غار حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے ہمراہ تین راتوں تک قیام فرمایا تھا۔ صلی اللہ علیه وسلم۔ اس باب کے ذیل میں حضرت مولانا وحیدالزماں مرحوم کا تشریحی نوٹ یہ ہے کہ اس باب کے لانے سے حضرت امام بخارى ؒ کی غرض یہ ہے کہ اجارہ میں یہ امر ضروری نہیں کہ جس وقت سے اجارہ شروع ہو اسی وقت سے کام شروع کرے۔ اسماعیلی نے اعتراض کیا ہے کہ باب کی حدیث سے یہ نہیں نکلتا کہ ابوبکر صدیق ؓ اور آنحضرت ﷺ نے اس شخص سے یہ شرط لگائی تھی کہ وہ تین دن کے بعد اپنا کام شروع کرے، مگر یہ اعتراض صحیح نہیں کیوں کہ حدیث مذکورہ میں باب کی مطابقت واضح طور پر موجود ہے۔ بہ ثبوت اجارہ صاحب المہذب لکھتے ہیں: فقد ثبت أن رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم و أبابکر استأجر عبداللہ بن الأریقط الدیلي و کان حزینا و هو أخبر بمسالك الصحراء و الوهاد العالم بجغرافیة بلاد العرب علی الطبیعة لیکون هادیا و مرشدا لهما في هجرتهما من مکة إلی المدینة۔ تحقیق ثابت ہو گیا کہ رسول کریم ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ نے عبداللہ بن اریقط دیلی کو مزدور بنایا۔ وہ صحرائی راستے کا بہت بڑا ماہر تھا۔ و ہ بلاد عرب کے طبعی جغرافیہ سے پورے طور پر واقف تھا۔ اس کو اس لیے مزدور رکھا تھا تاکہ وہ بوقت ہجرت مکہ سے مدینہ تک آنحضرت ﷺ اور حضرت ا بوبکر صدیق ؓ کے لیے رہنمائی کا فر ض انجام دے۔ جس سے غیر مسلم کو جس پر اعتماد ہو مزدور بنا کر رکھنا ثابت ہوا۔ آج 29ذی الحجہ1389ھ کو بوقت مغرب مقام ابراہیم کے پاس بیٹھ کر یہ نوٹ لکھا گیا۔ والحمد للہ علی ذلك اور2صفر یوم جمعہ کو مسجد نبوی جنت کی کیاری میں بیٹھ کر اس پر نظر ثانی کی گی۔ والحمد للہ علی ذلك۔ غار ثور پر حاضری: اس حدیث کو لکھتے ہوئے دل میں خیال آیا تھا کہ مکۃ المکرمہ میں موجود ہونے پر مناسب ہوگا کہ ہجرت نبوی کی اولین منزل یعنی غار ثور کو خو داپنی آنکھوں سے دیکھ کر عبرت حاصل کی جائے۔ اگرچہ یہاں جانا نہ کوئی رکن حج ہے نہ اس کے لیے کوئی شرعی حکم ہے مگر سیروا في الأرض کے تحت بتاریخ 16محرم 1390ھ دیگر رفقاءحجاج کرام کے ہمراہ غار ثور پر جانے کا عزم کرلیا۔ حرم شریف سے کئی میل کا فاصلہ ہے اور وہاں جانے پر چاروں طرف پہاڑوں کی خوفناک مناظر سامنے آتے ہیں۔ چنانچہ ہندوستان ٹائم کے مطابق اندازا دن کے گیارہ بجے ہمارا قافلہ دامن کوہ ثور میں پہنچ گیا۔ پہاڑ کی چوٹی پر نظر ڈالی گئی تو ہمت نے جواب دے دیا۔ مگر رفقاءکرام کے عزم کو دیکھ کر چڑھائی شروع کی گئی۔ حال یہ تھا کہ جس قدر اوپر چڑھتے جاتے وہ مقام دور ہی نظر آتا جا رہا تھا۔ آخر بیٹھ بیٹھ کر بصد مشکل تقریباً گھنٹہ بھر کی محنت کے بعد غار ثور تک رسائی ہو سکی۔ یہاں اس قسم کے کئی غار ہیں جن کے اوپر عظیم پتھروں کی چھت قدرتی طور پر بنی ہوئی ہیں۔ ایک غار پر غار ثور لکھا ہوا تھا یہی وہ غار ثور ہے جس کے اندر بیٹھ کر رسول اللہ ﷺ نے اپنے یار غار حضرت صدیق اکبر ؓ سے فرمایا تھا ما ظنكَ باثنین اللہ ثالثهُمَا جب صدیق اکبر ؓ کو دشمنوں کا خوف محسوس ہوا تو آنحضرت ﷺ نے آپ کو مذکورہ بالا لفظوں میں تسلی دلائی تھی کہ اے ابوبکر! تمہارا ان دو کے بارے میں کیا گمان ہے جن کے ساتھ تیسرا خود اللہ پاک ہے۔ (اللہ پاک کے خود ساتھ ہونے سے اس کی مدد و نصرت مراد ہے، جب کہ وہ خو داپنی ذات سے عرش عظیم پر ہے) مطلب یہ تھا کہ خود اللہ ہمارا محافظ و ناصر ہے۔ پھر ہم کو دشمنوں کی طرف سے کیا غم ہو سکتا ہے اور اللہ پاک نے اپنے ہر دو محبوب بندوں کو بچا لیا۔ غار کے اندر دو آدمیوں کے بیٹھنے لیٹے کی جگہ ہے ایک طرف سے بیٹھ کر داخل ہو ا جاسکتا ہے میں اور ہمارے رفیق اندر داخل ہوئے اور سارا منظر دیکھا۔ اور بار بار قدرت الٰہی یاد آتی رہی۔ اور تاریخ اسلام کے عظیم واقعہ کی یاد تازہ ہوتی رہی۔ چند الفاظ یاد داشت غار کے اندر ہی بیٹھ کر حوالہ قلم کئے گئے۔ جی چاہتا ہے کہ یہا ں کافی دیر ٹھہرا جائے کیوں کہ منظر بہت ہی روح افزا تھا۔ مگر نیچے گاڑی والا منتظر تھا۔ اس لیے دوستوں کے ساتھ واپسی کا مرحلہ طے کیا گیا۔ غار اونچائی اور راستہ پر خطر ہونے کے لحاظ سے اس قابل نہیں ہے کہ ہر شخص وہاں تک جاسکے۔ چڑھنا بھی خطرناک اور اترنا اس سے زیادہ خطرناک ہے، چنانچہ اترنے میں دو گنا وقت صرف ہوا اور نماز ظہر کا وقت بھی اترتے اترتے ہی ہوگیا۔ بصد مشکل نیچے اتر کر گاڑی پکڑی اور حرم شریف میں ایسے وقت حاضری ہوئی کہ ظہر کی نماز ہو چکی تھی مگر الحمد للہ کہ زندگی کی ایک حسرت تھی کہ رسول کریم ﷺ کی ہجرت کی اولین منزل کو دیکھا جائے سو اللہ پاک نے یہ موقع نصیب فرمایا۔ و الحمد للہ أولا و آخرا و الصلوة و السلام علی رسول اللہ و علی صاحبه الصدیق رضي اللہ عنه۔ (محترم حاجی اللہ بخش صاحب بیجا پوری اور محترم حاجی منشی حقیق اللہ صاحب ناظر مدرسہ دار الہدی یوسف پور، یوپی ساتھ تھے جن کی ہمت سے مجھ جیسے ضعیف کمزور نے بھی اس منزل تک رسائی حاصل کی۔ جزاهم اللہ)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2264
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2138
2138. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: کوئی دن ایسانہیں گزرتاتھا کہ نبی ﷺ دن کے وقت صبح و شام کے کسی حصے میں حضرت ابو بکر ؓ کے گھرنہ آتے ہوں۔ اور جب آپ کو مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دی گئی تو آپ اچانک ظہر کے وقت تشریف لائے۔ جب حضرت ابو بکر ؓ کو یہ خبردی گئی تو انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ کسی ناگہانی ضرورت کے پیش نظر ہی اس وقت ہمارےہاں تشریف لائے ہیں۔ جب آپ گھر میں حضرت ابو بکر ؓ کے پاس آئے۔ تو ان سے فرمایا: ”افراد خانہ میں سے اس وقت جو آپ کے پاس ہیں انھیں الگ کردو۔“ انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! صرف میری دو بیٹیاں عائشہ ؓ اور اسماء ؓ ہیں۔ آپ نے فرمایا: ” آیا تمھیں معلوم ہے کہ مجھے ہجرت کرنے کی اجازت مل چکی ہے؟“ حضرت ابو بکر ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میں بھی آپ کے ساتھ رہوں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:2138]
حدیث حاشیہ: حدیث سے نکلا کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے اونٹنی مول لے کر ان ہی کے پاس رکھوا دی، تو باب کا یہ مطلب کہ کوئی چیز خرید کرے بائع کے پاس رکھوا دینا اس سے ثابت ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2138
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2138
2138. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: کوئی دن ایسانہیں گزرتاتھا کہ نبی ﷺ دن کے وقت صبح و شام کے کسی حصے میں حضرت ابو بکر ؓ کے گھرنہ آتے ہوں۔ اور جب آپ کو مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دی گئی تو آپ اچانک ظہر کے وقت تشریف لائے۔ جب حضرت ابو بکر ؓ کو یہ خبردی گئی تو انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ کسی ناگہانی ضرورت کے پیش نظر ہی اس وقت ہمارےہاں تشریف لائے ہیں۔ جب آپ گھر میں حضرت ابو بکر ؓ کے پاس آئے۔ تو ان سے فرمایا: ”افراد خانہ میں سے اس وقت جو آپ کے پاس ہیں انھیں الگ کردو۔“ انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! صرف میری دو بیٹیاں عائشہ ؓ اور اسماء ؓ ہیں۔ آپ نے فرمایا: ” آیا تمھیں معلوم ہے کہ مجھے ہجرت کرنے کی اجازت مل چکی ہے؟“ حضرت ابو بکر ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میں بھی آپ کے ساتھ رہوں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:2138]
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ نے اس طویل حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ کوئی چیز یا جانور خرید کر کے فروخت کرنے والے کے پاس رکھنا جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ سے اونٹنی خرید کر انھی کے پاس رہنے دی۔ ایسا کرنے سے بیع مکمل ہے اور مشتری کو اس میں تصرف کرنے کا پورا پورا حق مل جاتا ہے۔ اگر ایسے حالات میں فروخت کردہ چیز تلف ہوجائے تو اس کا نقصان مشتری کو برداشت کرنا ہوگا۔ اس میں فروخت کرنے والا ضامن نہیں ہوگا الایہ کہ وہ کسی کوتاہی کا مرتکب ہو۔ والله أعلم. (2) اجازت لے کر کسی ناگزیر ضرورت کے پیش نظر کسی کے گھر دوپہر کے وقت جاناجائز ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2138
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2263
2263. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ اور حضرت ابو بکر ؓ نے ہجرت کا راستہ بتلانے کے لیے ایک ماہر شخص کو رکھا جو بنو دیل سے تھا۔ یہ بنو عہد بن عدی کا ایک خاندان ہے۔ خریت راستہ بتانے میں ماہر شخص کو کہتے ہیں۔۔۔ شخص عاص بن وائل کے خاندان سے معاہدے میں بڑا مضبوط شریک رہا تھا اور کفار قریش کے دین پر تھا۔ دونوں حضرات نے اس پر اعتماد کیا اور اپنی دونوں سواریاں اس کے حوالے کردیں اور اس سے تین دن کے بعد غارثور میں آنے کا وعدہ لیا، چنانچہ وہ تیسری رات کی صبح کو دونوں سواریاں لے کر ان کے پاس آیا تو آپ دونوں روانہ ہوئے۔ ان کے ساتھ عامر بن فہیرہ بھی چلے اور وہ رہن بھی جو قبیلہ دیل سے تھا۔ وہ انھیں مکے کے زیریں علاقے، یعنی ساحل سمندر کے ر استے پر لے گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2263]
حدیث حاشیہ: امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے بوقت ضرورت مشرک کو مزدور رکھنے کا جواز ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور سیدنا ابو بکر ؓ کو جب کوئی مسلمان رہنما نہ ملا تو انھوں نے مشرک کو بطور رہبر ساتھ رکھا۔ اسی طرح خیبر کی زمین کو آباد رکھنے کےلیے جب ماہر مسلمان نہ ملے تو یہود خیبر سے معاملہ طے کیا گیا۔ امام بخاری ؒ کے ترجمۃ الباب سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرک سے بلا ضرورت مزدوری نہیں کروانی چاہیے جبکہ ذکر کردہ احادیث میں ایسی کوئی بات نہیں ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر چہ ان احادیث میں مشرک سے مزدوری نہ کرانے کی صراحت نہیں ہے لیکن شاید امام بخاری ؒ کے پیش نظر ایک دوسری حدیث ہے جس میں ہے کہ ہم مشرک سے تعاون نہیں لیتے، اس طرح انھوں نے دونوں احادیث میں تطبیق کی صورت پیدا کی ہے کہ بوقت ضرورت مشرک کو اجیر بنایا جاسکتا ہے، تاہم مسلمان کو ترجیح دی جائے۔ لیکن عام فقہاء کا موقف ہے کہ مشرک سے ہر وقت مزدوری کرائی جاسکتی ہے کیونکہ اس سے مزدوری لینے میں اس کی ذلت ہے، البتہ مسلمان کو چاہیے کہ وہ کسی مشرک کا اجیر نہ بنے کیونکہ اس میں مسلمان کی توہین ہے۔ (فتح الباري: 559/4) مقام غور ہے کہ اس وقت مشرکین بھی اپنے عہد کی کس قدر پاسداری کرتے تھے کہ دشمن ہونے کے باوجود اس شخص نے کسی کو نہیں بتایا،حالانکہ کفار قریش نے رسول اللہ ﷺ کی گرفتاری پر بھاری انعام مقرر کررکھا تھا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2263
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2264
2264. نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ (ام المومنین) حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور ابو بکر ؓ نے بنو دیل کے ایک شخص کو، جو راستہ بتانے میں ماہر تھا، بطورگائیڈ (رہن) مقرر کیا، حالانکہ وہ کفارقریش کے دین پر تھا۔ ان دونوں نے ا پنی اونٹنیاں اس کے حوالے کردین اور اس سے یہ وعدہ لیا کہ وہ تین راتوں کے بعد (تیسری رات کی صبح کو اونٹنیاں لے کر) غارثور پرآئے، چنانچہ وہ (حسب وعدہ) تیسری رات کی صبح دونوں سواریاں لے کر وہاں آگیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2264]
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ مزدور کے ساتھ مزدوری کا معاملہ طے کرنا اگرچہ کام کا وقت شروع ہونے سے پہلے ہے مگر اجرت اس وقت سے شروع ہوگی جب سے وہ طے شدہ کام کا آغاز کرے گا، اس سے امام بخاری نے اس وہم کو دور کیا ہے کہ عمل شروع کرنے سے مزدور کو پابند کیا گیا ہے، حالانکہ اس پابندی کی کوئی اجرت نہیں، شاید بغیر اجرت یہ معاملہ کرنا ممنوع ہو۔ امام موصوف نے اس روایت سے ثابت کیا ہے کہ مزدوری کا معاملہ پہلے طے کرنا جائز ہے اور اسے بلا معاوضہ کام کا پابند کرنا محض ایک وعدہ ہے عمل نہیں۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ طے شدہ معاوضہ کام اور کام کےلیے پابند کرنا دونوں کے عوض ہو۔ یہ بھی واضح ہے کہ اسے تو صرف راستہ بتانے کےلیے رکھا گیا تھا جس کا کام معاملہ طے ہونے کے تین دن بعد شروع ہوا۔ (2) امام بخاری ؒ نے عنوان میں مہینہ اور سال کی مدت کو اس پر قیاس کرکے ثابت کیا، یعنی زیادہ مدت کو تھوڑی مدت پر قیاس کیا کیونکہ کوئی مدت افضل نہیں ہے، نیز اونٹنیوں کے چرانے پر عامر بن فہیرہ مقرر تھا۔ (فتح الباري: 560/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2264
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6079
6079. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: میں نے جب ہوش سنبھالا تو اپنے والدین کو دین اسلام کے تابع پایا۔ ان پر کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا جس میں رسول اللہ ﷺ صبح شام ہمارے پاس تشریف نہ لاتے ہوں۔ ایک مرتبہ ہم سخت دوپہر کے وقت حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے گھر بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی نے کہا: یہ رسول اللہ ﷺ تشریف نہیں لاتے تھے، حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا: آپ ﷺ کا اس وقت تشریف لانا کسی خاص وجہ ہی سے ہو سکتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا: آپ ﷺ کا اس وقت تشریف لانا کسی خاص وجہ ہی سےہو سکتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے مکہ مکرمہ سے باہر چلے جانے کی اجازت مل گئی ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6079]
حدیث حاشیہ: (1) مذکورہ حدیث ”حدیث ہجرت“ کے نام سے مشہور ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سے ثابت کیا ہے کہ کسی خاص مقصد کے لیے ہر روز یا صبح شام ملاقات کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس سلسلے میں جو حدیث پیش کی جاتی ہے کہ دیر سے ملاقات کرو اس سے محبت میں اضافہ ہوتا ہے، یہ صحیح نہیں۔ (2) حافظ ابن حجر نے اس کے تمام طرق کو ایک "جز" میں جمع کیا ہے، فرماتے ہیں: اگر اسے صحیح بھی تسلیم کر لیا جائے تو ان دونوں احادیث میں کوئی تعارض نہیں کیونکہ ہر حدیث کا ایک الگ مقصد ہے اور معارض حدیث کے عموم کو خاص کیا جا سکتا ہے کہ ایک مہربان اور مخلص دوست کی زیارت اس کی محبت کی وجہ سے ضرورت کے مطابق ہر روز کی جا سکتی ہے کیونکہ دونوں کے مل بیٹھنے سے کسی نفع کی امید جا سکتی ہے لیکن اگر کسی شخص سے کوئی خاص محبت نہیں ہے تو کثرت زیارت بعض اوقات بغض وعناد کا باعث ہو سکتی ہے، پھر قطع تعلقی کا اندیشہ بھی باقی رہتا ہے مہربان دوست سے بار بار ملاقات کرنا محبت والفت میں اضافے کا باعث ہے۔ واللہ أعلم (فتح الباري: 613/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6079