(مرفوع) وعن الزهري، قال: اخبرني سنان بن ابي سنان الدؤلي، ان ابا هريرة رضي الله عنه، قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" لا عدوى"، فقام اعرابي فقال: ارايت الإبل تكون في الرمال امثال الظباء، فياتيها البعير الاجرب فتجرب، قال النبي صلى الله عليه وسلم" فمن اعدى الاول".(مرفوع) وَعَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سِنَانُ بْنُ أَبِي سِنَانٍ الدُّؤَلِيُّ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا عَدْوَى"، فَقَامَ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ: أَرَأَيْتَ الْإِبِلَ تَكُونُ فِي الرِّمَالِ أَمْثَالَ الظِّبَاءِ، فَيَأْتِيهَا الْبَعِيرُ الْأَجْرَبُ فَتَجْرَبُ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" فَمَنْ أَعْدَى الْأَوَّلَ".
اور زہری سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے سنان بن ابی سنان الدؤلی نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چھوت کوئی چیز نہیں ہے۔ اس پر ایک دیہاتی نے کھڑے ہو کر پوچھا آپ نے دیکھا ہو گا کہ ایک اونٹ ریگستان میں ہرن جیسا صاف رہتا ہے لیکن جب وہی ایک خارش والے اونٹ کے پاس آ جاتا ہے تو اسے بھی خارش ہو جاتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن پہلے اونٹ کو کس نے خارش لگائی تھی۔
Abu Huraira also said: Allah's Apostle said, "No 'Adha." A bedouin got up and said, "Don't you see how camels on the sand look like deer but when a mangy camel mixes with them, they all get infected with mange?" On that the Prophet said, "Then who conveyed the (mange) disease to the first camel?"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 71, Number 667
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5775
حدیث حاشیہ: یہی اس کا ثبوت ہے کہ چھوت کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اگر کہیں کہ اس کو کسی اور اونٹ سے خارش لگی تھی تو اس اونٹ کو کس سے لگی۔ آخر میں تسلسل لازم آئے گا جو محال ہے یا یہ کہنا ہوگا کہ ایک اونٹ کو خود بخود خارش پیدا ہوئی تھی آپ نے ایسی دلیل عقلی منطقی بیان فرمائی کہ اطباء کا لنگڑا ٹٹو اس کے سامنے چل ہی نہیں سکتا۔ اب جو یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ بعض بیماریاں جیسے طاعون ہیضہ وغیرہ ایک بستی سے دوسری بستی میں پھیلتی ہیں یا ایک شخص کے بعد دوسرے کو ہو جاتی ہیں تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بیماری منتقل ہوئی ہے بلکہ بحکم الٰہی اس دوسری بستی یا شخص میں بھی پیدا ہوئی اور اس کی دلیل یہ ہے کہ ایک ہی گھر میں بعض طاعون سے مرتے ہیں بعض نہیں مرتے اور ایک ہی شفا خانہ میں ڈاکٹر نرس وغیرہ طاعون والوں کا علاج کرتے ہیں پھر بعض ڈاکٹروں نرسوں کو طاعون ہو جاتا ہے بعض کو نہیں ہوتا اگر چھوت لگنا ہوتا تو سب ہی کو ہو جاتا لہٰذا وہی حق ہے جو مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مگر وہم کی دوا افلاطون کے پاس بھی نہیں ہے (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5775
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5775
حدیث حاشیہ: (1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دیہاتی کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے سمجھایا کہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے کیونکہ مؤثر حقیقی وہی ہے۔ یہ بات سرے سے غلط ہے کہ ایک خارش زدہ اونٹ نے باقی اونٹوں کو خارشی بنا دیا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو تمام اونٹ خارش زدہ ہو جاتے، حالانکہ گلے میں کتنے ہی اونٹ ہوتے ہیں جو اس مرض سے محفوظ رہتے ہیں۔ (2) اگر کہا جائے کہ پہلے اونٹ کو بھی کسی دوسرے اونٹ سے خارش لگی تھی تو پھر سوال ہو گا کہ اس اونٹ کو کس سے لگی؟ بالآخر تسلسل لازم آئے گا جو محال ہے، یا یہ کہنا ہو گا کہ ایک اونٹ کو خود بخود خارش پیدا ہوئی تھی اور اسے پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ تھا۔ (3) بیماری کے اسباب سے پرہیز کرنا چاہیے جیسا کہ آپ نے بیمار اونٹ کو صحت مند اونٹ کے ساتھ ملانے کی ممانعت فرمائی ہے۔ اب جو دیکھنے میں آتا ہے کہ طاعون اور ہیضے جیسی بیماریاں ایک شہر سے دوسرے شہر میں پھیلتی ہیں یا ایک شخص سے دوسرے کو لگ جاتی ہیں تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بیماری بذات خود متعدی ہے اور دوسرے کو منتقل ہوئی ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے دوسرے شہر یا دوسرے شخص میں بھی پیدا ہوئی ہے، چنانچہ دیکھا جاتا ہے کہ ایک گھر میں کچھ لوگ طاعون یا ہیضے کی بیماری سے لقمہ اجل بن جاتے اور کچھ محفوظ رہتے ہیں اور ایک ہی ہسپتال میں ڈاکٹر حضرات طاعون اور ہیضے کے مریضوں کا علاج کرتے ہیں، انہیں کچھ نہیں ہوتا، اگر بیماری بذات خود متعدی ہوتی تو سب اس سے متاثر ہوتے، لہذا وہی حق ہے جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ کوئی بیماری بذات خود متعدی نہیں ہوتی، البتہ ایسے ذرائع اور اسباب سے ضرور پرہیز کرنا چاہیے جو اس بیماری کا باعث ہوں۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5775