ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو سریج بن یونس ابوحارث نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے مروان بن شجاع نے بیان کیا، ان سے سالم افطس نے بیان کیا، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شفاء تین چیزوں میں ہے پچھنا لگوانے میں، شہد پینے میں اور آگ سے داغنے میں مگر میں اپنی امت کو آگ سے داغنے سے منع کرتا ہوں۔
Narrated Ibn `Abbas: The Prophet said, "Healing is in three things: cupping, a gulp of honey or cauterization, (branding with fire) but I forbid my followers to use cauterization (branding with fire).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 71, Number 585
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5681
حدیث حاشیہ: یہ ممانعت تنزیہی ہے یعنی بے ضرورت شدید داغ نہ دینا چاہیئے کیونکہ اس میں مریض کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ دوسرے آگ کا استعمال ہے اور آگ سے عذاب دینا منع آیا ہے۔ حقیقت میں داغ دینا آخری علاج ہے۔ جب کسی دعا سے فائدہ نہ ہو اس وقت داغ دیں جیسے دوسری حدیث میں ہے کہ آخری دوا داغ دینا ہے۔ کہتے ہیں کہ طاعون کی بیماری میں بھی داغ دینا بے حد مفید ہے جہاں دانہ نمودار ہو اس کو فوراً آگ سے جلا دینا چاہیئے۔ عرب میں اکثر یہ علاج مروج رہا ہے۔ شہد دوا اور غذا دونوں کے لیے کام دیتا ہے۔ بلغم کو نکالتا ہے اور اس کا استعمال امراض باردہ میں بہت مفید ہے۔ خالص شہد آنکھوں میں لگانا بھی بہت نفع بخش ہے۔ خصوصاً سوتے وقت اسی طرح اس میں سینکڑوں فائدہ ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5681
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5681
حدیث حاشیہ: (1) شفا کا حصول دوسری چیزوں سے بھی ممکن ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور خاص تین چیزوں کا ذکر کر کے اصول علاج کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جو خونی امراض ہیں وہ تو اخراج خون سے درست ہو سکتی ہیں۔ اس کے لیے سینگی لگوانا مفید ہے۔ فصد کے ذریعے سے بھی خون نکالا جا سکتا ہے لیکن عربوں میں اس کا عام رواج نہیں تھا۔ صفراوی امراض کا علاج شہد سے ممکن ہے کہ شہد مُسہل ہے۔ اس سے صفراوی مادہ خارج ہو جاتا ہے۔ اگر کسی طریقے سے فضول مواد خارج نہ ہو تو وہاں آگ سے داغنا مفید ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے کیونکہ اس میں مریض کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ حقیقت میں داغ دینا ایک آخری علاج ہے، جب کوئی دوا اثر نہ کرتی ہو تو اسے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ (فتح الباری: 172/10)(2) جب تک ممکن ہو ہلکے پھلکے انداز سے علاج کرنا چاہیے، یعنی پہلے غذا سے، پھر ادویات سے، اس کے بعد سینگی لگوانے سے، اس کے بعد رگ کاٹنے سے، آخر میں داغ دینے سے، بہرحال داغ دینا بھی علاج کا طریقہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو داغ دیا تھا لیکن یہ اس صورت میں ہے جب کوئی دوسرا طریقہ کارگر نہ ہو۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5681
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:183
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نماز چٹائی یا صف وغیرہ پر پڑھنی چاہیے، اگر کہیں میسر نہ ہوں تو زمین پر بھی درست ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کس قدر سنت کی پیروی کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز تہجد کا اہتمام کرتے تو صحابہ کرام بھی اس کا اہتمام کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تاہم ان کو سمجھاتے کہ میانہ روی سے چلو، اپنی طاقت کے مطابق نفلی عبادت کرو، ایسا نہ ہو کہ تم تھک جاؤ عمل خواہ چھوٹا ہی کیوں نہ ہو لیکن اس پر دوام ہونا چاہیے۔ چند دن انسان بہت زیادہ کام کرے اور پھر اس کو چھوڑ دے، ایسے کام کا کوئی فائدہ نہیں۔ اسلام میانہ روی کا درس دیتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد نماز تراویح کی باجماعت ادا کرنے کا خطرہ نہیں تھا اس لیے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے باجماعت نماز تراویح ادا کرنے کا حکم دیا جو آج تک جاری ہے۔ والحمد للہ۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 183