لقوله تعالى: {لا جناح عليكم إن طلقتم النساء ما لم تمسوهن} إلى قوله: {إن الله بما تعملون بصير} وقوله: {وللمطلقات متاع بالمعروف حقا على المتقين كذلك يبين الله لكم آياته لعلكم تعقلون} ولم يذكر النبي صلى الله عليه وسلم في الملاعنة متعة حين طلقها زوجها.لِقَوْلِهِ تَعَالَى: {لاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ} إِلَى قَوْلِهِ: {إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ} وَقَوْلِهِ: {وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ} وَلَمْ يَذْكُرِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمُلاَعَنَةِ مُتْعَةً حِينَ طَلَّقَهَا زَوْجُهَا.
کیونکہ اللہ تعالیٰ نے (سورۃ البقرہ میں) فرمایا «لا جناح عليكم إن طلقتم النساء ما لم تمسوهن» یعنی ”تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم ان بیویوں کو جنہیں تم نے نہ ہاتھ لگایا ہو اور نہ ان کے لیے مہر مقرر کیا ہو طلاق دے دو تو ان کو کچھ فائدہ پہنچاؤ۔“ ارشاد «إن الله بما تعملون بصير» تک۔ اور اللہ تعالیٰ نے اسی سورت میں فرمایا طلاق والی عورتوں کے لیے دستور کے موافق دینا پرہیزگاروں پر واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح تمہارے لیے کھول کر اپنے احکام بیان کرتا ہے۔ شاید کہ تم سمجھو۔“ اور لعان کے موقع پر، جب عورت کے شوہر نے اسے طلاق دی تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے متاع کا ذکر نہیں فرمایا تھا۔
حدثنا قتيبة بن سعيد حدثنا سفيان عن عمرو عن سعيد بن جبير عن ابن عمر ان النبي صلى الله عليه وسلم قال للمتلاعنين: «حسابكما على الله، احدكما كاذب، لا سبيل لك عليها» . قال يا رسول الله مالي. قال: «لا مال لك، إن كنت صدقت عليها، فهو بما استحللت من فرجها، وإن كنت كذبت عليها، فذاك ابعد وابعد لك منها» .حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرٍو عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِلْمُتَلاَعِنَيْنِ: «حِسَابُكُمَا عَلَى اللَّهِ، أَحَدُكُمَا كَاذِبٌ، لاَ سَبِيلَ لَكَ عَلَيْهَا» . قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَالِي. قَالَ: «لاَ مَالَ لَكَ، إِنْ كُنْتَ صَدَقْتَ عَلَيْهَا، فَهْوَ بِمَا اسْتَحْلَلْتَ مِنْ فَرْجِهَا، وَإِنْ كُنْتَ كَذَبْتَ عَلَيْهَا، فَذَاكَ أَبْعَدُ وَأَبْعَدُ لَكَ مِنْهَا» .
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعان کرنے والے میاں بیوی سے فرمایا کہ تمہارا حساب اللہ کے یہاں ہو گا۔ تم میں سے ایک تو یقیناً جھوٹا ہے۔ تمہارے یعنی (شوہر کے) لیے اسے (بیوی کو) حاصل کرنے کا اب کوئی راستہ نہیں ہے۔ شوہر نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرا مال؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب وہ تمہارا مال نہیں رہا۔ اگر تم نے اس کے متعلق سچ کہا تھا تو وہ اس کے بدلہ میں ہے کہ تم نے اس کی شرمگاہ اپنے لیے حلال کی تھی اور اگر تم نے اس پر جھوٹی تہمت لگائی تھی تب تو اور زیادہ تجھ کو کچھ نہ ملنا چاہیئے۔
Narrated Ibn `Umar: The Prophet said to those who were involved in a case of Lian, "Your accounts are with Allah. One of you two is a liar. You (husband) have right on her (wife)." The husband said, "My money, O Allah's Apostle!" The Prophet said, "You are not entitled to take back any money. If you have told the truth, the Mahr that you paid, was for having sexual relations with her lawfully; and if you are a liar, then you are less entitled to get it back."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 63, Number 262
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5350
حدیث حاشیہ: متعہ سے مراد فائدہ پہنچانا اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ حنفیہ کا قول ہے کہ یہ متعہ اس عورت کے لیے واجب ہے جس کا مہر مقرر نہ ہوا ہو اور صحبت سے پہلے اس کو طلاق دی جائے۔ بعضوں نے کہا کہ طلاق والی عورت کو متعہ دینا چاہیئے۔ بعضوں نے کہا کہ کسی کے لیے متعہ دینا واجب نہیں۔ امام بخاری کا میلان قول اول کی طرف معلوم ہوتا ہے جیسا کہ حنفیہ کا فتویٰ ہے کہ ایسی عورت کو بھی ضرور کچھ نہ کچھ دینا چاہیئے جو مہر کے علاوہ ہو۔ بہر حال عورت سلوک کی مستحق ہے۔ الحمد للہ کہ کتاب النکاح و الطلاق آج بتاریخ 4 ذی الحجہ سنہ۔ 1394ھ کو ختم کی گئی۔ کوئی قلمی لغزش ہو گئی ہو اس کے لیے اللہ سے معافی چاہتا ہوں اور علماء کاملین سے اصلاح کا طلب گار ہوں۔ کتاب النکاح کو ختم کرتے ہوئے بعض الفاظ جو کئی جگہ وارد ہوئے ہیں۔ ان کی مزید وضاحت کرنی مناسب ہے جو درج ذیل ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5350
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5350
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ لعان کرنے والی عورت کے لیے کوئی متعہ نہیں۔ اگر متعہ دیا ہوتا تو اس کا ضرور ذکر ہوتا۔ (2) بعض روایات میں طلاق دینے کا ذکر ہے۔ تو یہ طلاق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے نہ تھی بلکہ یہ زائد کام شوہر کی طرف سے اظہار نفرت کے لیے بطور تاکید صادر ہوا تھا۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5350