صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: طلاق کے مسائل کا بیان
The Book of Divorce
24. بَابُ الإِشَارَةِ فِي الطَّلاَقِ وَالأُمُورِ:
24. باب: اگر طلاق وغیرہ اشارے سے دے مثلاً کوئی گونگا ہو تو کیا حکم ہے؟
(24) Chapter. Using gestures to express the decision of divorcing and other matters.
حدیث نمبر: 5295
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) وقال الاويسي: حدثنا إبراهيم بن سعد، عن شعبة بن الحجاج، عن هشام بن زيد، عن انس بن مالك، قال:" عدا يهودي في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم على جارية، فاخذ اوضاحا كانت عليها، ورضخ راسها، فاتى بها اهلها رسول الله صلى الله عليه وسلم وهي في آخر رمق وقد اصمتت، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: من قتلك؟ فلان لغير الذي قتلها، فاشارت براسها ان لا، قال: فقال لرجل آخر غير الذي قتلها، فاشارت ان لا، فقال: ففلان لقاتلها، فاشارت ان نعم، فامر به رسول الله صلى الله عليه وسلم، فرضخ راسه بين حجرين".(مرفوع) وَقَالَ الْأُوَيْسِيُّ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ شُعْبَةَ بْنِ الْحَجَّاجِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:" عَدَا يَهُودِيٌّ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى جَارِيَةٍ، فَأَخَذَ أَوْضَاحًا كَانَتْ عَلَيْهَا، وَرَضَخَ رَأْسَهَا، فَأَتَى بِهَا أَهْلُهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ فِي آخِرِ رَمَقٍ وَقَدْ أُصْمِتَتْ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ قَتَلَكِ؟ فُلَانٌ لِغَيْرِ الَّذِي قَتَلَهَا، فَأَشَارَتْ بِرَأْسِهَا أَنْ لَا، قَالَ: فَقَالَ لِرَجُلٍ آخَرَ غَيْرِ الَّذِي قَتَلَهَا، فَأَشَارَتْ أَنْ لَا، فَقَالَ: فَفُلَانٌ لِقَاتِلِهَا، فَأَشَارَتْ أَنْ نَعَمْ، فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرُضِخَ رَأْسُهُ بَيْنَ حَجَرَيْنِ".
اور اویسی نے بیان کیا، ان سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے شعبہ بن حجاج نے، ان سے ہشام بن یزید نے، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک یہودی نے ایک لڑکی پر ظلم کیا، اس کے چاندی کے زیورات جو وہ پہنے ہوئے تھی چھین لیے اور اس کا سر کچل دیا۔ لڑکی کے گھر والے اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے تو اس کی زندگی کی بس آخری گھڑی باقی تھی اور وہ بول نہیں سکتی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تمہیں کس نے مارا ہے؟ فلاں نے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واقعہ سے غیر متعلق آدمی کا نام لیا۔ اس لیے اس نے اپنے سر کے اشارہ سے کہا کہ نہیں۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسرے شخص کا نام لیا اور وہ بھی اس واقعہ سے غیر متعلق تھا تو لڑکی نے سر کے اشارہ سے کہا کہ نہیں، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ فلاں نے تمہیں مارا ہے؟ تو اس لڑکی نے سر کے اشارہ سے ہاں کہا۔

وضاحت:
باب اور حدیث میں مناسبت جاننےکے لیے آپ صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5293 کے فوائد و مسائل از الشیخ محمد حسین میمن دیکھیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Anas bin Malik: During the lifetime of Allah's Apostle a Jew attacked a girl and took some silver ornaments she was wearing and crushed her head. Her relative brought her to the Prophet while she was in her last breaths, and she was unable to speak. Allah's Apostle asked her, "Who has hit you? So-and so?", mentioning somebody other than her murderer. She moved her head, indicating denial. The Prophet mentioned another person other than the murderer, and she again moved her head indicating denial. Then he asked, "Was it so-and-so?", mentioning the name of her killer. She nodded, agreeing. Then Allah's Apostle; ordered that the head of that Jew be crushed between two stones.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 63, Number 216


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5295 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5295  
حدیث حاشیہ:
اس کے بعد اس یہودی نے بھی اس جرم کا اقرار کر لیا توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے حکم دیا اور اس کا سر بھی دو پتھروں سے کچل دیا گیا۔
اس حدیث میں بھی کچھ اشارات کو قابل استناد جانا گیا۔
یہی وجہ مطابقت ہے۔
جس طرح اس شقی نے اس معصوم لڑکی کو بے دردی سے مارا تھا اسی طرح اس سے قصاص لیا گیا۔
اہلحدیث اور ہمارے امام احمد بن حنبل اور مالکیہ اور شافعیہ سب کا مذہب اسی حدیث کے موافق ہے کہ قاتل نے جس طرح مقتول کو قتل کیا ہے اسی طرح اس سے بھی قصاص لیا جائے گا لیکن حنفیہ اس کے خلاف کہتے ہیں کہ ہمیشہ قصاص تلوار سے لینا چاہیئے۔
آنحضرت نے جو دوبارہ اس لڑکی سے اوروں کا نام لے کر پوچھا اس سے یہ مطلب تھاکہ اس سے اس لڑکی کا با ہوش وحواس ہونا ثابت ہوجائے اور اس کی شہادت پوری معتبر سمجھی جائے۔
اس حدیث سے گواہی بوقت مرگ کا ایک عمدہ گواہی ہونا نکلتا ہے جسے انگریزوں نے اپنے قانون شہادت میں بھی ایک قابل اعتبار شہادت خیال کیا ہے (وحیدیتشریح:
اس کے بعد اس یہودی نے بھی اس جرم کا اقرار کر لیا توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے حکم دیا اور اس کا سر بھی دو پتھروں سے کچل دیا گیا۔
اس حدیث میں بھی کچھ اشارات کو قابل استناد جانا گیا۔
یہی وجہ مطابقت ہے۔
جس طرح اس شقی نے اس معصوم لڑکی کو بے دردی سے مارا تھا اسی طرح اس سے قصاص لیا گیا۔
اہلحدیث اور ہمارے امام احمد بن حنبل اور مالکیہ اور شافعیہ سب کا مذہب اسی حدیث کے موافق ہے کہ قاتل نے جس طرح مقتول کو قتل کیا ہے اسی طرح اس سے بھی قصاص لیا جائے گا لیکن حنفیہ اس کے خلاف کہتے ہیں کہ ہمیشہ قصاص تلوار سے لینا چاہیئے۔
آنحضرت نے جو دوبارہ اس لڑکی سے اوروں کا نام لے کر پوچھا اس سے یہ مطلب تھاکہ اس سے اس لڑکی کا با ہوش وحواس ہونا ثابت ہوجائے اور اس کی شہادت پوری معتبر سمجھی جائے۔
اس حدیث سے گواہی بوقت مرگ کا ایک عمدہ گواہی ہونا نکلتا ہے جسے انگریزوں نے اپنے قانون شہادت میں بھی ایک قابل اعتبار شہادت خیال کیا ہے (وحیدی
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5295   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.