(مرفوع) وعن الزهري، قال: اخبرني من , سمع جابر بن عبد الله الانصاري، قال:" كنت فيمن رجمه، فرجمناه بالمصلى بالمدينة، فلما اذلقته الحجارة جمز حتى ادركناه بالحرة فرجمناه حتى مات".(مرفوع) وَعَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَنْ , سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيَّ، قَالَ:" كُنْتُ فِيمَنْ رَجَمَهُ، فَرَجَمْنَاهُ بِالْمُصَلَّى بِالْمَدِينَةِ، فَلَمَّا أَذْلَقَتْهُ الْحِجَارَةُ جَمَزَ حَتَّى أَدْرَكْنَاهُ بِالْحَرَّةِ فَرَجَمْنَاهُ حَتَّى مَاتَ".
اور زہری سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ مجھے ایک ایسے شخص نے خبر دی جنہوں نے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے سنا تھا کہ انہوں نے بیان کیا کہ میں بھی ان لوگوں میں تھا جنہوں نے ان صحابی کو سنگسار کیا تھا۔ ہم نے مدینہ منورہ کی عیدگاہ پر سنگسار کیا تھا۔ جب ان پر پتھر پڑا تو وہ بھاگنے لگے لیکن ہم نے انہیں حرہ میں پھر پکڑ لیا اور انہیں سنگسار کیا یہاں تک کہ وہ مر گئے۔
Jabir bin `Abdullah Al-Ansari said: I was one of those who stoned him. We stoned him at the Musalla (`Id praying place) in Medina. When the stones hit him with their sharp edges, he fled, but we caught him at Al-Harra and stoned him till he died.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 63, Number 196
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5272
حدیث حاشیہ: یہ حضرت ماعز اسلمی رضی اللہ عنہ تھے۔ اللہ ان سے راضی ہوا، وہ اللہ سے راضی ہوئے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5272
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5272
حدیث حاشیہ: (1) یہ حضرت ماعز بن مالک اسلمی رضی اللہ عنہ تھے جنہوں نے خود کو پیش کیا اور جان دینا گوارا کرلی مگرآخرت کا عذاب پسند نہ کیا۔ ایک روایت میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بھاگ جانے کا سنا تو فرمایا: ”تم نے اسے چھوڑ کیوں نہ دیا؟ شاید وہ توبہ کرتا اور اللہ تعالیٰ اس کا گناہ معاف کر دیتا۔ “(سنن أبي داود، الحدود، حدیث: 4419)(2) ان احادیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ماعز رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا: ”کیا تجھے جنون ہے؟“ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان الفاظ سے عنوان ثابت کیا ہے کہ اگر وہ دیوانہ ہوتا تو اس کا اقرار معتبر نہ ہوتا۔ جب حدود میں اس کا اقرار معتبر نہیں ہے تو طلاق میں بھی قابل اعتبار نہیں ہوگا کیونکہ طلاق میں عاقل ہونا بنیادی شرط ہے۔ واللہ اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5272