(مرفوع) حدثنا عمر بن حفص بن غياث، حدثنا ابي، حدثنا الاعمش، قال: حدثني شقيق، قال: سمعت عبد الله، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" لا تباشر المراة المراة فتنعتها لزوجها كانه ينظر إليها".(مرفوع) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، قَالَ: حَدَّثَنِي شَقِيقٌ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تُبَاشِرِ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ فَتَنْعَتَهَا لِزَوْجِهَا كَأَنَّهُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا".
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے شقیق نے بیان کیا، کہا میں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی عورت کسی عورت سے مل کر اپنے شوہر سے اس کے حلیہ نہ بیان کرے گویا کہ وہ اسے دیکھ رہا ہے۔
Narrated `Abdullah: The Prophet said, "A woman should not look at or touch another woman to describe her to her husband in such a way as if he was actually looking at her."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 62, Number 168
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5241
حدیث حاشیہ: فإن الحکمة في ھذا النھي خشیة أن یعجب الزوج الوصف المذکور فیفضي ذالك إلی تطلیق الواصفة أو إلی الافتتان بالموصوفة (فتح الباری) یعنی اس نہی میں حکمت یہ ہے کہ ڈر ہے کہ کہیں خاوند اس عورت کا حلیہ سن کر اس پر فدا ہو کر اپنی عورت کو طلاق نہ دے دے یا اس کے فتنہ میں مبتلا نہ ہو جائے۔ نیز یہ بھی ضروری ہے کہ ایک مرد دوسرے کے اعضائے مخصوصہ نہ دیکھے کہ یہ بھی موجب لعنت ہے۔ آج کے مغرب زدہ لوگ عام گزر گاہوں پر کھڑے ہو کر پیشاب کرتے اور اپنی بے حیائی کا کھلے عام مظاہرہ کرتے ہیں ایسے مسلمانوں کو اللہ سے ڈرنا چاہئے کہ ایک دن بالضرور اس کے سامنے حاضری دینی ہے۔ وباللہ التوفیق۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5241
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5241
حدیث حاشیہ: (1) ایک روایت میں ہے: ”کوئی مرد کسی دوسرے مرد کا ستر اور کوئی عورت کسی دوسری عورت کا ستر نہ دیکھے۔ “(صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه و سلم، حدیث: 768 (338) امام نوی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے پیش نظر لکھا ہے کہ ایک آدمی کا دوسرے آدمی کی شرمگاہ کو دیکھنا حرام ہے، اسی طرح ایک عورت کا دوسری عورت کی شرمگاہ کو دیکھنا بھی ناجائز ہے، نیز کسی مرد کا غیر عورت کے ستر کی طرف اور عورت کا غیر مرد کے ستر کی طرف دیکھنا حرام ہے، البتہ میاں بیوی اس سے مستثنیٰ ہیں۔ (فتح الباري: 420/9)(2) بہرحال یہ حرکت باعث لعنت ہے لیکن آج کے مغرب زدہ لوگ عام گزر گاہوں پر کھڑے ہو کر پیشاب کرتے ہیں، اس طرح وہ کھلی بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہیں، مسلمانوں کو ایسی گندی تقلید سے بچنا چاہیے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5241
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2150
´نظر نیچی رکھنے کا حکم۔` عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورت عورت سے بدن نہ چپکائے وہ اپنے شوہر سے اس کے بارے میں اس طرح بیان کرے گویا اس کا شوہر اسے دیکھ رہا ہے۔“[سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2150]
فوائد ومسائل: کوئی عورت دوسری کے ساتھ لیٹے یا سوئے اور پھر اس کے احوال اپنے شوہر کو بتائے، یا ویسے ہی کسی کی تعریفیں کرنے لگے، منع اور ناجائز ہے، یہ صورتیں دلوں میں شیطانی وساوس پیدا کرنے کا باعث ہوتی ہیں اور پھر فتنے اٹھتے ہیں اور یہی تعلیم شوہر کے لئے بھی ہے کہ کسی مرد کی اپنی بیوی کے سامنے مبالغہ آمیز تعریف نہ کرے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2150
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2792
´مرد کا مرد کے ساتھ اور عورت کا عورت کے ساتھ چمٹنا حرام ہے۔` عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورت عورت سے نہ چمٹے یہاں تک کہ وہ اسے اپنے شوہر سے اس طرح بیان کرے گویا وہ اسے دیکھ رہا ہے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأدب/حدیث: 2792]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اگر عورت اپنے شوہر سے کسی دوسری عورت کے جسمانی اوصاف بیان کرے تو اس سے اس کا شوہر فتنہ اور زناکاری میں مبتلا ہو سکتا ہے، شریعت نے اسی فتنہ کے سد باب کے لیے کسی دوسری عورت کے جسمانی اوصاف کو بیان کرنے سے منع فرمایا ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2792
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5240
5240. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی عورت دوسری عورت سے بے ستر چمٹے پھر وہ اپنے خاوند سے اس طرح تصویر کشی کرے گویا وہ اسے دیکھ رہا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5240]
حدیث حاشیہ: حافظ نے کہا اسی طرح مرد کو غیر عورت کے سترکی طرف اور عورت کو غیر مرد کے ستر کی طرف دیکھنا حرام ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مرد بھی دوسرے مرد سے بدن نہ لگائے مگر ضرورت سے اور مصافحہ کے وقت ہاتھوں کا ملانا جائز ہے۔ اسی طرح معانقہ اور بوسہ دینا بھی منع ہے مگر جو سفر سے آئے اس سے معانقہ درست ہے۔ اسی طرح باپ اپنے بچوں کو شفقت کی راہ سے بوسہ دے سکتا ہے۔ کسی صالح شخص کے ہاتھ کو از راہ محبت بوسہ دے سکتے ہیں جیسے صحابہ کرام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا کرتے تھے لیکن دنیا دار امیر کے ہاتھ کو اس کی مالداری کی وجہ سے بوسہ دینا نا جائز ہے۔ (وحیدی) آج کل کے نام نہاد پیر و مشائخ جو اپنے ہاتھوں اور پیروں کو بوسہ دلاتے ہیں یہ قطعاً نا جائز ہے۔ بوسہ کے متعلق یاد رکھئے کہ پانچ قسم کے بوسے ہوتے ہیں جن کے جواز کی صورتیں صرف یہ ہیں اس کے علاوہ جو بھی صورت ہونا جائز سمجھیں (1) بنوت کا بوسہ باپ یا ماں اپنی اولاد کو دے۔ (2) ابوت کا بوسہ اولاد والدین کو دے۔ (3) مودت کا بوسہ ساتھی ساتھی کو دے یا ہم عمر ہم عمر کو دے۔ (4) شفقت کا بوسہ بڑا چھوٹے کو دے۔ ان قسموں کا محل ہاتھ یا پیشانی ہے رخسار نہیں۔ (5) شہوت کا بوسہ خاوند بیوی ایک دوسرے کو دیں۔ (عبدالرشید تونسوی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5240
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5240
5240. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی عورت دوسری عورت سے بے ستر چمٹے پھر وہ اپنے خاوند سے اس طرح تصویر کشی کرے گویا وہ اسے دیکھ رہا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5240]
حدیث حاشیہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم امتناعی اس لیے جاری فرمایا کہ اگر کوئی عورت اپنے خاوند سے کسی دوسری عورت کا حسن و جمال بیان کرے گی تو اس کے آزمائش میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہے کیونکہ اگر اسے دوسری عورت کا حسن پسند آ گیاتو وہ اپنی بیوی کو طلاق دے کر اس سے نکاح کرنے کی کوشش کرے گا۔ اگر وہ عورت پہلے سے منکوحہ ہوگی تو پھر اس شخص کے اپنی بیوی سے تعلقات خراب ہو جائیں گے اور اس کی بیوی کی، اس کے ہاں قدر و منزلت نہ رہے گی۔ اور اگر اس نے کسی عورت کی بد صورتی بیان کی تو یہ غیبت کے زمرے میں آئے گی جو شرعاً حرام ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5240