ہم سے عبدالرحمٰن بن المبارک نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن صہیب نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں اور بچوں کو کسی شادی سے آتے ہوئے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوشی کے مارے جلدی سے کھڑے ہو گئے اور فرمایا: یا اللہ! (تو گواہ رہ) تم لوگ سب لوگوں سے زیادہ مجھ کو محبوب ہو۔
Narrated Anas bin Malik: Once the Prophet saw some women and children coming from a wedding party. He got up energetically and happily and said, "By Allah! You (i.e., the Ansar) are the most beloved of all people to me."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 62, Number 109
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5180
حدیث حاشیہ: کیونکہ انصاریوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے شہر میں جگہ دی، آپ کے ساتھ ہو کر کافروں سے لڑے اور یہودیوں سے بھی مقابلہ کیا۔ ہر مشکل اور سخت موقعوں پر آپ کے ہم دوش رہے انصار کا احسان مسلمانوں پر قیامت تک باقی رہے گا۔ اس حدیث سے وضاحت کے ساتھ معلوم ہوا کہ عورتیں اور بچے بھی اگر ولیمہ کی دعوتوں میں بلائے جائیں تو ان کو بھی اس میں جانا کیسا ہے؟ واجب ہے یا مستحب۔ قسطلانی نے کہا بشرطیکہ کسی قسم کے قتنے کا ڈرنہ ہو تو بخوشی عورتیں اور بچے جا سکتے ہیں لیکن عورتوں کو دعوت میں جانے کے لئے اپنے خاوند سے اجازت لینا ضروری ہے۔ بغیر اجازت جانا ٹھیک نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ شوہر ناراض ہو جائے۔ اس سے بھی عورتوں کے لئے ان کے خاوند وں کا مقام واضح ہوا۔ اللہ تعالیٰ عورتوں کو اسے سمجھنے کی توفیق بخشے، آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5180
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5180
حدیث حاشیہ: (1) یہ عورتیں اور بچے انصار کے تھے اور ان حضرات نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ہاں جگہ دی اور آپ کے ساتھ مل کر کفار و مشرکین کا مقابلہ کیا، اس بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عورتوں اور بچوں کو دیکھ کر خوش ہوئے اور جلدی کرتے ہوئے قوت سے کھڑے ہوئے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر عورتوں اور بچوں کو شادی یا ولیمے میں شرکت کی دعوت دی جائے تو انھیں بھی اسے قبول کرنا چاہیے بشرطیکہ کسی قسم کے فتنے کا ڈر نہ ہو اور عورتوں کا دعوت میں جانے کے لیے اپنے خاوند سے اجازت لینا بھی ضروری ہے۔ والله اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5180
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3786
3786. حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک انصاری خاتون رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی جس کے ہمراہ ایک بچہ تھا تو رسول اللہ ﷺ اس سے باتیں کرنے لگے۔ پھر آپ نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم لوگ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہو۔“ آپ نے یہ الفاظ دو دفعہ فرمائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3786]
حدیث حاشیہ: امام نووی فرماتے ہیں: ھذا المرأة إما محرم له کام سلیم وأختھا وإما المراد بالخلوة أنھا سألته سوا لا بحضرة ناس ولم تکن خلوة مطلقة وھو الخلوة المنھي عنھا۔ (نووی) یہ آپ سے خلوت میں بات کرنے والی عورت ایسی تھی جس کے لیے آپ محرم تھے جیسے ام سلیم یا ان کی بہن یا خلوت سے مراد یہ ہے کہ اس نے لوگوں کی موجودگی میں آپ سے ایک بات نہایت آہستگی سے کی اور جس خلوت کی ممانعت ہے وہ مراد نہیں ہے، مسلم کی روایت میں فخلا بھا کا لفظ ہے جس کی وجہ سے وضاحت کرنا ضروری ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3786
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5234
5234. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک انصاری عورت نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو آپ نے اس سے تنہائی میں گفتگو کی فرمایا: ”اللہ کی قسم! بلاشبہ تم سب لوگوں سے مجھے زیادہ محبوب ہو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5234]
حدیث حاشیہ: تنہائی سے یہی مطلب ہے کہ ایسے مقام پر گئے جہاں دوسرے لوگ اس کی بات نہ سن سکیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5234
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6645
6645. حضرت انس بن مالک ؓ ہی سے روایت ہے کہ ایک انصاری خاتون نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی، اس کے ساتھ اس کے بچے بھی تھے۔ نبی ﷺ نے ان سے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! مجھے تم دوسرے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب ہو۔ یہ الفاظ آپ ﷺ نے تین مرتبہ فرمائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6645]
حدیث حاشیہ: انصاری لوگوں نے کام ہی ایسے کئے کہ رسول کریم ﷺ انصار سے بہت زیادہ خلوص برتتے تھے۔ انصار ہی نے آپ کو مدینہ میں مدعو کی اور پوری وفاداری کےساتھ قول وقرار پورا کیا۔ آپ کےساتھ ہو کر اسلا م کے دشمنوں سے لڑے۔ اشاعت وسطوت اسلام میں انصارکا بڑا مقام ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6645
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3786
3786. حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک انصاری خاتون رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی جس کے ہمراہ ایک بچہ تھا تو رسول اللہ ﷺ اس سے باتیں کرنے لگے۔ پھر آپ نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم لوگ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہو۔“ آپ نے یہ الفاظ دو دفعہ فرمائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3786]
حدیث حاشیہ: 1۔ صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہﷺنے اس عورت سے خلوت اختیار کی۔ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث: 64۔ 18(2509) یہ الفاظ صحیح بخ کی ایک روایت میں بھی ہیں۔ (صحیح البخاري، النکاح، حدیث: 5234۔ ) خلوت میں بات کرنے والی آپ کی کوئی عزیزہ ہوگی جیسا کہ اُم سلیم ؓ یا ان کی ہمشیرہ وغیرہ۔ یا خلوت سے مراد یہ ہے کہ لوگوں کی موجودگی میں رسول اللہﷺ سے ایک بات نہایت آہستگی سے کی، وہ خلوت مراد نہیں جس کی شریعت میں ممانعت آئی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہےکہ پہلے اس عورت نے کچھ پوچھا ہو گا تو آپ نے اسے جواب دیا۔ ممکن ہے کہ اس کو مانوس کرنے کے لیے ابتداء اس سے گفتگو کی ہو۔ (فتح الباري: 144/7) ایک روایت میں ہے کہ اس کے ہمراہ اس کے بچے تھے ممکن ہے کہ وہ اپنی کسی ضرورت کے لیے آپ کے پاس آئی ہو۔ (صحیح البخاري، الأیمان والنذور، حدیث: 6645)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3786
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5234
5234. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک انصاری عورت نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو آپ نے اس سے تنہائی میں گفتگو کی فرمایا: ”اللہ کی قسم! بلاشبہ تم سب لوگوں سے مجھے زیادہ محبوب ہو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5234]
حدیث حاشیہ: (1) ایک روایت میں ہے کہ عورت کے ساتھ اس کی اولاد بھی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ بات تین دفعہ ارشاد فرمائی۔ (صحیح البخاري، الأیمان و النذور، حدیث: 6645)(2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اجنبی عورت کا تنہائی میں کسی سے راز کی بات کرنا جائز ہے جب فتنے کا خوف نہ ہو۔ لیکن اس قسم کی تنہائی لوگوں کے سامنے ہو۔ ایسے حالات میں اس حد تک خلوت کرنے کی اجازت ہے کہ حاضرین میں سے کوئی بھی اس عورت کی بات نہ سن سکے اور نہ کسی کو اس کا شکوہ ہی معلوم ہو۔ (3) حدیث میں اگرچہ لوگوں کی موجودگی کا ذکر نہیں ہے، تاہم اتنا تو پتا چلتا ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سنا تھا۔ اس سے ان کی موجودگی ثابت ہوتی ہے۔ (فتح الباري: 413/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5234
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6645
6645. حضرت انس بن مالک ؓ ہی سے روایت ہے کہ ایک انصاری خاتون نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی، اس کے ساتھ اس کے بچے بھی تھے۔ نبی ﷺ نے ان سے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! مجھے تم دوسرے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب ہو۔ یہ الفاظ آپ ﷺ نے تین مرتبہ فرمائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6645]
حدیث حاشیہ: (1) قسم سے اس ہستی کی عظمت مقصود ہوتی ہے جس کے نام کی قسم اٹھائی جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھاتے تھے۔ مندرجہ بالا سترہ احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کو بیان کیا گیا ہے کہ وہ کس انداز کی ہوتی تھی۔ پہلے ہم نے بتایا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم چار طرح کی ہوتی تھی: ٭ والذي نفسي بيده بعض اوقات والذي نفس محمد بيده فرماتے، اس کے علاوہ کبھی شروع میں ''لا'' یا ''أما'' لاتے اور کبھی کبھار ''ايم'' سے شروع کرتے تھے۔ (2) لا، و مقلب القلوب: اس میں ''لا'' تو کلام سابق کی نفی کے لیے ہوتا اور مقلب القلوب کے نام سے قسم اٹھاتے۔ ٭ والله قرآن کریم میں بالله اور والله نیز تالله کو بطور قسم استعمال کیا گیا ہے۔ ورب الكعبة حدیث: 6638 میں اس قسم کا ذکر ہے۔ اللہ کے نام کی قسم اٹھانے کی تین قسمیں ہیں: ٭ ایسی صفت کے حوالے سے قسم اٹھانا جو صرف اللہ تعالیٰ سے مختص ہے، جیسے: الرحمٰن، رب العالمین اور خالق الخلق۔ ٭ ایسی صفت جس کا اطلاق اللہ تعالیٰ پر ہوتا ہے لیکن غیر اللہ کے لیے مقید طور پر ہوتا ہے جیسا کہ رب اور حق وغیرہ ان کے ساتھ قسم اٹھائی جا سکتی ہے۔ ٭ وہ صفات جو اللہ تعالیٰ اور غیراللہ دونوں کے لیے یکساں استعمال ہوتی ہیں جیسا کہ حي، موجود اور مومن وغیرہ۔ ان میں اگر اللہ تعالیٰ کی نیت ہو تو ان صفات کے حوالے سے قسم اٹھائی جا سکتی ہے لیکن ان صفات باری تعالیٰ کو معرف باللام استعمال کرنا ضروری ہے، جیسے الحي، الموجود وغیرہ۔ اسی طرح والذي خلق الجنة، والذي أعبده والذي أسجد له اور والذي أصلي له سے بھی قسم اٹھانا صحیح ہے۔ واللہ أعلم (فتح الباري: 641/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6645