حدیث حاشیہ: 1۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آزربائیجان کے علاقے میں دیکھا کہ لوگ مختلف قبائل کی زبانوں میں قرآن پڑھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہماری قراءت تمہاری سے اچھی ہے۔
دراصل اہل شام حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قراءت کے مطابق قرآن مجید پڑھتے تھے اور اہل عراق نے یہ قراءت کبھی نہیں سنی تھی اور اہل عراق حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قراءت میں تلاوت کرتے تھے اور اس قراءت سے اہل شام نا آشنا تھے۔
اس بنا پر یہ حضرات ایک دوسرے کی قراءت کا انکار کرتے تھے۔
اس اختلاف نے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تشویش میں مبتلا کیا تو انھوں نے امت مسلمہ کو اختلاف سے بچانے کے لیے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوقرآن مجید جمع کرنے کا مشورہ دیا۔
اس سے پہلے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قرآن مجید جمع کیا تھا۔
اس میں آیات تو مرتب تھیں لیکن سورتیں غیر مرتب تھیں اور انھیں الگ الگ لکھا گیا تھا، پھر اس میں کچھ آیات منسوخ بھی جمع تھیں۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مرتب سورتوں کی شکل میں جمع کیا۔
2۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور حکومت میں درج ذیل ضابطے کے مطابق قرآن مجید لکھا گیا۔
۔
جن آیات کا قرآن ہونا تواتر سے ثابت ہوتا انھیں لکھا جاتا۔
۔
ان آیات کی تلاوت منسوخ نہ ہو اور عرصہ اخیرہ میں ان کی تلاوت کی جاتی ہو۔
ان آیات کو نہ لکھاگیا جن کی قرآنیت کی بنیاد پر خبر واحد پر تھی اور جن کی تلاوت منسوخ ہو چکی تھی۔
بعض صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اپنے اپنے مصاحف میں تشریحی نوٹ لکھے تھے، انھیں بھی ختم کر دیا گیا۔
3۔
ان مصاحف کی چھ نقلیں تیار کی گئیں اور انھیں مختلف علاقوں میں بھیجا گیا اور ان کے ساتھ ایک ایک معلم بھی روانہ کیا جس کی تفصیل یہ ہے:
۔
ایک مصحف مدینہ طیبہ میں رکھا اور حضرت زید بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بطور معلم مقرر فرمایا۔
۔
ایک نسخہ مکہ مکرمہ روانہ کیا اور وہاں تعلیم کے لیے حضرت عبداللہ بن سائب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تعینات کیا۔
۔
ایک مصحف شام بھیجا اور شام میں تعلیم کے لیے حضرت مغیرہ بن ابوشہاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نامزد کیا۔
۔
ایک نقل کردہ قرآن کوفے کے لیے تھا اور وہاں ابوعبدالرحمان السلمی اس کی تعلیم دیتے تھے۔
۔
ایک قرآن بصرے کے لیے مخصوص کیا، وہاں حضرت عامر بن قیس کومقرر کیا کہ وہ لوگوں کو تعلیم دیں۔
۔
ایک مصحف کو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے لیے رکھا جسے مصحف امام کہا جاتا تھا۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان مصاحف کی کتابت کے وقت ایسا انداز اختیار کیا کہ احرف سبعہ کی پوری پوری گنجائش تھی۔
ان میں نقطے اور اعراب نہیں لگائے تھے۔
رسم الخط میں مختلف قراءتوں کی رعایت تھی، مثلاً:
سورۃ البقرہ میں نُنشِزُهَا کو نُنشِرُهَا لکھا گیا تا کہ اسے زاء اورراء دونوں قراءتوں میں پڑھا جا سکے۔
اور جو قراءتیں رسم الخظ میں نہ آسکتی تھیں، انھیں مختلف مصاحف میں لکھ دیا، مثلاً:
سورہ توبہ میں ہے:
﴿جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ﴾ ۖ جو مصحف مکے روانہ کیا گیا اس میں
﴿جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ﴾ ۖ لکھا، یعنی اس میں مِن کا اضافہ کیا، چنانچہ ابن کثیر مکی کی قراءتوں میں مِن کا اضافہ ہے، اسی طرح دیگر قراءات کو باقی رکھا گیا، البتہ کلمات کی کتابت میں جہاں اختلاف تھا، ان کے متعلق ہدایت دی گئی کہ اسے لغت قریش کے مطابق لکا جائے، چنانچہ یہ اختلاف صرف ایک مقام پر ہوا کہ التابوت کو گول تا سے لکھا جائے یا لمبی تا سے تو اسے قریش کے محاورے کے مطابق لمبی تا سے"تابوت" سے لکھا گیا ہے۔
واللہ اعلم۔